• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارۂ صحت، ورلڈ الائنس فار بریسٹ فیڈنگ ایکشن اور یونیسیف کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں اگست کا پہلا ہفتہ’’بریسٹ فیڈنگ اوئیرنیس ویک‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ ماؤں کو نومولود بچّوں کو اپنا دودھ پلانے کی جانب راغب کیا جاسکے ۔ دراصل،جو بچّے ماں کا دودھ پیتے ہیں، اُن میں جہاں اچانک موت کا خطرہ یعنی ایس آئی ڈی ایس(Sudden Infant Death Syndrome) کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، وہیں ماؤں کو بھی بریسٹ کینسر سے تحفّظ فراہم ہوجاتا ہے۔

اس کے علاوہ بریسٹ فیڈنگ کے کئی اور بھی فوائد ہیں، جن سے آگہی کے لیے ذیل میں معروف ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر منزہ اے خالد کا ایک تفصیلی مضمون سوالاً جواباً شایع کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف آبسٹریکٹس اینڈ گائناکالوجی(Obstetrics And Gynaecology) سے بطور کنسلٹنٹ ماہرِ امراضِ نسواں وابستہ ہیں،جب کہ اسسٹنٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر انٹرن شپ پروگرام کےفرائض بھی ادا کررہی ہیں۔

س: کیا ایک نوزائیدہ بچّے کے لیے ماں کا دودھ ایک مکمل غذا ہے ؟

ج: جی بالکل، ماں کا دودھ نوزائیدہ بچّے کے لیے مکمل غذا اس لیے ہے کہ اس میں وہ تما م غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں، جو بچّے کی ذہنی و جسمانی صحت، نشوونما اور مدافعتی نظام کی مضبوطی کے لیے ازحدمفید ہیں۔ ماں کے دودھ میں87 فی صد پانی، ایک فی صدپروٹین، 4فی صد لیپڈ،7فی صد کاربوہائیڈریٹ سمیت کیلشیم، فاسفورس، میگنیشیم، مائکرو نیوٹرینٹس، منرلز اور وٹامنز کی مقدار بچّے کی ضرورت کے عین مطابق پائی جاتی ہے۔ پیدایش کے بعد ماں کے دودھ میں، جسے طبّی اصطلاح میں کلوسٹرم (Colostrum) یا فرسٹ بریسٹ ملک کہا جاتا ہے، ایسے غذائی اجزاء شامل ہیں، جو بچے کی قوّتِ مدافعت مضبوط بناتے ہیں۔

س: عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات کے مطابق ماں کو چاہیے کہ پیدایش کے پہلے گھنٹے میں نومولود کو اپنا دودھ لازماً پلائے، تو یہ کیوں ضروری ہے؟

ج: عالمی ادارۂ صحت اور یونیسیف کی سفارشات کے مطابق ماں کو چاہیے کہ نومولود کوپیدایش کے پہلے گھنٹے سے کم از کم چھے ماہ کی عُمر تک Exclusive Breast Milk پلائے اور ڈبّے کا دودھ یاپانی وغیرہ بالکل نہ دے۔ دراصل پہلے چھے مہینے کا ایکس کلوسیو بریسٹ ملک بچّے کی شعوری (Cognitive) اور حواسِ خمسہ کی صلاحیتیں بڑھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

نیز، بچّے کو متعدّد انفیکشنز اور امیون سسٹم سے متعلقہ مختلف امراض سے بچاتا ہے۔ چوں کہ کلوسٹرم میں قدرتی طور پراینٹی باڈیز وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں، تو بچّہ کئی خطرناک بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔مثلاً سیپسز (Sepsis)، نمونیا، ڈائریا اور ہائپو تھرمیا(Hypothermia)، جس میں بچّے کے جسم کا درجۂ حرارت بگڑ جاتا ہے، لہٰذا نومولود کوجان لیوا عوارض سے بچانےکے لیے ضروری ہے کہ زچگی کے ایک گھنٹے کے اندر مائیں اپنا دودھ لازماًپلائیں۔

س: پہلی بار ماں بننے والی زیادہ تر خواتین کو دودھ پلانے کا درست طریقہ معلوم نہیں ہوتا، تو اس حوالے سے کیا مفید تجاویزدیں گی ؟

ج: بلاشبہ بریسٹ فیڈنگ ایک مظہرِ قدرت(Natural Phenomena) ہے، لیکن کئی ماؤں کو اس معاملے میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دراصل دُنیا بَھر میں ہر پانچ میں سے تین بچّوں کو پیدایش کے پہلے گھنٹے میں دودھ نہیں پلایا جاتا، حالاں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے، جو بچّوں کی اموات کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔ ماؤں میں بریسٹ فیڈنگ کے رجحان کو فروغ دینےکے لیے آغا خان یونی ورسٹی، اسپتال، کراچی میں ایک لیکٹیشن کلینک(lactation Clinic)بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں ماہرین دو طرح سے ماؤں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ایک طریقۂ کارکلاسز کا ہے، جس میں بریسٹ فیڈنگ سے متعلق ایک پورے سیشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

اس سیشن میں بچّے کو دودھ پلاتے ہوئے کس طرح سے پکڑنا ہے، بریسٹ فیڈنگ کن کن طریقوں سے کروائی جاسکتی ہے اور بچّے کو دودھ پلانےسے قبل ماں کو کس طرح کی مائع غذائیں استعمال کرنی چاہئیں، ان سب سےمتعلق بتایا جاتا ہے، جب کہ دوسرے طریقۂ کار میں ماہرین ماؤں کو درپیش طبّی مسائل کا حل بتاتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اکثر خواتین کو اپنے نِپل کی ساخت سے متعلق اندازہ نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں تقریباً 10سے 12 فی صد خواتین کے نِپل فلیٹ ہوتے ہیں، جب کہ2 سے3 فی صد کےInverted ۔ 

اس طرح کے مسائل سے دوچار خواتین کو ورزشیں بتائی جاتی ہیں، جن کے ذریعے ماں پھر باآسانی بچّے کو پیٹ بَھر دودھ پلا سکتی ہے، لیکن اگر کسی کے نِپلز زیادہ اِن ورٹڈ ہوں اور کوئی ورزش بھی مؤثر ثابت نہ ہورہی ہو، توپھر انہیں ایک مخصوص نِپل شیلڈ کے استعمال سے متعلق رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ مَیں پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو یہی مشورہ دوں گی کہ اگر آپ کی رسائی کسی بریسٹ فیڈنگ کلاس تک ہو، تو اس میں ضرور شامل ہوں۔

س: امسال بریسٹ فیڈنگ اوئیرنیس ویک کا تھیم"Step Up For Breast Feeding Educate And Support" ہے، تو ہمارے یہاں اس حوالے سے کیا کام کیا جارہا ہے؟

ج: اگرچہ پاکستان میں بریسٹ فیڈنگ ایجوکیشن اینڈ سپورٹ کے حوالے سے کام ہورہا ہے ،کئی گائنی اسپتال جو Motherfeed Friendly ہیں، وہاں زچگی کے بعد جیسے ہی ماں اس قابل ہوتی ہے کہ بچّے کو بریسٹ فیڈ کروا سکے، تو فوری طور پر نومولود کو ماں کاغذائیت سے بَھرپور گاڑھا دودھ (کلوسٹرم) دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بریسٹ ایکسپریس ملک(Breast express milk) یعنی ہاتھ یا پمپ کے ذریعے دودھ نکال کر ذخیرہ کرنے یا پھردیگر متبادل طریقۂ کار اپنانےسے متعلق بھی آگہی فراہم کی جاتی ہے، لیکن میرے خیال میںاس ضمن میں مزید اقدامات ناگزیر ہیں۔

س: ایسے کون سے طبّی مسائل ہیں، جن کے باعث ماں، بچّے کو اپنا دودھ نہیں پلا سکتی؟

ج: اگر ماں ایسی مخصوص ادویہ استعمال کررہی ہو، جس سےبچّے کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہونے کا خطرہ ہو یا ماں ایچ آئی وی انفیکشن یا ایڈز کا شکار ہو، تو بریسٹ فیڈنگ سے منع کیا جاتا ہے۔ اس طرح اگر بچّہ Galactosemia مرض کا شکار ہے،تو بھی ماں بچّے کو اپنا دودھ نہیں پلاسکتی ۔یہ ایک جینیاتی میٹابولک مرض ہے۔

نیز، معاشرے میں رائج غیر حقیقی تصوّرات سے واقفیت بھی انتہائی ضروری ہے، تاکہ اُن کا خاتمہ کیا جا سکے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ مائیں جو غذا استعمال کرتی ہیں، اُس کے اثرات بچّے پر مرتّب ہوتے ہیں۔ ماں کے دال کھانے سےبچّے کے پیٹ میں ریاح ہوجاتی ہے، تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ یاد رکھیے، بچّے کی بہتر نشوونما کے لیے بریسٹ فیڈنگ ایک محفوظ ترین طریقۂ کار ہے۔

س: نوزائیدہ کو ایک مرتبہ دودھ پلانے کا دورانیہ کتنا ہونا چاہیے؟

ج: ویسے تو نوزائیدہ کو دودھ پلانے کا کوئی مخصوص دورانیہ نہیں۔ تاہم،20 سے 25 منٹ میں بچّہ پیٹ بَھر کر دودھ پی لیتا ہے۔ عام طور پرماؤں کو یہی ہدایت کی جاتی ہے کہ بچّے کو جب بھی بھوک لگے، تو اس کی ضرورت کے مطابق دونوں سائیڈز سے دودھ پلایا جائے اور بچّہ جتنی دیر دودھ پیے، اُسے روکا نہ جائے۔ ماں کے دودھ کی خاصیت ہے کہ یہ جتنا زیادہ پلایا جائے گا، اس کی مقدار میں اُتنا ہی اضافہ ہوگا۔

دراصل، جب بچّہ ماں کا دودھ پی رہا ہوتا ہے، تو اس دوران ماں کے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں ،جو دماغ پر اثرانداز ہوکر بریسٹ گلینڈز پر مثبت اثرات مرتّب کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں دودھ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ بس، مائیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ دِن بَھر میں کم از کم آٹھ سے دس گلاس پانی لازماً پیئں، ڈی ہائیڈریشن کا شکار نہ ہوں اور خاص طور پر دودھ پلانے سے قبل ایک گلاس پانی، دودھ یا جوس لازماً پیئں۔

س: اگر کسی طبّی مسئلے کے سبب ماں کے لیے بچّے کو اپنا دودھ پلانا ممکن نہ ہو، تو اس صُورت میں کیا کیا جائے؟

ج: بریسٹ فیڈنگ کے دوران اکثر اوقات معمولی نوعیت کے طبّی مسائل پیش آتے ہیں، جنہیں سمجھنا اور حل کرنا ضروری ہے۔ اگر ماں کسی طبّی مسئلے کے سبب کچھ عرصے تک بچّےکو اپنا دودھ نہ پلا سکے، تو اس مدّت میں بریسٹ ملک ذخیرہ کرلیا جائے۔ خیال رہے،ماں کا دودھ اگر فریج میں رکھا جائے، تو 24 گھنٹے ، جب کہ فریز کرنے کی صُورت میں چھے ماہ تک قابلِ استعمال رہتا ہے۔ تاہم، جب ماں کا دودھ محفوظ کیا جائے،تو اس کی Sterilization کا خاص خیال رکھیں اوراستعمال سے قبل روم ٹمپریچر پر گرم کرلیں۔ 

ذخیرہ کیا ہوا دودھ ہمیشہ کپ یا چمچ کے ذریعے پلائیں،کیوں کہ فیڈر کے ذریعے دودھ پلانے کی صُورت میں بچّہ ذہنی طور پر الجھاؤ یا پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اصل میں جب بچّہ ماں کا دودھ پی رہا ہو، تو سَکنگ ریفلیکس (Sucking reflex) میں مختلف مسلز حصّہ لیتے ہیں، جب کہ فیڈر کے ذریعے دودھ پینے میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر بچّے کو ماں کا دودھ اور فیڈر بیک وقت پلایا جائے، تو بچّہ Nipple Confusionکا شکار ہوکر بتدریج ماں کادودھ پینا چھوڑ دیتا ہے۔

س: ہمارے یہاں ملازمت کی بیش تر جگہوں پر بچّوں کے لیے ڈے کیئر سینٹرز کی سہولت موجود نہیں، تو ایسے میں دودھ پلانے والی ماؤں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟

ج: ہمارے یہاں ملازمت پیشہ ماؤں کی تعداد میں اضافہ ہوررہا ہےاور یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ ملازمت پیشہ مائیں جائے ملازمت پرکس طرح بچّے کو اپنا دودھ پلاسکتی ہیں۔ چوں کہ بچّے کی پیدایش کے ابتدائی مہینوں میں مائیں زچگی کی چُھٹیوں پر ہوتی ہیں، تو مَیں اُنہیں یہی مشورہ دوں گی کہ اس عرصے میں صرف اپنا دودھ پلائیں۔

بعد ازاں ، جس ادارے میں ملازمت کررہی ہوں، وہاں کی انتظامیہ سے درخواست کرلیں، تاکہ مشاورت سے کوئی ایک کمرا مخصوص کردیا جائے۔چوں کہ ہمارے یہاں زیادہ تر اداروں میں ملازمت پیشہ ماؤں کے لیے اس حوالے سے کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے ،تو نجی اورسرکاری سطح پر ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں، کیوں کہ ماں کا دودھ پینا بچّے کا بنیادی حق ہے، جس سے اُسے محروم رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصوّر کیا جاتاہے۔

س: بعض مائیں دودھ کی کمی کی شکایت کرتی ہیں، تو وہ کس طرح کی غذا استعمال کریں کہ دودھ کی کمی کا شکار نہ ہوں؟

ج: دودھ پلانے والی مائیں صحت بخش غذائیں استعمال کریں، جن میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹ اور دیگر مفید اجزاء متوازن مقدار میں موجود ہوں۔ یاد رہے، ماؤں کواضافی طور پر روزانہ330 سے400 کیلوریز درکار ہوتی ہیں۔ اس کے لیے وہ ایک وقت میں چپاتی کے ساتھ 60گرام مکھن، کوئی ایک پھل، دودھ، دہی یاپنیر8 سے 16اونس استعمال کرسکتی ہیں۔

س: بریسٹ فیڈنگ سے ماں اور بچّے کی صحت پر کیا مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں؟

ج: بریسٹ ملک ایک آئیڈیل نیوٹریشن ہے۔ کلوسٹرم میں امیونوگلوبیولنز (Immunoglobulins) پائے جاتے ہیں ،جو بچّے کو متعدّد بیکٹریا اور وائرسز سے تحفّظ فراہم کرتے ہیں ۔واضح رہے،امیونوگلوبیولن اے صرف ماں ہی کے دودھ میں پایا جاتا ہے، فارمولا ملک میں نہیں۔ پھرکئی اسٹڈیز کے مطابق سینے ،کان کے انفیکشنز، فُلو ،ڈائریا، الرجیز، یرقان اور بیرونی مادّوں کے ذریعے ہونے والی پیٹ کی خرابیوں کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ 

سب سے اہم، ماں کا دودھ، بچّے کو اچانک ہونے والی موت سے بھی، جسے طبّی اصطلاح میں "Sudden Infant Death Syndrome" کہا جاتا ہے، محفوظ رکھتا ہے، ایسا کیوں ہے، اس حوالے سے تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچّوں کا مدافعتی نظام ڈبّے کا دودھ پینے والوں کی نسبت زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ ماں کے دودھ پر پرورش پانے والے بچّوں میں بچپن میں موٹاپے اور ذیابطیس سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، تو سرطان سے بھی تحفّظ ملتا ہے۔

خود ماں کے لیے بچّے کو اپنا دودھ پلانا بے شمار فوائد کا سبب بنتا ہے۔ جیسا کہ زچگی کے دوران بڑھنے والا وزن کم ،تو بچّہ دانی کا حجم(ماں کا رحم) جلد نارمل ہوجاتا ہے۔ ماں کا دودھ، دونوں کے تعلق کو مضبوط بناتا ہے۔ پوسٹ پارٹم(بعد از زچگی) ڈیپریشن کی شدّت کم کرتا ہے۔ سرطان ،خاص طور پر بریسٹ کینسر سے بچاتا ہے۔ 70 فی صد خواتین کو بریسٹ فیڈنگ کے عرصے میں ماہ واری نہیں ہوتی، تو زچگی کے دوران جو خون ضایع ہوتا ہے، اس کی قدرتی طور پر کمی پوری ہوجاتی ہے، جب کہ بریسٹ فیڈنگ فیملی پلاننگ کے لیے بھی محفوط ترین طریقۂ کار ہے۔