• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارۂ صحت، ورلڈ الائنس فار بریسٹ فیڈنگ ایکشن اور یونیسیف کے اشتراک سے ہر سال دُنیا بَھر میں اگست کا پہلا ہفتہ’’بریسٹ فیڈنگ اوئیرنیس ویک‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ ماں کے دودھ کی افادیت سے متعلق معلومات عام کی جاسکیں۔ اِمسال کا تھیم "Step Up For Breast Feeding Educate And Support" ہے۔

غذائی اعتبار سے ماں کا دودھ ایک بہترین قدرتی ٹانک ہے کہ ا س میں وہ تمام غذائی اجزاء شامل ہیں،جو بچّےکی بہتر نشوونما اور صحت کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ ماں کا دودھ جراثیم سے پاک ہوتا ہے۔اس میں اینٹی باڈیز پائی جاتی ہیں اور اس میں موجود کلوسٹرم(Colostrum)بچّے کا نظامِ ہاضمہ مضبوط بناتا ہے۔ نیز، اُن بیماریوں سے تحفّظ فراہم کرتا ہے، جو بوتل کے ذریعے دودھ پینے والے بچّوں کو لاحق ہوتی رہتی ہیں۔ماں کا دودھ پینے سے بچّہ کان کے انفیکشن کا بھی شکار نہیں ہوتا۔ اصل میں بوتل سے دودھ پیتے وقت، سَر نیچا ہونے کی وجہ سے اکثر دودھ کان میں چلا جاتا ہے، جو انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔اس کے علاوہ بچّہ بار بار اسہال،دَمے، الرجی، سانس کی نالی کے انفیکشن اور دَوروں(Fits)سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

جب کہ بالغ ہونے پران بچّوں کا آئی کیو لیول، بوتل کے ذریعے دودھ پینے والے بچّوں سےکہیںبہتر ہوتا ہے۔ذیابطیس، ذہنی امراض اور سرطان کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں،بچّےموٹاپے کا شکار بھی نہیں ہوتے۔اس کے علاوہ ماں کا دودھ نہ صرف ماں اور بچّے کا تعلق مضبوط کرتا ہے، بلکہ بعد کی زندگی میں احساسِ تحفّظ بھی برقرار رکھتا ہے۔ بچے کو دودھ پلانے سے خود ماں بھی مطمئن رہتی ہے۔ اُس کی جسمانی، ذہنی و نفسیاتی صحت پر خوش گوار اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ زچگی کے دوران کم زور ہوجانے والے اعضاء اپنی اصل حالت میں واپس آجاتے ہیں۔

دودھ پلانے والی مائوں میں بریسٹ کینسر کی شرح کم ہوتی ہے،تو جسم میں موجود فاضل چربی گُھلنے کے نتیجے میں قدرتی طور پر وزن متناسب ہوجاتا ہے۔نیز، بازار کے دودھ یا خوراک کےغیر ضروری اخراجات کی بچت بھی ہوجاتی ہے۔پھر بوتل کوجراثیم سے پاک اور دودھ گرم کرنےمیں جو وقت درکار ہوتا ہے، وہ بچ جاتا ہے اور نومولود کی دیکھ بھال اور گھر کے دیگر امور میں کام آسکتا ہے۔

وہ مائیں ،جو دودھ پلانے کے دوران اپنی غذا کاخاص خیال رکھتی ہیں، اُنہیں دودھ پلانے کے دوران ماہ واری نہیں آتی ،یوں بچّوں کی پیدایش کے دورانیے میں قدرتی وقفہ بھی آجاتا ہے۔ ماں کا دودھ بچّے اور ماں دونوں ہی کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے مفید ہے۔ بعض بچّوں کا وزن قدرتی طور پر پہلے پانچ دِن میں ان کے پیدایشی وزن سے کم ہوجاتا ہے، تو اکثر ماؤ ںکو لگتا ہے کہ بچّے کو اس کی ضرورت کے مطابق دودھ نہیں مل رہا، لیکن یہ قطعاً پریشانی کی بات نہیں، کیوں کہ بعدازاں بچّےکاوزن خودبخود بڑھ جاتا ہے۔

اکثر مائیں یہ سمجھتی ہیں کہ نومولود کے لیے پیدایش کے پہلے تین دِن کا دودھ بالخصوص اور پہلے ہفتے کا دودھ با لعموم مفید نہیں ہوتا۔اور یہ جانچنے کے لیے بعض مائیںکسی پیالی میں دودھ نکال کر اس میںکوئی چیونٹی یا کیڑامکوڑا ڈال دیتی ہیں کہ اگر وہ ہلاک ہوجائے تودودھ بچّے کے لیےمضرِ صحت ہے۔ حالاں کہ یہ قدرتی امر ہے کہ گاڑھے دودھ یعنی کلوسٹرم میں کیڑا مکوڑا یا چیونٹی مَر ہی جائے گی، مگر ناسمجھ مائیں یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ ان کا دودھ مضرِ صحت ہے۔

درحقیقت، زچگی کے فوراً بعدبچّے کودود ھ پلانا اس لیے مفید ہے کہ اس میں امیونوگلوبیولن اے،امیونو گلوبیولن ایم سمیت کئی مفید اجزاء زائد مقدارمیں پائے جاتے ہیں۔ ایک بچّہ جراثیم سے پاک بند دُنیا سےایک ایسی فضا میں آنکھ کھولتاہے، جو جراثیم سے بَھری ہے، تو ماں کے دودھ کے یہی اجزاء اسے کئی خطرناک بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔نیز، بدہضمی سے بھی تحفّظ فراہم کرتے ہیں۔

پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو دودھ پلانے کا درست طریقہ لازماً معلوم ہونا چاہیے۔اس ضمن میں معالج سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔تاہم، اپنی سہولت کے مطابق بیٹھ یا لیٹ کر بچّے کو دودھ پلا یا جاسکتاہے،مائیں ایسا انداز اختیار کریں کہ تھکاوٹ یا اُکتاہٹ محسوس نہ ہو، ہمیشہ اطمینان سے کسی پُرسکون جگہ بیٹھ کر دودھ پلائیں۔ نِپل کے گرد کا سیاہ حصّہ (Areola) بچّے کے منہ میں جانا چاہیے۔دودھ پلاتے ہوئے اپنے ہاتھ کی انگلیاں بریسٹ کے نیچے رکھیں اور انگوٹھا اوپر کی جانب ہو۔ دودھ پلانے کےلیے وقت کی پابندی نہ کریں، بلکہ جب بچّہ خواہش کرے، اُس وقت باری باری دونوں جانب سے دودھ پلائیں۔ 

بریسٹ فیڈنگ سے قبل بریسٹ اور ہاتھ اچھی طرح دھو کر خشک کر لیں اور دودھ پلانے کے پورے عرصے میں تمباکو نوشی یا دیگر نشہ آور اشیاء کے ماحول سے دُور رہیں۔ یاد رہے، دودھ پلانے کے عرصے میں ماں پورے دِن میں دو کپ سے زائد چائے پیے، نہ کافی، کیوں کہ اس سے نہ صرف دودھ کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے، بلکہ بچّے کی مجموعی صحت اور خاص طور پر معدے پر مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ اگر ماں کو دودھ کم آرہا ہو، تو بچّے کو بار بار پلایا جائے کہ اس عمل سے دودھ کی مقدار میں خودبخود اضافہ ہوجاتا ہے۔

اگر کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے ماں کا دودھ کم ہو، تو بچّے کو گلوکوز یا فرکٹوز ہرگز نہ دیں۔ اس سے بچّے کا نظامِ ہاضمہ درست نہیں رہتا۔بعض مائیں اور گھر کے دیگر افراد نومولود کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھتے ہیں اور بچّہ اپنی جبّلت کے مطابق منہ کھولتا اور انگلی چوسنا شروع کر دیتا ہے۔ مائیں یہ سمجھتی ہیں کہ بچّہ بھوکا ہے، حالاں کہ یہ حرکت بچّے کی بھوک کی نشان دہی کرتی ہے، نہ ماں کے دودھ میں کمی کی۔البتہ اگر بچّے کا پیدایشی وزن پہلے چار روز میں کم ہوجائے اور بچّہ ہر ایک گھنٹے بعد دودھ کے لیے رونا چیخنا شروع کر دے، تو یہ اس امر کی نشان دہی ہے کہ ماں کے دودھ کی مقدار بچّے کی بھوک کے مطابق نہیں ہے۔ 

اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں کمی کی کئی اور بھی علامات ہیں۔ جیسے عام طور پر3ماہ تک کے بچّے ہر3گھنٹے بعد اور 3ماہ کے بعد،ہر 4گھنٹے بعد بھوک محسوس کرتے ہیں، تو اگر وہ اس سے قبل ہی بھوک محسوس کرنے لگیں تو اس کا مطلب ہے، اُن کی طلب پوری نہیں ہورہی۔ اسی طرح ایک تن درست بچّےکا وزن ہر ہفتے تقریباً 175گرام بڑھتا ہے، لیکن اگروزن اس رفتار سے نہ بڑھے، تو اس کا مطلب ہے کہ ماں کا دودھ ناکافی ہے۔ پھر اگر دِن بَھر بچّہ ماں کا دودھ پیٹ بَھر کر پیتا رہے، تو عموماً رات کے وقت سِرے سے یا کئی بار نہیں پیتا(سوائے اس کے کہ بچّے کو رات میں دودھ پینے کی عادت ڈال دی گئی ہو)،لیکن اگر بچّہ رات میں کئی بار دودھ مانگ رہا ہے، تو یہ امر بھی دودھ میں کمی کی نشان دہی کرتا ہے۔ماں کا دودھ کم ہونے کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔

مثلاً کوئی ذہنی انتشار، کسی ذہنی عارضے کی وجہ سے اضطراب، ماں بننے کی خواہش نہ ہونا، خون میں سُرخ ذرّات کی کمی یا پھرکسی طبّی یا نا معلوم وجہ کے سبب دودھ کم ہوجانا وغیرہ۔علاج کے ضمن میں بہتر تو یہی ہوگا کہ اُن ماؤں کو، جو کسی ذہنی انتشار یا اضطراب کی شکار ہیں، اسپتالوں میں تعینات خواتین میڈیکل سوشل آفیسرز یعنی طبّی سماجی تھراپسٹس،جب کہ ماں نہ بننے کی خواہش نہ رکھنے والی ماؤں کو ماہرینِ نفسیات یا ماہرینِ سماجی مشاورتی نفسیات کے پاس ریفرکر دیا جائے۔جب کہ خالصتاً طبّی مسائل سے دوچار ماؤں کو علاج کے ساتھ عام دستیاب مقوّی غذائیں تجویز کی جائیں، جیسے رنگ دار سبزیاں، سُرخ رنگ کے پھل اور چھوٹے حجم کی مچھلی وغیرہ۔

اکثر مائیں دودھ کی زیادتی کی بھی شکایت کرتی ہیں، جو ماں اور بچّے دونوں کے لیے تکلیف دہ امر ثابت ہوسکتا ہے۔ بچّوں کے لیے یہ ا س لیے مفید نہیں کہ اس میں غذائیت کم ہوتی ہے،جب کہ ماں کو دودھ کی زیادتی کی وجہ سے بریسٹ میں شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے،جو کچھ طبّی مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ بعض اوقات نِپل اندر کی جانب ہونے سے بھی بچّہ پیٹ بَھر کر دودھ نہیں پیتا۔ اسی طرح کبھی کبھار بریسٹ میں دودھ جم جانے یا دیر تک رُکے رہنے کی وجہ سے گانٹھیں سی بن جاتی ہیں، تو ایسی ماؤں کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ یا پمپ کے ذریعے دودھ نکال کر کسی برتن میں محفوظ کرلیں، تاکہ یہ محفوظ شدہ دودھ اس کے اپنے بچّے یا مذہبی تقاضے پورے کرتے ہوئے (یعنی ماں کو علم ہو کہ اس کا دودھ کس بچّے کو پلایا جا رہا ہے) کسی اور بچّے کو پلادیا جائے۔ 

خیال رہے، جب ایک ماں کا دودھ کسی اور بچّے کو دیا جائے، تو اسے اُبالنا لازم ہے۔ پھر اکثر دودھ پلانے کے دوران ماں کی بریسٹ بہت سخت ہو جاتی ہے، اس میں تناؤ محسوس ہوتا ہے، تو اس صُورت میں نیم گرم پانی میں تولیا بھگوکر سینکائی کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہManual Breast Milk Suction Pump بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، ماہر گائناکالوجسٹ سے رابطہ کرلیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔

بعض امراض میں مبتلا ماں کے لیے بچّے کو دودھ پلانا درست نہیں، مثلاً اگر ماں ایڈز، سرطان، یرقان، امراضِ قلب یا کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہو یا یرقان کی کیرئیر ہو، تپِ دق کا علاج نہ کروا رہی ہو یا علاج شروع ہوئے ابھی ایک ماہ ہی گزرا ہو، نشے کی عادی ہویا دردِ شقیقہ، آرتھرائیٹس، رعشے اور شدید سَر درد کی ادویہ استعمال کرہی ہو۔ کیوں کہ امکانی حد تک بچّہ ان امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

اسی طرح انفلواینزا میں بھی دودھ پلانے کے معاملے میں احتیاط برتے اور معالج کے مشورے سے بچّے کو فلو سے بچاؤ کا انجیکشن لگوائے یا پھر دوا استعمال کروائے۔ نیز، اگر خدانخواستہ کسی نومولود کی ماں دورانِ زچگی یا بچّے کو دودھ پلانے کی عُمر میں انتقال کرجائے، تو پھر کوئی دوسری خاتون بھی وقتِ ضرورت بچّے کو اپنا دودھ پلا سکتی ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو، تو پھر معالج کے مشورے سے ڈبّے، گائے یا بکری وغیرہ کا دودھ پلایا جاسکتا ہے، لیکن صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔

کہا جاتا ہے کہ جڑواں بچّوں کو دودھ پلانا مشکل امر ہے، لیکن ربِّ کائنات کا نظام ہے کہ اگر ایک سے زائد بچّے پیدا ہوں، تو ان کے لیے دودھ کی مقدار بھی اُسی مناسبت سےبڑھ جاتی ہے۔ جڑواں بچّوں کو باری باری دونوں جانب سے دودھ پلانے سے ایک تو بریسٹ کی ہیئت نہیں بگڑتی، دوم بچّے بھی مطمئن رہتے ہیں۔ لیکن اس دورانیے میں ماں کو اپنی غذا کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ اگر دودھ پلانے کے دوران کوئی ماں حاملہ ہوجائے، تو بہتر ہوگا کہ بچّے کو ڈبّے وغیرہ کا دودھ پلایا جائے اور اگر بچّہ ٹھوس غذا استعمال کرسکتا ہے ،تو کیلا، چاول، آلو اور روٹی وغیرہ کا استعمال شروع کروادیا جائے۔

اگر کسی ماں کو دودھ پلانے کے دوران سَر درد ہوتا ہے یا کچھ دھندلاپن محسوس ہوتا ہے یا اس کے دِل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ بچّے کو دودھ پلانے کے دوران ماں کو کم زوری لاحق ہوجاتی ہے۔ ایسی کیفیت میں اپنے وسائل کے مطابق اضافی غذا استعمال کی جائے، خاص طور پر چقندر، گاجر، شلجم، دالیں، بیر ملوک، ناشپاتی، سندھی بادام، جنگل جلیبی، جنگلی سیب اورکھجور وغیرہ کہ ان کے استعمال سے نہ صرف کم زوری دُور ہوجائے گی، بلکہ بچّے کو اس کی غذائی ضرورت کے مطابق بہتر اور مناسب مقدار میں دودھ بھی فراہم ہو سکے گا۔

وہ تمام مائیں، جو کسی طبّی مسئلے سے دوچار نہیں اور پھر بھی اپنے دودھ کی بجائے فیڈر کے ذریعے دودھ پلانے کو ترجیح دیتی ہیں، وہ جان لیں کہ ڈبّے کا دودھ پلانے سے بچّہ ماں کے دودھ میں موجود اُن تمام قدرتی اجزاء سے محروم رہتا ہے، جو اَن گنت بیماریوں سے تحفّظ کی قوّتِ مدافِعت عطا کرتے ہیں۔یاد رکھیں، ماں کے دودھ کا دُنیا میں کوئی نعم البدل نہیں کہ اس میں موجود تمام تر عناصر کا بہترین تناسب کسی دوسرے دودھ میں موجود ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (مضمون نگار، ڈائو یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ رہ چُکے ہیں)

مضمون نویس معالجین توجّہ فرمائیں!!

اگر آپ شعبۂ طب سے وابستہ ہیں اور لکھنے کےشائق ہیں، تو ہمیں سنڈے میگزین کے سلسلے’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے لیےاپنے علم، تجربات اور مشاہدات پر مبنی تحریریں ارسال کرسکتے ہیں، تاکہ عام افراد مختلف امراض اور اُن سے بچاؤ سے متعلق حفاظتی تدابیر سے آگاہ ہوسکیں۔ لکھنے کے شوقین معالجین سے درخواست ہے کہ اپنے مضامین کے ساتھ، اپنی پاسپورٹ سائز واضح تصاویر بھیجیں ۔ نیز، مکمل تعارف اور رابطہ نمبر بھی لازماً تحریر کریں، کیوں کہ کچھ تحریروں میں لکھی جانے والی مخصوص طبّی اصطلاحات یا کسی ابہام کی تصحیح یا درستی کے لیے مضمون نگار سے براہِ راست رابطہ ضروری ہوجاتا ہے،اپنی تحریریں اِس پتے پر ارسال فرمائیں۔

ایڈیٹر، سنڈے میگزین،صفحہ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی۔

ای میل sundaymagazine@janggroup.com.pk:

سنڈے میگزین سے مزید