• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھیمے لہجے کے حامل ہمارے دوست اور ترجمان پرویز الٰہی جناب ڈاکٹر زین علی بھٹی کے قائد و رہنماایک طویل کشمکش اور بحرانی کیفیت کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب بننے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر زین بھٹی ٹوٹ کر پرویز الٰہی اور مونس الٰہی سے لگائو رکھتے ہیں۔ بہرحال گجرات کے چوہدریوں کا پنجاب کی سیاست میں عرصۂ دراز سے اہم کردار رہا ہے اور اِن دونوں خاندانوں کے درمیان تعلقات بھی ہمیشہ سے مثالی رہے ہیں۔ لیکن حالیہ صورتِ حال میں یہ کردار بہت زیادہ اہم اس وقت ہو ا جب حکمران اتحاد اور تحریکِ انصاف دونوں نے بیک وقت انہیں وزیراعلیٰ بننے کی پیشکش کی۔اس مسئلے پر چوہدری خاندان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہو گیا اور پہلی بار آپس کے تعلقات بھی خراب ہو گئے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان حالیہ تنازعے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پارٹی نے تقریباً فیصلہ کر لیا تھا کہ وزارتِ اعلیٰ کے معاملے میں عمران خان کے بجائے حکمران اتحاد کے اُمیدوار کے طور پر چوہدری پرویز الٰہی کو سامنے لایا جائے گا۔ لیکن چونکہ موجودہ سیاست خاندان کے بڑوں سے آگے بڑھ کر نئی نوجوان نسل میں منتقل ہو چکی ہے لہٰذا نئی نسل نے اپنی سوچ سے حالات کا جائزہ لیا اور خاندان میں اختلافِ رائے پیدا ہو گیا۔ چوہدری پرویز الٰہی اپنے بیٹے مونس الٰہی کی رائے سے متاثر ہو کر چوہدری شجاعت حسین کو بتائے بغیر عمران خان سے ملنے بنی گالہ چلے گئے اور وزارتِ اعلیٰ کےلئے حکمران اتحاد کے بجائے عمران خان کے اُمیدوار کے طور پر اعلان کر دیا۔ فیصلے کی اس اچانک تبدیلی سے چوہدری شجاعت ایک طرف تو بہت مایوس ہوئے دوسری طرف وہ آصف علی زرداری کے احسان کا دبائو محسوس کر رہے تھے جو انہوں نے چوہدری برادران اور میاں نواز شریف کے درمیان تلخی کو کم کرنے کی صورت میں کیا تھا۔ (یاد رہے کہ میاں نواز شریف اور چوہدری برادران کے درمیان تعلقات اس وقت خراب ہوئے تھے جب چوہدری پرویز الٰہی نے اُس وقت کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی ناکام کوشش کی اور خود وزیراعلیٰ بننا چاہا۔) چوہدری شجاعت نے آصف علی زرداری کے کہنے پر ڈپٹی اسپیکر کے نام خط لکھ دیا جس کو بنیاد بنا کر ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کو فیصلہ دینا پڑا۔ اس فیصلے کے مطابق ق لیگ کے ووٹوں کو شمار کرنے سے چوہدری پرویز الٰہی ایک بار پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔ لیکن چوہدریوں کا یہ خاندان تقسیم ہو گیا، جس میں آگے بھی دوری بڑھنے کے امکانات واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی اس اعتبار سے کافی خوش قسمت ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں ان کی جماعت کی صرف 10 نشستیںہیں۔ اس کے باوجود دونوں گروپوں کی طرف سے انہیں وزیراعلیٰ بننے کی پیشکش ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے عمران خان کی طرف سے وزیراعلیٰ بننا پسند کیا اور ماشاءاللہ وزیراعلیٰ بن بھی گئے۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن سے نبردآزما ہونے کی وہ بھرپور بلکہ بے پناہ صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے تو خاندان کی تقسیم کا مسئلہ درپیش ہے، میرے خیال میں صلح ہو جائے گی کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی سیاست میں دشمنیاں پالنے کے قائل نہیں ہیں لیکن خاندان میں پڑنے والی حالیہ دراڑ اس قدر بڑی اور گہری ہے کہ اس کو ختم کرنا ایک امتحان ہے کیوں کہ تلخی کی یہ دراڑ خاندان کے بڑوں سے نکل کر نوجوان نسل اور مستقبل کے سیاستدانوں کے درمیان پیدا ہو چکی ہے، جس کا ختم ہونا بہت مشکل بھی ہے اور ضروری بھی کیوں کہ نوجوانوں میں کمپرومائز اور درگزر کرنے کی صلاحیت نسبتاً کم ہوتی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی حقیقی دوسری کوشش اور کاوش یہ ہوگی کہ وہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں اپنی جماعت کی نشستوں میں اضافہ کر سکیں تا کہ ان کی جماعت کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط اور اہم ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی عمران خان کے وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود تحریکِ انصاف کو خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچاپائیں گے بلکہ عمران خان کی رائے کے برعکس مرکز میں وزیراعظم شہباز شریف سے اختلافات کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے بھی انہیں بطور وزیراعلیٰ ملنے والا وقت اس قدر مختصر ہے کہ تحریکِ انصاف کو فائدہ پہنچانے یا نون لیگ کو نقصان پہنچانے کے جھمیلوں میں پڑنے کی بجائے وہ اپنی پارٹی کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اگرچہ حکمران اتحاد اور تحریکِ انصاف میں تنائو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا ہی دکھائی دے رہا ہے، جیسا کہ نون لیگ نے پنجاب میں گورنر راج لگانے کی دھمکی دی تو تحریکِ انصاف نے بھی مرکز میں حکومت گرانے کی جوابی دھمکی دے ڈالی۔ پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدوار کے طور پر وزیراعلیٰ بننے کی وجہ سے چوہدری پرویز الٰہی کو حکمران اتحاد خصوصاً پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے سخت مخالفت درپیش رہے گی، جبکہ دوسری طرف عمران خان کی طرف سے بھی جلد از جلد انتخابات کروانے کے لیے حالات سازگار بنانے پر زور دیا جاتا رہے گا، لیکن چوہدری پرویز الٰہی چوں کہ خود بھی اپنے اقتدار کو طول دینا چاہیں گے، اس لیے انہیں دریا میں رہتے ہوئے مگرمچھوں سے تعلقات خراب کیے بغیر وقت کو نہایت حکمتِ عملی کے ساتھ آگے لے کر جانا ہوگا۔ سب سے بڑا مسئلہ جو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر پرویز الٰہی کو درپیش رہے گا وہ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے دیوہیکل چیلنجز ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی اور پٹرول کے بڑھتے ہوئے نرخ عوام پر بم بن کر گر چکے ہیں اور انہیں زندہ درگور کر رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان مسائل کے حل کے لیے پرویز الٰہی کے پاس الہ دین کا کوئی چراغ موجود نہیں ہے کیونکہ اصل اختیارات اور وسائل تو مرکز میں حکومت کے پاس ہیں، جو حالات کی خرابی کا سارا ملبہ تحریکِ انصاف کی حکومت پر ڈالے ہوئے ہے۔ یوں عوامی حالات میں کوئی خاطرخواہ بہتری آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن اگر چوہدری پرویز الٰہی نون لیگ اور تحریکِ انصاف کے آپسی جھگڑوں سے خود کو بچا کر صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی طرح سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور کسی حد تک سیاسی تلخیوں کو کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے لیے عوام تک کچھ ڈیلیور کرنا نسبتاً آسان ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین