• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدنصیب قوم بے چارگی اور لاچاری کے گھیرے میں۔قائدین کے گفتار اور کردار میں خلیج حائل۔ڈاکٹر بابر اعوان چند سطروں میں دریاکو کوزے میں بند کر گئے ۔ وطن کو لاحق خطرات ، خدشات، وسوسوں کی ہولناک کالی آندھی مغربی اُفق پر۔ اس وقت وزیراعظم پاکستان واشنگٹن میں موجود جہاں پینٹاگون سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اوول آفس پاکستان کے مستقبل کا ناک نقشہ بنانے میں مصروف۔کوئی ہے جو ہمارے مقدر کا ستارہ بن پائے؟ کہاں سے ڈھونڈیں رجل رشید؟ کیا سیاستدان درپیش خطرات پر سرجوڑ کر بیٹھ پائیںگے ؟ کیا ہی تکلیف دہ شنید کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت جب امریکہ تشریف لے جاتی ہے تو امریکی اسٹیبلشمنٹ کرتوتوں کا ایکسرے سامنے رکھتی ہے ۔ فکر ِملت رفوچکر فکرذات محوراور ’’جان کے لالے‘‘۔قائدین کو اللہ نے جب بھی موقع دیا ماضی کی شہرت کوچار چاند ہی لگائے ۔ آصف علی زرداری کو سنہری موقع ملا۔امیج بہتر کرلیتے کرپشن سے پاک حکومت عنایت فرماجاتے۔کیابرعکس ،کرپشن اور اقربا پروری کے پچھلے ریکارڈ بھی توڑ ڈالے۔ جناب نواز شریف ہزیمتوں اور تکلیفوں کے پاٹوں سے نکل کر تیسری بار وزیراعظم بنے تو خیال تھا کہ ذاتی کاروبار کو مقفل کریں گے اور حکومتی معاملات کو خاندان کے اثرورسوخ سے پاک جبکہ قیادت کے لیے خاندان سے باہر بھی ٹیلنٹ ہنٹ ہوگا۔چوہدری نثار کو بھی پرکھا جائے گا پچھلے5 ماہ کیا بتا رہے ہیں؟ شہباز شریف کی خرابی ِ صحت پر لمحہ ضائع کیے بغیر عنان ِ اقتدارحمزہ کے ہاتھ میں کہ پنجاب کی قیادت شہباز فیملی کاحصہ ۔
تحریک ِ انصاف جس نے بلاوجہ نالائقی اور نااہلی میں مشہوری کمالی ۔ بغیر پائوں کے فیصلے مسلسل وجہ ندامت رہے ۔ جعلی ڈگری اور دو نمبر کی کمائی والوں کو پارٹی کی اگلی نشستوں پر ،آئیڈیلزم کے متلاشیوں کے آگے لابٹھایا۔ ہمیشہ گوش گزار کیا کہ حضور سیاسی استعداد (Political Capacity) کے بغیر آگے بڑھنے کا تصور ذہن سے نکال باہر پھینکیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن سیاست کی معراج ٹھہرے ۔ اس بحث کو چھیڑے بغیر کہ پارٹی الیکشن ڈھونگ اور دھاندلی کا حسین امتزاج جو پارٹی کی تقسیم درتقسیم پر منتج ہوئے 2012 جوجنرل الیکشن کی تیاری کا سال تھاانٹراپارٹی الیکشن کی بھینٹ چڑھ گیا۔ نالائق سرجن کے مصداق کہ آپریشن کامیاب رہالیکن مریض مر گیا۔ لرزہ براندام کرنے والا سونامی آج ہزیمت کا شکار۔ پارٹی الیکشن سے سبق نہ سیکھا اور چھوٹتے ہی KPK میں 36 نشستوں کے عوض حکومت بنا ڈالی ۔ اپوزیشن میں رہ کر سیاسی طور پر مستحکم ہونے کا زریں موقع پلک جھپکنے میں ضائع ۔ ن لیگ نے جال بچھایا بھائی لوگ پھنس گئے ۔’’شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زبان رکھ دی‘‘۔آج صوبہ اس حال میںکہ’’نے ہاتھ باگ پر ہے،نہ پائے رکاب میں‘‘۔اگلے5 سال KPK حکومت انٹرا پارٹی الیکشن کا ری پلے ہی رہے گا۔ سیاسی استعدادِ کار حکومت میںشرط ِ اول۔سیاسی کارخانہ چلانا ’’کھاد‘‘ یا ’’کھانڈ ‘‘ کے کارخانے سے یکسر مختلف کاروبار۔بے شمار کارکن اور ووٹرزاپنے خوابوں کے خون پر محو ِ حیرت ۔ KPK حکومت ،جس کو کمبل سمجھ کر ’’چپھی ‘‘ ڈالی وہ کمبل آج تحریک انصاف کے لیے جان لیوا ۔ پارٹی الیکشن میں الیکشن 2013 گم ،آج مثالی حکومت قائم کرنے کے چکر میں 2018 کے انتخابات کا مکو ٹھپ ۔ اس امید پر پارٹی کو اکٹھا رکھنا کہ ن لیگ نے ناکام ہونا ہی ہے اگلی باری ہماری’’ ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے‘‘۔ سیاسی استعداد تو تھی نہیں میرٹ اور اصول واحد سہارا ہوسکتے تھے۔حیف کہ چیئرمین قومی میڈیا پر مبینہ جعلی ڈگریوں ، کرپشن زدہ ،نیب زدہ اور دو نمبر دولت رکھنے والے لوگوں کے دفاع میں دلائل کا انبوہ کھڑا کر چکے ہیں۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی تعیناتی بھی مزاحیہ پروگرام ۔ ڈاکٹر علوی جو کہ ووٹوں میں دوسرے نمبر پرنظر انداز، آج تمام مرکزی عہدے پنجاب تک محدود۔ بڑے بھائی سعید اللہ خان کابر جستہ تبصرہ کہ ’’ دانہ نہ چوگتی تو کیوں پھانستی ‘‘ ۔ میرٹ پر مبنی ’’اعشاری نظام‘‘ نے پوری پارٹی کو ایک جہاز، ہیلی کاپٹر اور بلٹ پروف گاڑی تک مقید کر دیا اور جہاز کی ساری سواریاں فیصلہ ساز ۔ رہے ’’بغیر وسائل‘‘ کے پارٹی لیڈر و کارکنان ، ان کے لیے ان کا اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی کافی ہے۔
عزیزم عدنان رندھاوا نے جنگ میں بذریعہ بیان ِ صفائی) Rejoinder ( شکایت کا دفتر کھولا۔میں ان کی کاوش کی قدر کرتا ہوں عدنان مجھ سے زیادہ بلکہ تحریک ِ انصاف کا پتا پتا بوٹا بوٹا میرٹ کی بے حرمتی کا حال جانے ہے۔میرا مقصد تو کمزوریوں کا احاطہ کرناکہ قابو پانے کی شایدسبیل نکلے ۔پہلے چیئرمین صاحب سے بالمشافہ ایسے متنازعہ موضوعات پر گفتگو رہتی اب بہ امرِمجبوری جنگ اخبار کے توسط سے۔یہ صفحات گواہ کہ باقی پارٹیوں پر تنقیدمیں ساری حدیں پھلانگیں جبکہ تحریک ِانصاف کے لیے بقائمی ہوش و حواس ہمیشہ خود ساختہ نوگوایریامیں جانے سے اجتناب کیا۔ درجنوں ایسے کالم لکھ سکتا ہوں جو تہلکہ مچا سکتے ہیں سکتہ طاری کر سکتے ہیں ،منصب اجازت نہیں دیتا۔ قلم ’’غلط العام‘‘ تک ہی محدود۔
عدنان نے درست فرمایا کہ حلقہ 72کافیصلہ گہرا گھائواس سے جانبر ہونامیرے لیے نا ممکن۔ بددیانتی ، فریب ، جھوٹ کی یہ کہانی کسی تصوراتی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتی ۔پیٹھ میں گھونپے ایسے خنجر سے تعارف تھا نہیں۔ تحریک انصاف کے ذی شعور رہنما اور کارکنان بھی انگشت بدنداں کہ چیئرمین کو خود کش حملہ کی کیوں سوجھی؟ آج قومی سطح پر تحریک انصاف کے چہرے پربھی ایک بدنما داغ۔ میانوالی میں ہزیمت آمیز ہار اسی فیصلے کے نتائج کی شروعات ہی توہیں۔قبائلی روایات کا امین ہوں، سیاسی خون کا بدلہ سیاسی خون ہی بنتا ہے ۔ گاہے بگاہے حقائق کا پردہ چاک اس لیے کہ مستقبل کا تجزیہ نگار شکست ِ وریخت کے اسباب کا تعین کر سکے، پھر دہراتا ہوں خود ساختہ نوگو ایریا مقرر کر رکھے ہیں مزید براںجو کپڑے سرعام گندے ہوئے ان کو بیچ چوراہا دھونے میں ہرج ہی کیا ہے ؟کیا ضرورت تھی Rob Crilly سے غلط بیانی کرنے کی؟انٹرویو پڑھ کر پارٹی پارلیمانی بورڈ کیا سوچتا ہو گا؟ کیا چیئرمین کی ’’شتر بے مہار‘‘چال کو چیک کرنے کے لیے پارٹی قیادت میں ایک ضمیر بھی نہیں؟۔ اقتدار میں آئے بغیر پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکارکیوں؟ پچھلے دنوں ہفتوں بعد شہیدِ میانوالی جنرل ثنا اللہ خان کے گھر میانوالی کی روایات کو توڑتے ہوئے زرق برق ملت جلت (Company) میں تشریف لائے (میانوالی کاتاریخی جنازہ پڑھنا نصیب میں نہ تھا)وہاںکیا ہلکی بات کہہ دی کہ ’’برادران ِ یوسف‘‘ (اصطلاح کااستعمال معمول بن چکا )سے جان چھوٹ گئی۔
قرآنی اصطلاحیں،قصص اور آیات کا اپنی مقصد برآری کے لیے استعمال قومی رہنمائوں کا شعار بن چکا۔ جہاں تک میری ذات ہے سترہ سال جناب کی اوٹ پٹانگ سیاست کوہ ِگراںرہی ، تفصیل پھر کبھی سہی ۔
ربِ ذوالجلال کا احسان ِ عظیم کہ جان چھوٹ گئی البتہ ضرب کاری تھی اثرات قبر تک رہیں گے بقول شامی صاحب مار ’’گجی ‘‘تھی۔ خوشی اس میںصرف اتنی کہ قیمت قائد کو بھی چکانا پڑے گی ۔ یک جنبش پلک کسی کے سیاسی کیرئیر کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانا، ناقابل ِ معافی فعل۔ صلہ رحمی میں ایسی بے رحمی۔ اپنی پارٹی کے سامنے ہی سچ بول کر وجہ بتادیں وگرنہ اخلاقی حیثیت کج ہی رہے گی۔جوقلم دفاع کے لیے آپ کے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے رہا تھا۔ کیا افتادآن کہ پڑی کہ18 مارچ کو180 ڈگری ٹرن لینے پر مجبور ہو گیا۔ یادش بخیرعمران 5 نومبر 2011 کو پورے کنبہ کے ساتھ میانوالی تشریف لائے ۔ جناب کی فرمائش پر انعام اللہ اپنے تمام بھائیوں آپ کے دادا کے کمرے میں جناب کے سامنے ۔ بڑے بھائی سعید اللہ خان جو والد کا درجہ رکھتے ہیں سے مخاطب ہو کر بھائی چارہ کا احساس دلایا کہ ’’ اب وقت آگیا ہے کہ انعام اللہ میرا ساتھ دے ،میری خواہش کہ انعام اللہ کوسیاست کے اس سفر میں میرے ہمراہ کریں‘‘۔ سعید اللہ خان نے بغیر توقف انعام اللہ کی انگلی پکڑی دوسرے لمحے عمران کے حوالے ۔پھر انعام اللہ نے ساتھ بھی کیسا دیا۔ میانوالی تا میڈیا’’جتنا جُثہ اس سے زیادہ حصہ‘‘۔تحریک انصاف کا ڈنکا بجانے میں تن من دھن لگا دیا۔ تحریک انصاف نے بھی اعتراف کیا ، 20 مارچ 2013کو پارٹی کا مرکزی نائب صدر چنا ۔ شخصی ملکیت پر استوار پارٹی کے چیئرمین نے الیکشن کے نتیجے کو ایک لمحہ کے لیے بھی قبول نہ کیا جبکہ اس سے قبل ہی میانوالی میں اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کی ٹھان چکے تھے۔ 25مارچ کو اپنے دشمن نمبر1ڈاکٹر شیر افگن کے گھر پہنچ گئے ’’جان نہ پہچان میں تیرا مہمان‘‘جہاں ڈاکٹر شیر افگن کے بیٹے کو ٹکٹ دے آئے۔ پارلیمانی بورڈ، پارٹی ، اصول ،ضوابط گئے بھاڑمیں ۔جس’’ بھائی‘‘ کو سیاسی سفر کا حصہ بنایا کہاں غلطی ہوئی کہ پہلی فرصت میں کنویں کی نذر۔ اے میرے پروردرگارمیری تو ہمیشہ دعا رہی کہ دشمن بھی ایسا دینا جو سینے میں خنجرگھونپے۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی’’ بھائی ‘‘سے ملاقات ہو گئی
23 مارچ کا جلسہ جس میں جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ تھا۔ آج قوم ، پارٹی کا منہ چڑھا رہاہے۔ پیرو مرشد نے ہمارے حال کو سامنے رکھ کر ہی تو خدائے بزرگ و برتر کی طرف رجوع کیا ۔
خداوند! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
تازہ ترین