ہماری ایک خراب عادت ہے کہ جن جگہوں کے عشق میں مبتلا ہوں،کتابوں، لوگوں نے جن کی محبّت کی آنچ بھڑکائی ہو،کبھی مقدّر اُن جگہوں پہ لے جائے، جہاں اُن کی دید پوری ہونے کا امکان ہو، توگومگو کا شکار ہوجاتے ہیں کہ جائیں یا نہ جائیں۔ گونگ چو (Guangzhou) کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ڈاکٹر عُمر عادل نے کہا تھا کہ ’’ممکن ہو تو گونگ چو ضرور جائیے گا کہ وہاں صحابیِ رسولؐ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا مدفن ہے۔
فضائیں خوش بوئوں سے لَدی پَھندی رہتی ہیں۔‘‘ اور بس ایک اسی نام کی کشش ہمیں بار بار وہاں جانے پر مجبور کررہی تھی، مگر نقشہ دیکھ کر یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ یہ جگہ چِین کی ہزاروں میل پھیلی، وسیع و عریض راج دھانی کے کسی بہت دُور شہر میں ہے۔’’بے چاری بیٹی اور داماد کا پہلے ہی کتنا خرچہ ہورہا ہے۔ سیر و سیّاحت ہمارا تو چلو جنون ہے، مگر اُنہیں کس بات کی سزا مل رہی ہے۔‘‘ یہی سوچ کر ہم چُپ رہے، لیکن پھر ایک روز اچانک ہی جانے کا جنون حاوی ہوگیا اور ہم نے اُٹھتے ہی کہا،’’سعدیہ! ہمیں گونگ چوجانا ہے، عمران سے بات کرو کہ کب اور کیسے جایا جاسکتا ہے؟‘‘
وہ ہنسی،’’آپ میری ماں ہی نہیں، سہیلی بھی ہیں۔مجھے تو پہلے ہی پتا تھا کہ ایک نہ ایک دن آپ کو وہاں جانے کی ہڑک تو اُٹھے گی،تو میری پیاری امّاں! آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہاں جانے کا بندوبست ہوچُکا ہے۔ ہم جمعے کی سہ پہر چاربجے کی فلائٹ سے جائیں گے۔ ویسے تو بلٹ ٹرین سے بھی جا سکتے تھے، لیکن نو گھنٹے لگتے، تو سفر ذرا لمبا ہوجاتا، اس لیے سوچا کہ جہاز سے جانا بہتر رہے گا۔‘‘ ہم نے یہ سُنتے ہی ایک بار نہیں، کئی بار’’میری سویٹی‘‘ کہتے ہوئے سعدیہ کا ماتھاچوما۔
جمعے کو ہم گھر سے ایک بجے نکلے، تو لان میں گلابی ، سفید پھولوں نے استقبال کیا،حالاں کہ دو دن پہلے تک یہ گُل میلہ نہیں سجا تھا۔’’یہ جنگل اچانک کیسے ہرا بَھرا ہوگیا؟‘‘ ہم نے مُسکراتے ہوئے کہاکہ دو دن پہلے تک چھوٹی قامت والے چھدرے چھدرے درخت، سبز ٹہنیوں سے لَدے پَھندے ضرور تھے، مگر پھولوں والی ڈوڈیاں نہیں تھیں، لیکن اب تو ہر طرف گلابی گندوراج جیسی صُورت والوں نے ایک البیلا ، مَن چلا سا حُسن بکھیر رکھا تھا۔ابھی ان مناظر سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ ٹیکسی آگئی۔ ڈرائیور موٹا تازہ، پالتو بلّے کی طرح کانچ جیسی آنکھیں گھما رہا تھا۔ بیٹھتے ہی اس نے ہم اجنبیوں کو چینی موسیقی سے محظوظ کرنا ضروری سمجھا اور لگاتار گانے سنوانے کا شغل جاری رکھا۔ ہوائی اڈّے پہنچے، تو ڈومیسٹک فلائٹ ایریا کی کوئی حد ، حساب کتاب ہی نہ تھا۔
اتنا وسیع ویٹنگ لائونج کہ کیا کہیں۔ ایک تو ستیاناس ہو ان موبائل فونز کا کہ نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے جتھے چارجنگ پوائنٹس سے چمٹے، کہیں کھڑے، کہیں بیٹھے موبائل چارج پر لگائے باتوں میں مگن تھے، تو کرسیوں پر بیٹھے مسافر اُونگھنے میں مصروف ۔ اِس سارے بھرےمیلے میں صرف ایک لڑکا ایسا نظرآیا، جو کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہم نے تو بھئی ،اُسی بچّے کی ہم سائیگی میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔
کچھ دیر بعد جب اُس سے باتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پتا چلا کہ وہ یونی وَرسٹی میں معاشیات کا طالب علم ہے اور اپنی پھوپھی کے پاس، گونگ چو جا رہا ہے۔ ’’گونگ چو کے بارے میں جانتے ہیں، کیسا شہر ہے؟‘‘ہم نے پوچھا، تو لڑکا تھوڑا سا مُسکراتے ہوئے گویا ہوا۔’’زیادہ تو نہیں، بس جنوبی چِین کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور بہت ہی خُوب صُورت ’’دریائے پرل‘‘کا ساحلی شہر ہے، جس کا پرانا نام ’’کینٹن‘‘ تھا۔ اور ہاں، ہانگ کانگ کے بالکل ہم سائے میں ہے۔‘‘ ’’آپ کی پھوپھی کہاں رہتی ہیں؟‘‘
ہم نے ایک اور سوال داغ دیا۔ ’’لیوان میں۔یہ شہر کا پرانا حصّہ ہے، جو دریا کنارے واقع ہے۔‘‘ اُس نے بتایا۔ ’’میری رہنمائی کرسکتے ہیں کہ مجھے یہاں کیا کچھ دیکھنا چاہیے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔’’مَیں اس شہر کے بارے میں زیادہ کچھ تو نہیں جانتا، لیکن یہاں آنا جانا رہتا ہے اور قرب وجوار کا سیر سپاٹا بھی کرتا رہتا ہوں، تو اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ دریائے پرل کے کنارے فلک بوس عمارتوں کا سلسلہ بہت دل کش ہے۔ ہاں، وہاں ایک بہت قدیم مسجد (صدیوں قبل تعمیر ہونے والی) بھی ہے۔
یہ چِین کی قدیم ترین مسجد خیال کی جاتی ہے۔‘‘اس دوران سعدیہ نے پاس آکر کہا۔’’آئیے،چلیں۔‘‘ اور ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے اطمینان سے چلانے لگی۔ ٹرمینل 2 کے کوئی 71گیٹس تھے اور ہمیں 43 ویں گیٹ سے جانا تھا۔ اُف بڑا چلنا پڑا، لیکن شکر کہ شٹل بس سروس نے عین جہاز کے پاس جاکر اُتارا۔ وہاں تو جیسے جہازوں کا میلہ لگا ہواتھا۔ پی آئی اے کا بھی دانہ نظر پڑا، تو مانو، جیسے کلیجے میں ٹھنڈ پڑگئی۔ہم نےحینان(Hainan) ایئرلائنز کے دیوہیکل جہاز سےسفر کیا۔ زیادہ تر فضائی میزبان لڑکیاں خوش شکل تھیں، لیکن کچھ واجبی شکل و صُورت کی بھی دکھائی دیں۔
’’ بھئی، ہمیں تو بڑی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابھی ہم نے سعدیہ سے کہاہی تھا کہ برتنوں، ٹرالیوں کی کھٹ پٹ شروع ہوگئی۔ کھانے میں فِش، چکن چاول تھے۔ ’’کم بختو! خالی فِش ہی دے دیتے، چکن اور چاول اسی میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی، سارا مزہ خراب کر دیا۔‘‘ ہم بڑبڑائے۔ گونگ چو ایئرپورٹ پہنچے، تو دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہ بےحد شان دار ،نظروں کو ہرہر قدم پر اُلجھائے دیتا تھا۔ مشرقِ بعید اور ایشیائی قوموں کا تو جمِ غفیر تھا ہی، مگر مشرقِ وسطیٰ کے توب اور کفایہ والوں نے بھی رونقیں لگا رکھی تھیں۔
اس وقت رات کے نو بج رہے تھے۔ باہر آنے پر محسوس ہوا کہ یہاں تو جیسے زندگی کی تیز رفتاری کو برقّی پہیے لگے ہوئے ہیں۔ تہہ دَر تہہ منزلوں کے سلسلے اوپر نیچے ،چڑھتی اُترتی سڑکیں، اُن پر دَوڑتی، بھاگتی ٹریفک اور آسمان کی وسعتوں تک پھیلا شور و غوغا۔ سچّی بات ہے، حواس گُم کرنے والا منظر تھا۔ ہمیں ایک جہازی ستون کے پاس ٹھہرا کر عمران ہوٹل سے بھیجی گئی ٹیکسی دیکھنے گیا۔ وہیں چند قدم پَرے رک سیک کمروں پر لادے چند لڑکے نظر آئے، جن کی چال ڈھال اور نین نقش بتا رہے تھے کہ وہ اپنے ہی ہیں۔ہیلو، ہائے کی تو پتا چلا کہ اُتّر پردیش، بھارت کے تھے، جو یہاں سامان کی خریداری کے لیے آئے تھے کہ یہ شہر کاروباری دنیا کا بہت بڑا مرکز ہے، جہاں ہر چیز کی زیرِ زمین اور بالائے زمین ایک، دو، تین نمبر مارکیٹس بنی ہوئی ہیں۔
صبح کے پُرنور اُجالے نے گرد و پیش کے مناظر واضح کردئیے۔ علاقہ نیا بھی تھا اور زیرِ تعمیر بھی۔ ناشتے میں اُبلے انڈے، پھلیوں کی مزے دار بُھرجی اور کھچڑی، اُبلی چھلّی (Boiled corns)، اُبلی شکر قندی، مالٹے کی پتلی قاشیں اور نوڈلز کھائے۔ پیٹ پوجا کے بعد سیر سپاٹے کو نکلے، تو سب وے تک ہوٹل والوں نے لفٹ دےدی۔ وہ علاقہ تا حدِّنظر سیمنٹ، سریے کی ادھوری اور مکمل عمارتوں کے نرغے میں تھا۔ جھاڑیوں اور چھوٹے موٹے کھیتوں کے درمیان سے پختہ سُڑکیں بنائی گئی تھیں۔ دفعتاً ایک جگہ ایک حیرت انگیز منظر دِکھائی دیا۔ ایک قبرستان تھا، جہاں پچیس، تیس کے قریب لوگ کہیں صفائی کرتے، مٹّی کھودتے، تو کہیں قبروں کی مرمّت کرتے نظر آرہے تھے۔
ہمارے استفسار پر عمران نے بتایا ’’آج ان کاQing ming Festival ہے۔ دراصل یہ چینیوں کے اپنے آباء و اجداد کو یاد کرنے اور ان کی قبروں کی صفائی سُتھرائی کا قومی دن ہے۔ یہ موسمِ بہار کا تہوار ہے۔ اسی لیے5 اپریل سے 7 اپریل تک یہاں چُھٹیاں ہوں گی۔ان تینوں دن جیسے وہ خود کو اپنے بزرگوں کے ساتھ جُڑا ہوا پاتے ہیں۔‘‘ عمران نے بات مکمل کی تو میرے دل کو جیسے دھچکا سا لگا۔’’ارے، کتنی اچھی اور خوب صُورت ریت روایت پال رکھی ہے ان لوگوں نے۔ چلو ،جی جان سے مرنے والوں کو یاد تو کرتے ہیں۔ انفرادی سطح پر تو بندہ کچھ تھوڑا بہت ہی کرلیتا ہے،مگر اجتماعی سطح اور خاص طور پر حکومتی پلیٹ فارم پر ایسااہتمام یقیناً قابلِ صد تحسین ہے۔‘‘
اسی کے ساتھ عمران نے مزید چینی تہواروں اور کہانیوں کی تفصیلات اور پس منظر سے بھی آگاہی دینی شروع کردی کہ وہ فوک کہانیوں کا بہت دل دادہ ہے۔ یقیناً اپنے چینی ساتھیوں کی اُس وقت تک جان نہیں چھوڑتا ہوگا، جب تک کسی واقعے کا کچا چٹھا تفصیلاً نہ سن لیتا ہوگا۔’’چینی قوم تہواروں میں رنگ بھرنا جانتی ہے۔ یوں بھی مختلف علاقوں کی اپنی روایات، اپنے طور طریقے ہوتے ہیں۔ پچھلے سال تو ہم چند پاکستانی بھی مدعو تھے۔ پتنگ بازی بھی ہوئی، تو ہماری تو موجیں ہوگئیں۔ سبھوں نے اپنے اپنے رانجھے راضی کیے۔
ہاں، پتنگوں سے متعلق ایک اور دل چسپ بات بھی سُننے کو ملی کہ قدیم لوگ اپنی محبّت و عشق کی کہانیاں، المیے، خواہشات اور آرزئوں کی کتھائیں ان پتنگوں ہی پر لکھ دیتے تھے،یہاں کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی تھی اور پھر یہ لوگ آسمان کی وسعتوں میں پتنگ لے جا کر ڈور کاٹ دیتے تھے،گویا انہوں نے اپنے دُکھڑے، غم سب ہوا کے حوالے کردئیے، اب وہ انہیں کہاں کہاں لے جاتی ہے، یہ ہوا جانے اور اس کا کام۔بیش تر چینی باشندے مزے دار کھانے بنانے، کھانے اور کِھلانےمیں بھی بڑی خوشی اور طمانیت محسوس کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے مواقع ڈھونڈتے ہیں۔
چینی تہذیب صدیوں پرانے کھاتے کھولتی ہے۔ قبلِ مسیح سے بھی ہزاروں سال پرانے قصّے لوگوں کو یاد ہیں۔علاقے فتح کرنا اور دوسری مملکتوں پر راج کرنا تو ہمیشہ سے انسانی فطرت کا حصّہ رہاہے۔ویسے سیکڑوں سال قبل مسیح کی بات ہو یا حال کی، انسان حرص و ہوس کے پھندوں سے کبھی باہر نکلنا نہیں۔ یہ کہانی655قبلِ مسیح کے وقتوں کی ہےکہ اگرایک طرف انسان کی وحشی جبلّت لُوٹ مار کی عکّاس ہے، تو دوسری جانب محبّت و وفاداری کے لافانی جذبوں کی بھی نمایندہ ہے۔
جن( Jin ) ریاست کے، جس کا موجودہ نام ’’شان شی‘‘( Shanxi) ہے، والی، پرنس چینگ ار( Changer)پر ہم سایہ ریاست قِن بادشاہت کے حاکم، میو نے حملہ کیا اور قبضہ کرلیا، یوں چینگار دربدر ہو گیا، نوبت فاقوں تک آگئی۔ بھوک سے مرنے لگا، تو اس کے ایک وفادار ساتھی، جی زیتوئی( Jie Zitui)نے اپنی ران کاٹ کر شہزادے چینگ ار کو سوپ کے ساتھ پیش کی۔شہزادہ ایسی بے مثال قربانی پر بے حد متاثر ہوا اور عہد کیا کہ جب وقت بدلے گا، تو حقِ خدمت ادا کرے گا۔
انیس سال بعد جب شہزادے کو تخت و تاج دوبارہ نصیب ہوا، تو وہ اپنے محسن کو بھول گیا۔پھر مہینوں بعد اسے یاد آیا، تو جی زیتوئی کی کھوج شروع ہوئی، تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ کہیں جنگلوں ہی میں رہ گیا تھا۔پھر جنگل میں اس کی تلاش شروع ہوئی، مگر وہ نہ ملا، بالآخر شہزادے کے حکم پر جنگل کو آگ لگا دی گئی کہ اس طرح جی زیتوئی جنگل سےباہر نکلےگا۔ مگر جب آگ بجھی، تو جی زیتوئی کو ایک جلے ہوئےدرخت کے تنے سے ٹیک لگائے دیکھا گیا اور اُس کے پاس ایک تحریر بھی رکھی تھی، جس پہ لکھا تھا کہ ’’شہزادے کی عُمر دراز اور مُلک میں امن و سلامتی ہو۔‘‘ شہزادے کو اپنے وفادار ساتھی اور خط کے بارے میں پتا چلا تو اُس نے وہاں ایک شان دار مقبرہ بنوا کروہاں ہر سال ایک میلےکے انعقاد کا حکم دے دیا۔‘‘ عمران نے کہانی مکمل کی تو ہمارا دل ملول ہوگیا۔ مگر سب وے کے نئے مناظر نے کچھ نئی سوچوں میں اُلجھا دیا۔
سامنے، زیرِ زمین تیز رفتار ٹرینز کے سلسلے تھے۔برقی زینوں سے اُترنے، چڑھتے خلقِ خدا کے عظیم الشّان ہجوم، پلک جھپکتے چیونٹیوں کی طرح ظاہر ہوتے اور پلک جھپکتے ہی غائب ہو جاتے۔ یہی سلسلہ ہمیں بھی دھکیل کر شہر لے آیا۔اب سب سے پہلے سعد بن ابی وقاصؓ کے مزارِ مبارک پر حاضری دینی تھی کہ باقی کام تو بعد کے تھے۔ سچّی بات ہے، اگر عمران کو چینی زبان نہ بولنی آتی، تو ہم تو یہاں اکیلے خوار ہی ہوجاتے۔ اُس نے ٹیکسی رکوائی اور Huaisheng مسجد جانے کا کہا، تو ڈرائیور نےتکونی آنکھیں گھماتے ہوئے ’’مجھے، مکمل پتا بتائو‘‘کہا، تو عمران نے موبائل اسکرین دکھاتے ہوئے کہا،
’’ Yuexiu ڈسٹرکٹ کے 901 Jiefang North Road پر جانا ہے۔‘‘تو وہ لے جانے پر رضا مند ہوا۔
ہم رِنگ روڈ کے دیو ہیکل ستونوں، اُن پر کھڑی پٹریوں کے سایوں اور بے پناہ ہجوم میں گِھری، اس شہر کی قدیم ترین مسجد کے محرابی دروازے سے اندرداخل ہوئے، جس کی پیشانی اُس مبارک نام، ’’حضرت سعد بن ابی وقاصؓ‘‘ سے چمک رہی تھی۔ محبّت و عقیدت کا ایک سمندر سینے میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ہم دونوں ماں، بیٹی دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی، مقدّس فضا اور ہریالی کے حُسن کو اپنی آنکھوں میں جذب کرتی آگے بڑھ رہی تھیں۔ جائے وضو داخلی دروازے کی قریبی جگہ پر تھی۔
پھر دھیرے دھیرے درود پڑھتے اس بارہ دَری پہنچے، جو اپنی تعمیری نوعیت کے اعتبار سے بےحد منفرد تھی۔ تاریخی کنویں کے پاس بھی گئے، جسے ایک سسٹم کے تحت گرم اور معتدل رکھا جاتا ہے۔ وہاں انگریزی اور چینی زبانوں میں تاریخ درج تھی۔ 1300سو سال پرانی تحریر کے مطابق اس کی تعمیر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ اب اس بات میں کتنی صداقت ہے، یہ ہمیں نہیں معلوم۔ ہم نے کنویں کے ساتھ بنی سبیل سے پانی پیا، نم آلود آنکھوں اور گداز دل کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔ (جاری ہے)