• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل کو ’’چِین‘‘ کا ہے سفر درپیش (تیرہویں قسط)

زندگی،رونقوں سے بھرپور ’’لائوشی ٹی ہائوس‘‘ کے چند اندرونی مناظر
زندگی،رونقوں سے بھرپور ’’لائوشی ٹی ہائوس‘‘ کے چند اندرونی مناظر 

سعدیہ نے ’’لاؤشی ٹی ہائوس‘‘ سے متعلق کچھ نہیں پوچھا، تو ہم نے بھی کوئی بات نہیں کی۔ دراصل بندہ جتنا مرضی بااختیار ہو، جوا ن اولاد کے سامنے کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت مروّت میں ضرور آجاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارا بھی تھا کہ ہم اُس وقت بیٹی کے سامنے اگلی مہم جوئی کا پٹارا نہیں کھولنا چاہتے تھے۔ جانتے جو تھے کہ ہمارے اکیلے جانے سے وہ فکر میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

لاؤشی ٹی ہاؤس، چینی فوک آرٹ کا ایسا نمایندہ گھر تھا، جہاں چینی تاریخ کے مختلف ثقافتی رنگ، جو قدامت سے جدّت کی سنہری تاروں میں بندھے تھے، اب آرٹ کی مختلف صُورتوں میں بکھرے نظر آتے تھے۔ہمارا خیال ہے، تنگ شیاؤ نے سوچا ہوگا کہ شاید ہمارے پاس اوپرا کے ٹکٹس ہیں۔ مگر ہم بھی عجیب، بونگے سے ہیں کہ اس بات کا خیال ہی نہیں رہا۔ بے چاری تنگ نے انگلی کیا پکڑائی، ہم نے تو پورا ہاتھ ہی پکڑ، بلکہ جکڑلیا۔ حالاں کہ فطرتاً ہم ہرگز اِس مزاج کے نہیں، کسی کا ٹکے برابر احسان لینے کے روادار نہیں ہوتے۔ 

گوکہ ہم نےلائوشی ٹی ہائوس کا ذکر بڑے اشتیاق بَھرے انداز میں کیا تھا کہ جیسے اُسے دیکھنے کے لیے مَرے ہی جارہے ہیں، مگر اس طرف دھیان ہی نہیں گیا کہ اتنی بڑی جگہ، چِین کے ثقافتی مرکز، بنا ٹکٹ وغیرہ کے کیسے جائیں گے اور جب جگہ اس قدر معروف ہے، تو یقیناً اس کا ٹکٹ بھی منہگا ہی ہوگا۔ حالاں کہ ٹی ہاؤس کے سامنے رُک کر جب تنگ شیاؤ آگے بڑھ گئی تھی، تب ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا کہ موبائل ہی پر اس سے بات کرکے پروگرام طے کرلینا چاہیے تھا۔ وہ بھی مروّت کے مارے چُپ رہی۔ بہرحال، اب اتنا تو ہم جان ہی گئے تھے کہ ایک تو ہم سے غلطی ہوئی ہے اور دوسرا، ٹی ہاؤس کا ٹکٹ بہت منہگا ہے،تو سوچا، اوپرا کے دو ٹکٹس منگوا کر تنگ کو ساتھ آنے کی دعوت دے دیتے ہیں۔

ہمارے داماد، عمران نے دفتر سے فون کر کے بتایا کہ ’’ٹکٹ 60 سے 380یوآن کا ہے۔60 والا بالکل پچھلی نشستوں کا، جب کہ 380 والا اگلی نشستوں کا ہے۔‘‘ یہ سُن کر ہم نے پہلے فوراً پاکستانی روپوں میں پھر ڈالرز میں ضرب، تقسیم کی۔ 380یوآن ساٹھ ڈالرز بنے،’’تو پھر ٹھیک ہے، یہی منگوا لیتے ہیں…‘‘ کہتے ہوئے عمران کو فون کیا اور دو ٹکٹس خریدنے کا کہہ دیا۔دو دن بعد قریباً چار بجے، تنگ شیاؤ اور ہم گھر سے نکل پڑے۔ تنگ اُسی طرح ہمیں میٹرو سے قیانمین اسٹریٹ لے آئی، جیسے پہلے لائی تھی۔

ویسے وہاں(ٹی ہاؤس) پہنچے تو اندازہ ہوا کہ سچّی بات یہی ہے کہ سماعتوں کو عام سا لگنے والا یہ نام’’لاؤشی ٹی ہاؤس‘‘ دراصل بیجنگ کا وزیٹنگ کارڈ ہے، جو حقیقتاً چھے قدیم بادشاہتوں کا پایۂ تخت اور بین الاقوامی میٹرو پولِس شہر کا دارالخلافہ ہے۔عجیب سی بات تھی کہ ہم ابھی چار دن پہلے ہی تو یہاں سے گزرے تھے، اندر نہیں آئے تھے تو کیا ہوا، لیکن ذرا دیر اس کے سامنے رُکے بھی تو تھے۔مگر آج کے سارے منظر یک سر نئے لگ رہےتھے۔سڑک کی چکرا دینے والی وسعتیں، جو پورے ماحول پر پھیلی ہوئی تھیں۔ عمارتوں کی ایک تناسب سے بلند قامتیں، روشنیوں کی سحر انگیزیاں، بھانت بھانت کے لوگوں کے ہجوم میں ان کی بولیاں اور چہلیں…’’واہ! کیا دل کَش مناظر ہیں۔‘‘ ہمارے منہ سے بےاختیار نکلا۔ چھوٹے بچّے بھی ماں باپ کے ساتھ ہنستے مُسکراتے خُوب مسرور نظر آرہے تھے۔

لاؤشی ٹی ہاؤس کے مرکزی دروازے کے دائیں بائیں، ڈریگن سجے تھے، جن کے قد بُت شیروں جیسے تھے اور جنہوں نے منہ بھی اُن ہی کی طرح پھاڑا ہوا تھا۔ دوسری منزل کی پیشانی بھی منہ کھولے سانپوں سے سجی تھی۔ اُف!! دیکھ کر ہی جسم میں جھرجھری سی آنے لگی۔ چند لمحےتنگ شیاؤ چُپ چاپ باہر کھڑی خاموش نظروں سے دیکھتی رہی۔ جیسے کِسی یاد میں کھو گئی ہو، پھر جیسے ہی اُسے ہماری موجودگی کا احساس ہوا، وہ واپس اِسی دنیا میں لَوٹ آئی اور ہماری طرف متوجّہ ہوگئی۔ 

دراصل ہم وہاں کھڑی ایک چینی خاتون سے باتیں کرنے لگے تھے،جو بہت اچھی انگریزی بول رہی تھی، اس نے ہمیں بتایا کہ ’’تم آرٹ کی کیسی بے مثال دنیا دیکھنے والی ہو، اس کا ابھی تمہیں اندازہ بھی نہیں کہ پرانے بیجنگ کے حقیقی کلچر کی روح دیکھنے اور اس کی خُوش بُو محسوس کرنے کے لیے اِس عمارت کے اندر جانا کتنا ضروری ہے، جہاں فوک آرٹ،میجک شوز،اوپرا اورفوک موسیقی کے ذریعے پرانے ادوار کی لائیو تصویر کشی کی جاتی ہے۔‘‘ یہ سب بتاتے ہوئے اس عورت کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ اسی وقت تنگ جیسے چونک کر پلٹی، ہمارا ہاتھ پکڑا، کھینچا اور دائیں کان میں سرگوشی کے سے انداز میں بولی۔’’کِسی کے جھانسے میں نہیں آئیے گا۔ یہاں اجنبیوں کو پھنسایا بھی جاتا ہے، گھنٹوں میں اُن کی جیبیں خالی ہوجاتی ہیں۔‘‘

  
زندگی، رونقوں سے بھرپور ’’لائوشی ٹی ہائوس‘‘ کے چند اندرونی مناظر
زندگی، رونقوں سے بھرپور ’’لائوشی ٹی ہائوس‘‘ کے چند اندرونی مناظر

اُف اندر کی تو دنیا ہی ایک دَم رنگ رنگیلی، دل موہ لینے والی تھی۔ رنگوں کی شوخیاں، دیواروں کی انوکھی، نرالی وضع قطع، مربع نما میزوں کے گِرد سجی کرسیاں اور بیک ریسٹ، سب جیسے بولتے، باتیں کرتے تھے۔ چھت کی طرف گردن کیا اُٹھی، آنکھیں ہی پھیل گئیں۔ ایسی نقش نگاری کہ بندہ تکتا ہی چلا جائے۔ جگہ جگہ سُرخ رنگ کی لالٹینیں لٹک رہی تھیں۔ اللہ کی مخلوق کے نئے نئے رنگ اور نئی نئی آوازیں۔ شور،کیلی گرافی اور پینٹنگز کے نمونے دیواروں پر لٹکے تھے۔ چوبی کھڑکیاں اپنی منفرد ساخت کے سبب توجّہ کھینچ رہی تھیں اور، شو کیسز میں دَھری چیزوں کو تفصیلاً دیکھنا بھی کہاں آسان تھا۔

فرنیچر کسی اعلیٰ لکڑی کا تھا، جس پر ہوئی پالش نے اُسے بےحد چمکایا ہوا تھا۔ہمارے ایک ایک سوال کا جواب تنگ شیاؤ نے بڑے ہی خُوب صُورت انداز میں دیا۔ ہمیں تو لگ رہا تھا، جیسے کسی نگار خانے میں داخل ہوگئے ہیں۔ ویٹرز کے ملبوسات کی بھی عجب شان تھی۔ مَردوں نے لمبے گائون، جب کہ ویٹریسز نے خُوب صورت چُست گُھٹنوں تک لمبائی کی شکل میں کھڑے کالرز والی قمیصیں پہن رکھی تھیں، جنہیں چینی زبان میں Cheongsam یا Qipaoکہتے ہیں۔یہ چین کا پرانا روایتی لباس ہے۔ بس، جدید زمانے نے اس کی لمبائی ذرا کم اور کشادگی ذرا سکیڑ دی ہے۔

لائوشی ٹی ہائوس 1988ءمیں قائم ہوا۔’’ٹی ہائوس ‘‘بنانا لاؤشی کا شہرۂ آفاق کام ہے، جسے بہترین کلاسیک کا درجہ دیا گیا کہ اس نے باہر کی دنیا میں عام چینیوں کی، جو گلی کُوچوں کے باسی تھے، جدّوجہد کی طویل کہانی کو جس جس انداز میں پیش کیا، اُس نے نہ صرف اُسے شہرت دی، بلکہ وہ باہر کی دنیا میں بھی شناخت کا باعث بنا۔ تنگ شیاؤ نے ہمارا انہماک، حیرت و تعجب دیکھتے ہوئے دفعتاًپوچھا۔ ’’کیا آپ لائوشی کا اصلی گھر دیکھنا چاہتی ہیں؟‘‘ ’’ہاں، ہاں…!! بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔‘‘ ہماری آواز شوق و اشتیاق میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ’’تو کسی دن وہاں بھی چلیں گے۔ اس کے استعمال کی سبھی چیزیں محفوظ کردی گئی ہیں، بلکہ وہ تو اب تاریخی جگہ بن چُکی ہے۔ یہیں فاربڈن سٹی کے پاس ہی ایک ہوٹانگ میں ہے۔‘‘ تنگ شیاؤ نے بتایا۔ ’’تنگ! اللہ تمہیں لمبی حیاتی دے۔ تمہارا مجھے ملنا، میرے ربّ کا احسانِ عظیم ہے۔‘‘ہم نے اسے دُعا دی۔

گراؤنڈ فلور روایتی عام لوگوں کے کلچر اور طور طریقوں کی نمایندگی کر رہا تھا، جس میں لباس اور کھانے پینے کے طور طریقے سبھی شامل ہیں۔ تنگ اوپر جانے کا کہہ رہی تھی۔اوپر جانے کی سیڑھیاں بہت آرام دہ، کشادہ، خُوب صُورت ریلنگز اور آرایشی پھول پتیوں سے دمکتی ہوئی تھیں، جن کے پوڈے سُرخ قالین سے ڈھکےہوئے بےحد دل کش لگ رہے تھے۔ ریلنگ پر اپنے ہاتھوں کی مضبوط گرفت نے ہماری چڑھائی بہت آرام دہ بنا دی۔ سیڑھیوں کے پہلے پڑائو پر جو مجسّمے دھرے تھے، ان میں سے کچھ کی صُورتیں بڑی عجیب و غریب سی تھیں۔ 

دیواروں پر سانپوں کی موجودگی اس رنگ رنگیلی دنیا میں جیسے ’’کھانے میں روڑ(پتّھر) آجائے‘‘ والی بات محسوس ہورہی تھی۔ دوسرے فلور پر ٹی رومز تھے، جنہیں چائے کا ’’نمایشی گھر‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ تنگ نے کہا،’’اِسے دھیان سے دیکھیے گا۔یہ اپنی منفرد آرایش کے اعتبار سےخصوصی شہرت رکھتا ہے۔چھوٹے چھوٹے بوتھس، جہاں چار بندے آرام سے بیٹھ کر چائے بنانے کا سارا عمل مسرت و شوق سے دیکھتے اور چائے نوش کرتے ہیں۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ چائے پینے کا یہ تجربہ اور ٹی ہاؤس کے ماحول سے لُطف اُٹھانا ایک میوزیم ہی کی طرح ہے۔’’لائٹ لیمپس کی جدّت بڑی کشش رکھتی ہے۔یہ بڑے منہگے کمرے ہیں۔‘‘ تنگ شیاؤ نے پھر بتایا۔ ’’یہاں برتنوں کی خُوب صُورتی، لائٹ لیمپس کی جدّت، منفرد سی چوبی کرسیوں، میزوں، دل کش میزبانوں کی مسکراہٹوں،ادائوں اور سحر انگیزیوں سے گاہکوں کو لُوٹا بھی جاتا ہے، وگرنہ چائے کی پتّی تو عام سی ہوتی ہے۔ بس سیّاحوں نے پیسا لُٹانا ہوتا ہے، سو وہ شوق سے لُٹاتے ہیں۔یہاں تک کہ لوکل اسنیکس تک بہت منہگے ملتے ہیں۔‘‘ تنگ شیاؤ نےمعلومات میں مزیداضافہ کیا۔

عمارتوں سے گِھرا ایک کُھلا آنگن،اُس فلور کی زینت تھا۔یہاں خُوب صُورت ماڈرن سا ریسٹورنٹ تھا، جس کی اعلیٰ آرایش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی کہ شاہی ثقافت کے رنگوں کا آمیزہ بھی اس میں ملادیا گیا تھا۔اب بھلا وہ جگہ دیکھنا، وہاں کچھ دیر رُکنا اور ان سب سربراہانِ مملکت کے (جو یہاں آئے، اسے دیکھا اور سراہا) ناموں کو پڑھنا، ان کی تصاویر دیکھنا کس قدر دل چسپ تھا، یہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔اس مرکزی جگہ کی آرایش پُروقار طریقے سے کی گئی تھی۔ اور…مرکزی ہال کا تو کیا ہی رومانی ماحول تھا۔ وسیع و عریض ہال، جہاں میزوں پر کھانے پینے کی چیزیں دھری، تو اطراف میں کرسیاں سجی تھیں، ایک اپنائیت سے بھرپور ماحول، جس کی نشستوں کا اہتمام کچھ اِس انداز سے کیا گیا تھا کہ اسٹیج سے بظاہر دُوری بھی نہ محسوس ہو۔ 

یہ اور بات ہے کہ آگے بیٹھے، تو احساس ہوا کہ ’’واقعی! اگلی نشستوں کا تو مزہ ہی کچھ اور ہے‘‘حالاں کہ اندر داخل ہوتے ہوئے ہمیں ایسا محسوس نہیں ہوا تھا، چوبی اسٹیج کی ساخت اور خوب صورتی کِس درجہ کمال کی تھی کہ الفاظ کا پیرہن کیا پہنائیں اور کچھ ایسا ہی حال کرسیوں، میزوں اور ملحقہ چوبی حد بندیوں کا بھی تھا۔ جہاں تک نظر جاتی، حیرتوں کا ایک جہاں سمیٹ کر لاتی۔ وہاں جاکر ہمیں ایک بات کا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ دنیا کا کوئی اوپرا، بیجنگ اوپرا کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ سر سے پیر تک ہر ہر لمحہ اداکاری میں گُندھا ہوا ہے۔ یہاں گانے بجانے، پڑھنے، لکھنے، ڈانس کرنے، مزاح، بازی گری، مارشل آرٹ، نقّالی، جسمانی حرکات سے تاثر انگیزی اداکاری سے کہانیاں بیان کرنے کی تیکنیک، چائے کے ادب آداب اور موسیقی کے تیز ٹیمپو جیسے دلآویز فنون میں سے کون سا اظہاریہ تھا، جو موجود نہیں تھا۔ خوشی، غم،دُکھ، مصیبت ،ناراضی، خوف، حیرت، اداسی، فکر، تعجب، رونا ہنسنا سب ہی کچھ تو تھا یہاں۔

تین ایکٹ کا یہ ڈراما، جس کا پہلا حصّہ 1898ء کے اُس دَور کا عکّاس تھا، جب چِین ایک بہت کم زور ریاست تھا، جس کی بدامنی میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا اہم کردار تھا۔غربت بے حد و حساب، اتنی کہ لوگ اپنے بچّے بیچنے پر مجبور تھے۔ کہیں صنعتوں کے قیام کی کوششیں کہ مُلک کو خوش حال بنانے کا یہی واحد ذریعہ تھیں، لوگوں کی اُمیدیں، کریک ڈائونز، پولیس کا بہت طاقت وَر ہونا،ظلم و ستم کی کہانیاں…ایکٹ نمبر دو، بیس برس بعد کی کہانی سُناتا ہے۔ بادشاہت کے خاتمے کے ساتھ ری پبلک دَورِ حکومت،سوِل وار، انقلاب کی آواز اور طلبہ کے قومی سیاست میں بھرپور اور توانا کردار کی جھلکیاں پیش کر رہا تھا، تو تیسرے ایکٹ میں اگلے تیس سال کے حالات کا احاطہ کیا گیا۔

جاپانیوں کے ساتھ جنگ، سیاسی حالات کی مزید ابتری وغیرہ وغیرہ۔ڈراما نگار نے اس ٹی ہاؤس میں تینوں ادوار کے طویل دورانیے کو ساٹھ کرداروں کے ساتھ ایک اوپرا میں جس طرح سمویا اور بیجنگ کے ہر طبقۂ فکر کی نمایندگی کا مشکل کردار ادا کیا تھا، اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ہر ایکٹ نے اپنے عہد کے واقعات کی بھرپور عکّاسی کی۔ ہر عہد کو کاسٹیومز، جسمانی خدّوخال اور مکالمے کے اظہاریے سے اتنا طاقت وَر اور جان دار بنادیا گیا کہ وہ نمایندہ شاہ کار نظر آیا۔

قِن سلطنت کے روایتی طریقے بہت دل کش تھے۔شرافت کا بلند ترین مقام کہ جہاں گُھٹنوں کے بَل جُھک کر آداب کہنا کلچر کا حصّہ تھا، مگر دوسرے دانش وَروں اور فن کاروں کی طرح لائو کو بھی ریڈگارڈ کے ظلم و ستم سہنا پڑے۔ یہاں تک کہ تنگ آکر وہ خودکُشی پر مجبور ہوگیا۔لائوشی کی کہانی بھی تنگ شیاؤ سے کسی دن سُننی تھی۔سچ تو یہ ہے کہ تاریخ کا یہ پچاس سالہ دَور، جو ایک پُرآشوب تاریخ سے بَھرا ہوا ہے، بندے کو اپنی گرفت میں جکڑنے کے لیے کافی ہے۔ اور ہم نے سارے منظر یوں دیکھے کہ حیرت سے اُبلتی آنکھیں، جیسے پلکیں جھپکنا بھولے بیٹھی تھیں۔ پلّے کچھ نہ پڑنے کے باوجود، بہت کچھ سمجھ آرہا تھا۔ پھر تنگ شیاؤ بھی مدھم آواز میں وضاحت کرتی جا رہی تھی، مگر کیا لاجواب اداکاری تھی۔ اسٹیج سے فضائوں میں اُچھل کود تو کوئی بات ہی نہ تھی، چائے کے مزے سے کیا لُطف اندوز ہوتے، اس کے ذائقے اور دیگر تفصیلات کیا دیکھتے کہ اُس پَل ذہن حاضر تھا اور نہ ہی دل۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید