بات چیت: رؤف ظفر،لاہور
پاکستان میں زوال پذیر فنِ خطّاطی کو سہارا دینے میں جو افراد اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اُن میں ایک نمایاں نام، شاہ قلم، استاد عرفان احمد خان کا بھی ہے۔ وہ 11 سال کی عُمر میں اِس فن سے وابستہ ہوئے، کئی اخبارات و جرائد میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دِکھاتے رہے، بعدازاں تدریس کی جانب آگئے اور اب گزشتہ 40 برسوں سے طلباء و طالبات کو فنِ خطّاطی کے اسرار و رموز سے آگاہ کر رہے ہیں۔
خطّاطی میں ایران کا سب سے بڑا اعزاز’’فردوسی ایوارڈ‘‘ جیتنے کے علاوہ اب تک60 سے زاید ایوارڈز حاصل کرچُکے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُن کی زندگی کی سرگزشت اور فنِ خطّاطی پر تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ نشست کا احوال’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کے لیے پیش ہے۔
معروف خطّاط،’’ فردوسی گولڈ میڈل‘‘حاصل کرنے والے واحد پاکستانی ، عرفان احمد خان سے دل چسپ، فکر انگیز بات چیت
س: سب سے پہلے تو قارئین کی دل چسپی کے لیے فنِ خطّاطی کے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: دیکھیں جی، خطّاطی اور خوش نویسی کی سادہ ترین تعریف تو یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی تحریر یا خط، جسے دیکھ کر انسان کی زبان سے بے ساختہ ستائشی کلمات نکلیں، اُسے خطّاطی اور خوش نویسی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔حسین، سحر انگیز مناظرِ فطرت دیکھ کر دل بے ساختہ رب کی حمدو ثنا کرنے لگتا ہے۔
اِسی طرح انسانی خطّاطی بھی خُوب صُورتی و دل آویزی کا حَسین مرقّع ہے، اسے انسانیت کا وَرثہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں گزریں یا اب موجود ہیں، اُن کے اپنے اپنے اسکرپٹس میں خطّاطی کے نمونے، اُن کی ثقافت اور تہذیب کے علم بردار مانے جاتے ہیں۔ یہ وہ فن ہے، جو قدیم ترین غاروں سے لے کر عہدِ حاضر کے خطّاطی کے فن پاروں تک محیط ہے۔
بعض روایات کے مطابق، خطّاطی کی ابتدا حضرت ادریسؑ سے ہوئی اور سب سے پہلی لکھی جانے والی تحریر’’بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم‘‘ تھی۔ بعدازاں، یہ فن نبیوں، صوفیوں اور بادشاہوں سے ہوتا ہوا عہدِ حاضر کے خوش نویسوں تک پہنچا۔ قرآنِ حکیم کا نزول ہوا، تو خطّاطی کو نئی وسعتیں، جہتیں اور نئے جہانِ رنگ و بُو عطا ہوئے۔
پھر جُوں جُوں اسلامی تہذیب میں وسعت آتی گئی، خطّاطی کا فن بھی کسی بھینی خُوش بُو کی طرح دنیا کو معطّر کرتا چلا گیا۔ سعودی عرب، ایران، ملائیشیا، شام، عراق، مِصر، لبنان اور دوسرے ممالک میں آیاتِ قرآنی، اسمائے الٰہی اور صوفیائے کرام کے اقوالِ زرّیں پر مبنی خطّاطی کے نمونوں نے پوری دنیا کی توجّہ اپنی طرف مبذول کروا لی۔
جہاں تک برّ ِصغیر پاک و ہند کا تعلق ہے،تو مغلوں نے اِس فن کی خُوب آب یاری کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد کے نام وَر خطّاطوں میں عبدالمجید پروین رقم (خطّاطِ مشرق)، تاج الدّین زریں رقم، محمّد صدیق الماس رقم، خطّاط العصر، صوفی خورشید عالم، محمّد یوسف دہلوی، حافظ محمّد یوسف سدیدی کے علاوہ دیگر خطّاط شامل ہیں۔ محمّد یوسف سدیدی کے کئی فن پارے اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں آویزاں ہیں۔
پھر بے شمار گم نام اور معروف خطّاطوں نے بھی قرآنِ حکیم کو مختلف دل آویز خطوں میں کتابت کر کے تسکینِ قلب کا سامان فراہم کیا،جب کہ دورِ حاضر کے قابلِ ذکر خطّاطوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ تاہم، جو زیادہ نمایاں ہیں، اُن میں محمّد حنیف رامے، صادقین، گل جی، خورشید رقم، شریف گل زار اور دیگر شامل ہیں۔
س: ایک ایسے دَور میں جب کمپیوٹر کمپوزنگ میں بھی سیکڑوں جدّتیں آگئی ہیں، کیا خطّاطی یا خوش نویسی کی اہمیت کم نہیں ہوگئی؟
ج: انسانیت کے ارتقا میں کیلی گرافی (خطّاطی) کا اہم کردار ہے۔ پرنٹنگ پریس 14 ویں صدی میں ایجاد ہوا، اُس سے پہلے کے تمام انسانی علوم خطّاطوں، خوش نویسوں اور کاتبوں ہی کے ذریعے انسانیت تک پہنچے اور یہ خطّاطوں کا وہ عظیم کارنامہ ہے، جسے تاریخِ انسانی کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ پھر مشینی کتابت یعنی کمپیوٹر کمپوزنگ کا دَور آگیا۔ بلاشبہ اس سے کام کی رفتار تیز ہوئی، لیکن مشینی کتابت اور انسانی ہاتھوں کی کتابت میں وہی فرق ہے، جو روبوٹ اورانسان میں ہے۔ کاتب جو نمونہ تخلیق کرتا ہے، وہ انسانی فکر، جذبات واحساسات اور اُس کے ہُنر کا حَسین مرقّع ہوتا ہے۔
اُس کے تخلیق کردہ الفاظ کے پیچ و خم میں فطری حُسن، خُوب صُورتی، دِل کشی کے تمام رنگ قوسِ قزح کی طرح نظر آتے ہیں۔ اور پھر خطّاطی کے لیے اِس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے کہ خانۂ کعبہ کا غلاف بھی سونے کے تاروں سے کی گئی خطّاطی سے مزیّن ہے۔ ہاتھ سے تحریر کردہ قرآنی آیات، اسمائے الٰہی اور صوفیاء کرام کے کلام پر مبنی شہ پارے اَن مول ہوتے ہیں، جب کہ کمپیوٹر کمپوزنگ کی حیثیت درحقیقت ایک فوٹو کاپی شیٹ سے زیادہ نہیں، جس کی چند روپے دے کر جتنی مرضی فوٹو اسٹیٹ کاپیز نکلوالیں۔ خطّاطی کے نمونے تخلیق کار کی کاری گری، محنت، لگن، محبّت، صبرو تحمّل کا مظہر ہوتے ہیں اور قدر دان اُنھیں لاکھوں روپے میں خریدتے ہیں۔
س: 11 سال کی عُمر میں خطّاطی بطور پیشہ اختیار کی، یہ تو کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں؟
ج: مَیں 20دسمبر 1947ء کو مانسہرہ (ایبٹ آباد) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔5 بہن، بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ والد صاحب، ارسلا خان کی زندگی کا بیش تر حصّہ بطور پولیس اہل کار ملائیشیا میں گزرا۔ وہاں سے واپس آئے،تو لاہور میں قسمت آزمائی کا سوچا۔ مَیں دو سال کا تھا، جب ہم مِصری شاہ کے ایک انتہائی گنجان آباد محلّے کی ایک خستہ حال حویلی کے دو کمروں میں رہنے لگے۔ اس حویلی میں چار کرائے دار پہلے ہی رہتے تھے۔ یہاں والد صاحب کا کاروبار نہ چلا،تو وہ دل برداشتہ ہو کر والدہ صاحبہ کے ساتھ واپس گائوں چلے گئے۔ مَیں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔
والدین نے بہت زور لگایا کہ مَیں بھی گاؤں چل کر کھیتی باڑی کروں، لیکن مَیں پڑھنا چاہتا تھا، اِس لیے انکار کردیا۔ مَیں نے چوتھی، پانچویں جماعت ہی میں تختی پر حروفِ تہجّی کی مشق شروع کردی تھی۔ میرے لکھے ہوئے حروف میں ایک فطری حُسن اور توازن موجود تھا، تو میرے استاد، محمّد حسین عادل نے میری یہ خدا داد صلاحیت بھانپ لی۔ وہ شام کو مجھے گھر بُلا کر تختی پر مشق کروانے لگے۔ پرائمری پاس کرنے تک مَیں خطّاطی میں خاصا رواں ہو چکا تھا۔ والدین تو واپس چلے گئے، تاہم میری رفاقت کے لیے بڑے بھائی محمّد عالم خان لاہور رہ گئے۔
یوں ہم دونوں کم عُمر بھائی، والدین کے بغیر رہنے لگے۔ ہم اکثر محلّے کے فقیری تندور سے کھانا کھاتے، جہاں دال کے ساتھ روٹی مفت ملا کرتی۔ ہماری زندگی بے آسرا لڑکوں کی سی تھی، لیکن اسی اکیلے پن نے خود اعتمادی اور حالات سے لڑنے کی ہمّت سے مالا مال کیا۔ بہرحال، جب پرائمری پاس کرلی، تو میرے پاس سرٹیفیکیٹ لینے کے لیے دو روپے تک نہیں تھے۔ ماسٹر عنایت اللہ نے بڑی مشکل سے گھر ڈھونڈ کر سرٹیفیکیٹ دیا۔ اب چَھٹی جماعت میں داخلے کا مسئلہ تھا، میرے تمام دوست ہائی اسکول میں داخل ہوگئے، لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے۔
مَیں روزانہ صبح سویرے اسکول کے باہر کھڑا ہو جاتا اور دوستوں کو اندر جاتے حسرت سے دیکھتا اور چُھٹی کے وقت باہر ہی سے دوستوں کے ساتھ واپس گھر آجاتا، جہاں دلاسا دینے کے لیے والدہ تھیں اور نہ ہی والد۔ ایک دن اسکول کے باہر کھڑا تھا کہ ہمارے محلّے کے استاد، ماسٹر طفیل صاحب نے پوچھا ’’یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘مَیں نے بتایا کہ ’’مَیں پڑھنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے اسکول میں داخل کروانے والا کوئی نہیں ہے ۔‘‘وہ مجھے ہیڈ ماسٹر، محمّد حسین عادلی کے پاس لے گئے۔
اُنہوں نے فوراً مجھے داخلہ دیا اور فیس بھی معاف کردی۔ مَیں ساتویں میں تھا، عُمر یہی کوئی گیارہ، بارہ سال تھی، پڑھنے کا جنون تھا، فیس بھی معاف تھی، لیکن گھر میں کتابیں، کاپیاں اور پنسلیں نہیں تھیں، گھر کا واحد سرمایہ تختی اور قلم، دوات تھی، جن کی بدولت خُوب صُورت الفاظ لکھنے کی عادت ختم نہیں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے مجھے خوش نویسی کے جوہر سے نوازا تھا اور اسے جِلا بخشنے کا راستہ اِس طرح نکل آیا کہ محلّے میں ایک خوش نویس مشتاق صاحب رہتے تھے۔ اُنہوں نے میری خوش خطی دیکھ کر مجھے اخبار’’ آزاد‘‘ میں آنے کا مشورہ دیا۔ وہاں میرا ٹیسٹ ہوا اور مجھے خوش نویس رکھ لیا گیا۔ یوں گیارہ، بارہ سال کی عُمر میں، مَیں نے لاہور کے رائل پارک سے نکلنے والے اخبار’’آزاد‘‘ میں بطور خوش نویس نوکری کرلی۔ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔مَیں اسکول سے فارغ ہو کر ڈیوٹی پر چلا جاتا۔
شیخ حسّام الدّین اخبار کے مالک تھے، تن خواہ 30 روپے مقرّر ہوئی، جو قسطوں میں ملتی۔ مَیں شاید اُس وقت خوش نویسی کی دنیا کا سب سے کم عُمر خوش نویس تھا۔ ایک بار چار ماہ کی اکٹھی تن خواہ 120 روپے ملی، تو مجھے یقین نہ آیا۔ نوٹوں کو بار بار گنتا اورآنکھیں مَلتا۔ اُس رقم سے والدہ کے لیے گرم چادر لی اور لے کر خود اُن کے پاس گیا، تو اُنہوں نے روتے ہوئے مجھے بے شمار دُعائیں دیں۔
چھے ماہ بعد میرا کام دیکھتے ہوئے تن خواہ60 روپے کردی گئی۔ میری عُمر اُس وقت بھی اِتنی کم تھی کہ ڈیوٹی میں وقفے کے دَوران جب کھانا لینے رائل پارک آتا، تو بندر کا تماشا دیکھنے میں مشغول ہوکر ڈیوٹی بھول جاتا،جس پر شعبے کے انچارج، مولوی محمّد افضل مجھے پکڑ کر اوپر لے جاتے اور کہتے ’’بیٹا! پہلے کام مکمل کرلو، تماشا دیکھنے کے لیے عُمر پڑی ہے۔‘‘
س: نوعُمری میں خوش نویسی کی دنیا کیسی لگی؟
ج: مَیں سمجھتا ہوں، زندگی کی آزمائشیں ہی انسان کو کندن بناتی ہیں۔ وقت کے ساتھ اِس بات پر یقین بڑھتا چلا گیا کہ اگر انسان ہمّت نہ ہارے، تو اللہ تعالیٰ راستے بناتا چلا جاتا ہے۔ اکتوبر 1959ء میں پشاور کے اخبار ’’بانگِ حرم‘‘ میں ٹیسٹ پاس کر کے خوش نویسی کی ملازمت حاصل کی، لیکن ایک سال بعد دبارہ لاہور آگیا، جہاں ’’ہلالِ پاکستان‘‘ میں ملازمت میری منتظر تھی اور تن خواہ بھی100 روپے مقرّر کی گئی تھی، جو بعدازاں میرا کام دیکھتے ہوئے 200روپے کر دی گئی۔
عنایت اللہ صاحب نے روزنامہ ’’کوہستان‘‘ سے تنازعے کے بعد اقبال زبیری، ضیاء الاسلام انصاری، شریف گل زار(ہیڈ کاتب) اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لاہور سے روزنامہ مشرق کا اجرا کیا، تو مَیں بھی اُس سے بطور خوش نویس منسلک ہوگیا۔ صدر ایّوب خان نے اُسے نیشنل پریس ٹرسٹ میں شامل کرلیا، لیکن سرکاری ہونے کے باوجود ایک عرصے تک اپنی آرائش و زیبائش اور صحافت میں جدید رجحانات متعارف کروانے کے سبب اس کی مقبولیت میں کمی نہ آسکی۔
س: روزنامہ’’مشرق‘‘ جہاں آپ نے 33 سال بطور ہیڈ لائن رائٹر (خطّاطِ اعلیٰ) ملازمت کی، کیا اُس عرصے کو خوش نویسی کا سنہری دَور کہا جاسکتا ہے؟
ج: جی ایسا ہی ہے۔ یہ میرا ہی نہیں، کیلی گرافی کے لیے بھی ایک سنہری دَور تھا، جب پاکستان کے تمام اردو اخبارات، رسائل اور بُک پبلشنگ سے خوش نویسوں کی ایک فوج ظفر موج وابستہ تھی۔ یہ پیشہ باعزّت اور WELL PAID تھا۔ اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دس، پندرہ سال بعد کمپیوٹر کے ذریعے کمپوزنگ، خطّاطی کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گی۔ ہیڈ لائن رائٹرز کی زیادہ اہمیت تھی، کیوں کہ یہی شہ سُرخیاں قارئین کے دل و دماغ میں طوفان برپا کرتی تھیں۔
نام وَر خوش نویسوں کا طوطی بول رہا تھا۔ مَیں اسٹائلش سُرخیاں لکھنے کے لیے مشہور تھا۔تاہم، میری زندگی کا زرّیں دَور وہ تھا، جب مَیں نے دَورانِ ملازمت اپنی تعلیم مکمل کی۔چوں کہ میرا تعلیمی سلسلہ آٹھویں جماعت میں ٹوٹ گیا تھا، اِس لیے کئی برسوں کے وقفے کے بعد میٹرک کیا اور پھر دیگر مراحل طے کرتے ہوئے 1992ء میں ایم اے پنجابی، اوّل پوزیشن سے پاس کرلیا۔’’ مشرق‘‘ ہی کے تحت کراچی سے ہفت روزہ’’ اخبارِ خواتین‘‘ نکلا، تو اُس کی لوح اور سُرخیاں مَیں نے ہی بنائیں۔
اس دَوران 7 مارچ 1969ء کو میری شادی ہوگئی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک انقلابی موڑ اُس وقت آیا، جب میری سُرخیاں دیکھ کر نیشنل کالج آف آرٹس کے معروف استاد، کولن ڈیوڈ ہمارے چیف ایڈیٹر، اقبال زبیری کے پاس آئے اور اسلام آباد میں قومی سطح پر ہونے والے ایک بہت بڑے قومی میلے کے لیے میری خدمات کی درخواست کی۔
مَیں نے وہاں کئی دن تک کورین اور دیگر آرٹسٹس کے ساتھ مل کر اردو خطّاطی کے قدّ ِ آدم پوسٹرز تیار کیے۔ اُس کے بعد مجھے پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں بطور استاد خطّاطی پڑھانے کی آفر ہوئی، تو مَیں نے تدریس کی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا۔ بعدازاں، نیشنل کالج آف آرٹس اور لاہور کالج فار ویمن یونی ورسٹی میں (2004ء سے تاحال) خطّاطی کی تدریس جاری ہے۔
مجموعی طور پر30 سالہ درس و تدریس کے دوران لاکھوں طلباء و طالبات کو اس فن سے آراستہ کیا، جو آج پورے مُلک میں پھیلے ہوئے ہیں۔1983ء میں لندن گیا، جہاں ایک اخبار کی پیشانی اور سُرخیاں لکھیں۔ ایک سال بعد واپسی ہوئی۔تعلیم کی کمی کے سبب احساسِ محرومی کا شکار رہا تھا، جس کا ازالہ تین بیٹوں اور4 بیٹیوں کو اعلیٰ ترین تعلیم دِلوا کر کیا۔ سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں، ایک بیٹا لندن کی ایک یونی ورسٹی میں پروفیسر ہے، دوسرا کینیڈا میں آئی ٹی پروفیشنل ہے اور تیسرا ایک ٹیکسٹائل گروپ کا چیف ہے۔ بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ والد 1955ء میں فوت ہوگئے تھے، جب کہ 1992ء میں والدہ بھی چل بسیں۔
س: زمانہ تیزی سے ترقّی کررہا ہے، خوش نویس جو کام گھنٹوں میں نمٹایا کرتے تھے، وہ اب کمپیوٹر کمپوزنگ سے مِنٹوں میں ہو جاتا ہے۔گویا کمپیوٹر نے خطّاطی کو ناک آئوٹ کردیا ہے، تو اب اس جدید دور میں فنِ خطّاطی کو کیسے زندہ رکھا جاسکتا ہے؟
ج: خطّاطی کا فن اسلامی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔خطّاطی، دنیا کی عظیم ترین کتاب،قرآنِ حکیم کی آیاتِ مبارکہ، اسمائے الٰہی، صوفیائے کرام اور علّامہ اقبال جیسے قومی شعراء کے کلام خُوب صُورت الفاظ کے پیچ و خم میں سموئے دیکھنے والوں کی نگاہ ہی نہیں، دل و دماغ بھی مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اگر پکاسو کی کوئی تصویر یا مناظرِ فطرت کی کوئی پینٹنگ دیکھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ سکتی ہے، تو قرآنی آیت کا کوئی نمونہ، اسمائے الٰہی کا کوئی ٹکڑا یا کسی صوفی شاعر کا کوئی شعر، جو خطّاطی کے خُوب صُورت پیرہن میں لپٹا ہو، کیسے کسی حُسنِ ذوق کے حامل قاری کی نگاہوں سے اوجھل رہ سکتا ہے۔
اِس لیے جب تک فنونِ لطیفہ کے چاہنے والے موجود ہیں، خطّاطی کے یہ دل کش نمونے بھی ہمارے گھروں، عمارتوں اور سب سے بڑھ کر دِلوں میں بستے رہیں گے۔ البتہ، جہاں تک فنِ کتابت کا تعلق ہے، جدید ٹیکنالوجی نے زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق اس پر غلبہ حاصل کرنا ہی تھا، لیکن یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ کمپیوٹر کمپوزنگ میں استعمال ہونے والے تمام فونٹس اور الفاظ اِنہی کیلی گرافرز کے تخلیق کردہ ہیں۔
س: اِن حوصلہ شکن حالات میں آپ نے اِس فن کو زندہ رکھنے کے لیے جو کچھ کیا، اُس کے نتائج کیا نکلے؟
ج: 1997ء میں پاکستان کیلی گراف آرٹسٹ گلڈ کا قیام اِس سلسلے کی پہلی منظّم کوشش تھی، جس کا دائرہ رفتہ رفتہ اب پورے پاکستان میں پھیل چُکا ہے۔ مَیں اس تنظیم کا بانی رُکن ہوں۔ اس کا بنیادی مقصد خالص اسلامی فن اور خطّاطی جیسے قومی وَرثے کی حفاظت کرنا ہے۔ اِس گلڈ کے زیرِ اہتمام لاہور کے نام وَر خطّاطوں نے داتا دربار پرخطّاطی کی، جس میں سے80 فی صد خطّاطی میرے برش اور قلم کا نتیجہ ہے۔ حکومت کی طرف سے مجھے30 لاکھ روپے کی پیش کش کی گئی، جو مَیں نے قبول نہیں کی۔مجھے اِس خدمت کے سلسلے میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم، نواز شریف نے ایک تقریب میں ’’الہجویری تمغہ‘‘ دیا۔
یہاں گلڈ نے خطّاطی کی فِری کلاسز شروع کیں، جو اب بھی جاری ہیں۔ ہم نے الحمرا آرٹس کاؤنسل، قذافی اسٹیڈیم میں بھی فِری کلاسز کا اجراء کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوش ہوتی ہے کہ اب لاہور کالج ویمن یونی ورسٹی، فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونی ورسٹی اور دیگر کئی نجی تعلیمی اداروں میں خطّاطی کی کلاسز ہو رہی ہیں۔ نوجوانوں کی گہری دل چسپی اور ذوق و شوق دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان اِس عظیم اسلامی وَرثے سے، جو پاکستان کی پہچان بھی ہے، والہانہ محبّت کرتے ہیں اور یقین جانیے، مجھے اُن کے اندر چُھپا ٹیلنٹ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔ مُلک میں ہونے والی خطّاطی کی نمائشوں میں قرآنِ حکیم کی آیات اور اسمائے الٰہی پر مبنی اِن نوجوانوں کی خطّاطی ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ خطّاطی کے اسرار و رموز اور اس کی قوسِ قزح کی طرح خُوب صُورت جہات اُجاگر کرنے کے لیے قرآنی آیات کا بے بہا خزانہ تاقیامت ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
س: آپ کو فنونِ لطیفہ میں کوئی ایوارڈ وغیرہ بھی ملا ؟
ج: یوں تو سعودی عرب، ایران، عراق، مِصر، شام، لبنان اور بھارت میں ہونے والی خطّاطی کی 20 سے زائد بین الاقوامی نمائشوں میں شرکت کر کے 60 سے زاید ایوارڈز، میڈلز اور سرٹیفیکیٹس لے چُکا ہوں،لیکن 2001ء میں تہران میں ہونے والی خطّاطی کی بین الاقوامی نمائش میں پاکستان کی نمائندگی کی اور’’فردوسی گولڈ میڈل‘‘ کی صُورت پہلا انعام حاصل کیا۔ مَیں یہ میڈل حاصل کرنے والا پہلا غیر مُلکی تھا۔
اس پر ایران کے معروف خطّاط، علی رضا کداکدائی نے مجھے’’بزرگ استاد‘‘ کا خطاب دیا۔ پاکستان میں ہونے والی بیش تر نمائشیں خود ہم نے گلڈ کے زیرِ اہتمام کروائیں،جن میں اٹلی اور ایران کے خطّاطوں کی مشترکہ نمائشیں بھی شامل ہیں۔ لاہور کالج فار ویمن یونی ورسٹی نے میرے فنِ خطّاطی پر ایک ڈاکیو مینٹری بھی بنائی ہے۔
س: خطّاطی کے حوالے سے کوئی دلی خواہش؟
ج: خواہش تو بہت مختصر سی ہے کہ ابتدائی کلاسز کے بچّوں کے لیے خطّاطی کا آپشنل کورس نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ والدین بچّوں کو حافظِ قرآن کے ساتھ خطّاط بھی بنائیں۔ کسی زمانے میں گلڈ کی اِس تجویز کو پذیرائی ملی تھی۔ ہم سے تجویز مانگی گئی،تو مَیں نے نصاب کے لیے5 کتابیں لکھ کرپنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ کو دیں،جو وہاں سے کسی نے گم کردیں۔ پھر دوسری بار دیں، لیکن تھوڑی سی پیش رفت کے بعد پھر سے کسی غیرمرئی قوّت نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔
بہرحال، ممکن ہے کہ کسی وقت اسلامی تہذیب و ثقافت اور فنونِ لطیفہ سے گہری دل چسپی رکھنے والا کوئی حکم ران میری اِس خواہش کو عملی شکل میں ڈھال دے۔ میری خواہش تو اپنی جگہ، لیکن یہاں اُس سوال کا جواب بھی دینا چاہتا ہوں، جو اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ اِس جدید دَور میں ہم اپنے بچّوں کو خطّاطی سِکھا کروقت کیوں ضائع کریں، تو اِس سلسلے میں عرض ہے کہ اکثر بچّےغیر مُلکی ٹکٹس کے البم بناتے ہیں۔
مُلک مُلک کے سکّے جمع کرتے ہیں، کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہیں، مختلف ممالک کی ماچس کی ڈبیاں، تاریخی عمارات کی تصویریں جمع کرتے ہیں، ان سب کا بھی بظاہر کوئی فائدہ نہیں، لیکن یہ تمام مشاغل بچّوں کے ذہنی ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، حتیٰ کہ شخصیت سنوارنے میں بھی اُن کا بنیادی کردار ہوتا ہے، تو اِس اعتبار سے مَیں خطّاطی کو بطور فن یا مشغلہ اپنانے میں سرِفہرست شمار کرتا ہوں۔
جدید ریسرچ سے بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ خطّاطی بچّوں یا بڑوں کی صحت مند ذہنی پرداخت اور شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کیوں کہ اس سے اللہ کی بندگی، تحمّل، بردباری، صبر، قوّتِ برداشت، ارتکازِ توجّہ، خُوب سے خُوب تر کی تلاش اور حُسنِ نظر جیسے جذبات و احساسات پروان چڑھتے ہیں۔آپ ایک لفظ کو خُوب سے خُوب تر بنانے کے لیے 50, 50 بار لکھتے ہیں، جس سے آپ کے اندر بہتر سے بہترین کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔
تائیوان میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق، اعصابی کشیدگی اورڈیپریشن میں مبتلا50 افراد کو وہاں کے اسکرپٹس میں خطّاطی کا ایک ماہ کا کورس کروایا گیا، جس کے بعد اُن کے ڈیپریشن میں کافی کمی دیکھی گئی اور اس کا سبب خطّاطی کے دَوران توجّہ، انگلیوں کا ارتکاز، یک سوئی، اطمینانِ قلب اور مراقبے جیسی کیفیات کو قرار دیا گیا۔
پھر’’ایپل‘‘ کمپنی کے بانی اسٹیو جابر کی سوانح پڑھ کے دیکھیے، اُس نے کالج کی تعلیم کے بعد کیلی گرافی کا کورس مکمل کیا، جس کے بعد اُس نے اسی ہنر کی مختلف جہات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کمپیوٹر گرافکس اور فونٹس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ بہرحال، خطّاطی اور کیلی گرافی وہ فن ہے، جس کی مدد سے پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے خطّاطوں اور خوش نویسوں نے دنیا بَھر کے علوم و فنون کے بے بہا خزانے کتابوں، دستاویز اور دیگر ہاتھ سے لکھی تحریروں کے ذریعے نوعِ انسانی تک منتقل کیے، تو میرے خیال میں تو جدید ٹیکنالوجی بھی انسانیت کے اِس عظیم محسن کو کبھی زیر نہیں کرسکے گی، بلکہ یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے دنیا بَھر کے کروڑوں لوگوں کو حُسنِ ذوق، طمانیتِ قلب اور روحانی سکون کا سامان فراہم کرتے رہیں گے۔