• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لبنان میں جنگ بندی: حزب اللہ کے لیے نیا امتحان

چند ماہ قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لبنان میں کسی بڑی تبدیلی کے امکانات ہوسکتے ہیں، لیکن اب ایسا ممکن دِکھائی دے رہا ہے۔ لبنان میں 60 روزہ سیز فائر ہوگیا ہے، جس کی ثالثی امریکا اور فرانس نے کی، جب کہ امریکا اِس کا ضامن بھی ہے۔ 

اس کے نفاذ کا باقاعدہ ایک میکینزم بنایا گیا ہے، جس میں ہر مرحلے میں امریکا، فرانس اور اقوامِ متحدہ شامل ہوں گے۔ درحقیقت یہ 2006ء کی سلامتی کاؤنسل کی قرارداد کے مطابق مستقل امن کی طرف بڑھنے کی شروعات ہے۔ 14ماہ کی جنگ میں لبنان کے تقریباً چار ہزار افراد ہلاک اور دس لاکھ بے گھر ہوئے۔

آئے دن کی اسرائیلی بم باری سے بیروت بُری طرح تباہ ہوگیا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ’’ سیز فائر کا مقصد مستقل امن کا قیام ہے‘‘، جب کہ لبنان کے وزیرِ اعظم نجیب میکاتی کا کہنا تھا۔’’ یہ معاہدہ مُلک میں امن و استحکام لائے گا، جس سے شہریوں کو اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کی راہ ہم وار ہوگی۔‘‘ لیکن نیتن یاہو نے دھمکی دی کہ اگر حزب اللہ نے دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کی، تو حملے بھی دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔

اہم یہ ہے کہ یہ سیز فائر، اسرائیل اور لبنان کی حکومتوں کے درمیان طے پایا ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس میں حزب اللہ شامل نہیں، جو ماہرین کے نزدیک ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اِس معاہدے کے تحت اسرائیل کی فوج جنوبی لبنان سے نکل جائے گی اور لبنان کی فوج سرحدی ذمّے داریاں سنبھال لے گی۔اِس عمل کی نگرانی امریکا پانچ مُلکی فوج کے ساتھ مل کر کرے گا۔ 

دوسری طرف، حزب اللہ کے مسلّح دستے بھی جنوبی لبنان سے نکل جائیں گے۔ دونوں طرف کے باشندے جو14 مہینوں سے جاری جنگ کی وجہ سے بے گھر ہوئے، اب واپس آجائیں گے۔ یہ سالوں بعد ہوگا کہ حزب اللہ جیسی طاقت وَر ملیشیا کو لبنان کے کسی علاقے سے نکلنا پڑے گا اور وہ کسی معاہدے میں باقاعدہ شامل بھی نہیں۔2006 ء میں اسرائیل نے لبنان سے انخلا کیا، تو حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے اُسے اپنی فتح قرار دیا تھا۔ 

اس کے بعد حزب اللہ کو علاقے کی ایک اہم طاقت مانا جانے لگا اور یہ حقیقت بھی ہے، کیوں کہ گزشتہ اٹھارہ سالوں میں حسن نصراللہ کی قیادت میں وہ لبنان کے سیاہ و سفید کی مالک رہی۔ لبنان کی ہر حکومت، سعد حریری سے لے کر اب تک، اس کے اشاروں پر چلتی رہی۔ حزب اللہ کو ایران کی پراکسی مانا جاتا ہے اور اس نے کبھی اس سے انکار بھی نہیں کیا۔ وہ ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں فوجی اور جارحانہ خارجہ پالیسی میں نہ صرف اہم ترین مقام کی حامل ہے بلکہ اسی کے ذریعے غزہ میں حماس اور یمن میں حوثیوں سے کام لیا جاتا ہے۔ 

حزب اللہ کی مار بہت دُور تک تھی، اس نے شامی سِول وار میں ایرانی، روسی اور اسد افواج کے شانہ بشانہ لڑ کر شامی اپوزیشن کو شکست دی اور آج اِسی فتح کے سبب بشار الاسد شام کے صدر ہیں، وگرنہ دس سال قبل ایک ایسا مرحلہ بھی آیا تھا، جب شام کا بیش تر علاقہ داعش کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ بلاشبہ، لبنان میں حسن نصر اللہ ہی اصل حُکم ران تھے اور وہ جو پالیسی حکومت کو دیتے، اُس پر عمل لازم ہوتا۔ لبنان کی فوج اُن کی ملیشیا کے سامنے بالکل بے بس تھی، لیکن سیز فائر معاہدے میں حزب اللہ کا یہ کردار تقریباً ختم کردیا گیا ہے۔

اِس پیش رفت کے لبنانی سیاست پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے، یہ پورے خطّے کے لیے نہایت اہم ہوگا۔ حزب اللہ کی پسپائی سے حماس بھی متاثر ہوگی، کیوں کہ ایران اسی کے ذریعے حماس کو اسلحہ وغیرہ فراہم کرتا تھا۔ماہرین اِس کا یہ مطلب بھی لے رہے ہیں کہ غزہ کی جنگ بندی بھی قریب ہے۔ دوسرے الفاظ میں ٹرمپ کے جنگ بندی کے وعدے کی تکمیل آسان ہوجائے گی۔

لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ پیجر دھماکوں سے شروع ہوا، جس میں حزب اللہ کے سیکڑوں کارکنان ہلاک ہوئے۔ یہ پیجر خود حزب اللہ نے آرڈر دے کر منگوائے اور اپنے اہل کاروں کو دیئے تھے۔ یہ موبائل فون کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے تھے، لیکن اس سے قبل ہی دھماکے سے پھٹ پڑے، جس سے حزب اللہ کو خاصا نقصان پہنچا۔ظاہر ہے، یہ حملہ اِتنا اچانک تھا کہ اس نے ملیشیا کی صفوں میں افراتفری مچا دی، لیکن اس نے اپنی قوّت مجتمع کرکے اسرائیل پر راکٹوں کے ذریعے جوابی وار کیے۔

یوں2006 ء کے بعد حزب اللہ اور اسرائیل میں براہِ راست فوجی تصادم شروع ہوا، لیکن ابھی شروعات ہی تھیں کہ ایک فضائی حملے میں اسرائیلی طیاروں نے اُس عمارت کو نشانہ بنایا، جس میں حسن نصراللہ کا قیام تھا اور وہ اس حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حسن نصراللہ کی موت سے مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی مفادات پر کاری ضرب لگی اور اُسے براہِ راست خود جنگ میں شامل ہونا پڑے تاکہ اپنی پراکسیز کا اعتماد بحال کرسکے۔ جب کہ اِس سے قبل وہ تمام کام اپنی پراکسی ملیشیاز ہی سے لیتا رہا تھا۔

ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا اور جواباً اسرائیل نے بھی اُسے نشانہ بنایا۔لیکن یوں لگتا ہے کہ حسن نصراللہ کے منظر نامے سے ہٹنے کے بعد سے حزب اللہ ابھی تک سنبھل نہیں سکی۔ امریکا کی سرپرستی میں ہونے والے معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ کا فوجی کردار مکمل طور پر نہ سہی، سرحدوں کی حد تک تو لبنانی فوج کے پاس چلا گیا ہے، جس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ اب لبنان سے متعلق سیاسی فیصلوں میں لبنانی حکومت کا کردار بڑھے گا۔ اگر لبنان کا آئین دیکھیں، تو اس میں تین فریقین کی شرکت سے کاروبارِ حکومت چلایا جاتا ہے۔ آئین کے تحت صدر عیسائی، وزیرِ اعظم سنّی، جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی شیعہ ہوتا ہے۔

بحرِ روم کے ساحل پر واقع، لبنان کے دارالحکومت بیروت کا شمار دنیا کے حسین ترین تجارتی شہروں میں کیا جاتا تھا اور اِسے’’مشرقِ وسطیٰ کا پیرس‘‘ بھی کہا گیا۔ویسے بھی لبنان، فرانس کی نوآبادی رہا ہے اور اس نے1954 ء میں اُسی سے آزادی حاصل کی تھی۔امریکن یونی ورسٹی آف بیروت، مشرقِ وسطیٰ کی سب سے معیاری جامعات میں شمار ہوتی تھی، جس کے فارغ التحصیل طلبہ نے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی، سماجی اور فکری محاذوں پر اہم کردار ادا کیا۔

عراق کی بعث پارٹی کا آئین بھی ایک ایسے ہی طالبِ علم نے بنایا تھا۔ شام، اردن، مصر،ایران اور افریقی ممالک میں اس کے پڑھے لکھے طلبہ نے پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ عرب دنیا میں اُس وقت سوشل ازم کی تحریک عام تھی، جس میں اِس جامعہ کے طلبہ نمایاں تھے، لیکن صدی کے اختتام تک بیروت کو جانے کس کی نظر لگی کہ وہاں ایسی خانہ جنگی کا آغاز ہوا، جس نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صابرہ، شتیلا کیمپس کی روح فرسا داستانیں اب بھی رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔

بیروت کا دو ٹکڑوں میں بٹ جانا، یاسر عرفات اور فلسطینیوں کا محصور ہونا اور بڑی بے چارگی سے امریکی جہاز کے ذریعے وہاں سے نکلنا، یہ سب عرب اور مسلم دنیا کا ایک الم ناک باب ہے، بلکہ اس تاریخ کو پڑھتے ہوئے خون کے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ بہرکیف، لبنان کا سیاسی عدم استحکام، خون ریزی اور بیرونی جارحیتیں ابھی تک جاری ہیں۔ 

شام کی دخل اندازی، اسرائیل کے حملے اور آخر میں ایران کی غیر معمولی دل چسپی نے، جس کا محور حزب اللہ تھی، لبنان کو’’جنگوں کا گھر‘‘ بنا دیا۔کافی عرصے سے لبنان میں امن تھا اور نہ ہی کوئی قابلِ ذکر حکومت۔ 

ترقّی بھی نظر نہیں آتی، لوگ بس جی رہے ہیں۔ دُکھ تو یہ بھی ہے کہ جس مُلک میں ہزاروں نہیں، لاکھوں مسلمان بڑی بے دردی سے ہلاک کیے گئے، جسے علاقائی اور عالمی طاقتوں نے ایک کھلونا بنالیا، اُسے مسلم دنیا میں کوئی یاد کرتا ہے اور نہ ہی کسی نے اِس سے کوئی سبق سیکھا۔

مسلم دنیا کے عوام کی غفلت، لاعلمی، بُھولنے کی عادت، خود غرضی، فرقہ وارانہ عصبیت اور بے حسی نے آج اُنھیں جس مقام پر لاکھڑا کیا ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے باعزّت مقام نہیں ہے۔ یہ قوم اتحاد، ترقّی اور دنیا کی اقوام میں اعلیٰ مقام بنانے کے بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے، لیکن لبنان جیسے خُوب صُورت مُلک کو سنبھال نہ سکی اور اُسے راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔

سیز فائر معاہدے سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ تصادم میں ملوّث دونوں فریق منظر نامے سے ہٹ گئے ہیں۔ یعنی اسرائیل نے حملے بند کر دیئے، جب کہ حزب اللہ نے حکومت اور لبنانی فوج کی عمل داری قبول کر لی۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو کئی سوالات بھی ذہن میں اُبھرتے ہیں۔ اوّل، کیا لبنانی حکومت معاشی طور پر اِس قابل ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مطمئن رکھ سکے۔

دوم، کیا اس کی فوج اِتنی طاقت وَر ہے کہ وہ اسرائیل یا کسی ملیشیا کا مقابلہ کرسکے۔ کہا جا رہا ہے کہ ساٹھ دن کا سیز فائر اِسی لیے کیا گیا ہے کہ لبنانی فوج وہ ضروری اسلحہ حاصل کرے گی، جس سے اپنی قوّت کو بیرونِ مُلک اور اندرونِ مُلک منوا سکے۔تاہم، دیکھنا ہوگا کہ امریکا، فرانس اور دوسرے ضامن اِسے کیسے یقینی بناتے ہیں۔ 

تیسری اہم بات یہ ہے کہ کیا حزب اللہ اپنا فوجی کردار چھوڑنے کو تیار ہوگی اور یہ کہ اِس دست برداری کو عرب اور ایران کس نظر سے دیکھیں گے۔ لبنانی فوج نے شکایت کی ہے کہ اُس کے پاس فرائض کی انجام دہی کے لیے سرمایہ ہے، نہ اسلحہ اور نہ ہی نقل وحمل کا سامان۔خیال ہے کہ معاہدے کے بین الاقوامی ضامن اسے مطلوبہ سرمایہ فراہم کردیں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ حزب اللہ صرف ایک ملیشیا نہیں بلکہ سیاسی جماعت بھی ہے اور اس کے ارکان لبنان کی پارلیمان میں موجود ہیں۔

ان کا ملٹری بازو کم زور ہوگیا، لیکن ان کی سیاسی موجودگی اب بھی برقرار ہے، جسے عوامی مقبولیت بھی حاصل ہے اور لبنان کا آئین بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔ کیا حزب اللہ ایک ملیشیا سے سیاسی جماعت کے کردار میں آنے کو تیار ہوگی،یہ ایک اہم اور دل چسپ سوال ہے۔ حزب اللہ ہو یا حماس، دونوں بنیادی طور پر عرب ہیں، لیکن گزشتہ سالوں میں انھیں عرب ممالک کی بجائے ایران سے مدد ملتی رہی ہے۔

ایران اِس وقت معاشی طور پر بہت کم زور ہے۔ اس کے نئے صدر نے بار بار امن اور تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی بات کی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اِن کے دَور میں اسرائیل پر دو حملے ہوئے، لیکن جنگ کو بڑھاوا دینے سے گریز کیا گیا۔ اِسی قسم کی مفاہمت کی کوشش حسن روحانی کے دَور میں بھی کی گئی تھی، جس کے بعد نیوکلیئر ڈیل ہوئی۔ ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام محدود کرنے کا معاہدہ کیا اور جواباً اوباما انتظامیہ نے اسے چالیس ارب ڈالرز دیئے۔ لیکن ٹرمپ کے آتے آتے یہ سب ختم ہوگیا۔

لبنان میں مستقل امن، غزہ میں جنگ بندی اور ایک ایسی وسیع مفاہمت ہی سے ممکن ہے، جس پر ایران، عرب ممالک اور مغربی دنیا راضی ہو۔ ٹرمپ سے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کی بڑی اُمیدیں وابستہ کی گئی ہیں۔ لبنان اور اسرائیل کا یہ پہلا معاہدہ ہے، جس میں فرانس جیسی یورپی طاقت بھی شامل ہے، جو اُمید کی ایک کرن ہے، لیکن بہرحال ضروری ہے کہ تمام طاقتیں اپنا اپنا کردار پہچانیں اور اُسے ادا بھی کریں۔

اسرائیل کو جان لینا چاہیے کہ اندھی جارحیت، فوجی طاقت کے بے لگام استعمال اور بے گناہوں کے قتلِ عام سے کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ حق دار کو بالآخر اُس کا حق دینا ہی پڑے گا۔ نیز، علاقائی طاقتوں کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ دوسرے ممالک میں پراکسیز رکھنے سے حالات اُس نہج تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں پھر مقدر صرف تباہی ہی تباہی ہوتی ہے۔