• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاشرتی تنوّع کی برقراری کے لیے عدم مساوات کی حوصلہ شکنی ضروری ہے
معاشرتی تنوّع کی برقراری کے لیے عدم مساوات کی حوصلہ شکنی ضروری ہے

ہر سال10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی یوم منایا جاتا ہے۔ ’’انسانی حقوق‘‘ دراصل ہر قسم کے امتیازی سلوک سے بچائو کے خلاف ایک ڈھال کا کام کرتے ہیں۔ گو کہ کوئی بھی سماج یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہاں ہرقسم کے امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جا چُکا ہے، لیکن کچھ معاشروں میں اقلیتی گروہوں یا برادریوں سے نسبتاً زیادہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور امتیازی سلوک سے مُراد کوئی بھی ایسا رویّہ یا عمل ہےکہ جس کے ذریعے کچھ لوگوں کو دیگر پر فوقیت دی جائے۔ 

یعنی تمام افراد کو یک ساں سماجی، معاشی، قانونی اور سیاسی حقوق حاصل نہ ہوں۔ واضح رہے کہ امتیازی رویّے ہمیشہ بہت زیادہ واضح نہیں ہوتے اور زیادہ تر لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی معذور شخص کو وہیل چیئر کے ساتھ کسی عمارت میں آسانی سے داخلے کی سہولت حاصل نہ ہو، تو یہ امتیازی سلوک ہے، لیکن دیگر لوگ اِس سلوک سے صرفِ نظر کرتے ہیں بلکہ اِسے محسوس ہی نہیں کرتے۔ 

اِسی طرح اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کوجبراً لاپتا کردینا دُرست ہے، تو اُن کی نظر میں انسانی حقوق کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے اور اُن کے خیال میں کسی بھی ایسے شخص کےخلاف امتیازی سلوک جائز ہے کہ جسے ’’ریاست دُشمن‘‘ قرار دیا گیا ہو۔ 

اس طرح کا امتیازی سلوک محض ایک فرد کے خلاف ہی نہیں، بلکہ کسی پورے طبقے، برادری اور قومیت سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر نچلے سماجی و معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے فائدہ نہ اُٹھا سکیں یا نسلی و مذہبی تعصّب کا شکار ہوں، تو یہ سب باتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی تصوّر ہوں گی۔

اکثراوقات میرٹ، قابلیت یا اہلیت کی آڑ میں بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ مثلاً وفاقی سطح پرملازمتوں میں جوحصّہ ہر صوبے کو ملنا چاہیے، اُس میں سے چھوٹے صوبوں کو اُن کا مقرّرہ حصّہ نہیں دیا جاتا اور اُن صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کومیرٹ پر پورا نہ اُترنے یاقابلیت اور اہلیت کی کمی کا بہانہ بناکر ملازمتیں نہیں دی جاتیں۔ یاد رہے کہ میرٹ پر زور اُس وقت دینا چاہیے کہ جب سب کو یک ساں مواقع حاصل ہوں کہ اُن کی عدم موجودگی میں میرٹ کی بات کرنا بھی ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں۔ 

اس نوع کے امتیازی سلوک کے لیے زبانوں پر مہارت کو بھی جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص کو کسی زبان پرمکمل عبور نہ ہو یا کوئی فرد کسی خاص نظریے پر یقین نہ رکھتا ہو، تو اُسے بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

انسانی حقوق کی زیادہ تر خلاف ورزیاں کسی نہ کسی طرح کے امتیازی سلوک سے جنم لیتی ہے، جن کا جواز رنگ و نسل، مذہب و فرقے اور سماجی و معاشی حالات میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ اِس طرح کا سلوک نسلی یا جسمانی بنیادوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً ’’مارشل ریس‘‘ کا نظریہ، جو فوج میں استعمال کیاجاتا ہے۔ مارشل ریس یا جنگ جُو اور لڑاکا نسل کے نظریے کے مطابق چوں کہ کچھ خاص نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ جنگ جُو اور لڑاکا ہوتے ہیں، لہٰذا فوج میں اُن کو ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کیا جانا چاہیے۔ 

اِسی نظریے اور سوچ کی وجہ سے دیگر قومیتوں اورنسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی برطانوی ہند کی افواج میں نمایندگی خاصی کم رہی۔ اب ’’مارشل ریس‘‘ کا نظریہ غلط ثابت ہوچُکا ہے، کیوں کہ اِن دنوں فوج میں جسمانی صلاحیتوں کا استعمال کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور ذہنی یا تیکنیکی صلاحیتوں کے حامل مَرد و خواتین بلکہ مخنّث افراد کو بھی دُنیا کی مختلف افواج میں بھرتی کیا جا رہا ہے۔ 

یعنی پہلے جو شُعبے صرف مَردوں کے لیے مخصوص تھے، اب اُن کے دروازے خواتین اور ٹرانس جینڈرز کے لیے بھی کُھلتے جا رہے ہیں۔ اِسی طرح ذہنی پس ماندگی یا معذوری کی بنیاد پر پہلےانسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں کی جاتی تھیں، اب بہت سے ممالک نے اُن سے چھٹکارا پالیا ہے۔ جسمانی و ذہنی طور پر معذور یا پیچھے رہ جانے والےافراد کی ترقّی کے لیے اب بہت سے معاشرے نئی راہیں نکال رہے ہیں تاکہ ان کے خلاف امتیازی سلوک کم سے کم ہو۔

اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کی ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہے، تو ہمارے ہاں ایسے افراد کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتاہے، جو یقیناً انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کےخلاف ہمیں آواز بلند کرنی چاہیے۔ اِسی طرح اگرٹرانس جینڈرز کو بھی محض اِس لیے بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں کہ وہ مخنّث ہیں، تو یہ بھی امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ 

 پھر ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک بھی ہم جیسے معاشروں میں بہت عام ہے۔ یہاں ذات کا مطلب کوئی خاندانی یا قبائلی نام یا شناخت بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کسی مخصوص ذات کے لوگ ملازمتوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ نیز، رنگ و نسل کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ 

مثلاً، اگر بچّے خُوب صُورت ہیں، تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا، جب کہ کم شکل بچّوں کا نہ صرف مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ آگے چل کرخاص طور پر ایسی خواتین کو اچھی ملازمتوں کےمواقع نہیں دیےجاتے۔ علاوہ ازیں، ہمارے ہاں بچّوں کو درس گاہوں میں اساتذہ بھی رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہیں، جس سے بچّے شدید احساسِ کم تری کا شکار ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کے امتحانی نتائج بھی متاثر ہوتے ہیں۔

دوسری جانب جمہوری، سیاسی یا قانونی حقوق نہ دیے جانا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، کیوں کہ انتخابات میں رائےدہی کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومت کا انتخاب سیاسی حق ہے اور جب یہ حقوق پامال کیے جاتے ہیں، تو پھر عوام کی نمایندہ حکومتیں نہیں، مقتدر حلقوں کی منظورِ نظر حکومتیں برسرِاقتدار آجاتی ہیں۔ 

اِسی طرح عقائد و نظریات کی بنیاد پر امتیازی سلوک بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ قصّہ مختصر، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا تعلق براہِ راست امتیازی سلوک سے ہے۔ ہمارے سیاسی و مذہبی رہنما اکثر یہ رونا روتے ہیں کہ مُلک و قوم میں یک جہتی ختم ہوچُکی ہے، تو اس کا بنیادی سبب امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہی ہیں۔ 

یاد رہے، انسانی حقوق کسی بھی ریاست میں رنگارنگی اور تنوّع کو فروغ دیتے ہیں اور سیاسی، قانونی اورمعاشی عدم مساوات کو ختم نہیں، تو کم سے کم کرنا ہر ریاست کی بنیادی ذمّےداری ہے۔ 

معاشرے میں ہرشہری اور برادری کوعزّت و احترام سے جینے کا حق ملنا چاہیے اور اس صمن میں کچھ مثبت امتیازی اقدامات بھی کیے جانے چاہئیں۔ مثبت امتیازی سلوک سے مُراد یہ ہے کہ معاشرے کے پس ماندہ طبقات کو آگے لانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔