• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’الفاظ کب ہیں میرے پاس،جو تیرے حضور پیش کرسکوں۔‘‘احسان کی سرشاری میں ڈُوبے ہم دل ہی دل میں اللہ سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں 30 افراد پر مشتمل عورتوں، مَردوں اور بچّوں کا ایک ریلا ساآیا، جن کی بلند قامت اور سیندوری رنگت قابلِ رشک تھی۔ یہ لوگ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے مزار کی زیارت کرکے باہر آرہے تھے۔ دیکھنے ہی دیکھتے انہی میں سےدو آدمیوں نے اسٹرا بیری دہی کا ایک کارٹن کھولا، ایک اور بڑے کارٹن سے مٹن پائیز نکالیں، پھر ایک طائرانہ سی نظر گردوپیش پر ڈالی اور وہاں جتنے لوگ موجود تھے، اُن میں تقسیم کرنی شروع کردیں۔ ہمیں بھی یہ سوغات نصیب ہوئی۔ہم نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا’’اے اللہ! مَیں تیری کون کون سی نعمتوں کا شکر ادا کروں۔‘‘ 

جب ہم اللہ کی شکر گزاری میں مصروف تھے، تو عمران اُن لوگوں سے بات چیت کرنے لگا تھا۔ اُس نے بتایا کہ یہ لوگ قریبی جزیرے شمائن سے آئے ہیں، جو دریائے پرل کے دہانے پر ایک بہت خُوب صُورت کالونی ہے۔یہ کسی زمانے میں برطانیہ اور فرانس کے زیرِ اثر تھی۔ انیس ویں صدی میں یورپی تاجر اقوام جیسے ہالینڈ،اٹلی،جرمنی،پرتگال اور جاپانیوں کے بنائے گئے عالی شان وِلاز اور مینشنز آج بھی اس علاقے کا حُسن ہیں، جو اب حکومت اور مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں۔’’نور بحزی کہہ رہا ہے کہ ہمیں یہ جزیرہ ضرور دیکھنا چاہیے۔‘‘

عمران نے کہا۔ نور بحزی کے اہلِ خانہ بہت اچھے، ملن سار تھے۔ ہم بھی ان کی خواتین سے گُھل مِل گئے۔نور بحزی کی بیوی کا نام ملائکہ تھا۔ اُس کی ایک بہن، عائشہ اور کزن زینب بھی ساتھ ہی تھی۔ ہم نے ہنس کر نور بحزی سے پوچھا’’یہ نام ہماری تو جان ہیں، پر سُنا ہے ،یہاں ایسے نام رکھنے پر پابندی ہے۔‘‘ ’’یہاں ایسا کچھ نہیں، البتہ سنکیانگ میں شاید ہے۔ ہمارا تعلق تُرکی کی سلجوق نسل سے ہے۔ اور ہم بنیادی طور پر مانچورینز کی اولاد ہیں۔ سنکیانگ کو کبھی ’’مانچوریا‘‘ کہا جاتا تھا۔ آج کے تُرک انہی کی آل ہیں، جنہوں نے شاید نویں صدی میں اسلام قبول کیا تھا۔

شمائن میں ہم بھائیوں کا ریسٹورنٹ ہے۔ دراصل جب گونگ چو اتحادیوں کے قبضے میں تھا، تب ایک برٹش شخص، ولیم راجر کا یہاں خاصا بڑا کاروبار تھا اور ہمارے دادا اس فیملی کے ذاتی شیف تھے۔ بدقسمتی سے اس جوڑے کی کوئی اولاد نہیں تھی، تو دادا کی اچھی عادات اور خدمت گزاری کی وجہ سے انہوں نے دادا کو گود لے لیا اور جب وہ لوگ یہاں سے جانے لگے تو گھر اور ریسٹورنٹ انہیں دے گئے۔ بعدازاں، اس ریسٹورنٹ کو دادا نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا، اپنے بچّوں اور ہمیں یہ کام سکھایا۔ اسی لیے ہم سب بھائی شیف ہیں ۔‘‘ نوربحزی نے بتایا۔

چِین کی اِس حیرت انگیز ترقّی اور ہوئی قبیلے کے مسلمانوں سے متعلق جاننے کے لیے ہم نے بات چیت شروع کی’’چینیوں کی اس ترقّی کے پیچھے بہت پُر آشوب تاریخ ہے۔چینی قوم کی عظمت کو سلام کہ جس نے بھوک، ننگ،ظلم و جبر کے کڑے وار سہے‘‘۔’’چینی عوام کی تحریکِ آزادی، جو ٹکڑوں کی صُورت شروع ہوئی تھی، اس میں ہوئی قبیلے کے مسلمان فوجی دستوں نے جو کردار ادا کیا، وہ تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔’’دلیرانِ گانسو‘‘ (Gansu Braves) کے نام سے معروف دس ہزار مسلمان فوجیوں پر مشتمل اس دستے کا تعلق صوبہ گانسو سے تھا۔ جنہوں نے بہت سے محاذوں پر نو ملکی اتحاد (برطانیہ، امریکا، فرانس، روس،جرمنی،اٹلی، آسٹریا، ہنگری اور جاپان) کو شکست دی تھی، اُس وقت چِین پر ملکہ شی کی حکم رانی تھی۔تاہم، اسلحے کی کمی اور کچھ لوگوں کی غداری کی وجہ سےوہ شکست کھاگئے۔ 

اُس کے بعد پھر فاتح اتّحادیوں نے لُوٹ مارکا جو بازار گرم کیا، وہ ایک طویل داستان ہے۔‘‘نور بحزی ہماری معلومات میں اضافہ کر رہا تھا۔ ’’آپ فاتحہ پڑھ آئیں کہ ظہر کا وقت بھی قریب ہے۔‘‘عمران نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا، تو ہم وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر ہم دونوں ماں، بیٹی گلابی پینٹ سے سجے خُوب صُورت محرابی دروازوں سے گزر کر مزار مبارک کی طرف آ گئیں۔ کمرا چھوٹا سا تھا۔ ہاں، البتہ تعویز بڑا لمبا چوڑا تھا، جو آف وائٹ شنگھائی سائن سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہم نے فاتحہ پڑھی، ظہر کا وقت بھی قریب تھا، تو مسجد جانے کا سوچا۔ راستہ خُوب صُورت سبزے سے گِھرا ہوا ، دل موہ لینے والے نظارے کا حامل تھا۔ بانس کے پکے ہوئے قدآور درختوں کے جُھنڈوں نے کچھ یاد دلایا۔

مسجد تک جانے کے لیے آرام دہ سیڑھیوں کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ، اس کی خُوب صُورتی کو چارچاند لگا رہا تھا، تو قد آور دروازوں کا حُسن،انفرادیت بخش رہا تھا۔ دوسری جانب، ان شان دار دروازوں سے اندر، تاحدِ نظر نیلے قالینوں کا منظر آنکھیں خیرہ کر رہا تھا۔ دیواریں عربی کتبوں سے بَھری ہوئی،غربی برآمدہ بھی اپنی پچھلی اوراگلی محرابوں کے ساتھ بےحد خُوب صُورت نظر آرہا تھا۔ مسجد کی چھت اپنے غیر معمولی اچھوتے پن کے سبب توجّہ کھینچ رہی تھی۔نیلی اور سبز ٹائلز بھی بہت دل کش لگ رہی تھیں۔مسجد دیکھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ گونگ چو نے مسلمانوں کی عبادت گاہ کو کس قدر عزّت و محبّت دی ہے۔

اندر ایک تختی بھی دیکھی جس پر "Jiao chang xiyu" لکھا تھا، عمران نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے ’’اسلام مکّہ سے آتا ہے۔‘‘ کندہ کاری کا یہ تحفہ 1901 ءمیں قن کے شاہی گھرانے کے ایک شہنشاہ نے دیا تھا۔ پتا چلا کہ مسجد میں خواتین کے لیے الگ جگہ بنائی گئی ہے، جہاں بوڑھی خواتین کے لیے آرام دہ کرسیاں بھی رکھی ہیں۔ ہم نے پہلے نماز پڑھی، پھر شیلفس میں سجے قرآن پاک کے نسخے دیکھے۔ سورۂ توبہ پڑھی، سورہ یٰسین دُہرائی۔پھر اپنے گردوپیش بیٹھی خواتین کا جائزہ لیا۔ 

قریب ترین بیٹھی خاتون آبنو سی رنگت پر بنفشی ساڑی پہنے، گود میں چھے ماہ کا بچہ لیے زیر لب کچھ پڑھ رہی تھی۔ مگر اس کی نگاہیں چہارجانب رقصاں تھیں۔بات کی تو پتا چلا کہ ویسے تو ہانگ کانگ سے آئی ہے، لیکن اس کا تعلق پٹنہ، بھارت سے ہے۔ اس کی بچّی کچھ مضطرب سی تھی۔قالین پر لوٹنیاں لے رہی تھی اور یک دَم ہی اس نے اُلٹی کر دی۔ اور وہ عورت ایسی پھوہڑ کہ چھوٹی بچّی ساتھ ہونے کے باوجود اس کے پاس کوئی ٹِشو یارومال تک نہ تھا۔ ہم نے فوراً ہی بیگ سے چھوٹا تولیا نکالا، سعدیہ اُسے گیلا کر کے لائی، قالین صاف کیا اور ماں، بچّی کو باتھ روم لے جاکر صفائی کروائی۔بچّی کو تیز بخار تھا۔ہم نے کہا’’تو ،آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘’’ارے کیا بتاؤں، بھارت سے پھپھیا ساس آئی ہوئی ہیں، انہیں یہاں آنے کا بہت شوق تھا۔

اب اس دودھ پیتی کو اَن جان مُلک میں کس کے سہارے چھوڑکر آتی؟‘‘ بےچاری عورت پھٹ پڑی۔ اس دوران اس کی پھوپھی ساس سے بھی،جو ایک کونے میں بیٹھی پنج سورہ پڑھ رہی تھیں، علیک سلیک ہوگئی۔ شامتِ اعمال ،ہم نے اُس سے بھارت کے حالات کے بارے میں پوچھ لیا۔ وہ تو گویا آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھی تھی’’تمہیں ہم سے کیا لینا دینا؟ بڑی تڑپ تھی ناں تم لوگوں کو پاکستان بنانے کی، لو، لُوٹ لو مزے۔ 

ہماری خیر خواہی تم لوگوں نے خاک کرنی ہے، تم لوگوں سے تو اپنا آپ نہیں سنبھل رہا۔چلو ، ساتھ ہوتے تو ہماری طاقت کا ان بدبختوں کو بھی کچھ احساس ہوتا، لیکن اب تو یہ مَن مانیاں کرتے پِھرتے ہیں۔‘‘ اُس کی باتیں سُن کر ہمیں غصّےکی بجائے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی حالاتِ زار پر افسوس ہونے لگا۔ وہاں سے اُٹھے، تو حجاب میں لپٹی ایک نوجوان لڑکی سے آنکھیں چار ہوئیں، اُس نے مُسکرا کر دیکھا۔ لڑکی کا تعلق کوئٹہ سے تھا اور اس کا نام نتاشا تھا۔وہ اسکالر شِپ پر چینگدوشہر کی Sichuan Normal University میں زیرِ تعلیم تھی اور چینی زبان میں ماسٹرز کررہی تھی۔

مسجد سعد بن ابی وقاصؓ کا اندرونی منظر
مسجد سعد بن ابی وقاصؓ کا اندرونی منظر 

یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ قریباً پچاس پاکستانی طلبہ یہاں زیرِ تعلیم ہیں۔بھارتی طلبہ بھی ساتھ ہوتے ہیںاوریہ سُن کر بےحد سکون ملا کہ اگر بھارتی اور پاکستانی طلبہ میں کوئی بحث مباحثہ ہوجائے، تو چینی باشندے، خواہ وہ طلبہ ہوں یا شہری، پاکستانی طلبہ ہی کا ساتھ دیتے ہیں۔ اتنے میں ملائیشیا کا ایک پورا ٹولہ، جس کی اکثریت نوجوان لڑکیوں ، لڑکوں پر مشتمل تھی، اچانک برسنے والی بارش کی طرح نمودار ہوا۔ لڑکیوں کی اکثریت حجاب اور عبایوں میں ملبوس تھی۔ ہم تو انہیں دیکھتے ہی محبّت و بھائی چارے کے جذبے سے سرشار آگے بڑھے، مگر ان کا رویّہ انتہائی سردتھا ، اتنا کہ ہمیں دھچکا سا لگا۔ 

ہکّا بکّا ہونے والی بات بھی تھی کہ دنیا میں کہیں بھی بالعموم ملّتِ اسلامیہ سے جُڑے ہونے کا سن کر چہروں پر جو رونق،آنکھوں میں چمک اور لبوں پر مُسکراہٹ آتی ہے، وہ یہاں سِرے سے مفقود تھی۔ ہم تو بھئی شرمندہ سے ہوکر پیچھے ہوگئے۔ عمران نے بتایا کہ مسجد کی عقبی سمت ریڑھیوں پر انجیر، سیاہ کِشمش اور خوبانیاں فروخت ہوتی ہیں۔’’دیکھتے ہیں…‘‘ والا سفری تجسّس وہاں لے گیا۔ وہاں تو بھئی بہار آئی ہوئی تھی۔ یہ کاشغری، یارقندی اور قازق لوگ تھے۔کچھ ریڑھیاں مقامی لوگوں کی بھی تھیں۔ کمال کی ذائقے سے بھر پورخوبانیاں تھیں۔ ہم نے سیاہ کشمش، اخروٹ، بادام سب خریدے اور دوبارہ مسجد میں آگئے۔

ابھی قبرستان دیکھنا باقی تھا۔ تاہم، تھوڑی دیر مسجد کے کشادہ صحن میں رکھی بینچز پر بیٹھ گئے۔ دفعتاً نظریں مسجد کے مینار پر پڑیں، جسے ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ مینار کسیِ حسین، نازنین کی صندلی پیشانی پر جگمگاتے جھومر کی طرح لشکارے مار رہا تھا۔ آسمان کے قدم چُھوتا یہ سفید برّاق مینار، اُن قدیم کاروانوں کے ہدی خوانوں کی کہانیاں سُناتا محسوس ہوا، جو جزیرہ نمائے عرب کے صحراؤں سے اِس شاہ راہِ ریشم پر گام زن ہوئے تھے۔ جو اپنے ساتھ نہ صرف اشیائے تجارت لائے، بلکہ ایک نئے فلسفۂ حیات کا خُوب صورت تحفہ بھی اُن کی دین تھی۔ جانے کتنی دیرہم اِس محبوب دنیا میں کھوئے رہے، پھر عمران کی آواز سے چونکے کہ وہ ہمارا کسی سے تعارف کروا رہا تھا۔درمیانی عمر کی طرف بڑھتا ہوا وہ پاکستانی، محمّد بخش تھا۔ 

1300 سال پرانے کنویں سے پانی پیتے ہوئے
1300 سال پرانے کنویں سے پانی پیتے ہوئے

جس کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ چِین کے اِس بے حد اہم تجارتی شہر کی صحرا نوردی میں گزرا تھا۔ قیمتی موتیوں اور پتّھروں کا بیوپاری، جسے 14 ملین آبادی والے اس شہر کے چپّے چپّے کا علم تھا۔’’کچھ شہر سے متعلق بتائیں۔‘‘ ہم نے کہا۔’’اس شہر نے آج یا چالیس سال میں ترقّی نہیں کی، بلکہ یہ تو زمانوں سے چِین کا ایک اہم کاروباری مرکز ہے۔تاریخی طور پر بھی تیسری صدی عیسوی سے بیرونی دنیا کے اثرو نفوذ کو کھینچ کر یہاں لانے میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 

یہ چِین کی پہلی اور واحد بندرگاہ ہے، جہاں یورپی اقوام کا باقاعدہ آناجانا لگا رہتا تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل کی دوسری اور تیسری دہائیوں میں تو باقاعدہ پروگرام اور جامع منصوبہ بندی کے تحت اِسے ماڈرن شہر کی صورت دی گئی۔ وسیع و عریض گلیاں، جدید سیوریج سِسٹم، دُکانوں کے ساتھ راہ داریاں،پارکس اورسیلاب سے بچائو کے لیے بند تعمیر ہوئے۔ اِس کے یورپی سرپرست اِسے کینٹن cantonکہتے تھے۔ یہ علم کا مرکز، سیاست کا گڑھ، چینی انقلاب کو پروان چڑھانے والا شہر تھا۔‘‘ محمّد بخش نے شہر کی اہم جگہوں کی وضاحت بھی کی کہ ہمیں اِس مختصر وقت میں کن کن جگہوں کو دیکھنا چاہیے۔ بہرحال، ہم قبرستان دیکھنے چل پڑے۔ 

قبرستان کیا تھا، ایک وسیع و عریض ٹکڑے پر مشتمل سبز پودوں اور جھاڑیوں میں گِھری حیران کُن جگہ تھی۔ وہاں موجود باغ تو جیسے طرح طرح کی خوش بوؤں سے مہک رہا تھا، جیسے اس بات کی خوشیاں منا رہا ہو کہ ’’ہم بہت مقدّس اور اہم ہستیوں کا لطیف سا بار اپنے اوپر اُٹھا کر بہت مسرور ہیں کہ اُن کی زندگیاں اللہ کی محبّت اور اس کی مخلوق کی خدمت میں گزریں۔‘‘خیر، ہم نے وہاں دُعائیں پڑھیں اور بہت دھیرےسے کہا’’مَیں کب اِس قابل تھی کہ چِین کے اِس ثقافتی وَرثے کے تحفّظ کی یہ خُوب صُورت اکائی دیکھتی، جو دراصل میرا بھی عظیم سرمایہ ہے۔‘‘ اب شہر میں گھومنا اور رات رُکنے کے لیے ہوٹل بھی تلاش کرنا تھا۔

ہماری تجویز پر کہ ’’ہم کسی بھی بس میں سوار ہوجاتےہیں،گھومتے پھرتے ہیں، شام ڈھلے ٹیکسی میں کسی ہوٹل چلیںگے۔‘‘عمران ہنسا اور بولا’’آپ اِسے اتنا آسان سمجھتی ہیں، یہ بہت بڑا شہر ہے۔‘‘ اس بات پر تھوڑا غصّہ تو آیا اور دل نے کہا’’لو بھئی، یہ تو میری عُمر بھر کی سیّاحتی مہارت کو چیلنج کرنے والی بات ہوگئی۔ ایسے چُپ تو مَیں بھی نہیں رہوں گی۔ رشتہ گو نازک ہے، مگر اب پرانا بھی ہوگیا ہے، تو خیر ہے۔‘‘’’ارے میاں، کیا ماسکو سے بھی بڑا ہے؟ہمارا تو سیرو سیّاحت کا یہی طریقۂ کار ہے۔ ماسکو مشکل ترین شہر تھا کہ روسی نہیں آتی تھی اور وہ لوگ انگریزی نہیں بولتے تھے۔ 

ہمارے خیال میں تو شہر سے واقف ہونے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ پاس نقشہ ہو، ہوٹل کا کارڈ سنبھالا ہوا ہو۔بس، تو پھر ڈر کس بات کا اور یہاں تو مقامِ شکر ہے کہ تم تھوڑی بہت چینی بول لیتے ہو۔‘‘ ہم نے کہا۔ تاہم، دونوں میاں بیوی نے اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ہائے! دل مسوس کر رہ گئے۔ہوتی نہ ہماری کوئی سہیلی ساتھ، تو اُف، کیامزہ آتا۔ بہرحال، ٹیکسی میں گھومتے پِھرے۔ دفعتاً ہمیں خیال آیا کہ کیوں نہ شمائن چلیں۔پھر جب اِس تجویز کا ذکر دونوں سے کیا، تو شُکر ہے کہ اُنہیں بھی اچھی لگی۔ 

عمران نے نور بحزی کو فون کیا اور کسی مناسب سے ہوٹل کا پتا پوچھا۔نور بحزی نے بتایا Aiqun Hotel ٹھیک رہے گا۔ مَیں ابھی بکنگ کروا دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ہوٹل جانے کے دونوں طریقے سمجھا دئیے کہ میٹرو سے بھی جاسکتے ہیں اور فیری سے بھی۔ میٹرو اسٹیشن اور فیری گھاٹ دونوں جگہوں سے ٹیکسی مل سکتی ہے۔ یہاں ہم نے زبان کھولنے اور فیری میں جانےکی اپنی خواہش ظاہر کرنے سے گریز کیا۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید