مدثر اعجاز، لاہور
محبّت کی طرح نفرت کا جذبہ بھی انسان کے نفس میں موجود رہتا ہے، البتہ کسی فرد میں اس کی شدّت کم، تو کسی میں زیادہ ہوتی ہے۔ عام طور پر نفرت کاموازنہ ایک ایسے نادیدہ زہر سے کیا جاتا ہے، جو انسانی ذہن مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے اور اگر خدانخواستہ یہ زہر کسی گروہ یا معاشرے کے کسی طبقے میں سرایت کر جائے، تو پھر تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ہم انسانوں سمیت جان داروں کا کوئی بھی گروہ اس منفی جذبے سے عاری نہیں اور ماہرینِ نفسیات کے نزدیک ایسا ممکن بھی نہیں۔
ڈاکٹر جون اسکلیر کے مطابق ’’نفرت ایک ایسا جذبہ ہے، جو ہر انسانی ذہن میں موجود ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات اس کی شدّت اس قدر کم ہوتی ہے کہ ہماری دیگر اچھی عادات اس پر قابو پا لیتی ہیں، لیکن کسی شخص میں اس کی شدّت اس قدر بڑھ بھی جاتی ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی اور دوسروں کی زندگیاں تک تباہ کر ڈالتا ہے۔‘‘
اس ضمن میں ایک تحقیق کی گئی، جس میں بعض طلبہ کواُن افراد کی تصاویر دکھائی گئیں ،جن سے وہ نفرت کرتے تھے۔ اس دوران جب اُن کے دماغ کا سی ٹی اسکین کیا گیا، تو پتا چلا کہ دماغ کے اُن حصّوں نے جن میں احساسات، منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کا کام انجام پاتا ہے، زیادہ تیزی سے کام کرنا شروع کردیا۔ ماہرین نے دماغ کے ان حصّوں کوHate Circuit سے موسوم کیا ہے۔
اس تحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جب ہم کسی سے نفرت محسوس کرتے ہیں، تو ہمارا دماغ زیادہ متحرک ہوجاتا ہے اور منصوبہ بندی بھی کرتا ہے، نتیجتاً نفرت میں کیے گئے اعمال کو تقویت ملتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نفرت کب اور کیوں کی جاتی ہے؟ تو اس کا جواب جاننے کے لیے نفرت کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اقسام حتمی نہیں ، حالات و واقعات کے پیشِ نظر ان میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم، عمومی طور پر ہمیں روزمرّہ زندگی میں جن اقسام سے واسطہ پڑتا ہے، وہ درج ذیل ہیں۔
٭معیاری نفرت: اگر نفرت کے اظہار کا طریقۂ کار مناسب اور اصلاحی ہو، تو اس قسم کی نفرت ایک مثبت انسانی جذبے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ دینِ اسلام نے کچھ معاشرتی اصول وضع کیے ہیں، جن پر عمل نہ صرف اچھی معاشرتی زندگی کا ضامن، بلکہ آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ ہے۔ ہر معاشرے میں جھوٹ، ظلم ،حرام طریقے سے مال کمانا، قتل وغارت جیسے اعمال کی سختی سے ممانعت ہے۔
اگر کوئی فرد ان اعمال میں ملوث ہے یا ان کی سرپرستی کرتا ہے، تو اُس فرد سے نفرت ایک مثبت عمل کہلائے گا، جسے ہم معیاری نفرت کہہ سکتے ہیں۔معیاری نفرت کی پرکھ کے لیے دو باتوں کا خیال رکھنا ازحدضروری ہے۔ پہلی یہ کہ جن اصولوں کو بنیاد بنا کر نفرت کی جا رہی ہے، وہ قانون اورمساوات کے تحت کسی مہذّب معاشرے کے وضع کردہ ہوں، نہ کہ ہمارے خود ساختہ رسم و رواج ہوں کہ جن کا مقصد محض خاندانی یا نسلی وقار کی بقا ٹھہرے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ معیاری نفرت کے اظہار کا طریقہ بھی معیاری ہی ہونا چاہیے۔
٭نظریاتی نفرت: کسی بھی قوم یا معاشرے میں بنیادی معاشرتی اصولوں کے بعد دوسری اہم بات وہ نظریات ہیں ،جن پر معاشرے کی بنیاد استوار کی جاتی ہے۔ ان نظریات سے نفرت ہی نظریاتی نفرت کہلاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سیاسی وابستگی رکھنے والے گروہوں کی آپس کی نفرت ہے، جو کبھی کبھی پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ چوں کہ ایک گروہ کے نظریات سے متفّق ہونا، دوسرے کے لیے قطعاّ ضروری نہیں، تو ایک دوسرے کی بات تحمل سے سننا، سمجھنا اور اپنی سوچ میں وسعت پیدا کرنا ہی اس قسم کی نفرت کی شدّت کم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
٭انتقامی نفرت: انفرادی سطح پر کی جانے والی نفرت میں یہ قسم سب سے عام ہے۔ عموماً کسی فرد کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور زیادتی دِل میں انتقام کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور اگر اس زیادتی کا معاشرتی یا ریاستی سطح پر بھی سدِّباب نہ کیا جائے، تو انتقام کی آگ مزید شدّت اختیار کر لیتی ہے۔
مساوات پر مبنی ایسا معاشرہ، جہاں سزا اور جزا کا طریقہ رائج ہو، انتقامی نفرت سےروکتا ہے۔ اِس لیے ہمارے دین میں عدل وانصاف اور مساوات قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے، تاکہ ہم انتقامی نفرت سے حتی الوسع دُور رہ سکیں۔
٭بدنیّتی پر مبنی نفرت: نفرت کی اس قسم کا دائرہ وسیع ہے، لیکن اس کی ابتدا حسدسے ہوتی ہے۔ قدرت نے انسانوں کو مختلف خصوصیات سے نوازا ہے۔کسی کو اچھی صُورت دی، تو کسی پر قسمت کی دیوی مہربان کردی۔ بے شک نظامِ قدرت عدل پر قائم ہے، مگر ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، لہٰذا جب کوئی فرد اپنا موازنہ کسی دوسرے سے کرتا ہے، تو وہ اللہ کا شُکر ادا کرنے کی بجائے حسد کا شکار ہوجاتا ہے۔
کسی کی دُنیاوی مال و دولت سے حسد کرکے نفرت کرنا، کسی کےمال کو غصب کرنے کے طریقے سوچنا، کسی کے ہُنر کو خود سے بہتر سمجھ کر اس فرد کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بنانا یا محض کسی کی شکل و صُورت دیکھ کر احساسِ کم تری میں مبتلا ہوجانا، درحقیقت بدنیّتی پر مبنی منفی رویّے ہیں، جن کا تدارک اللہ تعالیٰ کا شُکر بجا لانے اور محنت کرکےدوسروں کی برابری کرنے ہی سے ممکن ہے۔
٭خود سے نفرت: یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور تقریباً ہر دوسرے خاندان میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو خود سے نفرت کرکے احساسِ کم تری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیے، انفرادی نفرت وجود کو اس طرح مسخ کردیتی ہے کہ پھر خود سے وابستہ یا اردگرد رہنے والے افراد بھی متاثر ہونےلگتے ہیں۔ اگر آپ خود کو حقیر سمجھتے ہیں یا خود سے محبّت نہیں کرتے تو بہتر ہوگا کہ فوری طور پر کسی ماہرِ نفسیات سے رابطہ کریں۔
یاد رکھیے، نفرت کا جذبہ کبھی بھی تنہا پروان نہیں چڑھتا، اسے تقویت دینے کے لیے دِل و دماغ میں بغض و حسد، احساسِ کم تری اور برتری جیسے کئی منفی جذبات بھی موجود رہتے ہیں، تو اگر ہم نفرت کے جذبے پرقابو پانا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے دِل و دماغ میں موجود دیگر منفی جذبات سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔