• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیلابی صورتحال میں تقریبا دو ماہ گزرنے کے باوجود کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔ ملک بھر میں امداد کا سلسلہ جاری ہے جگہ جگہ امدادی تنظیموں نے امداد جمع کرنے کے لئے اپنے لوگ سڑک پر ٹینٹ لگا کر بٹھائے ہوئے اور خوب امداد جمع کر رہے ہیں۔دنیا بھر سے امداد آچکی ہے اور آئے بھی جارہی ہے۔ لیکن حالات بہتری کی طرف آ ہی نہیں رہے۔ سب سے بڑی بات ہے کہ پانی بجائے بہنے کے بقول سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کھڑا ہے۔

 سیلابی پانی جب بہت زیادہ ہوجاتا ہے تو بڑی تباہی لاتا ہے مگر کچھ ہی مختصر عرصے میں اتر جاتا ہے۔ یہی قدرتی نظام ہے جس کی تائید سائنس بھیچ کرتی ہے۔ لیکن اس دفعہ صورتحال بالکل ہی مختلف ہے۔ سیلابی پانی ہر جگہ کھڑا ہے اس کو بہنے کا راستہ ہی نہیں مل رہا۔ بڑی ہی حیرت اور پریشانی کی بات ہے کہ سیلابی پانی کے ریلے کا بہاو ہی ممکن نہیں ہو پارہا؟ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ اس طرح تو کھڑے پانی میں بے انتہا جراثیم گھر بنا چکے ہوں گے جو کہ انسانی جانوں کے لئے خاصا خطرناک ہے۔ اس سے بچاؤ اور زیادہ مشکل۔ اس سے بیشتر کے اس نئی مصیبت سے نمٹنا مشکل ہوجائے، فوری طور پر اس کے تدارک کے لئے کوششیں شروع ہوجانی چاہیں۔

دوسری طرف اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہئے کہ سیلابی پانی کا ریلا اترا کیوں نہیں۔ کیا وجوہات تھیں جو بہاو میں رکاوٹ بنئیں، کیا قدرتی وجہ تھی یا انسانی؟ قوی امکان انسانی کرتوتوں کا ہی لگتا ہے کیونکہ یہاں خالی زمینوں پہ قبضے کا عام معمول ہے۔ جس نے بھی کہیں زمین دیکھی یہ جانے بغیر کے یہ کس استعمال کی ہے وہاں قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر یہ سیلابی ریلے ابھی تک دریائے سندھ میں اتر کر سمندر سے کیوں نا ملے؟ یہ کوئی معمولی بات نہیں جسے صرف نظر کردیا جائے۔اب آتے ہیں سیلاب متاثرین کی آباد کاری کی طرف۔

اتنی زیادہ امداد جمع ہونے اور تقسیم کے باوجود متاثرین سیلاب کے حالات کیوں بہتر نہیں ہورہے، اگر بہتری نہیں آرہی ہے مختلف جگہوں پہ ان کو منتقل کرنے کے باوجود ان کی تعداد میں کمی کیوں نہیں ہورہی۔ کچھ تو دال میں کالا ہے ضرور۔ عام تاثر یہی ہے کہ امداد بہت آرہی ہے ۔ جن میں سے اچھی مالیت یعنی قیمتی اشیاء متاثرین کو دینے کہ بجائے " مخصوص جگہ" اور " مخصوص لوگوں" کے پاس جمع ہو رہے ہیں تاکہ مارکیٹ ریٹ پر سیل کرکے "مخصوصوں کی مالی مدد" کی جاسکے۔ کیوں کہ ان کا پیٹ بھرتا ہی نہیں۔ رہی بات ارزاں ( یعنی ملکی/دیسی) امداد کی تو ان کو جمع تو کرلیا جاتا ہے لیکن دور دراز کے علاقوں تک جانے کی بجائے روڑ کے قریب متاثرین تک مال پہنچا کر جان چھڑائی جارہی ہے۔ کیوں کہ دور دراز افتادہ علاقوں میں جانے کا خرچ بھی زیادہ اور محنت بھی زیادہ ہے۔

 کیوں کہ ہر امدادی عمل کی تشہیر کا اتنا منظم نظام موجود ہے کہ مزید محنت کی کیا ضرورت۔ تھوڑے کیئے کو بہت جانئیے۔لیکن یہ سب باتیں مفروضہ پہ ہی ہیں۔اصل حقیقت تو ہر جگہ الگ الگ جاکر ہی پتا چلے گی۔ لیکن اس بات پر تو سب متفق ہوں گے کہ وقت آگیا ہے حساب لینے کا۔ لوگوں سے ٹیکس کے نام پر لیا گیا پیسہ اور پھر عوام پہ خرچ کرنے کے نام پر بینکوں، عالمی برادری اور اداروں سے لئے گئے قرضوں کا۔ آخر وہ پیسے کہاں گئے؟ ان کا استعمال کہیں کیوں نہیں نظر آتا؟ دوسری طرف مقتدر اداروں اور ان سے منسلک افراد کے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ ہی ختم نہیں ہوتے۔

صدر، وزیراعظم، ججوں، سویلین اور نان سویلین بیوروکریسیٹس، کے دوران ملازمت جو ٹھاٹھ باٹھ ہیں ریٹائرمنٹ کے بعد تامرگ بھی جارہی رہتے ہیں ۔ کیا زیادتی ہے ان تمام ناز نخروں اور عیاشی کو ملک طور پر ختم کروانا ہے۔ ہماری نئی نسل ہم سے بہت زیادہ سمجھدار اور متحرک ہے۔ وہ پہلے ہی ان چیزوں پہ آواز اٹھا چکی ہے۔ یقینا جلد از جلد عملدرآمد بھی ہوئی جائے گا۔

 بہت ہوگیا اب آرام، یہ سب ریاست کے ملازم ہیں جب تک ریاستی مسائل درست نہیں ہوتے جن کو درست کرنا انہی کا کام ہے اس وقت تک ان کو صرف تنخواہیں ملیں گی وہ بھی performance based کارکردگی کی بنیاد پہ، کارکردگی نہیں increment نہیں۔ چاہے کسی بھی ادارے سے تعلق کیوں نہ۔ زبانی جمع خرچ کی اور ذاتی تشہیر کی کوئی اہمیت نہیں۔ ملک میں انصاف کا نظام مکمل طور پر درست ہو تو ججز مراعات لیں۔

 ہر شخص کی جان اور مال محفوظ ہو تو پولیس کے بڑے ملکی دولت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرح ہر ادارے کے افراد اس وقت مراعات کے مستحق ہوں گے جب وہ اپنی ذمہ داری بھرپور نبھا رہے ہوں اور عوام مطمئن ہو۔ کیا خیال ہے؟ آپ سب ان سب باتوں سے متفق ہیں تو آگے بڑھیں اور ہر میڈیا استعمال کریں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین