• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لگ بھگ ڈھائی ماہ سے خیبر پختون خوا، پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے کئی علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں کی زَد میں ہیں۔ مختلف رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیلاب نے سب سے زیادہ تباہی سندھ میں مچائی۔ 2010ء کے سیلاب میں بھی سندھ بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر صوبے کے بعض علاقے ہر بار سیلاب کا نشانہ کیوں بنتے ہیں۔

کیا اِسے صرف قدرت کی جانب سے آزمائش یا سزا قرار دے کر صبر کرلیا جائے یا اِس تباہی میں حکم رانوں کی نااہلی اور غفلت کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ حکومت اور سِول انتظامیہ عوام کی داد رَسی میں کس حد تک کام یاب رہی؟ نیز، اُن اقدامات کا تذکرہ بھی ضروری ہے،جن کے ذریعے مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا جاسکے۔اِس رپورٹ میں اِسی طرح کے بعض اہم سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کتنی تباہی ہوئی؟

سندھ میں سیلاب سے جہاں قیمتی انسانی جانوں کا زیاں ہوا، وہیں لوگ تنکا تنکا جوڑ کر بنائے گئے اپنے آشیانوں کو سیلابی ریلوں میں بہتا دیکھتے رہے۔مال مویشی اور گھریلو سامان بھی منہ زور پانی کی نذر ہوگیا۔ تیار فصلیں تباہ ہوگئیں اور اب بھی لاکھوں ایکڑ اراضی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔صوبائی وزیرِ اطلاعات، شرجیل میمن کے 20 ستمبر کو جاری کردہ بیان کے مطابق صوبے میں سیلاب اور بارشوں سے692 افراد جاں بحق، 8422 افراد زخمی ہوگئے، جب کہ2 لاکھ46 ہزار406 مویشی ہلاک ہوئے۔ مجموعی طور پر17 لاکھ50 ہزار707 مکانات کو نقصان پہنچا۔تاہم ،عام خیال یہی ہے کہ نقصانات اِن سرکاری اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہیں۔

اگر تباہ ہونے والی فصلوں اور ریلوں میں بہہ جانے والے مویشیوں، گھریلو سامان کی مالیت کا اندازہ لگایا جائے، تو وہ اربوں میں ہوگا کہ متاثرہ علاقے صوبے کی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ متاثرہ علاقوں میں مختلف امراض بھی پُھوٹ پڑے ہیں،جن کے نتیجے میں ہونے والی اموات روزانہ میڈیا کا حصّہ بن رہی ہیں۔سیلاب نے ہنستی بستی آبادیاں اُجاڑ دیں، انفرا اسٹرکچر ادھیڑ ڈالا، کاروبار تباہ ہوگئے۔لوگوں کو جان بچانے کے لیے نقل مکانی کا عذاب سہنا پڑا اور بیش تر افراد تو اِس طرح دربدر ہوئے کہ اپنے بَھرے پُرے گھر چھوڑ کر سڑکوں کے کنارے، سرکاری عمارتوں یا خیمہ بستیوں میں بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔

تباہی کیوں ہوئی؟

وزیرِ اعلیٰ سندھ، سیّد مُراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ’’ صوبے میں گیارہ سو ملی میٹر بارش ہوئی اور برسنے والے پانی کا تخمینہ تقریباً30 تربیلا ڈیمز کے برابر لگایا گیا ہے۔‘‘ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ صوبے میں رواں برس بہت زیادہ بارشیں ہوئیں،جن کے نقصانات سے نمٹنا آسان نہیں۔اِن بارشوں کے نتیجے میں کراچی سمیت کئی شہروں کا انفرا اسٹرکچر بُری طرح متاثرہوا، جب کہ کئی علاقے تو مکمل طور پر پانی میں ڈوب گئے۔ تاہم، تباہی کا اصل سبب سیلابی ریلے بنے۔مُلک کے بالائی حصّوں، پنجاب اور بلوچستان میں ہونے والی بارشوں کا پانی جب دریائے سندھ اور مختلف ندی،نالوں کے ذریعے صوبے میں داخل ہوا، تو یہاں پہلے سے موجود پانی کے ساتھ مل کر سیلاب کی صُورت اختیار کرگیا۔ 

اِس پانی کی نکاسی کے لیے صدیوں سے موجود قدرتی گزر گاہوں پر چوں کہ بڑے پیمانے پر تجاوزات قائم ہوچکی ہیں، اِس لیے جب پانی کا دباؤ بڑھا، تو جگہ جگہ شگاف پڑ گئے،جنھوں نے پوری کی پوری بستیاں ڈبو دیں۔اِسی طرح نہروں اور سیم نالوں کے بند بھی پانی کا دباؤ برداشت نہ کرتے ہوئے ٹوٹ گئے۔یہ وہ بند ہیں، جن کی مضبوطی کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں،لیکن جب وقت آیا، تو پتا چلا کہ بندوں کی مرمّت اور مضبوطی کا کام صرف کاغذات ہی تک محدود ہے۔ گویا حکم رانوں اور بیوروکریسی کی لُوٹ مار نے لاکھوں شہریوں کو تباہ و برباد کردیا۔

سیلاب سے صوبے کے دو علاقے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ منچھر جھیل کے اطراف کے سیکڑوں دیہات اُس وقت زیرِ آب آئے، جب صوبائی حکومت نے بہت تاخیر سے فیصلہ کرتے ہوئے جھیل میں کئی مقامات پر کٹ لگائے۔ ظلم تو یہ بھی ہے کہ متاثرہ دیہات میں پیشگی انتظامات کرنے کی بجائے صرف مساجد سے انخلا کے اعلانات کو کافی سمجھا گیا۔ صوبے کا دوسرا متاثرہ علاقہ ضلع میرپور خاص کا تعلقہ، جھڈو ہے۔ یہ علاقہ 2010ء کے سیلاب میں بھی بُری طرح متاثر ہوا تھا اور اِس بار بھی تباہ ہونے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔ زیریں سندھ کا یہ وہ علاقہ ہے،جہاں سے قدرتی آبی گزر گاہ’’ پُران ندی‘‘، سیم نالوں اور ’’ ڈھورو پُران‘‘ کے ذریعے کئی اضلاع کا پانی سمندر تک پہنچتا ہے۔ 

اِس علاقے کی بدقسمتی یہ رہی کہ 12 برس قبل آنے والے سیلاب کے بعد قدرتی آبی گزرگاہوں کی صفائی اور اُن پر قائم تجاوزات کے خاتمے کے لیے بڑے بڑے اعلانات ہوئے، منصوبے بنے،فنڈز جاری ہوئے، مگر عملاً کوئی کام نہیں ہوا۔( اِس علاقے میں قائم آبی گزرگاہوں کی سیلاب سے بچاؤ کے ضمن میں کیا اہمیت ہے، اِس کی تفصیلات ایک الگ باکس میں دی جا رہی ہیں۔) بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونے، نااہلی اور کرپشن کے ساتھ بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے بھی سندھ میں حالات خراب ہوئے۔ وزیرِ اعلیٰ ایک روز پہلے تک کہتے رہے کہ منچھر جھیل میں کٹ کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہوگا، مگر دوسرے روز اچانک کٹ لگا کر پانی بستیوں میں داخل کردیا گیا،جس سے صوبے کی اہم شاہ راہیں تک ڈوب گئیں۔ ایسا ہی منظر تعلقہ جھڈو میں دیکھنے کو ملا،جہاں قدرتی آبی گزرگاہ سے بارش اور سیلابی پانی کی ہنگامی بنیادوں پر نکاسی کے فیصلے میں تاخیر نے پورا علاقہ دریا بنا دیا۔

ریسکیو آپریشن

خیبر پختون خوا اور پنجاب میں بھی سیلاب نے بہت تباہی مچائی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں کی حکومتیں عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہیں،مگر اِس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہاں 1122 جیسے ادارے ریسکیو آپریشن کے لیے فوری طور پر متحرّک ہوئے اورعوام کو کسی حد تک ریلیف دینے میں کام یاب بھی رہے۔ خیبر پختون خوا میں پولیس اور سِول انتظامیہ نے کافی کام کیا، جس کا میڈیا میں تذکرہ ہوتا رہا، خاص طور پر وہاں کی بعض خواتین افسران نے تو خدمت کی شان دار مثالیں قائم کیں، تاہم سندھ اِس حوالے سے بدقسمت واقع ہوا ہے کہ یہاں ایسا کوئی ادارہ نہیں، جو قدرتی آفات کے دَوران عوام کو فوری ریلیف دینے کے لیے منظّم طور پر سرگرم ہوسکے۔

کراچی میں طوفانی بارشوں میں عوام اپنی مدد آپ کے تحت مسائل پر قابو پاتے نظرآتے ہیں۔ صوبے کے باقی علاقوں میں بھی جب سیلاب تباہی مچا رہا تھا، تو اُس وقت کوئی حکومتی ادارہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے وہاں موجود نہیں تھا۔ کسی ادارے کی کارکردگی اچھی یا بُری ہونے کی بحث الگ بات ہے، لیکن یہاں تو سرے سے کوئی ادارہ ہی موجود نہیں ہے۔جن علاقوں کو خالی کروایا گیا، وہاں کے عوام روتے دھوتے ہی رہے کہ حکومت نے اُن کی متاثرہ علاقوں سے محفوظ منتقلی کا کوئی انتظام نہیں کیا۔سیلاب زدہ علاقوں میں ریسکیو کا جو بھی کام ہوا، وہ عوام نے خود ہی کیا یا پھر رفاہی، سماجی تنظیمیں اُن کی مدد کے لیے آئیں۔

زندہ قوم، پائندہ قوم

مشکل وقت میں پاکستانی قوم کا بے مثال اتحاد، ہم دردی اور جذبۂ ایثار حالیہ سیلاب میں بھی نمایاں طور پر سامنے آیا۔ سیلاب کی اطلاع ملتے ہی مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی داد رَسی کا آغاز کردیا۔جب میڈیا کے ذریعے قوم کو اِس مشکل گھڑی کا علم ہوا، تو وہ بھی اپنے ہم وطنوں کی مدد کو دوڑ پڑی۔ اِس ضمن میں دینی جماعتوں اور مقامی علمائے کرام کا کردار بہت اہم رہا،جنھوں نے منظّم طور پر امدادی سرگرمیاں انجام دیں۔تعلقہ جھڈو سے تعلق رکھنے والے سرگرم سماجی رہنما، افتخار احمد قائم خانی نے اِس ضمن میں بتایا کہ’’ جب پُران ندی سے شہر میں کئی کئی فِٹ پانی داخل ہوا، تو مقامی افراد نے ہمّت ہارنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت بہتری کی کوششیں شروع کردیں۔ 

نوجوانوں نے شہر بچانے کے لیے جگہ جگہ بند باندھے، تو دوسری طرف، متاثرین تک کھانا اور دیگر ضروری اشیاء پہنچانے کا بھی انتظام کیا۔ بعدازاں، مختلف مذہبی تنظیمیں بھی مدد کو پہنچ گئیں، جنھوں نے کھانے اور پینے کے پانی کی فراہمی کے ساتھ خیمہ بستیاں بھی قائم کیں۔‘‘ نوکوٹ شہر سے سماجی رہنما، عبدالقادر خٹک نے بتایا کہ’’ ہمارے شہر کی کئی کالونیز’’ ڈھورو پُران ندی‘‘ کی وجہ سے زیرِ آب آئیں اور کوٹ میر جان محمّد کے قریب پُل ڈوبنے کے سبب علاقے کا مُلک کے باقی حصّوں سے کافی دنوں تک رابطہ منقطع رہا،جس کی وجہ سے شہریوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، مقامی نوجوانوں نے متاثرین کی ہرممکن مدد کی۔ 

کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کے ساتھ طبّی کیمپس بھی لگائے گئے۔‘‘گو کہ شہریوں کا یہ جذبہ قابلِ تحسین ہے،لیکن متاثرینِ سیلاب حکومتی امداد کے بھی منتظر تھے، جو کئی ہفتے گزرنے کے باوجود اُن تک نہیں پہنچ پائی۔جو امداد آئی، وہ بھی حکم ران جماعت کی مقامی قیادت کے گوداموں تک پہنچ گئی۔امدادی اشیاء کی تقسیم میں خرد برد کی اطلاعات اِس قدر عام ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’’سب کو پتا ہے، سیلاب متاثرین کا سامان سرکاری دفاتر سے نکل کر کہاں جاتا ہے۔

یہ امدادی سامان وڈیروں کی اوطاقوں، بنگلوں اور گوداموں میں رکھا گیا ہے۔‘‘کئی مقامات پر چھاپوں کے دَوران حکومتی رہنماؤں کے گوداموں سے امدادی سامان برآمد بھی ہوا۔ اِس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود صوبائی حکومت امدادی سرگرمیاں منظّم کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی طے نہ کرسکی اور اگر ایسا کوئی منصوبہ بنایا بھی گیا ہے، تو وہ کم ازکم عملی طور پر کہیں نظر نہیں آیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 12 ستمبر تک سندھ کے 5 لاکھ50 ہزار 235 خاندانوں میں 13 ارب 75 کروڑ58 لاکھ 75 ہزار روپے تقسیم کیے جاچُکے ہیں۔

تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اِن میں سیلاب متاثرین کی تعداد کتنی ہے؟اور کس طرح کے سروے کی بنیاد پر متاثرین کا تعیّن کیا گیا ہے۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے یہاں اخبارات میں شایع ہونے والی اُس خبر کا ذکر بھی ضروری ہے، جس کے مطابق نامعلوم افراد نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اکاؤنٹس ہیک کرکے بڑے پیمانے پر رقوم نکال لی ہیں، جس کا اعتراف وفاقی وزیر اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ، شازیہ مَری صاحبہ نے بھی کیا ہے۔ واضح رہے، یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ستمبر کے آخری ہفتے تک بیرونِ مُلک سے 111 امدادی طیارے پاکستان میں اُترے۔ اِن امدادی اشیاء میں سے سندھ کو کتنا حصّہ ملا، اِس کی تفصیلات تو دست یاب نہیں، البتہ متاثرہ علاقوں کے باسی اب بھی یہی کہتے ہیں کہ اُن تک امداد نہیں پہنچی اور وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔

قومی رہنماؤں کی عدم دل چسپی

ایک ایسے وقت میں، جب سندھ کے عوام کو قومی سیاسی قیادت کی جانب سے امداد اور زخموں پر مرہم کی ضرورت تھی، وہ بے یارو مددگار پڑے رہے۔ وزیرِاعظم، شہباز شریف کو صرف سکھر اور قریبی علاقوں کا رسمی دَورہ کروایا گیا،جب کہ سابق وزیرِ اعظم، عمران خان نے بھی سکھر کا علامتی دورہ کرنا کافی سمجھا۔بلاول بھٹو، جن کی جماعت مسلسل 14 برس سے صوبے پر حکم رانی کر رہی ہے، متاثرین کے پاس جانے کی بجائے بیرونی دَوروں میں مصروف رہے۔ سابق صدر، آصف علی زرداری نے بیان دیا کہ اُن کی طبیعت بہتر ہوتی، تو وہ سیلاب زدہ علاقوں میں ضرور جاتے۔ جب اِس بیان کے دوسرے روز عوام نے یہ خبر پڑھی کہ وہ پنجاب حکومت گرانے کے لیے لاہور جا رہے ہیں، تو اُنھوں نے سوشل میڈیا پر خُوب دِل کی بھڑاس نکالی۔ 

مولانا فضل الرحمٰن سندھ میں کافی جلسے جلوس کرتے رہے ہیں،لیکن وہ بھی ایک ماہ بعد سیلاب متاثرین کا حال دیکھنے آئے۔ قومی قیادت میں صرف جماعتِ اسلامی کے امیر، سراج الحق واحد رہنما ہیں، جنھوں نے متاثرہ علاقوں کا تفصیلی دورہ کرکے وہاں کے مسائل پر آواز بلند کی۔ عوام سیاسی قیادت، بالخصوص صوبے کی حکم ران جماعت سے بے حد نالاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کئی ارکانِ اسمبلی اور وزراء کو اپنے حلقوں میں شدید عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔

افسر شاہی کے الگ ہی نخرے

اگر کبھی سیلاب سے ہونے والی تباہی کے ذمّے داران کا تعیّن کیا گیا، تو اس فہرست میں سِول انتظامیہ بھی شامل ہوگی۔کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز صاحبان عوام کا ہاتھ تھامنے کی بجائے اپنے دفاتر تک محدود رہے، جس پر عوام میں شدید غصّہ بھی دیکھنے میں آیا۔ اِس غصّے کے اظہار کا ایک واقعہ جھڈو میں پیش آیا،جو قومی میڈیا کی سُرخیوں میں رہا کہ سیلاب سے تنگ عوام احتجاج کے لیے اسسٹنٹ کمشنر کے آفس میں داخل ہوئے، تو اُسے یہ رنگ دے دیا گیا کہ وہ اُنھیں زندہ جلانا چاہتے تھے اور متاثرین پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔

ریسکیو آپریشن میں ناکامی کے بعد بحالی کے کاموں میں بھی انتظامی افسران کوئی خاص کارکردگی دِکھانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔کراچی اور دیگر مقامات سے جانے والے امدادی سامان سے بَھرے بہت سے ٹرک راستے میں لُوٹ لیے گئے اور انتظامیہ اُن کی حفاظت میں ناکام رہی۔اِسی طرح یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ بعض علاقوں میں سیاسی و حکومتی قائدین کے دوروں کے موقعے پر افسران نے متاثرین کے جعلی کیمپس قائم کرکے اُنھیں ’’ماموں‘‘ بنا دیا۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بہت سے افسران نے سیلاب کو کمائی کے موقعے کے طور پر لیا اور اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش بھی کی۔

تازہ صُورتِ حال

اِس وقت صوبے کے کئی اضلاع کا بڑا حصّہ سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ خاص طور پر دادو کے اطراف اور جنوبی سندھ میں تعلقہ جھڈو کے حالات بہت تشویش ناک ہیں۔زرعی اراضی زیرِ آب ہونے کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھر کھو چُکے ہیں اور وہ سڑکوں، سرکاری عمارتوں یا خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں۔ اِن متاثرہ افراد کی خوراک کا انتظام تو مخیّر افراد کے تعاون سے کسی حد تک ہوچُکا ہے، تاہم اُنھیں سنگین طبّی مسائل کا سامنا ہے۔انفرا اسٹرکچر تباہ ہونے کی وجہ سے شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔امداد اور بحالی کے کاموں میں تاخیر کے الزامات پر متاثرین روزانہ حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

پانی کی نکاسی، ایک اہم مسئلہ

صوبے میں بارشوں اور سیلاب سے جو تباہی ہونی تھی،ہو چُکی، اب سب سے اہم مسئلہ زرعی زمینوں اور بستیوں سے پانی کی نکاسی کا ہے۔ بارشیں تھمنے کے باوجود بہت سے علاقوں میں کئی کئی فِٹ پانی کھڑا ہے،جس کی نکاسی کا کوئی انتظام کرنے کی بجائے اُسے ہوا اور دھوپ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہی اُسے خشک کریں گی۔ 2010ء میں سیلاب نے سندھ میں جو تباہی مچائی تھی، اس کے اثرات صوبے، بالخصوص جنوبی علاقوں میں اب تک محسوس کیے جاتے ہیں، حالیہ تباہی کیا رنگ دِکھائے گی، یہ سوچ سوچ کر شہری پریشان ہیں۔ 

ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں اور زمینوں میں اب تک پانی کھڑا ہے،جس کی وجہ سے نئی فصلوں کی کاشت بھی ممکن نہیں۔لاکھوں افراد کا واحد ذریعۂ معاش کاشت کاری ہے اور جب ہاریوں، کاشت کاروں کے پاس پیسے آتے ہیں، تب ہی شہروں کے کاروباری مراکز کی رونق بڑھتی ہے، اگر پانی کی جلد نکاسی نہ ہوسکی، تو فصلیں کاشت نہیں ہوں گی اور یوں غربت، بے روزگاری اور کاروباری مندی کا آسیب پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔دس برس قبل آنے والے سیلاب کے بعد بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، جرائم بڑھے اور دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کو فروغ ملا، اِس بار بھی ایسا ہی بلکہ پہلے سے کئی گنا زاید ہی کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

اب کیا کیا جائے؟

سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے حکومت کی جانب سے دو سطح پر بہترین حکمتِ عملی اور تیز رفتاری سے کام کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ متاثرین کی بحالی کا کام جنگی بنیادوں پر کیا جائے۔ اُنھیں فوری طور پر مالی مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی روز مرّہ ضروریات پوری کرسکیں، تو دوسری جانب، جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے، اُس کی نکاسی کا انتظام کیا جائے تاکہ متاثرہ افراد اپنے علاقوں میں واپس جاکر کھیتی باڑی کا آغاز کرسکیں۔ متاثرین کی اکثریت دیہات میں کچّے مکانات میں رہتی ہے،جنھیں معمولی سی حکومتی مدد سے دوبارہ تعمیر کرنا زیادہ مشکل کام نہیں۔ 

اِس ضمن میں آرمی چیف کی اُس تجویز پر بھی توجّہ دینے کی ضرورت ہے،جس میں اُنھوں نے متاثرہ علاقوں میں خصوصی مکانات تعمیر کرنے کی بات کی تھی۔ بہترہوگا کہ صوبائی حکومت بحالی کے کام میں پاک فوج کی بھی مدد حاصل کرے تاکہ اسے منظّم انداز سے اور تیزی سے پورا کیا جاسکے۔یہ اِس لیے بھی ضروری ہے کہ عام افراد سِول انتظامیہ کی دیانت داری پر انگلیاں اُٹھاتے ہیں۔ دوسرا اہم کام مستقبل میں اِس طرح کے سیلابوں سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات ہیں۔ 

اِس ضمن میں سب سے اہم اور بنیادی کام قدرتی آبی گزرگاہوں سے تجاوزات کا خاتمہ ہے۔ یہ قبضہ بااثر افراد کی جانب سے کیا گیا ہے،جنھوں نے سرکاری زمینوں پر کاشت کاری کے ساتھ پختہ عمارتیں تعمیر کر رکھی ہیں۔جب تک یہ قبضے ختم کروا کر اِن گزر گاہوں کو اصل نقشوں کے مطابق بحال نہیں کیا جاتا، سندھ سیلاب کا نشانہ بنتا رہے گا۔ نیز، ندی نالوں اور نہروں کے پُشتے بھی مضبوط کرنے ہوں گے کہ ہمیشہ بند ٹوٹنے ہی سے آبادیاں تہس نہس ہوتی ہیں۔تاہم ماضی میں ہونے والی کرپشن کے پیشِ نظر اِس کام میں شفّافیت بے حد ضروری ہے۔

تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کا عوامی مطالبہ

معروف صحافی اور جیو نیوز کے مقبولِ عام پروگرام’’ کیپیٹل ٹاک‘‘ کے میزبان، حامد میر نے مُلک بَھر کے سیلاب زدہ علاقوں کا دَورہ کرکے جیو نیوز کے ذریعے متاثرین کے مسائل اجاگر کیے۔اِس دوران وہ جنوبی سندھ کے سیلاب سے متاثرہ تعلقہ جھڈو بھی گئے۔ اُنھوں نے حالات کے مشاہدے کے بعد ٹوئٹ کیا کہ’’ گھوٹکی سے سکھر تک اور دادو سے جھڈو تک سندھ میں سیکڑوں نہیں، ہزاروں دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ آج مَیں نے میر پور خاص میں جو تباہی دیکھی، اُسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔

کالام سے راجن پور اور دادو سے جعفر آباد تک قدرتی آبی گزر گاہوں اور دریائی زمینوں پر تجاوزات کی وجہ سے حالیہ سیلاب نے ہزاروں غریبوں کی جانیں لے لیں، لاکھوں کو بے گھر کر دیا، کیا ان قبضے کرنے والوں کے خلاف ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنا کر اُنہیں سزا نہیں دینی چاہیے؟‘‘یہ مطالبہ عوام کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ اس طرح کے کمیشن کی تشکیل اِس لیے بھی ضروری ہے کہ قدرتی آبی گزرگاہوں پر قبضوں کی وجہ سے ہر کچھ عرصے بعد لاکھوں افراد کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قدرتی آبی گزر گاہوں کی بحالی، مسائل کے حل کی کنجی

جنوبی سندھ کے 7 اضلاع کے لگ بھگ 30 لاکھ افراد سیلاب سے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ماضی میں آنے والے سیلاب بھی اِن علاقوں میں تباہی مچاتے رہے ہیں۔ اِس تباہی کا سبب جاننے کے لیے ہماری مقامی صحافیوں، سماجی رہنماؤں، قانونی ماہرین اور کاشت کاروں سے بات ہوئی،تو سب اِس بات پر متّفق تھے کہ اگر اِس علاقے میں موجود قدرتی آبی گزر گاہوں، سیم نالوں کا مسئلہ حل کرلیا جائے، تو نہ صرف یہ اضلاع بلکہ پورا سندھ سیلاب سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ 

قاضی کرم اللہ ساند علاقے کے معروف زمین دار اور ٹیل آبادگار تنظیم کے سربراہ ہیں۔ وہ قدرتی آبی گزرگاہوں کی بحالی کے لیے کافی عرصے سے کوشاں ہیں۔ اُنھوں نے بتایا’’اِس معاملے کے دو پہلو ہیں،جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ایک تو یہ کہ بالائی سندھ سے آنے والی قدرتی آبی گزر گاہیں تعلقہ جھڈو اور تعلقہ ٹنڈو باگو سے گزرتی ہیں۔ پھر یہ کہ نواب شاہ سے آنے والا سیم نالا اور دیگر چھوٹے بڑے سیم نالے بھی اِس علاقے میں آکر آپس میں مل جاتے ہیں۔ اِن تمام قدرتی آبی گزر گاہوں اور سیم نالوں کے ذریعے پورے صوبے سے آنے والا پانی تعلقہ جھڈو سے گزر کر سمندر اور شکور جھیل میں گرتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اِس پانی کا قدرتی راستہ روک دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے جب سیلاب آتا ہے، تو پانی کا دباؤ بڑھنے سے جگہ جگہ شگاف پڑ جاتے ہیں اور نتیجتاً آبادیاں ڈوب جاتی ہیں۔

لہٰذا، یہ راستہ فوری بحال کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری بات یہ کہ علاقے میں بنائے گئے سیم نالوں میں بہت سے فنی نقائص ہیں،جن کی وجہ سے وہ بھی سیلابوں میں عوام کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں۔‘‘مقامی صحافی،مودود احمد ماجد سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کو مسلسل رپورٹ کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے قدرتی آبی گزرگاہوں کا پس منظر اور مسائل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ’’ تعلقہ جھڈو اور تعلقہ ٹنڈوباگو کے درمیان شادی لارج کے شمال اور کوٹ میر جان محمّد سے13 کلومیٹر جنوب مغرب میں، جہاں پانی کی قدرتی گزرگاہیں’’ پُران‘‘ اور’’ ڈھورو پُران‘‘ مل کر آگے بڑھتی ہیں، مقامی لوگوں نے اِن جڑواں آبی گزرگاہوں کا راستہ بند باندھ کر روک دیا۔

بعدازاں، جب ایل بی او ڈی اسپائنل ڈرین سیم نالا بنایا گیا، تو اُسے بھی اِسی مقام سے گزارا گیا، جہاں اب سیم نالے کا مقام آر ڈی 210/211 ہے۔یعنی اب کئی اطراف سے آنے والی قدرتی آبی گزر گاہیں اور مختلف سیم نالے یہاں آکر مل جاتے ہیں، مگر لوگوں نے 500 فِٹ کا بند باندھ کر اُن کا راستہ روک رکھا ہے۔ اِسی طرح سکھر بیراج پر دباؤ کی صُورت میں نہروں میں جو اضافی پانی چھوڑا جاتا ہے، وہ بھی اِن نہروں کے ذریعے تعلقہ جھڈو میں پہنچتا ہے۔ یعنی سکھر، نواب شاہ، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو محمّد خان، ٹنڈو آدم، کھپرو، سانگھڑ، خیرپور،عمرکوٹ، سندھڑی اور میرپورخاص سب کا پانی یہ علاقہ برداشت کرتا ہے۔

گویا سیلاب کے دنوں میں پورے سندھ کا پانی قدرتی آبی گزر گاہوں، سیم نالوں اور نہروں کے ذریعے یہاں پہنچ کر اکٹھا ہوجاتا ہے، مگر راستے میں رکاوٹ کی وجہ سے سمندر تک نہیں پہنچ پاتا اور یوں پانی اِن ندی نالوں سے نکل کر شہروں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اگر یہ خود ساختہ بند توڑ کر اُس سے آگے کا 74 کلو میٹر کا علاقہ قبضہ مافیا سے واگزار کروالیا جائے، تو پانی اپنا روایتی راستہ اختیار کرلے گا، جس سے صوبہ سیلاب سے محفوظ رہ سکتا ہے۔‘‘

مقامی سماجی رہنما اور بلدیاتی کاؤنسلر، ایڈووکیٹ محمّد اشفاق کا کہنا ہے کہ’’ حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ مختلف علاقوں میں کھڑا سیلابی پانی مختلف ندی نالوں کے ذریعے خود ہی اُتر جائے گا، لیکن وہ اِس بات پر توجّہ نہیں دے رہی کہ علاقے میں جس پیمانے پر پانی کھڑا ہے، اُسے اِس طرح نکلنے میں کم از کم دو ماہ درکار ہوں گے اور پھر زمین کو خشک ہونے کے لیے بھی وقت درکار ہوگا۔ یوں کئی ماہ تک علاقے میں گندم سمیت کوئی نئی فصل کاشت نہیں کی جاسکے گا۔لہٰذا، پانی کی نکاسی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹائی جائیں تاکہ پانی تیزی سے نکل سکے اور متاثرین اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ 

ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ سندھ حکومت نے 2011ءمیں قدرتی آبی گزر گاہوں کا روایتی راستہ کھولنے اور رکاوٹیں ہٹانے سے متعلق جو قانون بنایا تھا، اُس پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے۔‘‘نوکوٹ سے تعلق رکھنے والے سماجی رہنما، نعمان وہاب یوسف زئی کا کہنا ہے’’ شہر کے اطراف سے گزرنے والے ایل بی او ڈی سیم نالے کی صفائی، پُشتوں کی مضبوطی نہ ہونے اور قدرتی آبی گزر گاہ ڈھورو پر قائم تجاوزات کی وجہ سے علاقے کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے ایک ماہ سے نوکوٹ شہر کی مرکزی شاہ راہ سے آمدورفت مکمل بند ہے، نواحی دیہات زیرِ آب ہیں،ہزاروں ایکڑ پر کھڑی مرچ اور کپاس کی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں اور اب گندم کی بوائی بھی ممکن دِکھائی نہیں دیتی۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید