• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی معاشرے کی ترقی اور اصلاح کیلئے انصاف کا ہونا بہت ضروری ہے۔ انصاف کی بروقت فراہمی میں تاخیر بھی نا انصافی میں شامل ہے۔ ہمارے 50فیصد سے زائد مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ہم انصاف کی فراہمی میں بہت پیچھے ہیں ۔یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں مقررہ میعاد کے اندر عدالتیںفیصلے کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان معاشروں میں نا ہمواریاں بہت کم ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک انگریزوں کے بنائے ہوئے پولیس نظام اور عدالتی نظام کی پیروی کی جا رہی ہے، اصلاحات اور تبدیلیاں بہت کم ہوئی ہیں۔ تھانوں کے کلچر کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔ عدلیہ کی بہتری کیلئے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالتوں سے انصاف کی عدم فراہمی میں پولیس سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو اقربا پروری اور لالچ کی وجہ سے عدالتوں کو حقائق سے نہ آگا ہ کرتی ہے اور نہ ہی حقائق پر مبنی شواہد کو عدالتوں میں پیش کرتی ہے ۔ عدلیہ کا نظام بھی انگریز دور کا ہے جس میں انصاف کی فراہمی میں کئی سال لگ جاتے ہیں ،سائلین کی جائیدادیں بک جاتی ہیں لیکن ان کے کیس کئی کئی سال عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں جن کی نشاندہی چیف جسٹں نے بھی کی ہے ۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ،جسٹس اطہر من اللہ بھی عدلیہ کی اصلاح کیلئے مختلف اقدامات کرنے کے موضوع پر ایک سمینار میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جوڈیشل سسٹم غیر معمولی تاخیر کا شکار ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تیز ترین انصاف کی فراہمی کیلئے اقدامات کرے ۔ ہمارا سول اور کریمنل کورٹس سسٹم ایک صدی پرانا ہے، دنیا بدل گئی مگر ہمارے قوانین نہ بدلے ۔ عدلیہ کے حوالے سے بہت ہی اہم موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا سب سے بڑا مسئلہ جس کا ہم سامنا کررہے ہیں ،وہ انصاف میں تاخیر کا ہے۔لوگوں کوبر وقت انصاف کی فراہمی کے لیے ریفارمز کی ضرورت ہے۔ ان سب کی ذمہ دار صرف عدلیہ نہیں ایگزیکٹو بھی ذمہ دار ہیں، ڈسٹرکٹ کورٹس اور پولیس ابھی تک صحیح طرح سے کام نہیں کررہی ،کسی بھی جوڈیشل سسٹم کیلئے پراسیکیوشن برانچ اہم ترین ہے۔ما تحت عدلیہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے کہ ماتحت عدلیہ میں ایلیٹس نہیں بلکہ غریب لوگ جاتے ہیں۔سسٹم کی بہتری کیلئے ریفارمز کی اشد ضرورت ہے سسٹم کی بحالی کیلئے اب مزید اور نئی ریفارمز کی ضرورت ہے ۔عدلیہ کے حوالے سے ایک اہم سیمینار سے خطاب کا موقع ملا۔موضوع تھا ”تنازعات کا بہتر حل“، عرض کیا کہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے لیکن قوانین میں تبدیلی نہ آسکی، آج بھی ہمارے کیسز غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عام سائلین کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سائلین کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے عدلیہ کے ساتھ ایگزیکٹو بھی اگر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو تنازعات بہتر طریقے سےمنتظم ہوسکتے ہیں، یہ ملک کا دارالحکومت ہے جس میں ضلعی انتظامیہ کے پاس پراسیکیوشن برانچ نہیں۔گزشتہ ماہ ایک کیس کا فیصلہ سنایا گیا جو 1972میں دائر کیا گیا تھا۔اسٹیٹ نے کبھی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو ترجیح نہیں دی، ضلعی عدالتیں عام آدمی کو انصاف فراہم کرتی ہیں لیکن وہ غفلت کا شکار ہیں، اے ڈی آر سسٹم کا ہونا بہت ضروری ہے اور تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے، انصاف کی فراہمی کے لئے انفراسٹرکچر بھی بہت ضروری ہے ۔ ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ریفارمز پروجیکٹ شروع کیا جسٹس ریفارمز پروجیکٹ کےذریعے عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی ہے،جس میں شدید مشکلات کا سامنا تھا ۔مجھے یہاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو معزز ججز کی موجودگی پر خوشی ہوئی جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس اسحاق خان ڈسپیوٹ مینجمنٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ،اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسپیوٹ مینجمنٹ کے حوالے سے اقدامات کیے،ایک اصلاحاتی پروگرام کا اغاز کیا جس سے عام آدمی کاعدلیہ پر اعتماد بحال کرنے کیلئےکام جاری ہے ۔ ڈسپیوٹ مینجمنٹ کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پروگرام میں انگیج کیا گیاہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو سائلین کو جواب دہ ہونے کا احساس ہے اور وہ اس ذمہ داری کو سمجھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے جن باتوں کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے وہ بہت ضروری ہیں اور ان میں اصلاح کر کے عدالتی نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے، ہمارا اسلامی نظام عدل بھی اصلاح کا ایک بہترین نمونہ ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عدلیہ کے ادارے کو بہت اہمیت حاصل ہے اور قوانین سب کیلئے برابر ہیں ۔ہماری عدلیہ کو بھی احساس ہے کہ انصاف کی فراہمی میں کون کون سی رکاوٹیں ہیں اور ان کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔

بہت سے ایسے کیس ہمارے سامنے ہیں کہ بہت سے قیدیوں نے 18 سال جیل کاٹی اور پھر بری ہو گئے ایسا عدالتی نظام تشکیل دینا ہو گا کہ جس میں ایسے واقعات نہ ہوں اور جرم ثابت ہونے سے پہلےکسی پر مقدمہ نہ چلایا جائے۔ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے پھر ہی ہمارا نظام ترقی کی جانب بڑھ سکتا ہے۔

تازہ ترین