تصاویر،رابرٹ جیمس
پاکستان سمیت دنیا بھر میں منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال اور خرید و فروخت میں ہوش رُبا اضافہ ایک گمبھیر شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ہی مُمالک اس مذموم دھندے اور بدترین علّت کے خوف ناک اثرات سے سخت پریشان ہیں کہ اس کے سبب نوجوان نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہورہا ہے، حتیٰ کہ اسکولز، کالجز، یونی ورسٹیز کے طلبہ بھی مختلف قسم کے نشوں کی لعنت کا شکار ہورہے ہیں۔ خاص طور پر پچھلے چند برسوں کے دوران متعدّد نوجوان آئس جیسے خطرناک اور جان لیوا نشے کی لت میں گرفتار ہوئے ہیں۔
آئس یا کرسٹل میتھ نامی نشہ ایک خاص کیمیکل سے بنایا جاتا ہے اور دیگر نشوں کی نسبت زیادہ خطرناک اس لیے ہیں کہ یہ چرس، ہیروئن کی طرح جڑی بوٹیوں سے نہیں، زائد المیعاد ادویہ میں موجود ایفیڈرین ایمفٹامین سے تیار کیا جاتا ہے اور انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ سگریٹ، ناک اور انجیکشن تینوں طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے گزشتہ سال شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’پاکستان میں ہیروئن کی وبا کا آغاز 1982ء میں ہوا اور 1983ء تک پاکستان میں اس نشے کے استعمال کے صرف 4 کیسز سامنے آئے تھے، لیکن پھر بدقسمتی سے بہت کم عرصے میں نشے کے عادی افراد میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 70لاکھ سے زائد افراد مختلف قسم کے نشوں کی لت میں مبتلا ہیں۔ جن میں پندرہ سے اکتیس برس تک کی عمر کے نوجوانوں کے علاوہ تقریباً 42لاکھ افراد مکمل طور پر نشے کے عادی ہیں۔‘‘
اگرچہ اس قبیح لعنت پر قابو پانے اور اس کے مُضر اثرات سے آگاہی کے لیے اخبارات میں متواتر مضامین شایع کیے جاتے ہیں۔ متعدّد پروگرامز، سیمینارز، کانفرنسزکا انعقاد ہوتا ہے، مگر نشے کی موذی لت میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مُلک بھر میں روزانہ 700افراد مختلف قسم کی منشیات استعمال کرنے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور یہ تعداد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہلاکتوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ پھر ’’افغانستان سے اسمگل شدہ نشہ آور اشیاء بآسانی دست یاب ہونے کی وجہ سے بھی پاکستان میں ان کا استعمال بڑھ رہا ہے۔‘‘
واضح رہے، پاکستان میں ہیروئن کی تیاری، خرید و فروخت اور اسمگلنگ کا آغاز انقلابِ ایران اور پھر افغانستان پر روسی حملے کے بعد ہوا۔ ایران کی حکومت نے جب منشیات کے اسمگلرز کے لیے سزائے موت مقرّر کی، تو افغانستان کے بعض اسمگلرز نے پاکستان کے آزاد قبائلی علاقوں میں بااثر مقامی افراد کے تعاون سے ہیروئن تیار کرنے کی لیبارٹریز قائم کرلیں۔ آزاد قبائلی علاقوں اور شمالی علاقہ جات میں افیون کی کاشت کی وجہ سے ان لیبارٹریز کے لیے خام مال کی فراہمی مشکل نہ تھی۔
اُدھر پاک، افغان تجارتی راہ داری کا ناجائز فائدہ اٹھاکر افغانستان سے ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز پاکستان کے آزاد قبائلی علاقوں میں قائم لیبارٹریز تک بآسانی پہنچائے جانے لگے۔ چوں کہ اس مذموم دھندے میں انتہائی بااثر افراد اور بعض سیاست دانوں سمیت انسدادِ منشیات کے ذمّے دار سرکاری اداروں کے کچھ اعلیٰ افسران بھی ملوث ہوگئے، تو کسی ’’بڑی مچھلی‘‘ پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا۔
نتیجتاً منشیات کا غیرقانونی دھندا تیزی سے پَھلتا پُھولتا رہا اور ان ہی ضمیر فروش افراد کی لالچ و ہوس کی وجہ سے آج سڑکوں، میدانوں اور ویرانوں میں لاتعداد نوجوان نشے میں دُھت، مدہوش پڑے نظر آتے ہیں۔ خود کو تباہ و برباد کرنے والے ان افراد میں سے کچھ گھریلو مسائل کا شکار ہونے کے سبب جب کہ بیش تر بےروزگاری اور معاشرتی بے حسی کی وجہ سے اس علّت کا شکار ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر کی افیون کا 80 فی صد افغانستان پیدا کرتا ہے، جب کہ برما دنیا کا سب سے زیادہ ہیروئن پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں 2 لاکھ 80 ہزار افراد منشیات استعمال کرتے ہیں، جب کہ حقیقتاً اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پھر نوجوانوں کے بڑی تعداد میں منشیات کے شکار ہونے کے ساتھ خواتین اور لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادو شمار کے مطابق صرف کوئٹہ میں منشیات کے عادی رجسٹرڈ افراد کی تعداد 28 ہزار سے زائد ہے، جب کہ شہر کے وسط میں قائم سٹی نالے پر روزانہ لاکھوں روپے کی منشیات فروخت کی جاتی ہیں۔
یاد رہے، یہ نشے کے عادی افراد مختلف سماجی برائیوں کے علاوہ انتہائی خطرناک مرض ایڈز پھیلانے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق صوبے میں ایدز کے تشخیص شدہ مریضوں کی تعداد ساڑھے سات سو سے زائد ہے۔ اسی طرح صوبے بھر میں کم عمر بچّوں میں بھی منشیات کا رجحان خطرناک حد تک بڑھتا جارہا ہے۔
بلوچستان کے مختلف شہروں، خصوصاً کوئٹہ کے نواحی علاقوں سریاب روڈ، مشرقی بائی پاس، کلی اسماعیل، کاسی روڈ، شال درہ اور پشتون آباد سمیت دیگر علاقوں میں قائم منشیات کے اڈے کم سِن بچّوں کو نشے کا عادی بنانے میں بڑا کردار ادا کررہے ہیں کہ بیش تر بچّے گھروں سے تیار ہوکر اسکول جانے کے بجائے ان اڈوں پر پہنچ جاتے ہیں اور وہاں سے بھنگ، حشیش، ہیروئین، آئس اور چرس کے علاوہ بھی دیگر نشہ آور اشیاء بآسانی حاصل کرکے بلاخوف و خطر استعمال کرتے ہیں۔
کس قدر افسوس و ذلّت کا مقام ہے کہ کوئٹہ شہر میں منشیات کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا مرکز گورنر وزیراعلیٰ ہائوسز اور آئی جی پولیس کے آفس سے چند سو قدم کے فاصلے پر واقع ’’سٹی نالا‘‘ ہے۔ یہ سٹی نالا طویل عرصے سے نشے کے عادی افراد، منشیات فروشوں اور دیگر سنگین جرائم میں مطلوب ملزمان کی آماج گاہ اور محفوظ پناہ گاہ تصور کیا جاتاہے۔ شہر کے بیچوں بیچ سے گزرنے والا یہ نالا برطانوی دَور میں برساتی پانی کی نکاسی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
گرچہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے یہاں وقتاً فوقتاً منشیات فروشوں اور نشے کے عادی افراد کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ آج بھی منشیات فروشوں، چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت گری سمیت سنگین جرائم میں ملّوث افراد کا محفوظ ٹھکانہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے نالے کے تمام داخلی راستے بند کرکے دیواریں بھی تعمیر کردی گئی تھیں، لیکن نشے کے عادی افرادنے دیواریں کو مسمار کرکے اپنا قبیح دھندا دوبارہ شروع کردیا۔ عموماً کسی آپریشن کے بعد کچھ عرصہ مذموم کاروبار بند رہتا ہے، لیکن پھر جلد ہی منشیات کے عادی افراد اور منشیات فروش اسے اپنی آماج گا بنالیتے ہیں اور دھندا اسی زور و شور سے دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔
رواں برس ستمبر کے پہلے ہفتے میں بھی کوئٹہ پولیس نے سٹی نالے میں منشیات فروشوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا، جس میں 8بدنامِ زمانہ اشتہاری ملزمان ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس، کوئٹہ، اظفرمہیسر نے گرینڈ آپریشن کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ایک بریفنگ میں بتایا کہ ’’کوئٹہ کے سٹی نالے میں پولیس کی کارروائی کے دوران قتل ودیگر سنگین مقدمات میں ملوث 8منشیات فروش فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ منشیات فروشوں کے قبضے سے منشیات کے ساتھ جدید اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔
آپریشن کے دوران مارے گئے۔ ملزمان میں منشیات فروشوں کے گروہ کا سرغنہ آصف عرف صفو بھی شامل تھا، جو پولیس پر فائرنگ، دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل سمیت کم از کم 9 مقدمات میں مطلوب ملزمان تھا اور منشیات فروشوں کی ’’وانٹڈلسٹ‘‘ میں پہلے نمبر پر تھا۔ باقی مارے گئے سات افراد بھی انتہائی مطلوب تھے۔ ملزمان سے پستول اور آٹو میٹک مشین گن سمیت جدید اسلحہ اور بھاری مقدار میں منشیات بھی برآمد کی گئی ہیں۔
ملزمان نے نالے کے اندر خفیہ ٹھکانے اور اڈے قائم کر رکھے تھے، جنہیں مسمار کیا جا رہا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی نے بتایا کہ ’’سٹی نالے کی حدود میں 5تھانے لگتے ہیں، ہم وہاں پولیس چوکیاں قائم کررہے ہیں، تاکہ دوبارہ اس نالے پر منشیات کا اڈا نہ بن سکے۔ نیز، آپریشن کے دوران ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو سٹی نالے سے نکالا گیا ہے۔ اِن شاء اللہ دو سے تین ماہ کے اندر مزید کارروائیاں کرکے یہاں سے منشیات فروشوں کامکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔‘‘
پولیس ذرائع کے مطابق اس بڑے سٹی نالے کے اندر سے باچا خان چوک اور لیاقت پارک سمیت مختلف مقامات پر کئی چھوٹے نالے نکلتے ہیں، جہاں سے شہر کا گندا پانی گزرتا ہے۔اکثر جب بھی منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کے لیے پولیس نالے کے اندر جاتی، تو ملزمان فائرنگ کرکے ان نالوں کے اندر ہی اندر سے فرار ہوجاتے۔ گینگ کا سرغنہ زیادہ تر نالے ہی میں رہتا تھا اور اس نے مختلف داخلی راستوں پر مورچے بنا کر مسلّح لوگ بٹھا رکھے تھے، جو 24 گھنٹے پہرہ دیتے تھے۔
اس کے علاوہ منشیات کے عادی افراد کے بھیس میں بھی ان کے کئی مخبر نالے کے اوپر جناح روڈ، عدالت روڈ اور میزان چوک سمیت مختلف علاقوں میں موجود ہوتے تھے، جو پولیس کی نقل و حرکت کی اطلاع گینگ کو دیتے، لہٰذا وہ پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی چوکس ہوتے اور فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو جاتے۔ گرینڈ آپریشن کے دوران پولیس نے چار سے پانچ مختلف مقامات پر اسنائپرزکی مدد سے مختلف اطراف سے نالے کے اندر اچانک داخل ہو کر ملزمان کو فرار ہونے سے پہلے ہی گھیرے میں لے لیا۔
مارے گئے باقی چھے ملزمان کی شناخت عزّت اللہ، جنیدعرف بیدو ماما، نادر، عنایت اللہ، شوراوئی اوریاور عبید کے نام سے ہوئی، جب کہ ایک ملزم کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی ہے۔ پولیس کی جانب سے فراہم کیے گئے ریکارڈ کے مطابق ملزم جنید احمد کے خلاف گزشتہ چھے سال میں کوئٹہ کے چار مختلف تھانوں میں منشیات فروشی کے الزام میں چار مقدمات درج کیے گئے۔ علاوہ ازیں، وزیراعلیٰ بلوچستان، میرعبدالقدّوس بزنجو نے کوئٹہ سٹی نالا میں منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور کارروائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آپریشن میں حصّہ لینے والی پولیس ٹیم کو مبارک باددی اور ان کے لیے کیش ایوارڈز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’منشیات فروش معاشرے کا ناسور ہیں، انہیں کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے محکمے کے افسران کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ ان کے خلاف آپریشن مکمل خاتمے تک جاری رکھا جائے۔‘‘
بہرحال، منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور اور مربوط آپریشن کے ذریعے ان کا قلع قمع کرنےکے بعد صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ عادی افراد کوعلاج معالجے کے بعد صحیح ڈگر پرلانےکے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ اس ضمن میں نوجوانوں میں بڑھتی بے چینی اور ڈیپریشن کی وجوہ جاننے کے ساتھ ان کا سدباب بھی بہت ضروری ہے اور اس حوالے سےسیاسی و مذہبی جماعتوں، سماجی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور والدین کے ساتھ ساتھ میڈیا اور شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھاری ذمّے داری عائد ہوتی ہے۔ کوئٹہ پولیس تو تن دہی اور ایمان داری سے انسدادِ منشیات کے لیے کوشاں ہے، لیکن جب تک اس حوالے سے دیگر متعلقہ حکومتی ادارے بھی اپنا فعال کردار ادا نہیں کرتے، صورتِ حال تسلّی بخش نہیں ہوگی۔
افغانستان میں پابندی کے بعد بلوچستان اور کے پی کے منشیات فروشوں کے گڑھ بن گئے، ڈائریکٹر ڈی آر سی، جاوید بلوچ
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے زیرِاہتمام کام کرنے والے ادارے ’’ڈی ٹاکسیفیکیشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن کمپلیکس‘‘ (DRC) کوئٹہ کے ڈائریکٹر، جاوید بلوچ نے منشیات کے شکار افراد کے علاج معالجے اور بحالیٔ صحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت کوئٹہ شہر میں منشیات کے شکار افراد کے علاج اور بحالئ صحت کے حوالے سے ایک سرکاری اور14غیر سرکاری مراکز موجود ہیں، جب کہ چار مراکز کی عمارتیں زیرِ تعمیر ہیں۔
سرکاری مراکز میں ہر پیر کے روز 20مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے، جہاں ان کا مفت علاج ہوتا ہے۔ علاج معالجے کی غرض سے داخل مریضوں کو دو حصّوں، پرائمری اور سیکنڈری میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پرائمری سطح کے مریضوں کو نماز کی پابندی کروانے کے ساتھ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالی جاتی ہے اور اُن کی کائونسلنگ کی جاتی ہے، جب کہ سیکنڈری سطح پر مریضوں کو مختلف ہُنر سکھائے جاتے ہیں، تاکہ وہ صحت یاب ہوکر معاشرے میں باعزت روزگار کمانے کے قابل ہوسکیں۔‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’افغانستان میں منشیات کی خرید و فروخت پر پابندی کے بعد منشیات فروشوں نے پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو گڑھ بنالیا ہے اور اس کے اثرات ان دونوں صوبوں پر واضح نظر بھی آرہے ہیں کہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس کا واضح ثبوت ہے، لہٰذا اس ضمن میں انسدادِ منشیات کے اداروں کو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اکثر مریض علاج سے صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ پرانے ماحول میں جا کر نشہ شروع شروع کردیتے ہیں، جس کی بڑی وجہ بآسانی منشیات کی دست یابی ہے، توجب تک منشیات کی خرید و فروخت پر سختی سے پابندی عاید نہیں کی جائے گی، ان افراد کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوسکتی۔جب کہ 14نجی بحالی مراکز میں صرف دو تین مراکز ہی ایسے ہیں، جو علاج معالجے کے معیار پر پورا اترتے ہیں کہ اکثر مراکز میں تو بنیادی سہولتیں تک موجود نہیں۔‘‘
’’انسانیت بچاؤ سینٹر‘‘ کی غیرفعالی، سوالیہ نشان؟
نشے کے عادی افراد کے علاج معالجے اور بحالئ صحت کے لیے سرکاری سطح پر تو کوئی خاص اقدامات نظر نہیں آتے، لیکن اس ضمن میں غیر سرکاری تنظیمیں کسی حد تک کوششیں کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ چند برس قبل ’’انسانیت بچائو سینٹر ‘‘نامی ادارے نے کوئٹہ شہر سے منشیات کے عادی افراد کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس ادارےکے تحت مختلف مقامات پر بحالی مراکزقائم کیے گئے۔ سینٹر کی موبائل گاڑیاں شہر بھرمیں گھومتی پھرتیں اور جہاں کہیں نشے کا عادی شخص نظر آتا، اُسے گاڑی میں ڈال کر بحالی مرکزمنتقل کر دیا جاتا، لیکن بعدازاں یہ سینٹر نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر غیر فعال ہوگیا۔
سینٹر کے ایک عہدے دار نے اس حوالے سے بتایا کہ ’’ہمیں حکومت کی جانب سے بلیلی میں جگہ فراہم کی گئی تھی، جہاں نشے کے عادی مریضوں کو طبی سہولتیں فراہم کی جا رہی تھیں، لیکن بعد میں مذکورہ مقام پر ’’بیگرز ہوم‘‘ قائم کرکے ہم سے عمارت خالی کروالی گئی۔ جس کے بعد ہم مشرقی بائی پاس منتقل ہو گئے اور اپنی مدد آپ کے تحت ایک چھوٹاسا بحالی مرکز قائم کیا۔ اس وقت اس ہمارے بحالی مرکز پر 170کے قریب مریض زیر علاج ہیں۔ جب کہ اگر حکومت ہمیں صرف عمارت اور ادویہ فراہم کردے، تو ہم پورے شہر میں موجود نشے کے عادی افراد کا علاج معالجہ کرسکتے ہیں۔‘‘