• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر جوبائیڈن کے گزشتہ دنوں دیئے گئے بیان کہ ’’پاکستان دنیا کے ان خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے جس کے پاس موجودہ ایٹمی ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘‘ نے ہر شخص کو حیرانی سے دوچار اور یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات جو بہتری کی جانب گامزن تھے، بائیڈن کے اِس بیان کے دونوں ممالک کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ امریکی صدر نے یہ بیان ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کی ایک تقریب میں روس اور چین پر تنقید کرتے ہوئے دیا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی بے قاعدہ قرار دے دیا تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر جوبائیڈن کے مذکورہ بیان کو حقائق کے برعکس اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا کہ پاکستان انتہائی ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور ہمارا جوہری پروگرام مؤثر تکنیکی اور فول پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے زیر انتظام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’دنیا کو اصل خطرہ بڑے ممالک کی اسلحہ کی دوڑ اور اُن ممالک سے ہے جہاں جوہری ہتھیاروں سے متعلق بار بار حادثات پیش آرہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بھی یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جو بین الاقوامی قوانین اور طریقوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور ہمارا ایٹمی پروگرام کسی بھی ملک کیلئے خطرہ نہیں۔بعد ازاں حکومت پاکستان نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کروایا جس کے نتیجے میں وائٹ ہائوس کو وضاحت کرنا پڑی کہ امریکہ ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان دیکھنا چاہتا ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا جب پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ امریکہ، سیکرٹری دفاع لوئیڈ آسٹن سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات اور امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا آزاد کشمیر کا دورہ جس میں انہوں نے آزاد کشمیر کو خود مختار علاقہ قرار دیا، کے تناظر میں پاک امریکہ تعلقات جو عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کے باعث سرد مہری کا شکار تھے، اُن میں بہتری کے آثار نمایاں ہورہے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کو اس بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حالیہ دنوں میں امریکہ کے چین اور روس سے تعلقات میں کشیدگی کھل کر سامنے آئی ہے اور امریکہ جھنجھلاہٹ میں ان ممالک کے دوست ممالک پر دبائو بڑھا رہا ہے۔ حال ہی میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک جس کی سربراہی سعودی عرب کررہا ہے، کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے فیصلے پر امریکہ ناخوش تھا۔ امریکہ کا موقف تھا کہ ایسا کرنے سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کا فائدہ روس کو پہنچے گا جو یوکرین جنگ میں مددگار ثابت ہوگا لیکن سعودی ولی عہد نے امریکی صدر کا دبائو مسترد کردیا جس پر جوبائیڈن نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور سعودی عرب کو سبق سکھانے کی دھمکی دی جس کے ردعمل میں سعودی ولی عہد کے بھائی سعود الشعلان نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’’امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اگر سعودی عرب کے وجود کو چیلنج کیا تو ہم اُن کیخلاف جہاد کیلئے تیار ہیں۔‘‘

پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام شروع دن سے ہی امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے، جوبائیڈن کا حالیہ بیان اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔ زیادہ اچھا ہوتا کہ بائیڈن بھارت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے کیونکہ کچھ ماہ قبل بھارت کا جوہری ہتھیار لے جانے والا ایٹمی میزائل پاکستان کی حدود میں آگرا جسے بھارتی حکام نے اپنے سسٹم کی غلطی قرار دیا جبکہ گزشتہ برس بھی بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے واقعات رونما ہوئے جس پر میں نے ایک کالم بھی تحریر کیا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان انتہائی ذمہ دار جوہری ریاست ہے ۔ ہمارا جوہری پروگرام فول پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت محفوظ ہے ، خود امریکہ بھی کئی مواقع پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے منظم ہونے کی تائید کرتا رہا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے جاپان کے خلاف نیوکلیئر ہتھیار کا استعمال کیا۔

امریکی صدر کے حالیہ بیان کی ایک وجہ پاکستان کے چین کے علاوہ روس سے بھی بڑھتے ہوئے روابط ہیں جن سے امریکہ خوش نہیں۔ عمران خان کے 4 سالہ دور حکومت میں سی پیک پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی تاہم شہباز شریف حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی سی پیک کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے اور سی پیک منصوبوں کی تکمیل میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے جس سے سی پیک کے مخالفین ناخوش ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان سے کچھ منوانے یا سائیڈ لینے اور ڈومور کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے جس میں سی پیک پر عملدرآمد روکنے اور چین سے کنارہ کشی اختیار کرنے جیسے مطالبات شامل ہوسکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے 1998ء میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رہنے کی دھمکی اور 5 ارب ڈالر کی پیشکش ٹھکراکے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ وقت آگیا ہے کہ ان کے بھائی وزیر اعظم شہباز شریف امریکہ کو سخت پیغام دیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام غیر منظم نہیں اور حکومت ڈومور اور امریکی دبائو میں آکر سی پیک منصوبوں اور چین سے دوستانہ تعلقات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین