وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف توانائی کے بحران پر قابو پانے میں پیش پیش جبکہ وزیراعظم محمد نواز شریف فرماتے ہیں: توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں۔
لگتا ہے وزیراعظم پاکستان کے کہنے میں صرف وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں، وہ کہتے جاتے ہیں اور شاباش شریف کرتے جاتے ہیں، ویسے وہ نہ بھی کہتے تو شہباز پنجاب سولو اڑان بھرتے، انہوں نے کینیڈین کمپنی سے 500میگا واٹ سولر پراجیکٹ لگانے کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ اور 1000 میگا واٹ سولر انرجی پلانٹ پر بھی زور شور سے کام ہو رہا ہے، توانائی بحران صرف بجلی ہی کا نہیں جسمانی بھی ہے، البتہ ہوس توانائی میں کہیں کوئی کمی نہیں، جسمانی توانائی کے لئے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کوئی نسخۂ کیمیا لائیں، سبزیوں، دالوں اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ جرائم میں اضافے پر بھی سبقت لے گیا، غریب لوگوں نے بڑے ذوق شوق سے جوق در جوق شیر کی پشت پر ٹھپے لگائے مگر شیر پشت دکھاتا نظر آتا ہے، کچھ اس کا بھی علاج اے شہباز پنجاب ہے کہ نہیں؟ جو لوگ بہت پڑھے لکھے ہیں، وہ تو کتابوں تحریروں سے بہل جاتے ہیں معدے ان کے کام نہیں کرتے ایک نوالے پر بھی 24گھنٹے نکال جاتے ہیں، اور بڑے لہک لہک کر یہ شعر پڑھتے اور خود اپنا ہی سر دھنتے ہیں
مشاطہ رابگو کہ براسباب حسنِ یار
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسید
(سنگھار کرنے والی بیوٹیشن سے کہہ دو کہ یار کے میک اپ میں کچھ زیادہ کاسمیٹکس استعمال کرے تماشا ہم بھرے سر والوں اور خالی پیٹ والوں تک آ پہنچا ہے)
اس وقت طالبان سے مذاکرات، ڈرون اور سپلائی کی بندش کی طرف دھیان دینا ترک کر کے ساری توجہ عوام کو مہنگائی کے جن سے چھڑانے پر لگا دی جائے، سنا ہے کہ ن لیگ کے پاس تسخیر موکلات ہے، کوئی وظیفہ ہی قوم کو بتا دیں کہ اُن کے وظیفے میں کچھ اضافہ ہو، واللہ بندۂ مفلس کے اوقات بہت تنگ ہیں۔ اس بارے ڈینگی سے بھی بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے:کراچی آپریشن میں سال نہیں مہینے لگیں گے،
وزیر موصوف یہ بھی بتا دیتے کہ اُن کا سال کتنے مہینوں کا ہوتا ہے، تاکہ کراچی کے لوگ حساب کتاب لگا کر مہینوں کے سال خود ہی بنا لیں گے، انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کوئی نوگو ایریا نہیں رہنے دیں گے، ظاہر ہے جب کراچی ہی کسی افتاد کی زد میں آ گیا تو نو گو ایریا تو خود بخود ہی ختم ہو جائے گا۔ ہمیں اب معلوم ہوا کہ وہ علم غیب بھی جانتے ہیں، بس اتنا خیال رکھیں کہ کہیں ان پر کوئی فتویٰ نہ لگ جائے، انہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے، ویسے تو اُن کی الجھی لٹیں خود اُن کا ’’نظر وٹو‘‘ہیں، اور مسلسل اُن کے رخِ زیبا کی بلائیں لیتی رہتی ہیں۔ کراچی کے بارے سپریم کورٹ نے کہا تھا: یہ نہ ہو کہ کراچی رخصت لے لے، وزیر داخلہ داخلی طور پر بھی اور ظاہری طور پر بھی سوال جواب کے ماہر، پریس کانفرنسوں کے دھنی، اور کراچی میں دھڑام دھڑام لاشیں گرنے کی آواز سے بے بہرہ، اپنا کام نہایت تندہی سے کرتے جا رہے ہیں، انہوں نے کراچی کے لئے بھی توانائی پروگرام کی طرح پانچ سالہ منصوبہ بنا رکھا ہے، اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے، کہ وہ گاڑی بروقت اپنی منزل پر پہنچا دیں گے اور کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ گاڑی لیٹ ہو گئی، یا خالی آ گئی، ممکن ہے وہ مہاجرین کراچی سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہو، تھوڑا تصرف کیا جائے تو اقبال کا یہ مصرع یوں بھی پڑھا جا سکتا ہے، نظریۂ ضرورت کے تحت ،
’’نثار‘‘ بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے،
دوسرا مصرع تو آپ کو یاد ہی ہو گا، ہم کیوں کاغذ سیاہی کا زیاں کریں، کراچی میں بے تحاشا پولیس اور رینجرز تعینات ہیں، مگر حالات پہلے سے بھی بگڑتے جا رہے ہیں، وزیر موصوف سب اچھا کی تصویر دکھانے والوں کے آئینے سے دور رہیں جو بھی اس میں اترا ہے، یا اتارا گیا ہے اسے ساری زندگی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ
زیں راہ کہ تو میروی اے اعرابی بترکستان است
(جس راہ تم اے بدو چل پڑے ہو یہ تو ترکستان کو جاتاہے۔)
٭٭٭٭
ملا فضل اللہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ مقرر حکومت سے امن مذاکرات نہ کرنے کا اعلان، حکومت پاکستان نے نو منتخب سربراہ کے سر کی قیمت 5 کروڑ مقرر کر رکھی ہے۔
اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ ایک موقع اُس نے دیا تھا اس کے بارے بھی یقین نہیں کہ کس نے گنوا دیا، اب تو بس یہی کہہ سکتے ہیں
نہ گنوائو ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
طالبان پاکستان نے بڑی تیزی سے نیا سربراہ چن لیا اور انہوں نے آتے ہی مذاکرات کے امکان پر خطِ تنسیخ پھیر دیا، گویا انتقام کی جلدی ہے، اب یہ جو بپتا آئے گی اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ کس کو جائے گا،کسی زمانے ایک ڈرامے میں ٹوپی ڈرامے کی ترکیب ایسی چلی کہ ٹوپی پیچھے رہ گئی ڈرامہ آگے نکل گیا۔ ملا فضل اللہ، ملا بھی ہیں اور اللہ کا فضل بھی کہیں یہ ترکیب اضداد میں سے تو نہیں، جو لوگ علم بدیع جانتے ہیں وہ ہماری بات سمجھ گئے ہوں گے، بہرحال اقبال نے نہ جانے کس کو یہ مشورہ افغانستان کے بارے دیا تھا کہ
مُلا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
شاید علامہ صاحب کو یہ معلوم نہ تھا کہ ملا پاکستان آ جائے گا، مولانا فضل الرحمن کی پہلی خدمات تو کام آ گئیں اب دیکھتے ہیں نئے سربراہ کو آمادۂ مذاکرات کرنے میں وہ کونسی گدڑ سنگھی زنبیل سے نکالتے ہیں، بہرحال ہر حکومت کے لئے وہ آدمی ہیں کام کے، اور ہر دلدل سے اُسے نکالنے کا وافر اجر بھی پاتے ہیں، کیونکہ خدا بہت رحیم و کریم ہے، اب یہ نئے سربراہ جن کا سر بہت قیمتی ہے، کیسے حکومت خرید پائے گی، ظاہر ہے اگر ’’مولانا مذاکرات‘‘ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو بھی گئے تو انہیں حکومت سے ملا فضل اللہ کی جان کی امان کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا ہو گا، اچھا ہو گا کہ نئی طالبانِ پاکستان قیادت، مذاکرات کے لئے راضی ہو جائے، مگر نظر یہ آ رہا ہے کہ ان کی ترجیحاتی فہرست میں پہلے بدلہ پھر مذاکرات ہوں گے، امریکہ نے جو چاہا اور اس کے چاہنے والوں کو جو بھایا وہ تو پا لیا گیا، اب پھر بھی یہ پریکٹس دہرائی جا سکتی ہے، کہ یہی نفع بخش کاروبار ہے، افغانستان طالبان کا ہیڈ کوارٹر ہے، طالبان پاکستان کے سر پر ملا عمر نے ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ ہمیں اپنے ہاتھ چیک کر لینے چاہئیں۔
٭٭٭٭
جعلی (ب) فارم، بچہ بازیاب کروا کے حقیقی والدین کے حوالے کر دیا گیا۔
ہائیکورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم نے لے پالک 15 سالہ سید حسن مجتبیٰ شاہ کو جعلی (ب) فارم کے ذریعے اپنا حقیقی بیٹا بنانے والے میاں بیوی سے بازیاب کرا کے حقیقی والدین کے سپرد کر دیا، اسلام نے لے پالک بنانے سے روکا ہے، اور اس طریق کار کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے ختم کرایا، لیکن نہ جانے کیوں آج بھی بے اولاد کسی کے بچے کو گود لے لیتے ہیں، ور بعد میں کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، اس کیس میں بھی دیکھیں کہ کسی کے بچے کو لے پالک بنا کر اسے گھر کا نوکر بنا دیا گیا، ظاہر ہے پرائے والدین پرائے ہی ہوتے ہیں وہ کب کسی کے بچے کو ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت دے سکتے ہیں، ہائیکورٹ لاہور کی فاضل جسٹس نے جعلی ماں کے منہ سے سچ نکل جانے پر بچہ حقیقی والدین کے حوالے کر دیا، کیونکہ انہوں نے بچے کو دیکھا کہ اسے مار پیٹ کر عدالت لایا گیا تھا، اور جھوٹ بولنے کو کہا گیا تھا، مگر جعلی دستاویز نے بھانڈا پھوڑ دیا، اور فاضل عدالت یہ بھی جان لے کہ حقیقی والدین کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اور جعلی والدین اُن کے دوسرے بچوں کو قتل کرنے اغوا کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، ان کی پشت پر کوئی با اثر شخص ہے جو حقیقی والدین کو ڈرا دھمکا رہا ہے، جہاں عدالت عالیہ نے انصاف دلایا ہے، اب ان حقیقی والدین کے بچوں کو جانی تحفظ بھی دلائے، یہ نہ ہو کہ خود غرض جعلی والدین کوئی المیہ کھڑا کر دیں۔ ہمارے ملک میں بچے کیوں ہر لحاظ سے اتنے غیر محفوظ ہو چکے ہیں؟ بہر صورت روز و شب دھمکیاں وصول کرنے والے حقیقی والدین سید اظہر اختر اور ان کی اہلیہ کو اُن کے بچوں کو درندہ صفت غیر حقیقی والدین سے بچانے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب بھی ضروری نوٹس لیں، تاکہ اس طرح کے دلدوز واقعات رونما ہی نہ ہوں۔