معیشت کی عالمی درجہ بندی کرنے والی امریکی ریٹنگ ایجنسی موڈیز Moody’s نے رواں ماہ 7 اکتوبر کو پاکستان کی خود مختار کریڈٹ ریٹنگ کو B3 سے کم کرکےCaa1کردیاجسکے بعد پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی ہوگئی ہے جبکہ 21 اکتوبر کو دوسری امریکی ریٹنگ ایجنسی فچ Fitch نے بھی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کم کرکےCCC یعنی منفی کردی ۔ موڈیز نے پاکستان میں حالیہ سیلاب کے 30ارب ڈالر کے معاشی نقصانات، بڑھتے ہوئے کرنٹ اور تجارتی خسارہ،ریونیو، آمدنی اور جی ڈی پی میں کمی کے سبب پاکستان کے قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات کی پیش گوئی کی ہے جس کیلئے پاکستان کو دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے مزید قرضے اور امداد حاصل کرنا ہوگی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے موڈیز کی منفی ریٹنگ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موڈیز نے رینکنگ میں کمی مشاورت کے بغیر کی ہے جس کے بعد وزارت خزانہ نے موڈیز کے ساتھ اہم میٹنگز میں نیا ڈیٹا اور اضافی معلومات فراہم کی ہیں جنہیں نظر انداز کیا گیا تھا ۔ موڈیز کے معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر ہے جو GDPکا 10فیصد بنتا ہے اور 2010ء کے سیلاب کے معاشی نقصانات کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہے جس کو وزارت خزانہ نے قبل از وقت اور غیر حقیقی قرار دیا ہے۔
دنیا میں اس وقت3 بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں موڈیزMoody’s ،فچ Fitchاور اسٹینڈرڈ اینڈ پوورزS&P ہیں جو قرضہ اور سرمایہ کاری کیلئے ممالک کی کریڈٹ ریٹنگ جاری کرتی ہیں جس کا مقصد کسی ملک کی معیشت کو لاحق خطرات کا جائزہ لے کر اس کی رینکنگ متعین کرنا ہے جس پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے بانڈزاورکیپٹل مارکیٹ، اس ملک کو قرضہ دینے اور سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتے ہیں۔کریڈٹ ریٹنگ منفی ہونے کی صورت میںملک کو قرضے مشکل سے اور مہنگے ملتے ہیں اور انہیں دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹ اور امداد پر انحصار کرنا پڑتاہے جبکہ معاشی طور پر مضبوط ممالک جن کی کریڈٹ ریٹنگ AAA ہوتی ہے، وہ اپنے مالی وعدے پورے کرنے کی بہترین پوزیشن میں ہوتے ہیں جسکے بعدBBB رینکنگ اور پھر CCC یعنی منفی رینکنگ کے حامل کمزور معاشی ممالک آتے ہیں جو معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتے ہیں جبکہ آخر میں D رینکنگ آتی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ملک مالیاتی اداروں کے وعدے پورے کرنے اور اپنے قرضوں کی ادائیگیوں میں ناکام ہوگیا ہے جس کی حالیہ مثال سری لنکا ہے ۔موڈیز کی حالیہ ریٹنگ سے قبل جولائی 2022ء میں امریکی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے دبائو کے سبب پاکستان کا آئوٹ لک مستحکم سے منفی کردیا تھا اور پاکستان کے معاشی حالات میں نمایاں بگاڑ کی نشاندہی کی تھی ۔ فچ نے غیر مستحکم سیاسی اور اقتصادی صورتحال کے باعث آئندہ سال جون 2023ء میں موجودہ IMF پروگرام ختم ہونے کے بعد پاکستان کو سنگین معاشی چیلنجز کی بھی پیش گوئی کی ہے ۔ پاکستان کے بارے میں یہی خدشات اسٹینڈرڈ اینڈپور (S&P) کے تھے جس نے جولائی 2022ء اور موڈیز نے جون 2022ء میں پاکستان کا آئوٹ لک منفی قرار دیا تھا حالانکہ اس سے پہلے ان تینوں کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کا آئوٹ لک مستحکم قرار دیا تھا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گزشتہ 4 سال میں پاکستان کی معاشی رینکنگ کی درجہ بندی گرکر مستحکم سے منفی ہوگئی ہے ۔ تینوں عالمی کریڈٹ ایجنسیوں کی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی کرنے کی وجہ سے پاکستان کے سکوک بانڈز ،جو پہلے ہی اپنی اصل ویلیو سے نیچے ٹریڈ ہورہے تھے، میں اب 60 سے 65فیصد سے زائدکمی آچکی ہے اور اس کی ویلیو، سری لنکا جو ڈیفالٹ کرچکا ہے ، سے بھی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جس کے باعث عالمی بانڈز مارکیٹ میں پاکستانی سکوک بانڈز کا کوئی خریدار نہیں ۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNDP نے بھی اس سال اپنی رپورٹ میں پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ خسارے، بڑھتے ہوئے قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں اضافے پر وارننگ دی ہے ۔ موڈیز کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے پہلے پاکستان کی 2O22-23ء میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3 سے 4 فیصد تھا لیکن سیلاب کے بعد اسے 1 سے 2 فیصد کر دیا گیا ہے ۔ سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبوں کو پہنچا ہے اور افراط زر یعنی مہنگائی 25سے 30فیصد پر پہنچ سکتی ہے۔ کمزور معاشی صورتحال اور جی ڈی پی کے باعث ریونیو وصولی میں کمی متوقع ہے جس کی وجہ سے رواں مالی سال بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی ریونیوکے 50فیصد تک پہنچ سکتی ہے اور حکومتی قرضوں میں 640فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے جو موڈیز کی Caa رینکنگ میںقرضوں کی حد سے دگنا ہے جسکی وجہ سے پاکستان کا ڈیفالٹ رسک 53فیصد بڑھ گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے گزشتہ روز پاکستان کو 1.5ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں جمع کرادیئے ہیں جبکہ ورلڈبینک نے 1.3ارب ڈالرکی اضافی فنڈنگ کا وعدہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جنیوا کانفرنس میں اپیل پر ممبر ممالک نے 816ملین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے جس سے پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں سپورٹ ملے گی۔ میری وزیر خزانہ سے درخواست ہے کہ وہ معیشت کی بہتر کارکردگی سے جلد از جلد پاکستان کو منفی سے مستحکم ریٹنگ پر لائیں تاکہ پاکستان پر مالیاتی اداروں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوسکے۔