• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آؤ پاکستانیو! اللّٰہ کے حضور شکر بجا لائیں، ملکی اتحاد و استحکام کی ظہور پذیر پارلیمانی وفاقی قوت تشکیل دینے والے عمران خان جی ٹی روڈ پر ریلی کی قیادت کرتے فائرنگ سے قاتلانہ حملے میں زخمی ہو کر بھی، اپنی بی ہیورئیل چینج کی جاری سیاسی جدوجہد کے لئے الحمدللّٰہ محفوظ ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ انہیں جلد اور مکمل صحت یاب فرمائے اور وہ قومی سیاست میں بھرپور سرگرم ہوں، آمین۔ خدائے بزرگ و برتر نے خان صاحب کو تیسری زندگی عطا فرمائی ہے، اللّٰہ اکبر، پہلی میں وہ کرکٹ ورلڈ کے سحر انگیز کھلاڑی بن کر ا سمارٹ پاکستانی ٹیم کی کپتانی کرتے ورلڈ کے فاتح بنے۔ ریٹائرہوکر اس ہیرو شپ سے انہوں نے عوامی اشتراک سے لاہور میں پاکستان کا پہلا اعلیٰ معیاری کینسر اسپتال قائم کرنے کا کار عظیم انجام دیا، برکت اتنی ہوئی کہ فالو اپ میں شوکت خانم اسپتال کو ملکی عطیات سے ہی پشاور اور کراچی تک وسعت ملی۔ پھر دوران سیاست ہی میانوالی جیسے روایتی ضلع میں سائنس و ٹیکنالوجی کی اعلیٰ اورجدید تعلیم کی یونیورسٹی نمل قائم کی۔ فلاح عامہ کی عظیم کامیابی کے بعد یار لوگ سیاست میں لے آئے۔ لائے ،تو واسطہ طاقت پکڑتی اسٹیٹس کو سے پڑا جو سماجی انصاف سے منحرف سیاسی نظامِ بد کی شکل اختیار کر رہا تھا۔ تین مارشل لائوں کے بعد انہی متنازعہ اور غیر آئینی ادوار کی آشیرباد سے جمہوریت، مخصوص خاندانوں میں مرتکز ہونے کا عمل تیزی سے جاری تھا۔ کرکٹر سے سیاست دان بنے عمران نے اسٹیٹس کو سے ٹکرانے اور سب شہریوں کیلئےیک قانونی نظام سے فراہمی انصاف کو یقینی بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ نظام بد سے لڑتے بھڑتے 20سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد الیکشن۔ 2013 میںقومی اسمبلی کی 28نشستیں جیت کر تحریک انصاف کو تیسری بڑی ملکی پارلیمانی قوت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اسی انتخابی مہم کے دوران لاہور میں انتخابی جلسے کے 16فٹ بلند اسٹیج کے غیر متوازن ہونے سے کمر کے بل گرائونڈ پر گر کر سخت زخمی ہوئے۔ یہ تشویش عام ہوئی کہ بچ گئے تو شاید سیاست میں سرگرم رہنے کے قابل نہ رہیں۔ لیکن گزشتہ روز کے حملے تک کے آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ خان کا روڈ میپ قدرت نے تیار کیا ہوا ہے۔ 70 سالہ خان کو کمر میں شدید چوٹیں آنے کے باوجود دوسری زندگی ملی اور وہ دو ڈھائی ماہ میں صحت کاملہ کے بعد پھر سیاست میں سرگرم ہوگئے۔ گزشتہ شام فائرنگ کے حملے میں زخمی ہونے پر بھی وہ بفضل خدا صحیح سلامت ہیں۔ حملے میں ایک کارکن کی شہادت اور تیرہ کے زخمی ہونے کے ساتھ عمران خان کے اسپتال میں ہونے کی خبر نے پورے پاکستان اور بیرون ملک پاکستانیوں کو دہلا دیا۔کیا حامی اور کیا مخالف سب ہی تو غمزدہ اور خان کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہوگئے۔ صورتحال کی تشویش بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ لیکن خود خان، ان کی جماعت اور تیور تبدیل کرتا عمران کا حامی نیا ووٹ بینک مطلوب تبدیلی برپا کرنے کیلئے پرعزم ۔


رات گئے تک عمران خان پر واضح منصوبہ بند حملے کی دنیا بھر میں مذمت اور خان اور زخمیوں کی سلامتی کی دعائیں اور نیک تمنائوں کا اظہار کیا گیا۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ، وائٹ ہائوس کے ترجمان اور امریکی وزیر خارجہ، اسلام آباد میں یورپی یونین اور جرمنی کے سفیر، حکومت برطانیہ،لندن کے میئر اور سوشل میڈیا پر سماجی رابطے کے مختلف پلیٹ فارمز پر پاکستانی ڈائس پورا کے علاوہ مسلم ممالک کے شہریوں کی جانب سے دعائوں، مذمت، تشویش اور تشدد سے گریز کی تلقین اور مخلصانہ مشوروں کا سلسلہ ملینز کے ڈیٹا کے ساتھ جاری تھا۔


پاکستانی عملی سیاست کے تناظر میں حملے کی منجانب عوام الناس غیر یقینی اور بے اعتباری سی تفتیش و تحقیق سے بھی زیادہ اہم سوال اور قومی ضرورت یہ ہے کہ اس موجودہ انتہائی تشویشناک صورتحال جس میں نوبت ایک واضح منظم حملے تک پہنچی کے GENISIS (انتہائی ابتدائی محرکات) تک رسائی حاصل کی جائے۔ پولیٹیکل کمیونیکیشن کے ا سٹوڈنٹ کے طور پر ناچیز کا ہائپو تھیسز (تحقیقی مفروضہ) تصدیق کا غالب یقین ہونے کے ساتھ یہ بنتا ہے کہ یہ پرخطر ماحول وفاقی وزیر قانون کی، قانون کی دھجیاں اڑانے والے اس اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز سرکاری ابلاغ کی مسلسل تکرار سے بنا جس میں وہ مختصر وقفوں سے اپنے ہی اس اندازے اور مفروضے کی بنیاد پر اسلام آباد کو سیل کرنے کی غیر معمولی تیاریوں کے ساتھ ’’تحریک انصاف کے ایوان ہائے اقتدار پر تصوراتی دھاوے‘‘ کا عوام کو یقین دلاتے رہے، جسے وزیر اطلاعات اور ن لیگ کے سرگرم رہنمائوں کا ٹولہ ان گنت پریس کانفرنسز میں دہراتا رہا۔ یہاں تجزیہ صرف لانگ مارچ کے حوالے سے وزیر قانون کی لاقانونیت سے اَٹے سرکاری ابلاغ کا ہو رہا ہے، جہاں تک عملی سیاست میں عمومی سیاسی ابلاغ کا تعلق ہے،اس میں تو ن لیگ اور تحریک انصاف کے قائدین اور رہنما غیر ذمے دارانہ پولیٹیکل کمیونیکیشن کے حوالے سے ایک ہی پیج پر رہے اور ہیں۔ ’’آئین نو‘‘ میں قومی سیاست میں اس بگاڑ کی نشاندہی بلاامتیاز حکومت و اپوزیشن کوکی جاتی رہی لیکن یہ بگاڑ اسٹیٹس کو کا ایک بڑا لازمہ ہے جس کی لپیٹ میں تبدیلی کے دعوئوں کے باوجود خود تحریک انصاف بھی آئی۔ یہ ایک الگ اور نسبتاً بہت مفصل و مکمل تحقیقی ا سٹڈی ہے کہ اس کا پاکستان میں کون کتنا اور کب سے ذمے دار ہے؟ لانگ مارچ کے حوالے سے جس زبان میں اور تشدد پر اکسانے والا جو ابلاغ دو حساس وزارتوں، داخلہ و اطلاعات کی طرف سے ہوا اس نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے برپا ہونے والی عوام کی مثبت بی ہیورئیل چینج کے مقابل انتہائی جارحانہ ابلاغی مہم جاری رکھی۔ اس کی شدت تحریک انصاف کے جوابی ابلاغ کے مقابل بہت حساس اور تشویشناک رہی۔


25 مئی کو ریلی کی اجازت کے لئےسپریم کورٹ کا مخصوص مقام کا حکم آنے سے پہلے ہی وزارت داخلہ کے حکم پر ملک بھر میں جو غیر قانونی پکڑ دھکڑ کی اور جس طرح لاہور اور کئی دوسرے شہروں سے پرامن احتجاجی مارچ کے آغاز پر ہی صبح کے اوقات میں جو تشدد ہوا جس میں ڈاکٹر یاسمین راشد، گوہر ایوب پر بدترین تشدد ہوا۔ ان کی کاریں توڑی گئیں اس سے وزارت داخلہ کی سانحہ ماڈل ٹائون کی ’’گلوبٹی اپروچ‘‘ اختیار کرنے کے مذموم ارادے کا پورا یقین ہو گیا تھا لیکن پکڑ عمران خان کی مبہم حکم عدولی پر ہو رہی ہے، وزیر قانون کو کٹہرے میں نہیں لایاگیا۔


ارشد شریف کی شہادت کے تناظر میں ملک میں جوتشویشناک اور غمناک ماحول بنا اس پر ہی وزیر قانون محتاط ہو جاتے لیکن اس کے غیرقانونی ابلاغ میں اور شدت اور وزیر اطلاعات کی طرف سے اس کی پُرخطر دہرائی جاری رہی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کا تو وزیر اعلیٰ کو بر وقت پتہ اس لئے نہ چلا کہ وہ تاخیر سے سو کر اٹھے، اب اس کے ملزم کو وزیراعظم بننے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ بنانا، کتنا RATIONALIZED کیا جاسکتا ہے؟

تازہ ترین