• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارۂ صحت اورانٹر نیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن کےاشتراک سے ہر سال 14 نومبر کو دُنیا بَھر میں’’عالمی یومِ ذیابطیس‘‘ منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ویسے تو اس یوم کے لیے ہر سال مختلف تھیمز منتخب کیے جاتے ہیں، لیکن گزشتہ برس اتفاقِ رائے سے 2021ء تا 2023ء کے لیےجو تھیم منتخب کیا گیا ہے، وہ ہے، "Access To Diabetes Care" یعنی ’’ذیابطیس کے علاج تک رسائی‘‘۔چوں کہ ذیابطیس کے پھیلاؤ کی شرح اُن پس ماندہ مُمالک میں زیادہ بُلند ہے، جہاں اس مرض کے علاج کی سہولتیں ناکافی ہیں، تو مذکورہ تھیم کا انتخاب اِسی تناظر میں کیا گیا ہے، تاکہ ہر سطح تک جدید علاج اور بہتر نگہداشت کی سہولتیں مہیا ہوں اور مریضوں میں مختلف پیچیدگیوں، معذوریوں سمیت موت کے امکانات کم کیے جاسکیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذیابطیس کے علاج تک رسائی سے مُراد کیا ہے؟ تو اس ضمن میں جب مختلف ڈائی بیٹالو جسٹس، اینڈو کرینولو جسٹس اورنیوٹرشینسٹس سےپوچھا گیا ،تو مختلف آراء سامنے آئیں۔ مثلاً ڈائریکٹر کالج آف فیملی میڈیسن ، ڈاکٹر شہلا نسیم کا خیال ہے کہ ’’ذیا بطیس سے متاثرہ مریضوں کو ادویہ، انسولین اور علاج کے لیے استعمال کی جانے والی جدید ٹیکنالوجی کم از کم گلوکومیٹر اور اُن ٹولز تک رسائی لازماً حاصل ہونی چاہیے، جو ذیابطیس مینیجمنٹ کا حصّہ ہیں۔‘‘ 

چیئرمین پرائمری کنٹرول ذیابطیس ایسوسی ایشن، ڈاکٹر فرید الدّین کا کہنا ہے،’’ڈائی بیٹک افراد کی ماہرینِ ذیابطیس تک رسائی اس حد تک سہل ہونی چاہیے کہ وہ ایک کال کے فاصلے پر ہوں۔ نیز، اپنے مرض پر کنٹرول کے لیے آن لائن گفتگو اور لیکچرز سے بھی مستفید ہوسکیں۔‘‘ اینڈوکرینولوجسٹ، ڈاکٹر عاصمہ نیازی کا خیال ہے کہ ’’مریضوں کوذیابطیس ایجوکیشنل ذرائع تک رسائی ملنی چاہیے، جو یہ بتاتے ہیں کہ شوگر کی ادویہ، انسولین اور گلوکومیٹر وغیرہ کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔‘‘ اینڈ وکرینولوجسٹ، ڈاکٹر ریاست علی خان کا کہنا ہے کہ ’’مریضوں کو ذیابطیس ٹیم تک(جس میں ڈائی بیٹالوجسٹ، ماہرِاغذیہ، سائیکولوجسٹ اور تھراپسٹ شامل ہیں) رسائی ملنی چاہیے۔‘‘

 اینڈوکرینولوجسٹ، ڈاکٹر سیّد طارق علی عدنان کی رائے ہے کہ’’مریضوں کو ذیا بطیس کے علاج کے انتخاب میں آزادی ہونی چاہیے۔ یعنی مریض جو طریقۂ علاج اختیار کرنا چاہے، معالج اُس ضمن میں اُس کی بَھرپور رہنمائی کرے۔‘‘ ڈاکٹر وجیہہ کفیل کے مطابق ’’دُنیا کے کونے کونے میں موجود ذیابطیس کے مریضوں کو انفرادی طور پر معیاری اور سستے علاج کی سہولتیں باآسانی دستیاب ہونی چاہئیں۔‘‘ایس ٹی ای پی کی ڈاکٹر فریحہ شکیل کا خیال ہے کہ’’یہ ناممکن ہے کہ کوئی ڈائی بیٹک ادویہ، انسولین اور ورزش کے بغیر اپنا مرض کنٹرولکر سکے، لہٰذا مریضوں کی رسائی علاج کے تمام تر ذرائع تک وسیع ہونی چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر اذہان علی خان کے مطابق’’ ہر مریض کو بلاتفریق ذیابطیس مینجمنٹ سمیت علاج کی تمام سہولتیں ملنی چاہئیں۔‘‘ 

ماہرِا غذیہ ،صائمہ مجاہد کا کہنا ہےکہ’’ ذیابطیس سے متاثرہ ہر مریض کی(انفرادی طور پر)تشخیص سے علاج تک رسائی ضروری ہے۔‘‘ اینڈوکرینولوجسٹ، ڈاکٹر ویرمل لوہانو کا خیال ہے کہ ’’مریضوں کی صرف علاج معالجے ہی تک نہیں، ذیابطیس سے متعلق ہر طرح کی معلومات تک رسائی ناگزیر ہے۔‘‘ اینڈوکرینولوجسٹ، ڈاکٹر سیّد معظم علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’’ذیابطیس سے متاثرہ افراد کو، خاص طور پر کم آمدنی والے مُمالک میں ،بغیر کسی رکاوٹ کے معیاری علاج معالجے کی سہولتیں ملنی چاہئیں۔‘‘ اینڈوکرینولوجسٹ، ڈاکٹر ماجد خان کے مطابق،’’ہر مریض کی ذیابطیس مینجمنٹ ٹیم تک بلاامتیاز رسائی ضروری ہے۔‘‘

اگر ان تمام آراء کا احاطہ کیا جائے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’ذیابطیس میں مبتلا ہر مریض کے لیے بلاتفریق ذیابطیس سے متعلق معلومات، طرزِ زندگی میں تبدیلی کے لیے تربیت یافتہ ماہرِ اغذیہ اور ذیابطیس مینجمنٹ کے ذرائع تک رسائی نیز،انفرادی طور پر ذیابطیس اور اس کی پیچیدگیوں کی تشخیص و علاج کی سہولتوں کی فراہمی ناگزیر ہے۔‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ذیابطیس کے علاج تک رسائی کیوں ضروری ہے؟‘‘ تو6دسمبر 2021ء میں بین الاقوامی ادارہ برائے ذیابطیس(انٹر نیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن)کے اٹلس کادسواں ایڈیشن شایع ہوا، جس کے مطابق دُنیا بَھر میں20سے79برس کی عُمر کے 537ملین افراد ذیابطیس سے متاثر ہیں۔

اس رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگرمرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر کنٹرول کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے، تو 2024ءتا2045ء یہ تعداد 784ملین تک پہنچ جائے گی۔واضح رہے، ذیابطیس کے شکار ہر5مریضوں میں سے 4کا تعلق(لگ بھگ81فی صد) درمیانی یا کم آمدنی والے مُمالک سے ہے ،جہاں علاج تک رسائی خاصادشوار گزار امر ہے یا پھر ممکن ہی نہیں۔یاد رہے، 2021ء میں دُنیا بَھر میں 6.7ملین اموات کا سبب ذیابطیس ہی تھی، یعنی ہر 5اموات میں سے ایک کا سبب یہی مرض بنا۔نیز، اس کے علاج کے اخراجات میں بھی گزشتہ برسوں کے نسبت 300گُنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

فی الوقت، 541ملین افراد پِری ذیابطیس کا(ایسے افراد جنہیں ذیابطیس کا خطرہ لاحق ہو) شکار ہیں، جنہیں اس مرض میں مبتلا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔پاکستان کی بات کریں، تو مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے ہمارا نمبر تیسرا ہے۔ مطلب، یہاں ہر 4میں سے ایک فرد اس مرض کا شکار ہے اور مجموعی طور پر مُلک میں33ملین افراد ذیابطیس سے متاثر ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ 2019ءکے برعکس 2021ء میں ذیابطیس کی شرح میں 70فی صد تک اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کی کئی وجوہ ہیں۔ سرِ فہرست ورزش نہ کرنا، زائد کیلوریز والی غذاؤں کا کثرت اور باقاعدگی سے استعمال اور موٹاپا وغیرہ۔ ہمارے یہاں ذیابطیس ٹائپ ٹو عام ہے، اگرچہ ذیابطیس کی اس قسم کی علامات کئی برسوں تک ظاہر نہیں ہوتیں، لیکن اس سے بچائو ممکن ہے، جسے طبّی اصطلاح میں پرائمری پری وینیشن کہا جاتا ہے۔

واضح رہے، اگرکسی فرد کی ناشتے سے قبل بلڈ شوگر، جسے فاسٹنگ بلڈ شوگر کہتے ہیں، 100ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس سے کم ہواور کھانے کے دو گھنٹے بعد یعنی رینڈم بلڈ شوگر 140ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس سے کم ہو، جب کہ ہیموگلوبن اے وَن سی(جو کہ تین مہینے کی شوگر کا اوسط ٹیسٹ ہے) 5.7فی صد سے کم ہو، تو ایسے افراد ذیابطیس کا شکار نہیں ہوتے۔ البتہ اُنہیں چاہیے کہ متوازن غذا کا استعمال کریں اور صحت مند طرزِ زندگی اختیار کیا جائے، جس میں روزانہ ورزش، تازہ موسمی پھلوں اور سبزیوں کا استعمال، ہائی کیلوریز کی غذائوں کا کم سے کم استعمال، بَھرپور نیند اور ترکِ تمباکو نوشی وغیرہ شامل ہیں۔ 

اگر ناشتے سے قبل شوگر 126ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس سے زائد ہو، کھانے کے دوگھنٹے بعد 200ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس سے زائد اور ہیموگلوبن اے وَن سی 6.5 فی صد یا اس سے زائد ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ ذیا بطیس کا مرض لاحق ہو چُکا ہے اور اب باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے۔ جب کہ اگر ناشتے سے قبل بلڈ شوگر 100تا 125ملی گرام فی ڈیسی لیٹر، ناشتے کے دوگھنٹے بعد 140تا199ملی گرام فی ڈیسی لیٹر اور ہیمو گلو بن اے وَن سی 5.7تا6.4 ہو، تو ایسے مریضوں کو پِری ڈائی بیٹیز (Impaired Glucose Tolerance)کہا جاتا ہے، جنہیں مستقبل میں)5یا10سال) میں ذیا بطیس کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ 

پاکستان میں پری ڈائی بیٹک افراد کی تعداد 23.7فی صد ہے۔بین الاقوامی ادارہ برائے ذیابطیس کے مطابق بعض عوامل مستقبل میں مرض سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ مثلاً فیملی ہسٹری میں مرض شامل ہونا، موٹاپا، غیرمتوازن غذا کا استعمال، ورزش نہ کرنا، بڑھتی ہوئی عُمر، بُلند فشارِ خون، اگر تعلق ایشیائی مُلک سے ہو، پِری ڈائی بیٹک ہونا، دورانِ حمل ذیابطیس (Gestational Diabetes) لاحق ہوجانا یا حمل کے دوران متوازن غذا استعمال نہ کرنا وغیرہ۔ خیال رہے، پِری ڈائی بیٹک افراد متوازن غذا کے استعمال، معمولات میں تبدیلی اور ورزش کے ذریعے مرض میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہ سکتے ہیں، بشرطیکہ جو حکمتِ عملی اختیار کی جائے، اُس پر زندگی بَھر عمل پیرابھی رہا جائے۔

ذیابطیس کی عمومی علامات میں بھوک، پیاس زیادہ لگنا، منہ خشک ہونا، بار بار پیشاب آنا، توانائی کی کمی، تھکاوٹ کا احساس، جِلدی انفیکشن، زخم تاخیر سے بَھرنا، نظر کا دھندلا پَن، تیزی سے وزن کم ہونا، بینائی کی کم زوری، پیروں اور ہاتھوں میں سوئیاں چُبھنا یا سُن پَن وغیرہ شامل ہیں۔ عمومی طور پر ذیابطیس ٹائپ ٹو میں بہت واضح علامات ظاہر نہیں ہوتیں، تو یہی وجہ ہے کہ دُنیا بَھر میں، بشمول پاکستان لاکھوں افراد ذیابطیس میں مبتلا ہونے کے باوجود بہت عرصے تک اپنے مرض سے لاعلم رہتے ہیں۔ 

حالاں کہ اگر یہ ابتدا میں تشخیص ہوجائے، تو متوازن غذا کے استعمال، روزانہ ورزش، صحت مند طرزِ زندگی(جس میں وقت پر سونا جاگنا، کھانا پینا، پھلوں، سبزیوں کا زائد استعمال اور ورزش وغیرہ شامل ہے)، موٹاپے میں کمی اور ترکِ تمباکو نوشی کے ذریعے اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر یہ اقدامات مرض کنٹرول کرنے میں ناکام رہیں،تو ادویہ اور انسولین کا استعمال شروع کروایا جاتا ہے۔اگر مریض کو بروقت تشخیص و علاج کی سہولت میسّر آجائے، تو متعدّد پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ دُنیا بَھر کی ذیابطیس ایسوسی ایشنز اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ مریضوں کی علاج تک رسائی سہل کی جائے۔اس ضمن میں کالج آف فیملی میڈیسن، پاکستان صرف مُلک ہی میں نہیں، بلکہ پوری دُنیا میں پرائمری کیئر فیملی فزیشنز ذیابطیس کورس، ذیابطیس اور اینڈوکرائن میں ڈپلوما اور ذیابطیس اور اینڈوکرائن میں ایم ایس سی کروا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہر علاقے میں ذیابطیس کے مریضوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولتیں دست یاب ہوں گی اور وہ پرائمری لیول ہی پر اپنے مرض کو کنٹرول کرسکیں گے۔

ذیابطیس کی شرح پر کنٹرول کے لیے دو اقدامات ناگزیر ہیں۔ اوّل یہ کہ پری ڈائی بیٹک افراد کو مرض کا شکار ہونے سے بچایا جائے اور دوم معیاری علاج تک رسائی ممکن بنائی جائے، جس کے لیے پرائمری کیئر ذیابطیس ایسوسی ایشن، مختلف فارما کمپنیز اور میڈیا گروپس کے ساتھ مل کر ہر سطح تک ’’رکھو اپنا خیال، ذیابطیس سے پہلے‘‘ کے عنوان سے شعور و آگہی فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب کہ کراچی تا پشاور مریضوں کے اہلِ خانہ اور پری ڈائی بیٹک افراد کی اسکریننگ بھی کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ کئی شہروں اور چھوٹے، بڑے دیہی علاقوں کے فیملی فزیشنز کی براہِ راست یا آن لائن تربیت کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے، تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں بین الاقوامی ادارہ برائے ذیابطیس کے مجوزہ اصولوں کے مطابق معیاری علاج فراہم کرسکیں۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ پروگرامز سرکاری سرپرستی میں وسیع پیمانے پر شروع کیے جائیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ معالجین، ذیابطیس کے علاج کی تربیت حاصل کرسکیں۔ 

دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد اپنی مصروفیات یا کسی اور وجہ سے ذیابطیس کا تشخصی ٹیسٹ نہیں کروا پاتے، تو اس ضمن میں بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائی بیٹالوجی اینڈ اینڈوکرینولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط اور ان کی ٹیم نے ایک ریپڈ اسکور ترتیب دیا ہے، جس کے تحت تین سوالات کے جواب دے کر آپ جان سکتے ہیں کہ آپ کو ذیابطیس کا مرض لاحق ہوچُکا ہے یا اس میں مبتلا ہونے کے امکانات ہیں؟٭عُمر:اگر عُمر40سال یا اس سے کم ہو تو اسکور صفر ہوگا،40سے50سال کی درمیانی عُمر کے لیے اسکور 1اور50سال سے زائد عُمرکا اسکور3ہوگا۔٭ کمر کا حجم:مَردوں میں 90سینٹی میٹر (35.5انچ)سے کم کا اسکور صفر اور زائد کا اسکور2ہوگا، جب کہ خواتین میں80سینٹی میٹر(31.5انچ)سے کم کا اسکور صفر اور اس سے زائدکا اسکور2ہوگا۔٭فیملی ہسٹری :اگر ذیابطیس کا مرض شامل ہو،تو اسکور1اور نہ ہونے کی صورت میں صفر ہوگا۔اگر اسکور 4سے کم ہو، تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، لیکن اس سے زائد اسکور ذیابطیس لاحق ہونے کا امکان ظاہر کرتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ حتمی تشخیص کے لیے معالج کے مشورے سے فوری لیبارٹری ٹیسٹ کروالیا جائے۔

اس وقت پوری دُنیا میں ذیابطیس کا مرض صحت کا گمبھیر مسئلہ بنا ہوا ہے۔اس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اور علاج تک رسائی ہر مریض کا بنیادی حق ہے۔ اور ہم سب نے مل کر اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ تن درست و توانا افراد مرض سے بچاؤ کے لیے صحت مند طرزِ زندگی اختیار کریں، ورزش کو معمولات کا حصّہ بنائیں، جنک فوڈز، زائد کیلوریز والی غذائوں اور سافٹ ڈرنکس کے استعمال سے اجتناب برتا جائے، تاکہ وزن کنٹرول میں رہے۔ 

پری ڈائی بیٹک افراد ماہرِ امراضِ ذیابطیس سے رجوع کریں۔ دیکھا گیا ہے کہ محض طرزِ زندگی اور غذائی تبدیلی سے ذیابطیس لاحق ہونے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ تاہم، بسااوقات اس مرحلے پر ادویہ کا استعمال بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ متاثرہ افراد اپنے مرض پر کنٹرول کے لیے خون میں چکنائی کی مقدار اور بُلند فشارِخون قابو میں رکھیں۔ ادویہ یا انسولین باقاعدگی سے استعمال کریں، ماہرِاغذیہ سے کھانے پینے کا شیڈول مرتّب کروائیں اور اس پر عمل بھی کریں، تمباکو نوشی سے اجتناب برتا جائے، اپنےپیروں کا خاص خیال رکھیں، معالج کے مشورے سے سال میں ایک بار دِل، گُردوں، آنکھوں اورپیروں وغیرہ کا معائنہ کروائیں۔ یہ امر بھی لازم ہے کہ ذیابطیس سے متاثرہ افراد کی رسائی ایسے ذیابطیس سینٹر تک ممکن بنائی جائے، جہاں ڈائی بیٹالوجسٹ، اینڈو کرینولوجسٹ اور ماہرِاغذیہ کی سہولت میسّر ہو۔ (مضمون نگار، کنسلٹنٹ اینڈو کرینولوجسٹ،ڈائی بیٹالوجسٹ ہیں اورکنسلٹنٹ کلینک ، ایف بی ایریا،احمد میڈیکل کمپلیکس اورالخدمت میڈیکل کمپلیکس،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)