• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی جن مقاصد کے لئے بنائی گئی تھی، وہ تو سب اہم ہیں، مگر نہ پارٹی ان مقاصد کو حاصل کرپائی اور نہ پارٹی میں کوئی یہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے، اب تو پی ٹی آئی میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے، انصاف کی جگہ صرف نا انصافی نظر آرہی ہے جبکہ تحریک کی جگہ انتشار نظر آرہا ہے کیوں کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں مبینہ طور پر غیر ملکیوں نے پاکستان تحریک انصاف کی دل کھول کر مدد کی تاکہ یہ جماعت حکومت بنا سکے وہ بھی پیسے کے زور پر اور پھر ہم نے دیکھا کہ حکومت بھی بنی اور حکومت بنانے کے بعد پی ٹی آئی کے بیشتر بانی ارکان کو ایک ایک کر کے پارٹی سے باہر نکال دیا گیااور ان کی جگہ صنعتکاروں اورایسے افراد نے لےلی جو ہر جماعت میں رہ کر اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ خیر یہ تو پی ٹی آئی کا اپنا مسئلہ ہے لیکن جو بات زیر غور ہے وہ یہ کہ جہاں جہاں پی ٹی آئی اقتدار میں آئی وہاں زمینوں پر قبضے کی کہانیاں عام ہوگئیں، اور عمران خان کی تو اپنی پالیسی بھی یہ تھی کہ سندھ کے جزیروں پر قبضہ کیا جائے ۔ لگتاہے کہ لینڈ گریبرز اور اس جماعت کا آپس میں مضبوط تعلق ہے۔ ایسا ہی کچھ لاہور میں دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے شروع کیا گیا متنازعہ راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ کسانوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جن کی اراضی’’زبردستی‘‘ اسکیم کے لئے ’’ اونے پونے داموں‘‘ پر حاصل کی جا رہی ہے۔ روڈا کی جانب سے فصلوں کو تباہ کرنے کیلئے بھاری مشینری استعمال کئے جانے کی تصاویر بھی منظر عام پر آرہی ہیںجن میں ادارے کے لوگ فصلیں تباہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس پر ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے پہلے سے حاصل کی ہوئی زمین پر قبضہ کیا ہے کیوں کہ اس زمین کو پہلے ہی اس نام نہاد پروجیکٹ کے لئے خریدا جاچکا ہے مگر دوسری طرف کسان احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں، اس منصوبے اور کسانوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر تنقید کی ایک نئی لہر شروع ہو گئی ہے۔انہوں نے حال ہی میں دریائے راوی کے کنارے مستقبل کی ترقی کی جو تصویریں ٹویٹ کی ہیں اس سے بہت سے لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ پنجاب حکومت پر اس ا سکیم پر تیزی سے کام کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ متاثرہ زمینداروں کا اصرار ہے کہ روڈا نے زمین کے حصول کیلئے جو دبائو ڈالاہے وہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس منصوبے کو ختم کرنے کے حکم کو معطل کرتے ہوئے اور اسے قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے، سپریم کورٹ نے روڈا کو اس زمین پر کام کرنے کی مشروط اجازت دی تھی، جس کے مالکان کو معاوضہ ادا کر دیا گیا صرف اس زمین پر کام کیا جا سکتا ہے لیکن اس وقت شنید ہے کہ جس زمین کا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا اس پر بھی قبضہ کیا جارہا ہے۔ایک لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر پھیلے اس منصوبے پر ماہرین ماحولیات اور شہری ترقی کے ماہرین کے اعتراضات کو ایک لمحے کے لئے نظر اندازبھی کر دیا جائے تو بھی اس منصوبےکا ڈیزائن اس زمین کے مالکان کونقصان پہنچاتا ہے جنہیں اس کا بنیادی فائدہ ہونا چاہئے تھا۔ ترقی کیلئے نسلوں کوان کی ملکیت سے بے دخل کرنا اور معمولی معاوضہ دے کر ان کی روزی روٹی سے محروم کرنا کسی بھی طرح حکومت کا جائز طریقہ قرارنہیں دیا جاسکتا۔ اگر حکومت اور سابق وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ آگے بڑھے، تو انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ زمین کے مالکان اور علاقے کے دیگر رہائشی اس پروجیکٹ سے سب پہلے مستفید ہوں، لگتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا ،اس لئے کہ اس پروجیکٹ کو شروع کرنے والوں کی نیت میں کھوٹ محسوس ہوتا ہے اگرایسانہ ہوتا تو ہمارے کسان بھائی اور ان زمینوں کے مالک ان مشکلات کا شکارنہ ہوتے۔زمینوں پر قبضےکی خبریں تواتر سے آتی رہتی ہیں، ضروری ہوگیا ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے اور ان قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم قوانین تو بنا لیتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں کراپاتے کیونکہ بعض سرکاری محکمے اور بااثر افراد اس لاقانونیت کی سرپر ستی کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ اس پروجیکٹ میں بھی دکھائی دیتا ہے ۔ 

تازہ ترین