• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متحدہ عرب امارات کی خلیجی ریاست شارجہ میں منعقدہ 12 روزہ انٹرنیشنل بُک فیئراختتام پذیر ہوگیاہے، اس عالمی کتابی میلے میں دنیا بھرسے سینکڑوں ایوارڈ یافتہ مصنفین، لکھاریوں،ناول نگاروں، دانشوروں، فنکاروں،تخلیق کاروں اور دیگر معروف شخصیات نے شرکت کی جبکہ سوسے زائدممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں کتب بینی کے شوقین شہریوں نے ذوق ِ مطالعہ کی تسکین کیلئے یہاں کا رُخ کیا، رواں برس شارجہ عالمی میلے کا گیسٹ آف آنر ملک اٹلی تھا،پاکستانی فاسٹ بالر شعیب اختر اور بالی وڈفلم اسٹار شاہ رُخ خان سمیت مختلف نمایاں شخصیات کی شرکت بھی میڈیا کی خبروں کی زینت بنیں۔ تاریخی طور پر شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر کا آغازآج سے چالیس سال قبل 1982میں شارجہ کے حکمراں ڈاکٹر شیخ سلطان بن محمد القاسمی نے کیا تھاجوخود بھی ایک اچھے لکھاری ہونے کی حیثیت سے قلم کی طاقت کی اہمیت بخوبی سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیاں میں خلیجی ریاست کا یہ عالمی میلہ ان کی ذاتی دلچسپی کے باعث مقبولیت کے نئے جھنڈے گاڑتا چلا گیا اور آج اس کا شمار دنیا کے عظیم الشان کتاب میلوں میں کیاجاتا ہے جو شارجہ کے حکمراں کی کتاب سے دوستی، ذوقِ مطالعہ اور علم پروری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شارجہ کتاب میلے کی ایک بڑی خاصیت ہر سال ایک دلچسپ موضوع کا چناؤ ہے،رواں برس عالمی تقریب کاموضوع اسپریڈ دی ورڈ (الفاظ کا پھیلاؤ)منتخب کیا گیاجس کا مقصد مہذب تہذیب و تمدن کی آبیاری کیلئے الفاظ کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ اسی طرح گزشتہ سالوں کے کچھ منفرد عنوانات میں ریڈ مور (مزید پڑھئے)، اوپن بکس اوپن مائنڈز (کتاب کھولیں ذہن کھولیں)، دی ورلڈ ریڈز فرام شارجہ (دنیا شارجہ سے پڑھتی ہے)شامل ہیں جوماضی میں اہل ذوق کی توجہ حاصل کرنے کا باعث بنے تھے۔شارجہ بُک فیسٹیول نے مجھے چار سال قبل اپنا تحریر کردہ ایک کالم بھی یاد دلا دیا جس میں میں نے قلم کی طاقت کو ایک تاریخی حیثیت قرار دیتے ہوئے آج سے لگ بھگ ڈھائی ہزار سال قبل یونان کے شہر ایتھنزکے 71سالہ فلسفی کا تذکرہ کیا تھا جسے کلمہ حق بلند کرنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ پینے کی سزا دی گئی تھی، یہ بوڑھا فلسفی سقراط تھا جس کو آج ہزاروں سال بیت جانے کے باوجود دنیا بھر میں ایک عظیم، جلیل المرتبت اور قدیمی معلم مانا جاتاہے۔ سقراط کو ابدی حیات بخشنے کیلئے اس کے قابل ترین شاگرد افلاطون کا کلیدی کردار ہے جس نے اپنے قلم سے سقراط کے خیالات کو تحریر کرکے رہتی دنیا تک کیلئے عام کردیا۔اسی طرح تمام مذاہب کی مقدس تعلیمات کتابی صورت میں انسانوں کو خدا کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن کرنےکیلئے گائیڈلائن فراہم کرتی ہیں، شیکسپیئرکو اس کے قلم نے دنیا کے عظیم ترین ڈرامہ نگار اور مصنف کا درجہ دلوایا،دنیا بھر کے لکھاریوں، ناول نگاروں، افسانہ نگاروں، ادیبوں، نقادوں اور مزاح نگاروں کو ان کی تحریروں کے بل بوتے پر دوام حاصل ہوا،اگر آج نیوٹن، آئن اسٹائن اور ڈارون کو لوگ یاد کرتے ہیں تو یہ سب کتابوں میں شائع کردہ ان کے نظریات کے سبب ہے۔آج اکیسویں صدی میں کتب بینی کے شوق میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، اب لوگوں کی اکثریت کتابوں سے زیادہ اپنے موبائل فون /سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کا حصول چاہتی ہے، تاہم ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں میں شوقِ مطالعہ دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے، میں نے اپنے بیرون ممالک کے دوروں کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد بسوں،گاڑیوں اور پبلک مقامات پر مطالعہ کرتی نظرآتی ہے۔ وہاں کے عوام اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کتب بینی کا براہ راست تعلق ملکی ترقی و خوشحالی سے ہے،جو قومیں اپنا وقت فضول کی سرگرمیوں میں ضائع کرنے کی بجائے کتابوں سے اپنا رشتہ مضبوط کرتی ہیں، وہ ترقی کی دوڑ میں کبھی پیچھے نہیں رہتیں،معیاری کتابوں کا مطالعہ نہ صرف اخلاق سازی اور تربیت کیلئے ضروری ہے بلکہ اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو اسکول میں ہی بُک ریڈنگ سے روشناس کرا دیا جاتا ہے، انہیں ابتدائی زمانہ طالب علمی میں ہی کتب بینی کی ایسی پختہ عادت ڈال دی جاتی ہے جو مرتے دم تک قائم رہتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ شارجہ کے حاکم ڈاکٹر شیخ سلطان بن محمد القاسمی کی جانب سے مسلسل چالیس سالوں سے انٹرنیشنل بُک فیئر کا باقاعدہ انعقاد اپنے معاشرے میں تعلیم،برداشت، رواداری اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے ایک قابلِ قدر کاوش ہے، مہذب دنیا کے ہر حکمراں کو اپنے معاشرے میں کتب بینی کو فروغ دینا چاہئے۔میں اپنے کالم کا اختتام ایک دانشور کے قول سے کرنا چاہوں گا کہ اگر کسی ملک کی ترقی سے متعلق جانکاری مقصود ہو تو وہاں پر موجود تعلیمی اداروں کو پرکھا جائے اور اگر وہاں کے تعلیمی اداروں کا معیارجانچناہو تو وہاں کے کتب خانوں کا معیار دیکھا جائے،کسی بھی معاشرے کے کتب خانے جتنے آباد ہونگے وہاں کے تعلیمی ادارے بھی تعلیم وتحقیق کے میدان میں اتنے ہی فعال اور منظم ہوں گے جس کا لازمی نتیجہ معاشی اور سماجی ترقی کی خوشحالی کی صورت میں سامنے آئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین