• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

برسوں پہلے مَیں غلام فرید صابری کی قوالی ’’تاج دارِ حرم، ہو نگاہِ کرم‘‘ سنتی تو عجیب وجد و سُرور کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ بڑا ہی سادہ زمانہ تھا، جدید موبائل فون، ایل سی ڈی وغیرہ کا کوئی تصوّر ہی نہیں تھا۔ موسیقی سے دل بہلانے کے لیے بس مختلف سائز کے ٹیپ ریکارڈرز اور کیسٹس ہوتے تھے۔ سو، اکثر فارغ اوقات میں یا امتحانات کی تیاری کے دوران قوالی کا کیسٹ لگا کر سُنتی۔ 

میری ایک بڑی خواہش اور تمنّا تھی، جس کا اظہار گاہے بگاہے بھائی، بہنوں اور سہیلیوں سے کرتی کہ’’ کاش! ایسا ہو کہ حضورؐ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضۂ مبارک سامنے ہو اور مَیں یہ قوالی سُن رہی ہوں۔‘‘ میری اس بات پر وہ کہا کرتے کہ ’’حرمین شریفین اور روضہ رسول ؐ میں موسیقی سختی سے ممنوع ہے اور اگر ایساکروگی، تو پولیس گرفتار کرکے لے جائے گی‘‘ ان کے اس طرح کہنے پر میں دل مسوس کر رہ جاتی، لیکن دل سے یہ خواہش کبھی ختم نہ ہوئی، حتیٰ کہ شادی ہونے کے بعد بھی یہ تمنّا دل میں جاگزیں رہی۔

شادی کے کچھ عرصے بعد میرے شوہر نے بائی روڈ ورلڈ ٹور کا پروگرام بنایا اورہم دونوں ملتان سے بذریعہ کار روانہ ہوگئے۔ بہت سے ممالک ہوتے ہوئے جب فرانس، پیرس پہنچے، تو چند دن بعد رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا، جس کے بعد ہمارا پروگرام تبدیل ہوگیا، پہلے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں اسپین، مراکو اور پھر آگے مصر سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچنا تھا، لیکن رمضان المبارک کا مقدّس مہینہ شروع ہونے کی وجہ سے ہم نے ترکی، شام، اردن سے سعودی عرب پہنچنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ رمضان کا آخری عشرہ یا کم ازکم ستائیسویں شب مدینہ منورہ میں روضۂ رسول ؐپر گزاریں۔

نعتوں کے بہت سے کیسٹس ہم اپنے ساتھ لائے تھے، جو کار کے ٹیپ ریکارڈر میں لگا کر سنتے، لیکن افسوس ’’تاج دارِ حرمؐ‘‘ قوالی کسی کیسٹ میں نہیں تھی، جس کا دُکھ اور احساس سارے ٹور میں رہا۔ جب اللہ کی مدد اور مہربانی سے اردن، سعودی عرب کی سرحد پر پہنچے، تو اتنی بے چینی اور بے قراری تھی کہ وہ لمحات حضورﷺ کے دَر تک پہنچنے کے لیے بہت طویل لگ رہے تھے۔ خیر، چیکنگ وغیرہ سے فارغ ہو کر سعودی عرب کی خُوب صُورت آرام دہ چیک پوسٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوگئے۔ 

وہاں جاکر ہم یورپ کے خُوب صُورت نظارے بھول گئے، ان کے سب ہیچ لگنے لگے۔ پھر وہاں سے تبوک ہوتے ہوئے آخر کاررحمۃ للعالمینؐ کے دَر پر پہنچ ہی گئے۔ میرے شوہر مردانہ حصّے اور میں خواتین کے لیے مخصوص حصّے کی طرف آگئی۔ وہاں پہنچ کر دل کی عجیب حالت ہورہی تھی،ایسے جیسے اپنے وجود سے بیگانی ہوگئی تھی، آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے، نہ نفل یاد رہے، نہ سجدے۔ بس، مَیں اپنے ربّ کا شکر گزار تھی کہ اس نے مجھے اور میرے شوہر کو رمضان المبارک کی ستائیسویں شب حضورؐ پُرنور کے روضۂ مبارک کے دیدار کا شرف بخشا۔ جب صبح حضورؐ کے روضۂ مبارکؐ سے باہر نکلی، تو باہر میرے شوہر میرے انتظار میں کھڑے تھے۔وہاں سے ہم مدینے کی گلیوں میں جا نکلے اور جی بھرکے گھومتے رہے۔ 

کچھ دیر بعد میرے شوہر نے روضۂ رسول ؐ کے قریب ایک زیرِ تعمیر پُل کے نیچے کار کھڑی کردی۔ وہ 1988ء کا زمانہ تھا، اس وقت مسجدِ نبوی میں کیمرا، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ لے جانا سخت ممنوع تھا۔ میں نے ٹیپ ریکارڈ آن کردیا ، تو ایک پُرسوز نعت سماعتوں میں رس گھولنے لگی، نعت سنتے ہوئے ایک بار پھر حسرت اور خلش نے مجھے بے چین کر دیا کہ میں اس قوالی کا کیسٹ اپنے ساتھ کیوں نہ لا سکی۔

میری بے چینی بھانپ کر میرے شوہر نے کہا کہ’’ اگر کیسٹ ہوتی بھی تو کیسے ممکن تھا کہ روضۂ مبارک کے سامنے سنتیں۔‘‘ پھرعید آگئی، مدینے میںوہ عید ہمارے لیے عیدوں کی عید تھی۔ عصر کے بعد باہر نکلے، چند مقامات دیکھنے کے بعد میرے شوہر نے جنّت البقیع کے قریب سڑک کنارے کار کھڑی کی اور چائے لینے کے لیے چلے گئے۔ 

میں کار ہی بیٹھ کر انتظار کرنے لگی، نگاہوں سامنے روضۂ رسول ؐ کا پرنور گنبدِ خضرا نظر آرہا تھا۔ قریبی دکانوں میں عید کی خریداری کی وجہ سے چہل پہل تھی۔ اسی دوران بے خیالی میں مَیں نے ٹیپ ریکارڈر آن کردیا، تو محمد رفیع کا کوئی گانا گونجنے لگاا، لیکن حیرت انگیز طور پر گانا فوراً ہی بند ہوگیا اور پھر جیسے دھماکا ہوگیا۔ میری پسندیدہ قوالی، ’’تاج دارِ حرم، ہو نگاہِ کرم‘‘ ہارمونیم کی مخصوص موسیقی اور طبلے کی دھمک سن کرحیرت کے ساتھ سرشاری کی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں نےفوراً کار کے شیشے چڑھا کر ٹیپ ریکارڈر کی آواز فل کر دی۔ 

کار کے اندر فل والیم میں ’’تاج دارِ حرم، ہو نگاہِ کرم‘‘ سماعتوں میں رس گھول رہی تھی اور سامنے سبزگنبد دیکھتے ہوئے آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے، میری برسوں کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ سفر کے تقریباً ڈھائی ماہ ،کار میں موجود تمام کیسٹس نہ جانے کتنی ہی دفعہ ہم سن چکے تھے، مگر یہ نعتیہ قوالی نہ جانے کہاں چھپی ہوئی تھی؟ میری کئی برسوں سے ناممکن خواہش ممکن کیسے ہو گئی؟ میرے رب نے میری حسرت کو کیسے کن فیکن کر دیا؟ کیسے حالات پیدا کر دیئے کہ سب آسان ہو گیا۔ ان سوالوں کا جواب مجھے آج تک نہیں مل سکا۔

میں اس وقت زندگی کی 66بہاریں دیکھ چکی ہوں۔ میرے رفیقِ حیات جنّت میں میرا انتظارکررہے ہوں گے۔ ربِ جلیل مجھے اللہ کی شان اور اللہ کا گھر دکھانے والے کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے۔آمین، ثم آمین۔ (عابدہ اسد خان، جلو پارک روڈ، لاہور)