(گزشتہ سے پیوستہ)
انگریزوں کے دور میں جو بھی کالج /اسکول اور یونیورسٹیاں تعمیر کی گئیں، اس میں ٹک شاپ ضرور ہوا کرتی تھی جہاں معیاری چیزیں ملا کرتی تھیں ،ٹک شاپ آج بھی ہیلی کالج، ایچیسن کالج، کنیئرڈ کالج اور کانوینٹ آف جیسز اینڈ میری میں ہے البتہ اب انہیں کنٹین /کیفے ٹیریا وغیرہ کہا جاتا ہے ۔رائے بہادر سرگنگا رام کی اس تاریخی کوٹھی میں آج بھی پرنسپل آفس کےبرآمدوں میں پرانی طرز کی انتہائی خوبصورت کھڑکیاں ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں اگرچہ عمارت میں کافی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں۔
آج بھی چھت پر ہوا کے لئے کچھ فاصلے پر روشن دان ہیں واقعی سرگنگا رام نے یہ کوٹھی بڑے شوق اور محبت سے بنائی تھی آپ اس شخص کا حوصلہ اور جذبہ دیکھیں کہ اس نے اتنے شوق سےتعمیر کی گئی کوٹھی میں گھوڑوں کا اصطبل، گاڑی کھڑی کرنے کا خوبصورت کارپورچ، دائیں بائیں باغات اور خوبصورت عمارتیں تعمیر کی تھیں، وہ تعلیم کے فروغ کے لئے عطیہ کر دی۔
ہیلی کالج آف کامرس (اب ہیلی کالج آف بینکنگ اینڈ فنانس پنجاب یونیورسٹی) کے قاسم ہال اور اولڈ بلڈنگ کے لکڑی کے دروازے اس قدر مضبوط اور بھاری ہیں کہ انہیں کافی زور لگا کر کھولنا پڑتا ہے۔ حیران کن اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی جگہ ہمیں دیمک اور سیم نظر نہیں آئی۔ایک زمانہ تھا کہ ہیلی کالج میں لڑکیاں کم اور لڑکے زیادہ ہوتے تھے، آج لڑکیاں زیادہ اور لڑکے کم ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ہر شعبہ میں اب لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
عزیز قارئین، اسی ہیلی کالج آف کامرس کا معیاراس قدر بلند تھا کہ 1953-54ءمیں واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی نے ہیلی کالج کے اسٹوڈنٹس کے لئے سینکڑوں کتب عطیہ کی تھیں۔ کبھی یہاں کے اساتذہ اعلیٰ تعلیم کے لئے واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔ اس یونیورسٹی کے دو پروفیسرز میتھیز اور ڈاکٹر کنجی (KENJI) نے یہاں دو برس تک بڑھایا بھی تھا۔ کیا زمانہ تھا۔
جناب آج ہم کئی برس بعد گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین (موجودہ نام گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی برائے خواتین) لٹن روڈ پر جا پہنچے۔ ہیلی کالج سے ہم جب باہر آئے تو سوچا کیوں نہ آج اس علاقے کے کچھ قدیم تعلیمی اداروں کی سیر کرلی جائے۔ سو جناب ہم گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی برائے خواتین لٹن روڈکے انتہائی تاریخی اور خوبصورت محل جا پہنچے ۔کہتے ہیں کہ یہ محل کبھی کسی رانی کا تھا۔ ہمارے چچا ڈاکٹر انیس ناگی (تمغۂ امتیاز) کے بیٹے ڈاکٹر دانیال ناگی کا بھی یہ اصرار ہے کہ یہ محل کس رانی کا تھا ،وہ کسی مقدمے میں پھنس گئی تھی، اس سے کوئی قتل ہوگیا تھا، اس رانی کا نام جنداں بائی تھا، (یاد رہے یہ وہ جنداں نہیں جس کا تعلق مہاراجہ رنجیت سنگھ سے تھا)۔ اس زمانے میں شادی لال وکیل (بعد میں چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ بنے تھے) تھے تو انہوں نے اس مہارانی کا کیس لڑا اور جیت گئے تو اس مہارانی نے خوش ہو کراپنامحل انہیں تحفہ میں دے دیا تھا۔ کیسے کیسے لوگ تھے ایک مقدمہ جیتنے کی خوشی میں اس نے تقریباً 32 کنال کا انتہائی خوبصورت محل جسٹس شادی لال کو دے دیا۔ ویسے تو لاہور میں ایک سابق چیف جسٹس جو بعد میں گورنر بنے تھے، کے والد بھی کیس جیتنے کے بعد اپنے موکل سے زمین لے لیا کرتے تھے۔ اب ان کی جگہ پر کسی اور نے محل بنا لیا ہے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ 1909ء میں 31 کنال 19مرلہ پر محیط یہ خوبصورت محل تعمیر ہوا تھا۔ یقینی بات ہے کہ یہ محل اس جنداں بائی نے ہی تعمیر کرایا تھا۔ آج اس محل کو تعمیر ہوئے ایک سو چودہ برس ہوگئے ہیں ہم نے جس زمانے میں یہ محل دیکھا تھا اس زمانے میں یہ عمارت پیلے اور سفید رنگ کی تھی۔ 1947ء اور اس سے قبل لاہور میں جتنی بھی کوٹھیاں، بنگلے، محل اور سرکاری عمارتیں تعمیرہوئی تھیں، ان پر پیلے اور سفید رنگ کی قلعی کی جاتی تھی اور بعض کوٹھیاں مکمل پیلی اور سفید رنگ کی ہوتی تھیں۔ یہ تمام عمارتیں چونے سے تیار کی جاتی تھیں اور ان کی چھتیں لکڑی کے بالوں کی ہوتی تھیں ، کوئی بھی کوٹھی، بنگلہ اور سرکاری عمارت روشن دان اور آتش دان کے بغیر تعمیر نہیں ہوتی تھی اور ہر عمارت کے اوپر دھوئیں کیلئے ایک چمنی ہوتی تھی۔ کیا دور تھا اس خوبصورت محل میں روشن دان، آتش دان اور دھوئیں کے لئے چمنی سمیت سبھی کچھ ہوتا تھا۔ بقول وارڈن سعدیہ نازش یہاں نیک ہستیوں کا سایہ بھی ہے۔ یہ دور 1980ء تک چلا، پھر آہستہ آہستہ ان عمارتوںکے رنگ تبدیل ہونے شروع ہوگئے اور 1990ء کے بعد تو تعمیرات کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا، اب کسی بھی عمارت، کوٹھی، بنگلے، مکان میں نہ ہی کوئی روشن دان اور نہ ہی آتش دان ہوتا ہے۔ اب تو گھروں کی چھتیں بھی سات، آٹھ فٹ پر آگئی ہیں۔ کبھی چھتیں 15/16 فٹ اونچائی پر ڈالی جاتی تھیں اور کمرے ہمیشہ ٹھنڈے ہوتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ شادی لال کے اس محل میں کبھی عدالت بھی رہی ہے۔ غازی علم الدین شہیدؒ کا مقدمہ جس کمرے میں سنا گیا ہم نے وہ کمرہ بھی دیکھا۔ پھر ہم نے وہ کمرہ بھی دیکھا جس میں غازی علم الدین شہیدؒ کو رکھا گیا تھا اب یہ کمرہ اس تعلیمی ادارے کا کچن ہے۔ ایک اورکمرے میں بھی انہیں رکھا گیا تھا وہ ابھی سلامت ہے۔یکم نومبر 1969ء میں چیف سیٹلمنٹ کمشنر نے یہ تاریخی محل محکمہ تعلیم کو 6,60,294میں فروخت کردیا تھا بعد میں یہ عمارت محکمہ فنی تعلیم کو مل گئی اور آج کل ٹیوٹا (فنی تعلیم کا سرکاری ادارہ) کے زیر انتظام ہے ۔ قبضہ مافیا نے اس کی گیارہ کنال جگہ پر قبضہ کرلیا ہے اور تاحال اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ آج اس تعلیمی ادارے کے اردگرد دس دس منزلہ پلازے ہیں۔ اب آپ خود سوچیں خواتین کے کالج کا تقدس کہاں گیا۔(جاری ہے)