• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چاروں صوبوں کی زنجیر آج 55سال کی ہوچکی ہے، ان برسوں میں پی پی پی اقتدار میں رہی ہو یا اپوزیشن میں، اس جماعت کیلئے حالات یکساں رہے، یعنی اسے صعوبتوں اور مشکلات کا سامنا رہا، پی پی پی کا وزیر اعظم ہو یا پی پی پی اپوزیشن میں ہو اس جماعت کو ہمیشہ قربانیاں دینا پڑیں، یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ 30نومبر 1967کو ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قیام پاکستان کے بعد پہلی بار ایک عوامی، نظریاتی اور انقلابی منشور دیا جو عوام کے دلوں کی آواز بن گیا، اس منشور کا بنیادی فلسفہ روٹی کپڑا اور مکان تھا ۔بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت اور انقلابی منشور نے غریب عوام کے دلوں میں ایسا ولولہ اور جوش پیدا کردیا کہ انہوں نے صرف چند ماہ کے اندر 1970کے انتخابات میں روایتی جماعتوں اور بڑے بڑے سیاستدانوں کے برج الٹ دیئے، ان کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب انھیں قتل کیا گیا تو اس روز ان کے چاہنے والوں نے اس قتل کے خلاف خود سوزی کر کے احتجاج کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو جب پہلی بار اقتدار ملا تو پاکستان دولخت ہوچکا تھا، ملک کی معیشت تباہ ہوچکی تھی، پی پی پی کی قیادت نے دو سال بڑی گرمجوشی کے ساتھ اپنی پارٹی کے منشور پر عمل کیا اور انقلابی اصلاحات کیں۔1973کا متفقہ آئین دیا ،کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی ،ایٹمی صلاحیت کی بنیاد رکھی اور عوام کو پہلی بار ان کے حقوق کا شعور دیا، پہلی بار پاکستانیوں کو شناختی کارڈ دیا گیا۔ اندرونی اور بیرونی قوتیں بھٹو صاحب کی مقبولیت اور ان کے انقلابی خیالات سے بہت خوفزدہ تھیں، انہوں نے ایک سازش تیار کی اوربھٹو مخالف جماعتوں اور طبقات کو متحد کرکے ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا ,5جولائی 1977کو جنرل ضیاالحق نے امریکہ کی اشیرباد سے نہ صرف پاکستان پر مارشل لا مسلط کردیا بلکہ چار اپریل 1979کو بھٹو صاحب کو تختۂ دار پر لٹکا دیا۔یہ فیصلہ پاکستان کی سیاست، جمہوریت اور ملکی استحکام کیلئے بڑا بد قسمت ثابت ہوا۔ اس المناک فیصلے کے سائے آج بھی پاکستان پر منڈلا رہے ہیں ۔ ایک ایسی جنگ کا سامنا ہے جس کے تانے بانے ضیاالحق کی پالیسیوں سے جا ملتے ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد انتہائی جبر کے ماحول کے باوجود بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے مایوس اور بد دل عوام کو قیادت فراہم کی۔ ضیاالحق نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے پارٹی ختم ہوجائے مگر پارٹی ختم نہ ہوئی ، بلکہ ہر جگہ سے جیے بھٹو کی صدا گونجتی رہی،آمر کا خاتمہ ہوامگر پی پی پی اور بھٹو کل بھی زندہ تھے، آج بھی زندہ ہیں۔ 1988 میں بھٹو شہید کی بیٹی وزیر اعظم بنی تو انھیں پاکستان کیلئے خطرہ قرار دیا گیا، ان کی کردار کشی کی گئی، ان کی حکومت گرانے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جو فاشسٹ قوتیں اختیار کرتی ہیں اور دو سال کے بعد ہی انھیں وزیر اعظم ہائوس سے رخصت کردیا گیا اور بھٹو مخالف لابی بھٹو شہید کی بیٹی اور پی پی پی کا اقتدار ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی، دوسری بار شہید بینظیربھٹو 1993 میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں تو انھوں نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی کی فراہمی ، خواتین کوبااختیار بنانے، مزدوروں کے حقوق اور کسانوں کے حقوق کیلئے کئی اقدام کئے ، مگرایک بار پھر پی پی پی کی حکومت کو سازش کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا، اس دوران شہید بینظیر بھٹو کے کئی اہم ساتھی شہید کردیے گئےاور ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ بی بی شہید کو ملک چھوڑنا پڑا۔ جب بینظیر بھٹو شہید نے پاکستان آنے کا قصد کیا تو ان کے کسی نہ کسی ساتھی کو قتل کر کے پیغام دیا جاتاکہ ا گلی باری آپ کی ہے۔ وہ مگر 2007میں پاکستان آگئیں اور بدقسمتی سے شہید ہوگئیں جس کے بعد پی پی پی 2008کے انتخابات جیت کر حکومت میں آئی، آصف علی زرداری صدر پاکستان اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے لیکن بطور صدر اور وزیر اعظم نہ آصف علی زرداری نے کوئی رات سکھ کی گزاری نہ گیلانی نے۔ 55سال سے یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اب کچھ امید پیدا ہوئی ہے کہ بھٹو مخالف لابی یہ سبق ضرور حاصل کرلے گی کہ عوام کا کام عوام کو کرنے دو آپ اپنا کام کرو جسے عوام منتخب کرے ،اسے سلام کرو ۔ پاکستان کو تا قیامت قائم رہنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم عوام کو اور پارلیمان کو فیصلے کرنے دیں۔

تازہ ترین