آج کاکالم میں ، میں نے روایتی سیاسی تجزیہ نگاری، عالمی امور جیسے پیچیدہ موضوعات سے ہٹ کر اپنی ذاتی زندگی کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے کائنات کی اس عظیم ہستی کے نام کرنے کی ادنیٰ کوشش کی ہے جس کی شان،پیار، شفقت، محبت، قربانی اور دعاکے بارے میں جتنا لکھا جائے کم ہے، میری والدہ پانچ ماہ بعد بیرون ملک سے بخیر یت وطن واپس آگئی ہیں،میں نے جب انہیں ایئرپورٹ پر ویلکم کیا اور جس والہانہ انداز سے ہمیشہ کی طرح انہوں نے مجھے دعائیں دیں، میرے وجود کی گہرائیوں میں ایک ایسا طمانیت بھرا احساس پیدا ہوا کہ میں اپنے آپ کو دنیا کاخوش قسمت ترین انسان سمجھنےلگا۔ میری ماں خدا کا ایک ایساانمول تحفہ ہے جس کی موجودگی سے وانکوانی پریوارکا ہر چھوٹا بڑا خوشی سے جھوم اٹھتاہے، آج ہمارا گھر جو گزشتہ پانچ ماہ سے سنسان ہوگیا تھا، اماں کی واپسی کے بعد اس کی رونق واپس لوٹ آئی ہے، مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، کوئی تحفے تحائف لارہا ہے تو کوئی ان کے ساتھ سیلفی بنا کر فیملی کے واٹس ایپ گروپس میں شیئر کررہا ہے، ہمارے گھرانے کا ہرفرداماں کے ساتھ اپنے بِتائے گئے لمحات یادگاری بناتا جارہاہے۔دنیا کے تمام مذاہب والدین خاص طور پر ماں کی عزت کرنے کو بہت اہمیت دیتے ہیں، ہندو دھرم میں ماں کو ایک بلند سماجی مقام حاصل ہے، پانچ مہینے اماں نے امریکہ اور کینیڈاجیسے مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے بچوں، پوتے پوتیوں اور بیٹوں پر پیار ومحبت کے جو پھول نچھاور کئے وہ ہمارے لئے انمول خزانہ ہیں، یہ وہ مادیت پرست معاشرے ہیں جہاں بچے اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ آتے ہیں جبکہ وانکوانی پریوار کے وہاں مقیم افراد آفس اور تعلیمی اداروں میں جانے سے پہلے روزانہ ان کی آشیرباد لیتے اور گھر واپسی پر سب سے پہلے اماں کوپیار کرتے ،مجھے وہ لمحات آج بھی یاد ہیں کہ ماں کی آنکھوں میں پیار بھرے آنسو بچوں کیلئے باعث ِ رحمت بن جاتے تھے، مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ صرف پاکستان نہیں ، ملک سے باہر ہمارے پوتے پوتیاں ، بیٹے بیٹیاں، چھوٹے بچے بہت اچھی پرورش پارہے ہیں ، ماں جی کی دعاؤں کی بدولت گھر کے اندر شانتی اور ترقی ہمارے قدم چوم رہی ہے ۔میں کینیڈا کے شہر ایلبرٹا میں جب اپنی والدہ کے ساتھ اپنے بھتیجے کے گھر مقیم تھا تو وہاں بھتیجے اور اس کی اہلیہ نے ہماری بھرپور مہمان نوازی کرکے ہمارے دل جیت لئے ، لوگ بیٹے اور بیٹیوں کی بات کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو بہو بھی اماں سے پیار کرکے اپنے لئے دعائیں حاصل کرتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پریوار کا ایک ایک بچہ اپنے بڑوں کو دیکھ کر ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بڑوں کی عزت کرتا ہے اور ان کی خدمت کرکے جنت حاصل کرنا چاہتاہے۔دوسری طرف سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوزمیری نظر سے گزرتی ہیں جس میں نا خلف اولاد اپنے ماں باپ سے برا سلوک کرتی ہے، بدقسمتی کا مقام ہے کہ آج ہمارے ملک کی سڑکوں پر ایسے بے شمار عمررسیدہ لوگ زندگی کی آخری سانسیں گزارنے کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں ، جن کے اپنے سگے بچوں نے انہیں گھر سے نکال دیا ہے، اپنے ماں باپ کو بوجھ سمجھنے والے ان بدقسمت لوگوں نے اپنی جنت ضائع کر دی یہ آخرت میں بھی اپنے ظلم کا حساب دیں گے ، اگر کوئی شخص دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کر لے لیکن وہ اپنی ماں کا پیار نہ پا سکے،ماں کی آنکھوں میں خوشیاں نہ دیکھ سکے تو میری نظر میں وہ دنیا کاسب سے غریب اور بد قسمت ترین انسان ہے۔ایسے لوگوں کو جوانی کے زعم میں ابھی احساس نہیں ہوتالیکن کچھ عرصے کے بعد جب ان کے اپنے بچے جوان ہو کر وہی سلوک کریںگے جو انہوں نے اپنے مظلوم والدین کے ساتھ کیا تھا تو انہیں سمجھ میں آئےگا کہ قدرت کااپناایک نظام ہے یعنیٰ جیسا کروگے ویسا بھرو گے، قدرت کا یہ نظام ازل سے چلا آرہا ہے ابد تک رہے گا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ آج میں اپنی بزرگ والدہ کی درازی عمر کی دعا مانگتے ہوئے ہر ایک کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ماں کی قدر کریں، زندگی کے ہر موڑ پر اس کی دعائیں لیں، کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ماں سے مشورہ ضرور کریں، ماں کبھی اپنی اولاد کیلئے بُرا نہیں چاہتی، اگرماں کی دعا دنیا کا ہر بگڑا کام سنوار سکتی ہے تو ماں کی آہ انسان کو عرش سے فرش پر گرانے میں دیر نہیں لگاتی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)