• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم راحت نسیم سوہدروی

مچھلی ہمیشہ سے انسان کی مرغوب غذا رہی ہے کہ جہاں اِس کا گوشت لذیذ اور زودہضم ہوتا ہے، وہیں اِس میں غذائیت بخش اجزا بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ مچھلی میں فاسفورس کی موجودگی جسم کی نشوونما کے علاوہ دماغ کو بھی توانائی بہم پہنچاتی ہے، جس سے ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ مچھلی کو وٹامن اے اور وٹامن ڈی کا خزانہ کہا جاتا ہے اور یہ دونوں وٹامنز دانتوں اور ہڈیوں کے لیے بےحد اہم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مچھلی دماغ کی غذا ہے، اور پھر تحقیقات نے بھی مچھلی کو دماغ و اعصاب کے لیے مفید قرار دیا ہے۔ 

نیز، تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ مچھلی کا تیل کولیسٹرول اور چربی کی مقدار کم کر کے عارضۂ قلب میں فائدہ دیتا ہے۔ خون کا گاڑھا پن، عموماً امراضِ قلب کا سبب بنتا ہے اور مچھلی کاتیل خون گاڑھا ہونےسے روکتا ہے۔ اومیگا تھری چکنائی بلڈپریشر کم کرتی ہے، تو جِلدی امراض کے علاج میں مفید ثابت ہوتی اور دماغ کے ٹشوز کی نشوونما میں مدد دیتی ہے۔ یاد رہے، ایک مچھلی کا ایک سوگرام ایک بالغ شخص کو درکار پروٹین کی مجوّزہ غذا کا ایک تہائی مہیا کرتا ہے۔ اور اس میں ایک سو سے کم حرارے پائے جاتےہیں، جس سے امراض قلب کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ 

نیز، مچھلی میں پائی جانے والی اومیگا تِھری چکنائی، قلب اور اُس کی شریانوں کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ اِسی طرح مچھلی کا تیل بھی کئی خصوصیات کا حامل ہے۔ تحقیق کے مطابق مچھلی کا استعمال بلڈپریشر بڑھنےسےروکتا ہے اور فالج کا خطرہ بھی کم کردیتا ہے، جب کہ مچھلی کا زیادہ استعمال کرنے والے افراد میں افسردگی کا مرض بھی کم ہوجاتا ہے۔ نیز، مچھلی غذا کو متوازن بناتی ہے۔ امریکن کینسر ایسوسی ایشن نے سُرخ گوشت کے بجائے مچھلی، مرغی، سبزیاں کھانے کی سفارش کی ہے، تاکہ صحت سے متعلق خدشات دُور کر کے مفیدو صحت بخش غذا کی بنیاد رکھی جائے۔

بلاشبہ گوشت، لحمیات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن تمام تر ماہرین سُرخ کےبجائے سفید گوشت ہی کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں اور مچھلی مفیدترین سفید گوشت کامنبع ہے۔ اسی سبب دورِ حاضر میں شعورِ صحت رکھنے والے افراد سُرخ گوشت کا استعمال کم سے کم کررہے ہیں۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے بھی ہر ہفتےمچھلی کے استعمال کا مشورہ دیا ہے تاکہ امراض قلب سے بچائو ممکن ہو سکے۔ 

یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ مچھلی کو سالن کی صُورت پکا کر کھانے سے اُس قدر فوائد حاصل نہیں ہوتے، جتنے کہ اس کی غذائیت محفوظ رکھتے ہوئے استعمال کرنے سے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر اِسے ہلکے پُھلکے طریقے سے گرل کرکے کھایا جائے تو یہ جسم کو توانائی فراہم کرنے کی ایک عُمدہ تدبیر ہے۔ مچھلی چوں کہ بھاپ میں پکنے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے اور اس کا گوشت بہت نرم ہوتا ہے، تو اِس لیے اِسے آگ پر کم سے کم پکانا ہی درست ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہر مچھلی بہترین خصوصیات کی حامل نہیں ہوتی، اچھی مچھلی موسم اور سمندری درجۂ حرارت کے باعث خاص وقت پر نمودار ہوتی ہے اور عموماً مچھیرے ہی اُن کا شکار کرتے ہیں۔

تازہ مچھلی اگر صحیح طور پر فریز کی جائے، تو اُس کی خصوصیات و افادیت برقرار رہتی ہے، جیسا کہ سمندری مچھلی سے ایک مخصوص بُو آتی ہے، اور اگر مچھلی پرانی ہوجائے تو اُس میں سے شدید سڑاند آنے لگتی ہے۔ ویسے مچھلی خاصی نازک ہوتی ہے۔ اُس کی جلد کی نمی اور ملائمت ختم ہو جائے اور آنکھیں خشک اور بےجان محسوس ہوں تو ایسی مچھلی لینے سے گریز ہی کریں، کیوں کہ پھر اُس کے گوشت کے تمام تراجزاء اور فوائد حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ 

کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ بغیر کانٹے والی مچھلی کا استعمال بہتر رہتا ہے، مگر تحقیق بتاتی ہے کہ کانٹے والی مچھلی زیادہ لذیذ اور فائدہ مند ہوتی ہے، پھر اِسی طرح سمندری مچھلی کےبجائے دریائی مچھلی زیادہ پسند کی جاتی ہے، لیکن افادیت کے اعتبار سے سمندری مچھلی بہتر ہے،کیوں کہ اُس میں نمکیات ایک بہترین تناسب سے موجود ہوتے ہیں۔ 

یاد رہے، دنیا کےجن ممالک میں بھی مچھلی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ وہاں لوگ غذا میں لحمیات اور نمکیات کے بہترین تناسسب کےسبب چُست اور ذہین نظر آتے ہیں کہ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ مچھلی ایک مفید ترین غذا ہے، جو ذہن تیز اور کم زور افراد کو صحت مند کرتی ہے۔

ذیل میں ہم پاکستان میں دست یاب اور رغبت و شوق سے کھائی جانے والی مچھلی کی کچھ اقسام سے متعلق کچھ مختصر معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ ویسے یاد رہے، پشاور اور گردونواح میں بہنے والے دریاؤں میں 24 مختلف اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، جن میں سب سےلذیذ ’’شیر ماہی‘‘ ہے، جو کیٹ فش کی فیملی سےتعلق رکھتی ہے۔ 

شیرماہی لمبائی میں 12 انچ تک ہوتی ہے۔ سلور، ماہ شیر اور گراس جیسی مچھلیاں تو تالاب میں بھی پرورش پالیتی ہیں لیکن شیر ماہی جیسی نایاب نسل، حساسیت کے باعث مصنوعی تالابوں میں نشوونما نہیں پاسکتی، اس کے لے تازہ پانی اور مخصوص آب و ہوا نہایت ضروری ہے۔

رہو مچھلی: یہ سارا سال ملتی ہے۔ اِس میں ایک لمبی ہڈی اور اس سے منسلک بےشمار کانٹے ہوتے ہیں۔ تمام ایشیائی ممالک میں عام اور ذائقے کے لحاظ سے بہت پسندیدہ ہے اس کی خوراک بھی آبی کیڑے اور نباتات ہیں۔ اس کا شکار بہت مہارت کا کام ہےاور اس کا زیادہ سے زیادہ وزن 45 کلو تک دیکھا گیاہے۔

تھیلا: اس کو چڑا بھی کہا جاتا ہے، یہ میٹھے پانی کی مچھلی ہے،جو آبی کیڑوں اور نباتات کو بطور خوراک استعمال کرتی ہے۔ اس کا شکار بہت پُر لطف ہے کہ یہ کانٹے میں پھنسنے کے بعد بہت مزاحمت کرتی ہے۔ اس کا وزن 30کلو تک ریکارڈ کیا جاچُکا ہے، مگر اس کا گوشت اوسط درجے کا ہوتا ہےاور کانٹے زیادہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں کم قیمت پر مل جاتی ہے۔

گلفام: یہ پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک میں بہت عام ہے، اس کاجسم لمبوترااور مضبوط ہوتا ہے یہ بھی ایک سبزی خور مچھلی ہے،اس کا زیادہ سے زیادہ وزن 40 کلوگرام ریکارڈ کیا گیا ہے۔

سانپ سری یا اسنیک ہیڈ: یہ بہت سے شکاریوں کی پسندیدہ مچھلی ہے، پاکستان میں اس کو سول یا سولی کہاجاتا ہے۔ برصغیر کے علاوہ یہ مشرق بعید کے اکثر ممالک مثلاً برما، تھائی لینڈ، فلپائین، انڈونیشیا میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ان ممالک میں اسے Huran یاToman کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

اس کا شمار گوشت خور مچھلیوں میں ہوتا ہے اس کی خوراک میں چھوٹی مچھلیاں اور دیگر چھوٹے آبی جانور شامل ہیں۔ پاکستان میں اس کی ایک اور قسم بھی پائی جاتی ہے، جسے ڈولا یا ڈولی کہتے ہیں۔ کھانے میں یہ بہت ہی لذیذ اور قوت بخش ہے اوراس میں کانٹے بھی برائے نام ہوتے ہیں، جب کہ کا وزن 16 کلو تک ہو تا ہے۔

دھوتر: ایک کانٹے کی یہ مچھلی شوربے والےسالن اور بار بی کیو کے لیے بہترین ہے۔ اس کو فریزبھی کیا جاسکتا ہے، تھوڑے مسالے میں بھی اس کا مزہ برقرار رہتا ہے۔

ٹرائوٹ: وادیٔ کاغان کی سب سے خُوب صُورت اور طاقت ور مچھلی ٹرائوٹ ہے۔ آج سے بیسیوں برس پہلے یہ مچھلی یورپ سے کشمیر لائی گئی اورپھرکشمیرسےوادیٔ کاغان میں اس کی افزائش نسل شروع ہوئی۔ یہ 10 سے 16 انچ تک لمبی ہوتی ہے۔ اس کے جسم میں کانٹے بہت کم ہوتے ہیں اور ذائقہ نہایت ہی لذیذ ہے۔

پامفرٹ: بڑے لمبے کانٹے کے ساتھ چھوٹے کانٹوں کی لذیذ مچھلی ہے۔ اگر گلپھڑے سُرخ ہوں تو جان لیں کہ مچھلی تازہ ہیں۔

سنگھاڑا یا سنگھاڑی: یہ کیٹ فش کے خاندان کی سب سےنفیس مچھلی ہے۔ جسم لمبوترا، تھوتھنی لمبی اور سخت ہڈی کی ہوتی ہے۔ یہ گوشت خور مچھلی ہے اور اس کا گوشت ہلکا زردی مائل ہوتا ہے، مگر ذائقے کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی ہے اور کافی منہگے داموں فروخت ہوتی ہے۔

گونچ یا سندھی کھگا: کیٹ فش کے خاندان کی اس مچھلی کا شمار تازہ پانی کی سب سے زیادہ وزن والی مچھلیوں میں ہوتا ہے،جو 80 کلو گرام تک ہو جاتا ہے۔ اس کا شمار بھی گوشت خور مچھلیوں میں ہوتا ہے۔ اس میں کانٹے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں،بس درمیان میں جانوروں جیسی ہڈی ہوتی ہے۔ ذائقہ کچھ خاص نہیں، البتہ شوربا اچھا بنتا ہے۔

ملی: ملی کیٹ فش خاندان کی سب سے خوں خوار مچھلی ہے۔ اسے میٹھے پانی کی شارک مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ40کلو گرام تک عام پائی جاتی تھی، مگر بے دریغ شکارکی وجہ سےاب 14 یا 15 کلو سے زیادہ دیکھنے میں نہیں آتی۔

لیڈی فش: بہت زیادہ کانٹوں والی ہوتی ہے، مگر فرائی کرنے سے بہت لذیذ ہوجاتی ہے۔ عام استعمال ہوتی ہے اور اس سے بہت مزےدار سالن تیار کیا جاتا ہے۔

پلّا : دریائے سندھ میں پائی جانے والی اس مچھلی کی لذت و ذائقے کا کوئی مول ہی نہیں۔ یہ مچھلی رہتی تو سمندر میں ہے، مگر انڈے دینے کے لیے دریائے سندھ آتی ہے، کیوں کہ اس کے بچّے سمندر کے کڑوےپانی میں زندہ نہیں رہ سکتے ۔ پلّا مچھلی کی کہانی صدیوں پرانی اور دریائے سندھ ہی سے منسوب ہے۔ یہ مچھلی دوسری مچھلیوں سے کافی منہگی ہے اور اس کی وجہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کا نایاب ہونا ہے۔ 

کئی برس پہلے یہ اتنی بڑی مقدار میں دست یاب تھی کہ ہر غریب و امیر انتہائی شوق سے کھاتا تھا۔ اُس وقت یہ سفر کرتی ہوئی سکھر تک پہنچ جاتی تھی اور اس کا وزن 5 کلو تک ہوجاتا تھا، مگر اب یہ صرف جام شورو تک ملتی ہے۔ اگر عام مچھلی تین سے چار سو روپے کلو میں بکتی ہے،تو پلّا ایک ہزار سے دو ہزار روپے فی کلو تک فروخت ہوتی ہے۔