• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 5)

زبیربن عوامؓ سے ملاقات: اسی سفر میں حضرت زبیرؓ بن عوام بھی ملے، جو شام کے ایک تجارتی سفر سے واپس آرہے تھے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے پھوپی زاد اور حضرت ابوبکرؓ کی صاحب زادی حضرت اسماؓ کے شوہر تھے۔ طویل سفر کے دوران ان مقدّس ہستیوں کے لباس گرد آلود ہوچکے تھے، لہٰذا انہوں نے رسول اللہﷺ اور سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں سفید ملبوسات کا ہدیہ پیش کیا۔ (صحیح بخاری، حدیث 3906)

قباء میں تشریف آوری: بروز پیر 8؍ ربیع الاول 14؍ نبوی بمطابق 23؍ ستمبر 622 عیسوی کی دوپہر مقدّس قافلہ قباء میں وارد ہوا۔ اہلِ یثرب کو حضور ﷺ کی روانگی کی اطلاع مل چکی تھی۔ مسلمان ہر روز صبح مکّہ سے آنے والے راستے پر بیٹھ کر انتظار کرتے اورجب دھوپ کی شدّت بڑھ جاتی تو چلے جاتے۔ اُس روز ایک یہودی اپنے گھر کی چھت پرکھڑا تھا کہ اُسے مکّے کے راستے سے ایک قافلہ قباء کی جانب آتا نظر آیا۔ سفید لباس اور سفید جھنڈا دیکھ کر وہ چیخ کر پکاراٹھا، ’’اے یثرب کے لوگو! تمہیں جس بزرگ ہستی کا انتظار تھا، وہ آپہنچی ہے۔‘‘ اعلان سنتے ہی مسلمان دیوانہ وار نعرئہ تکبیر بلند کرتے استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے قباء میں بنو عُمروبن عوف کے رئیس کلثومؓ بن ہدم کے مکان پر قیام فرمایا۔ (صحیح بخاری، حدیث 3906)۔ رسول اللہ ﷺ خاموشی سے تشریف فرما تھے، جب کہ سیّدنا ابوبکرصدیقؓ کُھلی جگہ پر کھڑے ہوکر لوگوں سے مل رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ انصاری جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا نہ تھا، وہ حضرت ابوبکرؓ ہی کو سلام کرتے۔ پھر جب رسول اللہﷺ پر دُھوپ آگئی اور سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے آپؐ پر اپنی چادرکا سایہ کیا، تب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو پہچانا۔ (صحیح بخاری، حدیث 3906)۔

اسلام کی پہلی مسجد: رسول اللہ ﷺ قباء میں قیام کے دوران حضرت سعد بن خیثمہؓ کے مکان پر اپنے اصحاب سے گفت و شنید فرمایا کرتے تھے۔ اسی دوران آپؐ نے اسلام کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی، جو آج بھی مسجدِ قباء کے نام سے موجود ہے۔ (رحیق المختوم، ص 240)۔ یہاں دو نفل پڑھنے کا ثواب ایک عُمرے کے برابر ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺ ہر ہفتے کبھی پیدل اور کبھی سواری پر مسجدِ قباء تشریف لاتے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھتے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1194)۔ حضرت علیؓ بھی مکّہ میں لوگوں کی امانتیں لوٹاکر پیدل ہی حضور ﷺ کے پاس آگئے اور کلثوم بن ہدمؓ کے گھر قیام کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے قباء میں چاردن قیام فرمایا (پیر سے جمعرات تک) روایت میں دس دن اور چوبیس دن قیام کی مدّت بھی تحریر ہے۔ (رحیق المختوم، ص 240)۔

اسلامی تاریخ کی ابتدا: حضرت سہلؓ بن سعد نے بیان کیا کہ تاریخ کا شمارنہ آپؐ کی نبوت سے ہوا اور نہ وفات سے، بلکہ اس کا شمار مدینے کی ہجرت کے سال سے ہوا۔ (صحیح بخاری، 3934) آپؐ نے بارہ ربیع الاول کو ہجرت فرمائی، اس لیے پہلا ہجری سال ساڑھے نو ماہ بعد ختم ہوگیا اور یکم محرم سے دوسرا ہجری سال شروع ہوا۔ (تاریخ اسلام، 132/1)۔

استقبالِ مدینہ کی ایک جھلک: وہ جمعۃ المبارک 12؍ ربیع الاول 14؍ نبوی مطابق 27؍ ستمبر 622 عیسوی کی ایک حسین و دل آویز، روشن اور رُوح پرور صبح تھی۔ سورج کی روشن کِرنوں نے چہار سُو قوس ِقزح کے رنگ بکھیر دیئے تھے۔ نسیمِ سحر کے مشک بُو ہوائوں کے لہلہاتے جھونکوں نے شہرِ جاناں کی فضائوں کو معطّر کر رکھا تھا۔ 

مدینے کے پہاڑ و صحرا، برگ و شجر، باغ و ثمر، شمس و قمر، جن و بشر، زمین وآسماں، دشت و دریا، چرند،پرند غرض کہ شہر قدس کا پتّا پتّا، بوٹا بوٹا مصروفِ حمد و ثناء تھا۔ مدینۂ منوّرہ کے گلی کوچوں، بازاروں، صحرائوں میں یہ فرحت انگیز نوید گونج رہی تھی کہ سرکارِ دو عالم، فخرِ کون و مکاں، سرورِ زمین و زماں، رحمتِ ارض و سماں ﷺ کا سایۂ عاطفت و شفقت اس شہرِ خوباں پہ جلوہ فگن ہونے کو ہے۔ 

آقائے دوجہاںؐ کی سواری قباء سے یثرب کی جانب رواں دواں ہے۔ شہرنبیؐ کے پیروجواں، کبیر وصغیر، مرد و زن، بچّے حتیٰ کہ اشجار و احجار بھی ہمہ تن چشمِ براہ تھے۔ معصوم بچّے و بچّیاں سرور و انبساط اورفرحت ونشاط میں نغمہ سرا تھے۔ شہرِ تاباں کا ہر چہرہ خوشی سے گل نار اور ہر شئے مستی میں سرشار تھی۔ چمنستانِ طیبہ میں جشنِ بہاراں کا سماں تھا۔ 

عالمِ ارض و سماء نے رنگ ونور سے معمور استقبالِ مصطفیﷺ کا ایسا رُوح پرور منظر پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ کفار و قریش بدقسمت تھے کہ دنیا کی بادشاہت سے محروم رہے۔ یہ عظیم سعادت یثرب کے بیمار و لاغر انصار کے نصیب میں آئی۔ اللہ کے نبیؐ نے مسجدِ قباء میں فجر کی نماز کی امامت فرمائی اور ’’بنو نجار‘‘ کے جنگجو جوانوں کے حصار میں مدینے کی جانب رواں دواں ہوئے۔ (صحیح بخاری، حدیث 3932)۔

مرحبا سیّدِ مکّی مدنی: اہلِ قباء اور بنو عمرو بن عوف کے لوگوں نے محبت وعقیدت کے ساتھ آپؐ کو رخصت کیا۔ راستے میں عقیدت مندوں کا ایک جمِ غفیر تھا، جو حضوراکرمﷺ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھروں کی چھتوں، درختوں اور راستے کے دونوں جانب صبح سے محوِ انتظار تھا۔ اُن میں وہ یہودی بھی تھے کہ جو گزشتہ پانچ سو برسوں سے نبی آخرالزماں کے منتظر تھے۔ ابھی یہ قافلۂ جانثاراں وادیٔ بطن میں قبیلہ بن سالم بن عوف تک ہی پہنچا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے نمازِ جمعہ کی ادائی کا حکم فرمایا۔ (سیرت، ابن ہشام، جِلد 2،صفحہ 108) آپؐ نے جس جگہ نمازِ جمعہ کی امامت فرمائی تھی اس جگہ آج ’’مسجدِجمعہ‘‘ کے نام سے ایک خوب صورت مسجد قائم ہے، جو مدینے سے قباء جاتے ہوئے بائیں جانب پڑتی ہے۔

نمازِ جمعہ کے بعد حضور ﷺ نے سفر جاری رکھنے کا قصد فرمایا، تو بنی سالم بن عوف کے لوگوں نے ناقہ قصویٰ کی مہار پکڑ کر التجا کی کہ ’’یارسول اللہ ﷺ! ہمارا قبیلہ بہت بڑا ہے اور ہم سب جنگجو لوگ ہیں، ہمارے پاس سامانِ حرب بھی بہت زیادہ ہے اور ہم دفاع کی طاقت بھی خوب رکھتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’میری ناقہ، اللہ کے حکم سے چل رہی ہے، اسے اللہ کی جانب سے جہاں رکنے کا حکم ملے گا، وہی میری قیام گاہ ہوگی۔‘‘ (تاریخ ابنِ کثیر، 193/3)۔

شوقِ دیدارِ مصطفیؐ: نبی برحق ؐکا قافلہ انقلاب جوں جوں قریب آتا جارہا تھا، جاں نثارانِ مصطفیؐ کا جوش و خروش بڑھتا چلا جارہا تھا۔ عشق و محبّت کی آندھی نے جذبات میں ہلچل مچادی تھی۔ شوقِ دیدارِ مصطفیؐ، جنوں میں تبدیل ہوچکا تھا۔ سیّدنا صدیق اکبرؓ سے مروی ہےکہ ’’جب ہم مدینہ پہنچے، تو پورا شہر ہمارے استقبال کے لیے سڑکوں پر موجود تھا، چھتوں پر ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے تھے، بازاروں میں خدام و لڑکے نعرے لگاتے پھر رہے تھے، اللہ اکبر… اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ محمد ﷺ تشریف لے آئے۔ 

کچھ یوں پکار رہے تھے ’’اللہ کے نبیؐ آگئے، اللہ کے نبیؐ آگئے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 3911)۔ حضرت براء ؓ بن محازب فرماتے ہیں کہ میں نے اہلِ مدینہ کو کبھی اس قدر خوش نہیں دیکھا، جس قدر حضور ﷺ کی تشریف آوری کے دن دیکھا۔ (صحیح بخاری، حدیث 4941)۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ مکّہ کے اپنے قریش آنحضرتﷺ سے جتنی شدید دشمنی رکھتے تھے، مدینے کے اجنبی انصار ان سے کہیں زیادہ شدّت سے حضورﷺ سے محبت کرتے تھے۔ قریش خون کے پیاسے تھے، تو مدینے کے انصار آپؐ پر اپنا خون نچھاور کرنے کو تیار رہتے۔ قریش نے مسلمانوں کو بے گھر و بے آسرا کیا، تو مدینے کے انصار نے اپنا گھر بار، مال و دولت مہاجرین کے حوالے کردیئے۔

انصارِ مدینہ اگرچہ مشرکین مکّہ کی طرح بہت زیادہ صاحبِ ثروت تو نہ تھے، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنا تن، من، دھن آنحضرت ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ اللہ کے رسول ﷺ اُس کے گھر قیام فرمائیں، لیکن آپؐ نے اونٹنی قصویٰ کی نکیل چھوڑتے ہوئے فرمایا، ’’یہ اللہ کے حکم پر مامور ہے۔‘‘ اونٹنی آپؐ کی ننھیال بنو مالک بن نجار کے محلّے میں اُس جگہ جاکر بیٹھ گئی، جہاں اِس وقت مسجدِ نبویؐ ہے۔ (صحیح بخاری، 3906) آج کی مسجد نبویؐ اُس زمانے کے پورے شہرِ مدینہ کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

میزبانِ رسولؐ، حضرت ایوب انصاریؓ: حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اونٹنی سے اُترے اور فرمایا ’’کس کا گھر سب سے قریب ہے؟ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ! یہ ساتھ ہی میرے گھر کا دروازہ ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’تو پھر جائو اور ہمارے لیے قیلولے کا انتظام کرو۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’آپؐ دونوں حضرات تشریف لے چلیں، اللہ برکت عطا فرمائے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث 3911)۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا اصل نام خالد بن زید ہے۔ وہ 48ہجری میں حضرت امیر معاویہ ؓکے عہدِ خلافت میں قسطنطنیہ کے محاصرے کے وقت شہید ہوئےتھے۔ اُن کا مزار آج بھی ترکی کے شہر استنبول میں موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی قصویٰ کو حضرت اسعدؓ بن زرارہ اپنے گھر لے گئے تھے، اور وہیں اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ (رحمۃ اللعالمین، 106/1)

یثرب کا نام مدینہ ہوگیا: حضور نبی کریم ﷺ جمعہ کی سہ پہر یثرب تشریف لائے تھے اور اسی دن سے اس شہر کو یثرب کے بجائے ’’مدینۃ الرسولؐ‘‘ کہا جانے لگا۔ سیّدنا جابر بن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس شہر کانام مدینہ طیبہ رکھوں۔‘‘ (سند ابو دائود، جِلد 2،صفحہ 204) صحیح بخاری کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’منافق لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، حالاں کہ اس کانام مدینہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، 254/1) مدینہ کو طابہ بھی کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے اس پیارے شہر کا نام ’’طابہ‘‘ رکھا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث 1385)

مدینۂ منوّرہ کے فضائل

مدینۂ منوّرہ کے فضائل و مناقب بے حد و بے حساب ہیں۔ جن کا شمار ممکن نہیں، اس سرزمین پرسرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری، مستقل رہائش، پہلی اسلامی ریاست کا قیام، دنیا میں حق کی تبلیغ و ترویج کا مرکز و محور، مسجد نبویؐ، روضۂ اطہر، ریاض الجنہ، دس ہزار صحابہ ؓ کا مسکن، جنّت البقیع اور اُحد کا پہاڑ، وہ مقدّس و متبرک عظیم مقامات ہیں کہ جنہوں نے مدینۂ منوّرہ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب و اشرف بنادیا ہے۔ اللہ کے محبوب ؐنے اس شہرِ جاناں کے لیے دعا فرمائی’’اے اللہ! مدینے کی محبّت ہمارے دلوں میں مکّے کی محبت سے بھی بڑھادے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1889)۔ 

ایک اور جگہ دعا فرمائی ’’اے اللہ! مدینے میں مکّے سے دگنی برکت عطا فرما۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1885)۔ حضرت انس ؓبن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مدینہ حرم ہے، فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک۔ (یعنی جبلِ عیر سے جبلِ ثور تک) اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے، نہ کوئی بدعت کی جائے۔ اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی، اس پر اللہ تعالیٰ، تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث1867)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے قریب ایمان مدینے میں اس طرح سمٹ آئے گا، جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بِل میں آجایا کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1876)۔ اُمِّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓنے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اہلِ مدینہ کے ساتھ جو شخص بھی فریب کرے گا، وہ اس طرح گُھل جائے گا، جیسے نمک پانی میں گُھل جایا کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1877)۔

حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مدینہ برے لوگوں کو اس طرح دُور کردیتا ہے، جس طرح آگ میل کچیل کو دُورکردیتی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1884)۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینے کی دیواروں کو دیکھتے، تو اپنی سواری تیز فرما دیتے اور اگر اونٹ یا گھوڑے کی پشت پر ہوتے، تو مدینے کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1886)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوضِ کوثر پر ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری، 1888)۔

سیّدنا عبداللہ بن زید بن عاصم ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یوں بیان کرتے ہیں، ’’سیّدناابراہیم علیہ السلام نے مکّے کو حرم قرار دیا تھا اور مکّے والوں کے لیے دُعا فرمائی تھی۔ مَیں مدینے کو حرم قراردیتا ہوں اور اس کے رزق اور غلّے کے لیے مکّے کے مقابلے میں دگنی برکت کی دُعا کرتاہوں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث، 2129)۔ حضرت عامر بن سعدؓ کی اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ بدسلوکی کا ارادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اُسے آگ میں یوں پگھلائے گا، جس طرح سیسہ پگھل جاتا ہے یا جیسے نمک پانی میں حل ہوجاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث 1363)۔ مدینے میں دجّال اور مرضِ طاعون کا داخلہ ممنوع ہے۔ 

سیّدناابوبکر صدیق ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مدینے میں دجّال کا رُعب بھی نہیں پڑے گا۔ اُس دَور میں مدینے کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے مقرر ہوں گے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1879)۔ایک اورموقعے پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مدینے کے راستے پر فرشتے مقرر ہیں۔ نہ اس میں طاعون آسکتا ہے اور نہ دجّال۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1880)۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’دجّال ہر شہر میں داخل ہوگا، سوائے مکّہ اور مدینہ کے۔ کیوں کہ اُن کے راستوں پر فرشتے انہیں باندھے حفاظت کررہے ہوں گے، وہ ایک ایک ناکارہ سی زمین میں پڑائو ڈالے گا۔ 

پھر مدینے میں تین زلزلے آئیں گے۔ جن کے ڈر سے ہر کافر و منافق مدینے سے نکل کر دجّال سے جاملے گا۔(اور مدینہ پاک ہوجائے گا)۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث،1881)۔ حضرت سعید مقبری ؓ اپنے والد ابوسعید مہری ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’میرے والد، حرہ کے واقعے کے وقت سیّدنا ابوسعید حذری ؓکی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے مدینۂ منوّرہ کی رہائش چھوڑ دینے کے بارے میں مشورہ لیا، کیوں کہ وہ کثیرالعیال تھے۔ منہگائی بہت زیادہ ہوگئی تھی اور اُن کے لیے گزراوقات بہت مشکل ہوگئی تھی۔ سیّدنا ابو سعید حذری ؓنے فرمایا ’’افسوس! میں تمہیں مدینہ چھوڑنے کا مشورہ نہیں دے سکتا، کیوں کہ مَیں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا ہے کہ ’’جو شخص مدینے کی تنگی وترشی پر صبر کرے اور اس سرزمین پرفوت ہو، تو مَیں روزِ قیامت اس کا گواہ بنوں گا، بشرط یہ کہ وہ مسلمان ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث1374)۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینۂ منوّرہ میں وفات کو محبوب قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’جس شخص کے بس میں ہو، وہ مدینہ میں وفات پائے، کیوں کہ جو مسلمان مدینے میں وفات پائے گا، (قیامت کے دن) مَیں اُس کی سفارش کروں گا۔‘‘ (ترمذی، حدیث3917)۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید