• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میرا موڈ شیخی بگھارنے کا ہے۔ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کرہمارےبنیادی حقوق کی حفاظت کرنے والوں سے میں نے تصدیق کرالی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ پاکستان میں ہر نوعیت اور ہر کام، ہر دھندے میں مشغول رہنے والوں کے بنیادی حقوق کی بھرپور حفاظت کی جاتی ہے۔ ان میں چور اچکوں، چوہدری، وڈیرے ، خان، سردار، پیروں، رشوت خور، کرپشن کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑنے والے سبھی شامل ہیں۔ تم اگر شیخی بگھارنے کا ارادہ رکھتے ہو تو پھر جتنی چاہو تم شیخی بگھارو۔ کوئی تمہیں روکے گا، نہ ٹوکے گا۔ شیخی بگھارنا تمہارا بنیادی حق ہے۔ ہم بیٹھے ہیں نا تمہارے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنے کیلئے۔ آپ اپنے بنیادی حقوق پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے اچانک شیخی بگھارنے کا خیال مجھے کیسے آیا؟آپ کے بنیادی حقوق کا احترام کرتے ہوئے آپ کے سوال کے جواب میں وضاحت دینا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ واضح کردوں کہ مجھے شیخی بگھارنے کا خیال نہیں آیاتھا۔ دیکھا دیکھی مجھے بھی دانشوری نے چرالیا تھا۔اس طرح کی واردات پہلی مرتبہ میرے ساتھ نہیں ہوئی ہے۔ زندگی میں کئی مرتبہ پہلے بھی دانشوری کا شوق مجھے چرایا تھا مگر میں دانشور بننے سے محروم رہ گیا تھا۔ بار بار کی ناکامی سے میں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ کچھ عرصہ بعد پھر سے دانشور بننے کے شوق میں مبتلا ہوجاتا ہوں۔ آپ یقین کریں کہ میں خود بھی شوق چرانے والی بات سے تنگ آچکا ہوں۔ میں نے کئی مرتبہ تھانے جاکر شوق چرانے والی بات کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش کی تھی مگر بے سود۔مجھے آخری وارننگ دیتے ہوئے پولیس والوں نے کہا تھا’’اگر پھر کبھی تم بھولے سے بھی تھانے آئے اور شوق چرانے کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش کی تو ہم تیرے خلاف قتل کا مقدمہ درج کریں گے‘‘۔ وہ دن اور آج کا دن، پھر کبھی تھانے جاکر شوق چرانے کیخلاف میں نے ایف آئی آر کٹوانے کی دوبارہ کبھی کوشش نہیں کی۔ ایک مرتبہ چوروں نے میرے گھر کا صفایا کردیاتھا، میں نے تھانے جاکر چوروں کیخلاف ایف آئی آر کٹوانے کی جرأت نہیں کی تھی۔ ستاسی سال کی عمر میں، میں کسی قسم کا جوکھم اٹھانا نہیں چاہتا۔دانشوری دکھانے کیلئے میں اچھا خاصا ہوم ورک کرتا تھا۔ میرا مطلب ہے دانشوری بگھارنے کیلئےمیں اچھی خاصی محنت کرتا تھا۔ ادبی کانفرنسوں میں جانا ہوتا تو چیدہ چیدہ بین الاقوامی ادیبوں کے نام،انکی کتابوں کے نام، انکے کام سے کچھ اشعار اور کوٹیشن یعنی اقتباس یا دکرتا تھایا پھر کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پرلکھ کرجیبوں میں ٹھونس لیتا تھا۔ادبی بیٹھکوں اور مذاکروں کے دوران مندوبین سے بات چیت کرتے ہوئے میں جب انگریزی ، فرانسیسی، اور روسی ادیبوں کے حوالے یعنی کوٹیشن اور ان کی کتابوں کے نام گنواتا تھا تو بدیسی ادیب بہت متاثر ہوتے تھے۔ کچھ مندوبین کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے تھے۔ پول میراتب کھلتا تھا جب مندوبین کو پتہ چلتا تھا کہ دانشوری بگھارنے والے نے آج تک کسی قسم کی کوئی کتاب نہیں لکھی ہے۔ یہ دکھاوے کا دانشور ہے۔ ڈھکوسلا ہے۔ ادب کو چھوڑ چھاڑ کرمیں نے آرٹ پر دھاوا بول دیا۔دنیا کے نامور چترکار،مجسمہ ساز فنکاروں یعنی آرٹسٹوں کے نام یادکئے۔ لیونارڈوڈاونسی کانام بڑی کوششوں کے بعد یاد ہوا۔ اٹلی کے چترکار یعنی پینٹر تھے۔ ان کی ایک پینٹنگ مونا لیزا دنیا کی ہر تصویر سے زیادہ شہرت رکھتی ہے،ان کی اپنی پینٹنگThe Last Supperرات کا آخری کھانا سے بھی زیادہ۔ایک مرتبہ بھری محفل میں میری بڑی رسوائی ہوئی تھی،غلطی میری اپنی تھی۔ وہ جو اللہ سائیں کے نیک بندے فرماتے ہیں کہ جب تک منہ بند رہتا ہے، بندہ عافیت میں رہتا ہے۔ کھلا ہوا منہ سارے پول کھول دیتا ہے۔ میں منہ بند نہ رکھ سکا ۔ اسلئے مجھے منہ کی کھانی پڑی۔ فن اور فنکاری پر بحث مباحثہ ہورہا تھا۔ بات ہورہی تھی شاکر علی اور ان کی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں ۔شیخی بگھارنے کیلئے میں پر تولتارہتا ہوں۔ بہت دیر تک میں چپ نہ رہ سکا۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے پوچھا ۔’’ شاکر علی کون ہیں اور کس ملک کے رہنے والے ہیں۔ کیا واسطہ ہے ان صاحب کا فن اور فنکاری سے؟ ‘‘اچانک ماحول پر سکتہ چھاگیا ۔خاموشی ایسی کہ دل کی دھڑکن سنائی دینے لگی تھی۔ اپنے نکتہ پر مجھے غرورمحسوس ہونے لگا۔ میں نے حاضرین پر اپنی شیخی کی دھاک بٹھادی تھی مگر ایک ہی لمحے میں سب کچھ کافور ہوگیا۔ حاضرین نے میری ایسی گت بنائی کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ پتہ چلا کہ شاکر علی پاکستان کے نامور آرٹسٹوں میں سے ایک تھے۔ NCAیعنی نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل رہ چکے تھے۔ انتقال کے بعد ان کے گھر کو میوزیم کا درجہ دیاگیا ہے۔ اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک پھر کبھی مجھے شیخی بگھارنے کا خیال نہیں آیا۔حیران ہوں کہ موجودہ حالات میں مجھے شیخی بگھارنے کا خیال کیوں آیا ہے۔ موجودہ دور تسلسل ہے پچھتر سالہ سیاست کا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ہم سیاست کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔پچھتر برسوں میں ہمارے ہاں اسکول، کالج، یونیورسٹیز، ووکیشنل اور ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کی بہتات ہوتی مگر ہماری ترجیحات میں سیاست اول اور تعلیم وتربیت آخر میں آتی ہیں۔ اچھی خاصی صنعتیں ہوتی تھیں جب پاکستان بناتھا۔چونکہ ہماری دلچسپی صنعتوں میں نہیں تھی، صنعتوں کو تالے لگ گئے۔ اب ہمارے پاس ایکسپورٹ کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے پاس سیاست ہے۔ سیاست نے ترقی کرتے کرتے دیگر اداروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پاکستان میں اب سیاست سے بالاتر کچھ نہیں ہے۔ ہم صرف اعلیٰ نسل کی سیاست کرسکتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، صنعت وحرفت، درآمد اور برآمد، روزی روٹی اور مکان سب جائے بھاڑ میں۔سیاست ہمارا اوڑھنا ہے، سیاست ہمارا بچھونا۔

تازہ ترین