• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

ارشادِ ربّانی ہے: تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ًان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔(سورہ ٔآل عمران)

اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کی باقی تمام امتوں اور قوموں کے مقابلے میں فضیلت وشان بیان فرمائی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مخلوق خدا کو نفع پہنچانے کے لئے وجود میں آئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ مخلوق کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکرکرتی اور یہ اس امت محمدیہ کا فریضہ منصبی ہے۔ اگر چہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر( یعنی لوگوں کو نیکیوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے)کا حکم پچھلی امتوں کو بھی دیا گیا تھا، لیکن اس کی تکمیل اسی امت کے ذریعے ہوئی ہے۔ دوسرا پچھلی امتوں نے اس حکم کو چھوڑ دیا تھا،جب کہ اس امت محمدیہ کے حوالے سے نبی آخر الزماں ،محمد عربیﷺ کی پیش گوئی ہے کہ اس امت میں تاقیامت ایک جماعت ایسی قائم رہے گی جو برابر یہ فریضہ انجام دیتی رہے گی۔

یہی اس امت کی وجہ افتخار و وجہ امتیاز ہے۔ امام قرطبی ؒ احکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ’’یہ اعزاز اِس امت کے پاس اس وقت تک برقرار رہے گا، جب تک وہ اس دین پر قائم رہے گی اور نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی۔ اگر انہوں نے برائی کواچھائی سے بدلنے کی بجائے اس برائی کو خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا‘‘۔اس کی تائید نبی کریم ﷺکی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آپﷺ نے تین جرائم کی تین سزائیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:جو امام جلال الدین السیوطی ؒنے اپنی تفسیر دُرِّمنثور میں نقل فرمائی ہے کہ ’’جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ہیبت و وقعت اس کے قلوب سے نکل جائے گی۔

جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی اور جب آپس میں گالی گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی‘‘۔ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے نقل کردہ روایت سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک فلاح نہیں پا سکتا،جب تک کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہ دے۔

اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کو،بلکہ جنوں کو بھی اپنی عبادت کرنے کے لئے پیدا فرمایا ہے، لیکن اس امت کے لئے صرف عبادت کافی نہیں، اسے یہ امتیاز بخشا گیا ہے کہ وہ سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد کارِ نبوت انجام دے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو نیکی کی طرف بلائے اور برائی سے منع کرے، اسی کو قرآن مجید میں ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ’’معروف‘‘ کے اصل معنی مشہور اور جانی پہچانی چیز کے ہیں، مقصد یہ ہے کہ نیکی کی طرف اس قدر دعوت دو کہ معاشرے میں اس کا عام چلن ہوجائے، وہ عرف ورواج کا درجہ حاصل کرلے اور ہر عام و خاص اس کے مطابق عمل کیا کرے، ’’منکر‘‘ ایسی چیز کو کہتے ہیں جو اَن جانی اورغیر پہچانی ہو، جو مشہور نہ ہو، اور جو عادت و رواج کے خلاف ہو، قرآن مجید نے برائی کو ’’منکر‘‘ سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ برائی سے اس قدر روکا جائے کہ وہ معاشرے میں ایک نامعلوم چیز بن جائے، جو عام رواج و معمول کے خلاف ہو۔

یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے، جب معاشرے میں معروف کی دعوت اور برائی سے روکنے کی مہم پوری اہمیت اور سنجیدگی کے ساتھ انجام دی جائے، امام غزالیؒ نے اس پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:’’بے شک ،نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا دین کا سب سے بڑاستون ہے، یہ وہ اہم ترین کام ہے جس کے لئے اللہ نے تمام انبیاءؑ کو مبعوث فرمایا، اگر اس کی بساط لپیٹ دی گئی، اس کے علم اور اس پر عمل سے غفلت برتی گئی تو کارِ نبوت معطل ہوجائے گا، دین داری میں اضمحلال آجائے گا، انحطاط چھاجائے گا، گمراہی پھیل جائے گی، جہالت کی کثرت ہوگی، فساد بڑھ جائے گا، تباہی عام ہوجائے گی، شہر ویران ہوجائیں گے، اللہ کے بندے ہلاک کردیے جائیں گے اور انہیں اپنی ہلاکت کا احساس بھی قیامت سے پہلے نہیں ہوسکے گا‘‘۔ (احیاء علوم الدین: ۲؍۶۰۳)

امام غزالیؒ جیسے شریعت کے رمزشناس نے جب دعوت دین کی اہمیت پر قلم اٹھایا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ لہو میں قلم ڈبوکر اورمحبت کی انگیٹھی سے دل کو جلاکر یہ تحریر لکھی ہے، کیوںکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی انسانیت کی فلاح و کامیابی کی کلید ہے، اگر معروف کی طرف بلانے والے اور منکر سے روکنے والے لوگ باقی نہ رہیں گے تو دنیا شر و فساد کی آماجگاہ بن جائے گی اور فرشتوں کو نسل انسانی سے جس فساد اور خوں ریزی کا اندیشہ تھا، وہ ایک حقیقت بن کر سامنے آجائے گا،اسی لئے امت کے علماء اور صلحاء نے ہمیشہ دین کے اس شعبے کو بے حد اہمیت دی ہے، امام الحرمین نے لکھا ہے کہ اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ اپنی اپنی صلاحیت کے لحاظ سے پوری امت کی ذمہ داری ہے۔ (شرح نووی علیٰ مسلم: ۲؍۳۲)

لیکن دعوتِ دین کا کوئی خاص طریقہ قرآن و حدیث میں متعین نہیں کیا گیا ہے،داعی کی صلاحیت، مدعو کے مزاج اورماحول کے تقاضوں کے مطابق مختلف طریقوں پر دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاتا رہا ہے، مسلم حکومتوں کا فریضہ ہے کہ وہ طاقت کی لاٹھی استعمال کرکے معاشرے میں نیکیوں کو رواج دیں اور برائیوں کو روکیں، شریعت سراپا رحمت ہے، شارع تعالیٰ رحمن و رحیم ہیں اور جن پر شریعت نازل کی گئی ہے، وہ رحمۃ للعالمینﷺ ہیں، اس کے باوجود جرائم پر سرزنش کرنے کا حکم دیا گیا اور بعض جرائم پر نہایت سخت سزائیں مقرر کی گئیں، یہ اسی لئے کہ بعض دفعہ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کے لئے طاقت وقوت کا استعمال بھی مطلوب ہوتا ہے، مساجد میں جمعہ وعیدین کے خطبوں کا اہتمام اور وقتاً فوقتاً لوگوں سے اصلاح و تربیت کی گفتگو کا مقصد بھی دعوتِ دین ہی ہے، خانقاہیں اور مدارس شب و روز جس کام میں مشغول ہیں، وہ بھی دعوت ہے، اس کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کرنا بھی دعوت کا ایک موثر طریقہ ہے اور یہ بھی حدیث سے ثابت ہے۔

غیر مسلموں یا مسلمانوں کے ایک گروہ کو جمع کرکے انہیں دین کی طرف بلانا بھی ایک ایسا طریقہ دعوت ہے، جو رسول اللہ ﷺسے بھی ثابت ہے اورآپ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے عمل سے بھی، قرآن مجید میں حضرت نوحؑ، حضرت لوطؑ اور حضرت ابراہیمؑ وغیرہ کے دعوتی خطابات نقل کئے گئے ہیں، جن میں ’’یَا قَوم‘‘ (اے میری قوم!) سے خطاب کیا گیا ہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ جس وقت اللہ کے ان برگزیدہ رسولوں نے دعوت پیش فرمائی، اس وقت ان کے سامنے بہت سارے لوگ موجود تھے، حضرت موسیٰؑ کا مصرکے فرعون سے، فرعون کے جمع کئے ہوئے جادوگروں سے اورخود اپنی قوم بنی اسرائیل سے بار بار خطاب فرمانے کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کے اپنے حواریوں سے خطاب کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے اور بائبل میں بھی، اور بائبل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہودیوں اور خاص کر یہودی علماء سے بھی اصلاحی خطابات فرمائے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز ہی اسی انداز پر فرمایا، جب حکم دیا گیا کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں پر حق کی دعوت پیش فرمائیں: تو آپ نے بنوہاشم اور بنوعبدالمطلب کو جمع فرمایا، ان کے لئے کھانے کا بھی نظم کیا اور پھر ان پر توحید کی دعوت پیش فرمائی، بلکہ بعض سیرت نگاروں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دو دفعہ ایسا اجتماع منعقد کیا، پھر جب آپ کو عمومی طور پر دعوت دین کا حکم دیا گیا تو آپ نے صفا کی چوٹی پر چڑھ کر تمام اہل مکہ کو اس پہاڑ کے دامن میں جمع فرمایا اور ان سے خطاب کیا، فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے موقع سے آپ نے جو اثر انگیز خطبات دیے ہیں، وہ حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ دعوت دین کا ایک مسنون اور ماثور طریقہ لوگوں کے ایک گروہ کو جمع کرکے ان کے سامنے اپنی باتیں رکھنا بھی ہے، موجود دور کے عرف میں اسے جلسہ، اجتماع یا کانفرنس وغیرہ کہتے ہیں، ماشاء اللہ مذہبی جماعتیں، تنظیمیں، ادارے، دینی مدارس، انجمنیں، نیز عام مسلمان ایسے اجتماعات اور جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں، یہ ایک خوش آئند بات ہے، اور یقیناً معاشرے پر اس کا اچھا اثر پڑتا ہے،بہ شرطیکہ مقررین دعوت دین کے مقصد اور نیکی کا حکم دینے اور برائی کے تدارک و سدباب کے جذبے سے تعمیری گفتگو کریں اور مسلمانوں میں نفرت پھیلانے والی باتوں سے اجتناب کریں۔یہی دعوت ِ دین کا اسلو ب و مہنج اور نیکی کا حکم دینے اور برائی کے تدارک و سدباب کا موثر ذریعہ ہے۔

اقراء سے مزید