• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی کے دور میں صبر و قناعت کی تعلیم

مولانا محمد راشد شفیع

انسانی زندگی کا حسن صرف آسائشوں اور مادی ترقی میں نہیں، بلکہ اطمینان، سادگی اور دل کے سکون میں ہے۔ یہی سکون صبر اور قناعت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ صبر آزمائشوں میں ثابت قدمی کا نام ہے، جب کہ قناعت وہ کیفیت ہے جو انسان کو موجودہ حال پر خوش اور مطمئن رکھتی ہے۔ صبر سے انسان پریشانیوں میں گھبراہٹ سے بچ جاتا ہے اور قناعت اسے حسد، لالچ اور بے سکونی سے محفوظ رکھتی ہے۔

اسلام نے جس دل کی تربیت کی ہے، وہ دل صبر سے لبریز اور قناعت سے مطمئن ہوتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگیاں صبر و قناعت کی روشن مثالیں ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کا طرزِ زندگی زُہد و قناعت کا بہترین نمونہ تھا۔ آپ ﷺ نے فقر کو فخر بنایا، اور صبر کو زندگی کا زیور قرار دیا۔ دین اسلام نے ہمیں سکھایا کہ رزق کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے، بندے کا کام محنت، شکر اور صبر ہے۔

قناعت مال کی کمی نہیں، دل کی وسعت کا نام ہے۔ جس کے دل میں قناعت ہو، وہ کم پر بھی مطمئن رہتا ہے، اور جس کے اندر قناعت نہ ہو، وہ دنیا بھر کے مال کے باوجود فقیر ہی رہتا ہے۔ یہی وہ وصف ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے ’’بے نیازی کا خزانہ‘‘ قرار دیا۔ آج جب کہ مہنگائی نے ہر شخص کو آزمایا ہے، گھروں کے بجٹ بکھر گئے ہیں، دلوں میں مایوسی جنم لے رہی ہے، ایسے وقت میں اسلام کا پیغام یہی ہے: صبر کرو، قناعت اختیار کرو، اللہ پر بھروسا رکھو، یقین رکھو کہ آسانی آنے والی ہے۔

قرآن مجید میں ارشادباری تعالیٰ ہے: اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔(سورۃ البقرہ)یہ آیت واضح کرتی ہے کہ بھوک اور مالی تنگی آزمائش ہے، اور اس آزمائش پر صبر ہی اللہ کی رضا اور جنت کی کنجی ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا: جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نجات کا راستہ نکال دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے، جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا۔(سورۃ الطلاق)یعنی تقویٰ، صبر اور قناعت انسان کو ایسی راہوں سے رزق دلواتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا،اور متقی بندے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ غیب سے رزق کا بندوبست فرماتا ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی نبی کریم ﷺنے امت مسلمہ کو جا بجا صبر و قناعت کی تعلیم دی ہے, چنانچہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا!جو صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا فرما دیتا ہے، اور کسی کو صبر سے بہتر اور وسیع عطیہ نہیں دیا گیا۔"(صحیح بخاری)

دوسری حدیث میں ہے کہ"مومن کے معاملے پر تعجب ہے! اس کا ہر حال ہی اس کے لیے بہتر ہے، اور یہ صرف مومن کو حاصل ہے: اگر اسے خوشی پہنچے تو شکر کرتا ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، یہ دونوں ہی اس کے لیے بہتر ہیں۔"(صحیح مسلم)

قناعت کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا! "مال داری، مال کی زیادتی سے نہیں، بلکہ دل کے غنی (مطمئن) ہونے کا نام ہے۔"(صحیح بخاری)دوسری جگہ ارشاد فرمایا"وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، جسے بقدر ضرورت رزق دیا گیا، اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا اس پر قناعت عطا فرمائی۔"(صحیح مسلم) ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ"دنیا سے بےرغبت ہو جاؤ، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور لوگوں کے مال سے بےرغبت ہو جاؤ، لوگ تم سے محبت کریں گے۔"(سنن ابن ماجہ)

ان تمام آیات و احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمان پر جیسے بھی حالات آجائیں وہ صبر اور قناعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے، ان حالات پر صبر بھی کرے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنی بھی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ،ان پر قناعت بھی اختیار کرے، اس کا فائدہ مسلمان کو یہ پہنچے گا کہ وہ کبھی بھی آزمائش میں پریشان نہیں ہوگا، اس لیے کہ اسے معلوم ہوگا کہ یہ جو مجھ پر حالات ہیں، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور اس آزمائش پر صبر کا مجھے بہترین اجر اور بدلہ عطا کیا جائے گا۔

اس دنیا میں انسان اگر صبر و قناعت کو اپنانے کی بجائے ہوسِ زر اور حرص وطمع کا شکار ہوجائے تو پھر زندگی بھروہ سکون اور مسرت و اطمینان کی لذت سے محروم ہی رہے گا۔ ہوسِ زر کا یہ منہ زور اور بے لگام گھوڑا اسے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر پڑاؤ ڈالنے یا رکنے اور سستانے کی مہلت ہی نہیں دے گا۔ 

فضول اور غیرضروری خواہشات یا بےجاتمناؤں کے سراب کے پیچھے زندگی بھر دیوانہ وار دوڑتے دوڑتے وہ موت کی سرحد تک جا پہنچے گا، مگر اس کے باوجود متأسف ، رنجیدہ وملول اور بے چین و بے سکون ہی رہے گا…اللہ تعالیٰ ہمیں صبر و قناعت کی عظیم دولت سے مالا مال فرمائے۔(آمین)