• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشیر خارجہ کی سادگی پہ قربان، جو بذاتِ خود جنرل ضیا الحق کے وقت سے ’’امریکہ کی مطلب پرست دوستی‘‘ سے خوب واقف ہوتے ہوئے بھی جانے کس گمان میں تھے۔ خارجہ تعلقات تو ہوتے ہی ہیں موقع محل اور وقت کی ضرورتوں کے تحت اور بدلتے قومی تقاضوں اور مفادات کے لئے۔ سرد جنگ کے وقت تو پھر کچھ نظریاتی و سیاسی بھرم تھے، اب ایک سپر پاور اور کئی اُبھرتے طاقت کے مراکز اور وہ بھی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی عالمگیریت کے زمانے میں۔ اگر کچھ باقی ہے تو معاشی مفاد، عالمی منڈی میں اپنے اپنے حصے کی دوڑ اور علاقائی جتھہ بندیوں کے ذریعہ معاشی بقائے باہم کے جتن۔ خود کو بندگلی میں دھکیلنا کہاں کی عقلمندی اور کونسی سفارتکاری ہے؟ یقیناً گزشتہ ہفتوں میں ہمیں خوفناک جھٹکے لگے ہیں اور اگر ہماری پرانی گھسی پٹی روش جاری رہی تو پھر بڑے صدموں اور مشکلوں کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ جنرل ضیا الحق اور جنر ل مشرف کو کس نے امریکہ کی جھولی میں بیٹھنے کا کہا تھا اور امریکہ کے فوجی بلاکوں میں ہم کیوں شامل ہوئے تھے۔ امریکیوں نے تو آج تک ہمیں ہر کام کا معاوضہ دیا ہے جو ہم نےقبول کیا ہے اور اگر ہم بکے بھی تو کس قیمت پر۔ ایسے میں تمام عمر ساتھ دینے کے وعدے لینے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
یقیناً 9/11کے بعد طالبان کی حمایت میں امریکیوں کے خلاف کھڑا ہونا خودکشی کو دعوت دینا تھا۔ جس طرح طالبان نے القاعدہ کا ساتھ نہ چھوڑ کر خودکشی کا راستہ اختیار کیا تھا اور افغانستان کو تباہی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ جب امریکی بھرپور طریقے سے ایک دہائی سے زیادہ افغانستان میں رہے تو ہم نے دوغلی پالیسی اختیار کی۔ القاعدہ کو مارا اور افغان طالبان کو پناہ دی کہ کل کام آئیں گے تاکہ ہم افغانستان میں اپنا اثر قائم رکھ سکیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ طالبان بھی آخری وقت تک ڈیورنڈ لائن کو ماننے کو تیار نہ تھے۔ اب جب امریکی افغانستان سے بستر گول کرنے کو ہیں تو ہمارے ہاتھ پائوں پھول رہے ہیں کہ افغانستان کی خانہ جنگی سرحدوں سے پار پھیل کر ہماری ضربِ عضب میں دی گئی قربانیوں کو پھر سے خاک میں نہ ملا دے۔ ہم نے ہزاروں جانیں گنوا کر افغان طالبان کو پناہ بھی دی تو کس لئے؟ کہ آج وہ ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔ اگر وہ بات چیت پہ راضی نہیں تو ہم نے کیوں اُنھیں سر پر بٹھا رکھا ہے۔ اگر یہی ہمارے پاس ایک کارڈ تھا تو وہ ہمارے گلے پڑ گیا ہے۔ افغانستان سوویت یونین سنبھال سکا نہ امریکہ، تو ہم کون سے باغ کی مولی ہیں۔ چار دہائیوں سے ہم ہر طرح کی قیمت ادا کر کے بھی طالبان سے کوئی کام کی بات منوا سکتے ہیں نہ افغان حکومت کو کوئی دلاسہ دے سکتے ہیں۔ آج افغانستان میں ہمارا کوئی حامی نہیں اور نہ طالبان ہمارے ہیں۔ اُنھوں نے ہمیں خوب استعمال کیا اور تحریکِ طالبان پاکستان کے بھگوڑے افغان حکومت کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان سے جان چھڑانے ہی میں ہماری عافیت ہے۔
رہے امریکی تو اُنھیں 9/11 کی وجہ سے ہماری یاد آئی تھی اور اب وہ ہم سے نالاں نظر آتے ہیں۔ اگر امریکی افواج اور افغانستان پر حملے ہوں گے تو پھر بلوچستان میں بھی ڈرون چلیں گے خواہ ہم کتنی ہی قانونی آہ و بکا کریں اور قومی خودمختاری کی خلاف ورزی کا واویلا مچائیں، امریکیوں کو اس کی کیا پروا۔ امریکیوں کو ہماری ضرورت صرف افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تھی اور بس۔ اس سے آگے کے خواب ہمارے اپنے تھے۔ اگر ہم افغان طالبان کو قابومیں رکھتے تو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو ہرات میں بجلی گھر کی افتتاحی تقریب میں وہ پذیرائی نہ ملتی جو ہم نے ٹیلی وژن پہ دیکھی۔ اور اگر ہم نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے پر عمل کیا ہوتا، افغانستان کے ساتھ راہداری کے معاہدے کا پاس کیا ہوتا اور خود بھارت کو راستہ دیا ہوتا تو چا بہار کی بندرگاہ میں بھارتی اور افغانی دلچسپی آج نظر نہ آتی۔ چا بہار کی بندرگاہ میں ذرا چینی وزیراعظم کا بیان تو ملاحظہ کیا ہوتا۔ چین کے لئے ایران سے تجارت کا کم ترین راستہ بھی بذریعہ گوادر ہی ہے جسے چین چابہار سے ملانا چاہتا ہے۔ تو پھر اس پہ اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا کیا گیا۔
اب آتے ہیں امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے اشتراک کی طرف۔ دس برس پہلے بھارت اور امریکہ میں نیوکلیئر توانائی کا جو معاہدہ من موہن سنگھ اور صدر بش کے درمیان ہوا تھا، وہ اب رو بہ عمل ہونے جا رہا ہے۔ اور اس نے نیوکلیئر سپلائرز گروہ کی بھارتی رکنیت کے لئے دس برس پہلے ہی راہ ہموار کر دی تھی۔ اب جب یہ ایجنڈے پہ آ گیا ہے تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں۔ ہم بھول رہے ہیں کہ دُنیا کا اگلا بڑا مرکز ایشیا بحر الکاہل کا علاقہ ہے جہاں امریکہ اور چین کے درمیان مسابقہ شروع ہو چکا ہے اور بھارت چھلانگ مار کر امریکہ کے ساتھ شامل ہو گیا ہے کہ اس طرح اُسے بحرہند کی قیادت سونپ دی جائے گی۔ اور ہم وہاں نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ بھارت و امریکہ کا اتحاد عالمی ہے اور ہمارا امریکہ سے تعلق وقتی اور منفی ضروریات پر ہے۔ جیسے دہشت گردی، افغانستان کی دلدل کی صفائی اور نیوکلیئر اسلحہ کو محفوظ بنانا۔ ویسے بھی ہمارے پاس کیا ہے امریکہ کو دینے کو جبکہ بھارت کے پاس بہت بڑی منڈی، بہت بڑے سودے اور پھر چین کے سامنے کھڑا کرنے کی امریکی سازش جس پر بھارت بخوشی تیار ہے۔ امریکہ نے بھارت کو تگڑا ہی کرنا ہے، ہم اُسے اس سے کیسے باز رکھ سکتے ہیں۔ بھارت نے ابھی امریکہ سے دس ارب ڈالر کے سودے کئے ہیں اور ہم ہیں کہ جب امریکیوں نے ایف 16 کے لئے امدادی رقم روکی اور کہا کہ پیسے ہیں تو خرید لو تو ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ امریکی بھارتی اتحاد کے باوجود چین نےامریکہ یا بھارت سے کوئی گلہ کیا ہو۔ چین امریکہ کا بھی سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور بھارت کا بھی بڑا تجارتی ساجھے دار ہے اور اس کے باوجود کہ تائیوان اور جنوبی چین کے سمندر پہ اُس کا امریکہ سے سخت اختلاف ہے اور بھارت سے بڑا سرحدی تنازع ہے۔ جی ہاں! یقیناً بھارت سے ہمارا ازلی بیر ہے۔ اور ہمیں بھارت سے خطرہ ہے اور خطرہ رہے گا۔ بھلے کشمیر کا مسئلہ حل بھی ہو جائے تب بھی۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بھارت کی مخاصمت میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور بھارت بھی ہمارے ساتھ مخاصمت میں پھنسا ہوا ہے۔
ہم نے فوجی طریقے اور جہاد کے ذریعہ کشمیر کو آزاد کراتے کراتے ملک دولخت کرادیا، لیکن ابھی بھی پرانی پالیسیوں پر مصر ہیں۔ آخر ہمارا سلامتی کا بڑا مسئلہ کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔ وہ ہے صرف اور صرف پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کی خوشحالی۔ نیوکلیئر طاقت بننے کے بعد ہم میں یہ اعتماد آ جانا چاہئے کہ بھارت ہم پر کوئی یلغار نہیں کر سکتا ہے۔ اب برصغیر میں جنگ ممکن نہیں رہی۔ ہر دو اطراف کو پتہ ہے۔ ہمیں اپنی نیوکلیئر دفاعی طاقت کو ہر حالت میں برقرار رکھنا چاہئے۔ اور باقی تمام مدوں پر بات کرنی چاہئے۔ وزیراعظم مودی نے ہمیں جو تنہا کرنے کی پالیسی اپنائی ہے، ہم اُس میں اُس کے معاون کیوں بنیں۔ اور جو کام اب بھارتی ایجنسیوں نے افغانستان کے ذریعہ شروع کیا ہے اُس کا سدِّباب کیوں نہ کیا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم افغان طالبان کوکنٹرول کریں اور افغان حکومت کا اعتماد حاصل کریں اور بھارت سے کہیں کہ بس اب پراکسی وار ختم کی جائے۔ اسی میں ہم دونوں کا بھلا ہے۔ ہم کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارا جغرافیائی محل وقوع بہت زبردست ہے، لیکن ہم کتنے احمق ہیں کہ ہم نے وہ تمام کام کئے ہیں جو اس سے مستفید ہونے میں مانع ہیں۔ جنرل مشرف کو کارگل کے ایڈونچر کے بعد سمجھ آ گئی تھی، اسی لئے ایران، پاکستان، بھارت پائپ لائن پر تیار تھے، افغانستان اور بھارت کے مابین راہ داری پر بھی راضی تھے اور کشمیر کے ممکنہ حل پر پہنچ چکے تھے، یہی کام وزیراعظم نواز شریف بھی کرنا چاہتے تھے، لیکن اُن کی چلنے نہ دی گئی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم علاقائی تعاون کی راہ پہ واپس آئیں اور بھارت کو امن کی پالیسی کی پیش قدمی سے بات چیت کی راہ لینے پہ مجبور کریں۔ یقین کیجیے امریکہ اور چین دونوں اس کی پُر زور حمایت کریں گے۔ پھر مسئلہ کیا ہے؟ ’’جو بڑھ کے اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے‘‘ رونے دھونے، کوسنے دینے اور واویلا کرنے سے حالات بدلنے سے رہے۔ آیئے امریکہ کے موقع پرست دوست بنیں کہ دشمنی ہمیں راس نہیں۔
تازہ ترین