• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلجی خود کو تُرک نسل سے بتاتے ہیں، مگر تُرک اُنھیں عام طور پر اپنا حصّہ تسلیم نہیں کرتے۔ یہ خاندان دراصل افغان رسم و رواج اختیار کر چُکا تھا۔اِس خاندان کے بہت سے افراد سلطان محمود غزنوی، سلطان محمّد غوری اور بلبن کی فوج میں اہم عُہدوں پر تعیّنات تھے۔جب غیاث الدّین بلبن کے پوتے اور خاندانِ غلاماں کے فرماں رَوا، معز الدّین کیقباد کو مخالفین نے بستر میں لپیٹ کر جمنا میں بہا دیا، تو اُس کا پانچ سالہ بیٹا، کیومرث تخت پر بیٹھا، جسے 70 سالہ جلال الدّین فیروز خلجی راہ سے ہٹا کر تختِ دہلی پر براجمان ہوگیا اور اِس کے ساتھ ہی ہندوستان میں خلجی خاندان کے اقتدار کا آغاز ہوا، جو 1290ء سے 1320ء تک یعنی30 برس جاری رہا۔ 

جلال الدّین خلجی اپنی بہت سے خوبیوں، بالخصوص نرم دلی کے سبب عوام اور امرا میں مقبول تھا۔اُس کا علی گرشاسپ نامی ایک بھتیجا تھا، جو کم سِنی ہی میں یتیم ہوگیا تھا۔چچا نے نہایت پیار و محبّت سے اُس کی پرورش کی، تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کیا اور جب وہ جوان ہوا، تو اپنی بیٹی کا ہاتھ اُسے تھما دیا۔ نوجوان، فوجی اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال تھا، لہٰذا چچا نے اُسے کئی علاقوں کا نگران مقرّر کردیا۔ گرشاسپ نے مالوہ فتح کیا، تو بادشاہ نے خوش ہوکر اودھ کی گورنری بھی اُسے دے دی۔

پھر اُس نے دیوگری شہر پر بھی قبضہ کرلیا، جس کے نتیجے میں چھے سو مَن سونا، ایک ہزار مَن چاندی، سات مَن موتی اور دو مَن جواہرات سمیت بیش بہا سامان اُس کے ہاتھ لگا اور بس، یہیں سے اقتدار کا ایک نیا کھیل شروع ہوگیا۔کہا جاتا ہے کہ درباریوں نے اِس مہم کے بعد بادشاہ کو گرشاسپ کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا کہ بھتیجے کی نظریں تخت پر ہیں۔ اِس پر بادشاہ نے اُسے دارالحکومت طلب کیا، تو اُس نے وہاں آنے سے انکار کردیا۔ اِس کی دو وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اُس نے دیو گری(دولت آباد) کی مہم بادشاہ کی اجازت کے بغیر انجام دی تھی، جس پر اُسے سزا کا خوف تھا اور دوسری بات یہ کہ اُسے درباریوں سے خطرہ تھا کہ وہ اُسے مَروا نہ دیں۔

بہرحال، بادشاہ نے خود اپنے بھتیجے اور داماد کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔سلطان جلال الدّین چند افراد کے ساتھ ملاقات کے لیے پہنچا، تو گرشاسپ نے نہایت گرم جوشی سے اُس کا استقبال کیا۔ابھی ملاقات جاری تھی کہ اُس نے اپنے ایک ساتھی کو کچھ اشارہ کیا،جس پر اُس نے تلوار نکالی اور بادشاہ کا سَر تن سے جدا کردیا۔اِس کام سے فارغ ہو کر گرشاسپ نے اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا اور سلطان علاء الدّین خلجی کے نام سے تخت نشین ہوگیا۔چوں کہ عوام، سلطان جلال الدّین کو پسند کرتے تھے، لہٰذا اُنھوں نے یہ اقدام اچھی نظر سے نہ دیکھا اور وہ سلطان علاء الدّین خلجی کو محسن کُش اور غاصب سمجھتے تھے، اِس لیے عوامی بغاوت کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اِن حالات میں سلطان علاء الدّین خلجی نے لوگوں میں اِس قدر پیسے لُٹائے کہ مؤرخین کے مطابق عوام اُس کے ہاتھوں چچا کے قتل اور اقتدار پر قبضے کو بھول گئے۔

اُس نے ہاتھیوں پر چھوٹی منجنیقیں رکھوا کر اُن سے گولہ بارود کی بجائے زر و جواہرات عوام پر نچھاور کیے۔امیر خسرو کے بقول،’’ اسی زر افشاں منجنیق سے دہلی کا قلعہ فتح ہوا۔‘‘یہ 1296ء کی باتیں ہیں۔اُنھوں نے سب سے پہلے حکومت کو چیلنج کرنے والوں پر توجّہ دی۔ اپنی ساس(چچی بھی) اور دونوں سالوں کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پِھروا کر ہانسی کے قلعے میں نظر بند کردیا۔دو بھانجوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا۔ 

دہلی کے قریب نومسلم منگولوں کی’’ مغل پورہ‘‘ کے نام سے ایک بستی تھی اور وہ اِس قدر زور آور ہوگئے تھے کہ بادشاہ کے بھتیجے کو قتل کر ڈالا تھا، اِس پر اُن کے خلاف جوابی کارروائی کی گئی اور ایک دن میں20 ہزار منگول قتل کرکے پوری بستی انسانوں سے خالی کردی گئی۔دیگر باغیوں کا انجام بھی یہی ہوا۔ضرورت سے زاید ردّ ِعمل اور اس قتلِ عام پر مؤرخین نے اُنھیں ظالم، سفّاک، بے رحم لکھا ہے، اور ٹھیک ہی لکھا ہے۔

شیر شاہ سوری کے متعارف کردہ سکّے،جو اُن کے بعد بھی کئی سو سال تک رائج رہے
شیر شاہ سوری کے متعارف کردہ سکّے،جو اُن کے بعد بھی کئی سو سال تک رائج رہے 

علاء الدّین نے جس وقت اقتدار سنبھالا، مُلک افراتفری کا شکار تھا۔ سلطان جلال الدّین کی نرم مزاجی اِس حد تک بڑھ گئی تھی کہ جرائم پیشہ افراد بے خوف ہوکر وارداتیں کرنے لگے تھے، باغی سر اُٹھا رہے تھے، دربار سازشوں کا گڑھ بن چُکا تھا، اُمراء مَن مانیوں پر اُتر آئے تھے اور خلقِ خدا اِن حالات میں سخت پریشان تھی، کئی بار اُس پر قاتلانہ حملے ہوئے، اِن حالات میں اُس نے اِس امر پر غور کیا کہ آخر بغاوتیں ہو کیوں رہی ہیں اور عوام حکومت سے مطمئن کیوں نہیں؟یہاں سے ہماری ایک نئے علاء الدّین خلجی سے ملاقات ہوتی ہے، جو ایک بہترین منتظم، عزم و ارادے کا پکّا اور عوام کا حقیقی معنوں میں خادم تھا۔

’’تاریخِ فرشتہ‘‘ کے مطابق، وزراء اور مشیروں نے اُنھیں مشورہ دیا کہ حالات کی خرابی کی بنیادی طور پر چار وجوہ ہیں۔(1) بادشاہ کا رعایا سے غافل ہوکر اپنے ہی معاملات میں مصروف رہنا۔(2)شراب نوشی اور دیگر نشوں کی کثرت، لوگ کام دھندوں میں مصروف رہنے کی بجائے عیش وعشرت میں غرق رہتے ہیں۔(3)اہم حکومتی عُہدے داروں کے آپس میں گہرے تعلقات،گویا وہ ایک مافیا کی صُورت اختیار کر چُکے ہیں۔(4) دولت کی ضرورت سے زیادہ اور کسی ضابطے کے بغیر فراوانی۔

لہٰذا علاء الدّین خلجی نے مُلکی و عوامی مفاد پر مبنی اصلاحات کا آغاز کیا۔اُنھوں نے سب سے پہلے جاسوسی کا نظام ازسرِ نو منظّم کیا تاکہ نہ صرف ریاستی و حکومتی معاملات سے باخبر رہیں، بلکہ عوام کی حالت بھی اُن سے پوشیدہ نہ رہے۔مؤرخین نے اُن کے جاسوسی نظام کے بارے میں ایسی ایسی تفصیلات بیان کی ہیں کہ اگر وہ تواتر سے سامنے نہ آتیں، تو اُن پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا۔بتایا جاتا ہے کہ اُن کے جاسوسی نظام میں گھروں میں کام کرنے والے ملازم، حجّام، دھوبی تک شامل تھے۔ 

رات کو اُمراء کے گھروں میں جو بات چیت ہوتی، جب صبح وہ دربار میں حاضر ہوتے، تو ساری گفتگو اُن کے سامنے رکھ دی جاتی۔ حالت یہ ہوگئی تھی کہ اُمراء گھروں میں بلند آواز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔( مسلمانوں کا عروج و زوال،مولانا سعید احمد اکبر آبادی)۔اسٹینلے لین پول کے مطابق، خبر رسانی کا یہ نظام روسی نظام سے بھی سخت تھا۔حکومتی عُہدے داروں نے جاسوسی کے خوف سے سازشیں کرنا چھوڑ دیں اور دوسری طرف، بادشاہ عوام کے حالات سے براہِ راست آگاہ رہنے لگا۔پھر یہ کہ بادشاہ تک اطلاعات پہنچنے کے خوف سے تمام حکّام پوری توجّہ سے اپنے فرائض سرانجام دینے لگے، جس سے مُلک میں امن وامان کی صُورتِ حال بھی بہتر ہوگئی۔

سلطان نے شراب چھوڑنے کا اعلان کیا اور دربار میں شراب سے بَھرے مٹکے توڑ دئیے گئے۔عبدالقادر بدایونی نے’’منتخب التواریخ ‘‘ میں لکھا ہے کہ بدایوں کے دروازے پر اِتنی شراب انڈیلی گئی کہ موسمِ برسات کی طرح کیچڑ نظر آنے لگا۔ اس کے بعد شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عاید کر دی اور اِس حکم پر انتہائی سختی سے عمل کروایا گیا۔نیز، جواریوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا۔ اِس اقدام سے معاشرے کے اخلاقی سدھار میں مدد ملی اور لوگ نشہ، جوا چھوڑ کر اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ گئے۔ 

امرا کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے حکم جاری ہوا کہ اعلیٰ حکومتی عُہدے دار بادشاہ کی اجازت کے بغیر آپس میں رشتے داریاں نہیں کریں گے اور اُنھیں ہر طرح کی تقاریب کے انعقاد کے لیے بھی پیشگی اجازت لینی ہوگی۔اِس طرح مخصوص لوگوں اور خاندانوں کی دربار پر گرفت کم زور کی گئی۔ماضی کے حکم رانوں نے مَن پسند افراد کو بڑی بڑی جاگیریں عطا کر رکھی تھیں، جب کہ بہت سے افراد شاہی خزانے سے بھاری وظائف سمیٹ رہے تھے۔ علاء الدّین نے ایسی تمام جاگیریں ضبط کرلیں اور وظائف کا سلسلہ ختم یا پھر اُن میں کمی کردی۔

علاء الدین خلجی دور کے سکّے
علاء الدین خلجی دور کے سکّے 

اِس سے ہوا یہ کہ جو لوگ سرکاری جاگیروں اور وظائف پر پَل رہے تھے اور اپنا سارا وقت بے مقصد سرگرمیوں یا جوڑ توڑ میں گزارتے، اب آمدن کی تلاش میں لگ گئے۔ یوں ایک طرف سرکاری وسائل کی بچت ہوئی، معاشی سرگرمیاں بڑھیں، تو دوسری طرف سازشوں کا بھی سدِباب ہوا۔اِسی طرح اُنھوں نے نمبر داروں(گاؤں کے سربراہ) سے ٹیکس وصولی کا اختیار چھین لیا۔یہ بڑے زمین دار، عام افراد اور چھوٹے کاشت کاروں کو بہت تنگ کیا کرتے تھے۔ انھیں چھوٹی چھوٹی فوجیں رکھنے کی اجازت تھی تاکہ بوقتِ ضرورت حکومت کو سپاہی فراہم کرسکیں، لیکن وہ اِن سپاہیوں کے ذریعے نہ صرف عوام پر ظلم کرتے، بلکہ بادشاہ کے خلاف بغاوت بھی کرتے رہتے۔ علاء الدّین نے اپنے اقدامات سے اُنھیں بے دست و پا کردیا۔

علاء الدّین خلجی کی معاشی اور زرعی اصلاحات خاص طور پر اہمیت کی حامل ہیں کہ اُن سے پہلے اِس نوعیت کے کام کم یا محدود پیمانے پر ہوئے تھے۔ اُنھوں نے زمین کی پیمائش اور زرعی ٹیکسز کے تعیّن کے لیے ایک نہایت قابل اور دیانت دار افسر کا انتخاب کیا، جس نے بڑی محنت سے دوآبہ، مالوہ اور پنجاب کے تمام زیرِکاشت رقبے کی ایک ایک گاؤں میں جاکر پیمائش کی اور مالیہ کا تعیّن کیا۔ پہلے گاؤں کے چوہدری یا نمبر دار ٹیکس وصول کرتے تھے، جو آدھا حکومت اور آدھا اُن کی جیبوں میں چلا جاتا تھا۔ اِسی طرح ٹیکس وصول کرنے والے سرکاری عُہدے دار بھی رشوت اور نذرانوں کے عادی ہوچُکے تھے۔ بادشاہ نے سیکڑوں رشوت خور سرکاری ملازمین فارغ کردئیے۔ 

مؤرخین کے مطابق، علاء الدّین پہلا بادشاہ تھا، جس کے ہاتھ پٹواریوں تک پہنچے۔نیز، اُس نے چوہدریوں کی بجائے دیانت دار سرکاری ملازمین کے ذریعے زرعی ٹیکس وصول کرنا شروع کیا،جس سے عوام نے سُکھ کا سانس لیا کہ اُن کی رشوتوں اور زاید ٹیکسز سے جان چُھوٹی، تو حکومت کا خزانہ بھی بَھر گیا۔ تاریخ فیروز شاہی کے مصنّف کا کہنا ہے کہ’’ چند ہی سال میں چوہدریوں، نمبر داروں کی ساری اکڑ جاتی رہی۔

شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ کے تعمیراتی کام کے معاینے کی علامتی تصویر
شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ کے تعمیراتی کام کے معاینے کی علامتی تصویر 

گھوڑے کی سواری، قیمتی لباس پہننا، اسلحہ لگانا اور پان چباتے پِھرنا، سب موقوف ہوگیا۔‘‘بادشاہ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے قیمتوں پر کنٹرول کی پالیسی تشکیل دی،جس کے تحت ہر چیز( سوئی، کنگھی، دھنیا، پودینا، جوتوں، مٹّی کے برتنوں،مٹھائی، روٹی، بھوسی ٹکڑوں تک کی) سرکاری قیمت مقرّر کی گئی اور پورے ہندوستان میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ سرکاری نرخ سے زاید قیمت وصول کرسکے۔

روز مرّہ استعمال کی اشیا سستی ہونے سے عوام خوش حال ہوگئے اور حکومت کی حمایت میں اضافہ ہوگیا۔قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک محکمہ بنایا گیا، جس کے تحت منڈیاں قائم ہوئیں، جن کی تین افراد نگرانی کرتے اور اُن میں سے ایک شخص عام لباس میں لوگوں میں گھوم پِھر کر معلومات جمع کرتا رہتا۔چوں کہ سب سے بڑا مسئلہ گندم، چاول، جَو، چنے، دالوں، شکر، تیل وغیرہ کا تھا، تو اُن کی مقرّرہ قیمت پر دست یابی یقینی بنائی گئی۔ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لیے ضرورت سے زاید غلّہ کھیتوں ہی میں فروخت کرنے کا حکم دیا گیا۔ 

اگر کوئی خلاف ورزی کرتا، تو غلّہ بحقِ سرکار ضبط کرلیا جاتا اور جرمانہ الگ سے ادا کرنا پڑتا۔اِسی طرح حکومت غلّہ خرید کر مختلف مقامات پر ذخیرہ بھی کرتی تاکہ بوقتِ ضرورت عوام کو مہیّا کیا جاسکے۔اِس سارے معاملے میں مڈل مین کا کردار ختم کردیا گیا، جس سے کاشت کار کو فصل کی پوری رقم ملنے لگی اور عوام کو سستی اجناس میّسر آئیں۔دہلی میں کپڑے کی ایک بڑی مارکیٹ’’ سرائے عدل‘‘ کے نام سے قائم کی گئی، جو فجر سے ظہر تک کُھلی رہتی۔تاجروں کو اِس کے علاوہ کسی اور مقام پر کپڑا فروخت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

جی ٹی روڈ پر ہر 3 کلومیٹر بعد مسافروں کی حفاظت کے پیشِ نظر 30 فٹ اونچے مینار بنائے گئے،جو’’ کوس مینار‘‘ کے نام سے مشہور ہیں
جی ٹی روڈ پر ہر 3 کلومیٹر بعد مسافروں کی حفاظت کے پیشِ نظر 30 فٹ اونچے مینار بنائے گئے،جو’’ کوس مینار‘‘ کے نام سے مشہور ہیں 

سوداگروں کا ریکارڈ مرتّب کیا گیا اور اُنھیں شاہی خزانے سے 20 لاکھ ٹنکا تک کے قرضے بھی دئیے جاتے تاکہ وہ دُور دراز سے کپڑا خرید کر مارکیٹ میں لا سکیں۔ اِسی طرح گھوڑوں اور دیگر جانوروں کی جانچ پڑتال اور اُن کی قیمتوں کے تعیّن کا نظام متعارف کروایا گیا۔قیمتوں کے ساتھ ناپ تول درست رکھنے کا بھی پورا پورا انتظام کیا گیا تھا۔ بادشاہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے منڈیوں کی پوری خبر رکھتا۔

یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جو شخص جتنا کم تولتا، اُس کی رانوں سے اُتنا ہی گوشت کاٹ لیا جاتا۔ضیاءالدّین برنی نے لکھا ہے کہ چوں کہ لوگ عموماً بچّوں یا موٹی عقل والوں کو چیزیں فروخت کرتے ہوئے ناپ تول میں ڈنڈی مار جاتے ہیں، تو بادشاہ بچّوں کو پیسے دے کر مختلف چیزیں منگواتا اور پھر منڈی کے نگران کے سامنے اُنھیں تولا جاتا۔ اگر وزن پورا نہ ہوتا، تو ایسے تاجر کی ران سے گوشت کاٹ لیا جاتا۔ کئی مؤرخین نے اسے مبالغہ قرار دیا ہے، تاہم اِتنا ضرور ہے کہ وہ ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو سخت سزا دیا کرتا تھا۔

علاء الدّین خلجی کا ایک بڑا کارنامہ مضبوط فوج کی تشکیل بھی ہے۔دراصل اُنھیں جہاں ایک طرف مختلف بغاوتوں کا سامنا تھا، تو دوسری طرف منگول بھی مسلسل حملے کر رہے تھے۔اُن سے پہلے زمین دارانہ فوج ہوا کرتی تھی، یعنی جب بادشاہ کو کسی مہم کے لیے سپاہی درکار ہوتے، تو بڑے زمین دار سپاہی مہیّا کرتے۔ علاءالدّین نے ایک مستقل فوج قائم کی،جو5 لاکھ سے زاید جوانوں پر مشتمل تھی اور انھیں جدید اسلحے سے لیس کیا گیا۔اِس مقصد کے لیے اسلحہ سازی کے کئی کارخانے قائم کیے گئے۔بَھرتی کرتے وقت سپاہی کا مکمل حلیہ تحریر کیا جاتا اور اُس کی کارکردگی کا ریکارڈ موجود ہوتا، جس کی بنیاد پر ترقّی کا فیصلہ ہوتا۔

سپاہیوں کے لیے مناسب تن خواہیں مقرّر کی گئیں تاکہ وہ یک سوئی سے خدمات انجام دے سکیں۔بادشاہ نے جب بڑی فوج تشکیل دینے کا فیصلہ کیا، تو اُنھیں مشورہ دیا گیا کہ روز مرّہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں قابو میں رہیں، تو فوجی تن خواہوں میں کمی محسوس نہیں کریں گے۔اِسی لیے اُنھوں نے قیمتوں پر کنٹرول کی سخت پالیسی نافذ کی۔منگولوں نے تقریباً چھے بار حملے کیے، جو ناکام بنادئیے گئے۔

علاء الدّین نے اُن کے مقابلے کے لیے ایک بڑی فوج تیار کرنے کے علاوہ پرانے قلعوں کی مرمّت کے ساتھ نئے قلعے تعمیر کروائے، تین دفاعی لائنیں بنائیں تاکہ حملہ آور روکے جاسکیں۔اِس مقصد کے لیے مختلف مقامات پر بڑی بڑی چھاؤنیاں بنائی گئیں۔( تاریخِ فیروز شاہی، ضیاء الدّین برنی، تاریخِ فرشتہ، محمّد قاسم فرشتہ، منتخب التواریخ، عبدالقادر بدایونی، تاریخ مبارک شاہی، یحییٰ بن احمد سرہندی، تاریخِ ہند، ای مارسڈن )۔اِس اصلاح پسند بادشاہ نے20 سال حکومت کرنے کے بعد 1316ء میں وفات پائی، تو اُس کی عُمر محض 49 برس تھی۔

ہندوستان میں مغل حکومت کے بانی، ظہیر الدّین محمّد بابر کے بیٹے اور تخت نشین، شہنشاہ نصیر الدّین محمّد ہمایوں نے پے درپے ایسی شکست کھائی کہ ہندوستان چھوڑ کر ایران میں پناہ لینی پڑ گئی۔ اُنھیں تخت اور پھر مُلک سے فرار پر مجبور کرنے والے، شیر شاہ سوری تھے۔ اُن کا اصل نام فرید تھااور ایک چھوٹے سے زمین دار، حسن کے صاحب زادے تھے۔ جب بہلول لودھی حاکم بنا، تو اُس نے اپنے علاقے، یعنی افغانستان سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہندوستان بلوایا تاکہ اُس کی قوّت میں اضافہ ہو۔اِن آنے والوں میں’’ سور‘‘ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ابراہیم بھی تھے، جو شیر شاہ سوری کے دادا تھے۔دادا اوروالد کو مختلف علاقوں میں جاگیریں ملیں، جن میں سہسرام (بہار، پٹنہ سے تقریباً200 کلومیٹر دُور)بھی شامل تھا۔ 

جی ٹی روڈ پر تعمیر کردہ ایک سرائے کے آثار
جی ٹی روڈ پر تعمیر کردہ ایک سرائے کے آثار 

شیر شاہ ،والد سے کسی بات پر ناراض ہوکر جون پور چلے گئے اور ایک سردار، جمال خان سارنگ خانی سوری کے ہاں ملازم ہوگئے۔اِس دوران اُنھوں نے وہاں مختلف اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں، والد سے صلح ہونے پر سہسرام کی جاگیر اُنھیں مل گئی۔ یہاں اُنھوں نے بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور ایک اچھے منتظم کے طور پر شہرت پائی۔تاہم، کچھ عرصے بعد وہ مغل گورنر، بہار خان لوہانی کے پاس جاپہنچے اور یہیں وہ واقعہ پیش آیا، جس کی بنا پر وہ فرید خان سے’’ شیر خان‘‘ کے طور پر معروف ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے تنِ تنہا بپھرے شیر کو پچھاڑ دیا تھا، جس پر بہار خان لوہانی نے اُنہیں’’ شیر خان‘‘ کا لقب عطا کیا۔

بہرحال، شیر خان کی جب بہار خان سے بھی نہ نبھی، تو ظہیر الدّین بابر کی فوج میں شامل ہوگئے۔ بابر نے اُن کی صلاحیتیں بھانپتے ہوئے اپنے بیٹے، ہمایوں کو نصیحت کی تھی کہ’’ کوئی تعجّب نہیں، جو یہ شخص ایک دن بڑا آدمی بن جائے، اِس پر کڑی نگاہ رکھنا۔ یہ ایک ہوشیار آدمی ہے اور بادشاہت کے آثار اِس کی پیشانی پر نمایاں ہیں۔‘‘شیر خان ڈیڑھ، دو سال بعد فوج چھوڑ کر بہار کے حاکم، بہار خاں لوہانی کے دربار سے دوبارہ وابستہ ہوگئے۔جب لوہانی کا انتقال ہوا، تو شیر شاہ نے صوبہ بہار کا انتظام سنبھال لیا۔تاہم، بنگال کے حاکم نے جلد ہی اُن سے صوبہ چھین لیا۔ 

اب شیر شاہ کی کام یابیوں کی ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے۔اُنھوں نے افغان قبائل کی مدد سے ایک بڑی فوج تیار کی اور بنگال فتح کرلیا۔ اس کے بعد وہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔اُن کی شہنشاہ ہمایوں سے جنگوں کا آغاز ہوا اور آخرکار 1540ء میں پٹنہ کے قریب جنگِ چوسہ میں ہمایوں کو فیصلہ کُن شکست دے کر اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ ہمایوں ڈیڑھ سال بعد ایک لاکھ فوج لے کر دوبارہ آیا، تو اُسے بھی قنوج میں شکست دے دی۔ بعدازاں، وہ دہلی آکر تخت پر بیٹھ گئے۔(تاریخِ خان جہانی و مخزنِ افغان از خواجہ نعمت اللہ ہروی، تاریخِ شیر شاہی از عباس خاں سروانی اور تاریخِ شاہی از احمد یادگار میں شیر شاہ سوری کے حالاتِ زندگی، ہمایوں سے جنگوں کے واقعات بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں)۔

شیر شاہ سوری محض پانچ برس برسرِ اقتدار رہے، مگر اِس دَوران عوامی فلاح و بہبود کے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ جن کی آج تک مثالیں دی جاتی ہیں۔ہمارے ہاں حکم ران، بطور فخر خود کو شیر شاہ سوری کہلوانے کا شوق رکھتے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال گزشتہ دنوں اُس وقت سامنے آئی، جب سابق وزیرِ اعظم ،عمران خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ’’ اگر اُنھیں پانچ سال پورے کرنے دئیے جاتے، تو وہ بھی شیر شاہ سوری کی طرح کام کر جاتے۔‘‘ہم یہاں شیر شاہ سوری کے کارناموں کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں، جس سے سوری اور صرف سوری(sorry) کا تقابل کیا جاسکے گا کہ خان صاحب کے پاس تو ترقیاتی کاموں کے جواب کے لیے یہی ایک لفظ موجود تھا۔

شیر شاہ سوری اپنے پانچ سالہ دورِحکومت میں بہت سی جنگوں میں اُلجھے رہے، مگر اِس کے باوجود اُنھوں نے رعایا کے لیے جو ترقیاتی کام کیے، وہ ہر لحاظ سے حیرت انگیز ہیں۔ اُنھوں نے سب سے پہلے انتظامی معاملات پر توجّہ دی تاکہ مُلکی نظم و نسق بہتر ہوسکے۔ اِس مقصد کے لیے مُلک کو کئی اضلاع میں تقسیم کیا۔ہر ضلعے کے پرگنے مقرّر کیے، ہر پرگنہ میں ایک فوجی افسر، ایک خزانچی، ایک منصف اور دو محاسب رکھے گئے، جن میں سے ایک فارسی اور دوسرا ہندی میں حساب رکھتا تھا۔ (مسلمانوں کا عروج و زوال، مولانا سعید احمد اکبر آبادی)۔

تحصیل دار اور مجسٹریٹ نظام اِسی کا نعم البدل ہے۔اِن کے علاوہ بھی کئی افسران مقرّر کیے گئے، پھر چیک اینڈ بیلنس کے لیے اُن پر نگران بھی رکھے گئے۔افسران کو ایک مقام پر زیادہ دنوں تک نہیں رکھا جاتا تھا۔ وہ رشوت کے سخت خلاف تھے،لہٰذا اپنے جاسوسی نظام سے ایسے افسران کا سراغ لگا کر اُنھیں عُہدوں سے ہٹا دیتے۔ گاؤں کا انتظام پنچایت چلاتی، جس میں سب لوگ شامل ہوتے۔ یہ گاؤں کی حفاظت، آب پاشی کے معاملات اور انصاف کی فراہمی وغیرہ کی ذمّے دار ہوتی۔

زمین پیمائش کے بعد بیگھوں میں تقسیم کی گئی اور اُس کی اقسام بھی مقرّر کی گئیں، اِس مقصد کے لیے اُنھوں نے ہندو برہمنوں سے مدد لی کہ وہ حساب کتاب میں ماہر تھے۔اندازے کی بجائے زمین کی پیمائش کی بنیاد پر لگان وصولی کا نظام بنایا گیا۔یہ پہلے حکم ران ہیں،جنھوں نے زمینوں کے باقاعدہ کاغذات دینا شروع کیے، جن پر کاشت کار اور زمین کی مکمل تفصیل درج ہوتی۔زمینوں کی زیادہ سے زیادہ آباد کاری کے لیے کسانوں کو سرکاری زمینیں پٹے پر بھی دی گئیں اور اُن سے براہِ راست ٹیکس وصول کیا گیا تاکہ درمیان میں بڑا زمین دار کسی قسم کی مداخلت نہ کرسکے۔اِس اقدام سے جاگیر داری نظام بُری طرح کم زور ہوگیا۔

کہا جاتا ہے کہ اگر شیر شاہ سوری چند سال اور زندہ رہ جاتے، تو ہندوستان سے جاگیر داری نظام ختم ہوجاتا اور مُلک کی پوری زمین کسانوں کی محنت سے قابلِ کاشت ہوجاتی۔کسانوں کو لگان نقدی کی بجائے کسی اور جنس میں بھی دینے کی سہولت دی گئی،تاہم وہ وصول ضرور کیا جاتا۔یہ امر یقینی بنایا گیا کہ محکمۂ مال کا کوئی اہل کار اُن پر ظلم نہ کرسکے، اِسی لیے ٹیکس جمع کرنے والوں پر اچانک چھاپے مار کر اُن کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی جاتی۔شیر شاہ کا قائم کردہ محکمۂ مال انگریز حکومت میں بھی بعض تبدیلیوں کے ساتھ کام کرتا رہا۔فوج کو حکم تھا کہ ایک سے دوسرے مقام پر جاتے ہوئے فصلوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ اگر سیلاب یا کسی اور وجہ سے فصل تباہ ہوجاتی، تو حکومت کسانوں کی مدد کرتی۔اِن اقدامات سے پورے مُلک کے کسان خوش حال ہوگئے اور اُن کی محنت سے مُلک میں غلّے سمیت مختلف اشیاء کی فراوانی ہوگئی۔

شیرشاہ نے تجارت کے فروغ کے لیے بھی بہت سے اقدامات کیے۔ایک بڑا فیصلہ تو چُنگی سمیت کئی طرح کے ٹیکسز کا خاتمہ تھا، اِس سے تاجروں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور رشوت خوری و ظلم کا بڑا دروازہ بھی بند ہوگیا۔پھر یہ کہ اُنھوں نے آمد و رفت میں آسانی کے لیے کئی سڑکیں بنوائیں،جن میں2500 کلو میٹر پر پھیلی گرینڈ ٹرنک روڈ( جی ٹی روڈ) مشہور ہے۔سنار گاؤں(ڈھاکا) سے پشاور تک پھیلی اس سڑک کے کناروں پر پھل دار درخت لگوائے، پانی کے لیے کنویں کھدوائے اور مسافروں کی سہولت کے لیے1700 کے قریب سرائے تعمیر کروائے، جہاں مسافروں اور تاجروں کو حکومت کی طرف سے مفت کھانا ملتا۔ہندوؤں اورمسلمانوں کے الگ الگ باورچی ہوتے تاکہ اُنھیں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ہر مسافر خانے کے ساتھ مسجد بنوائی، جس میں حکومت کی طرف سے امام، مؤذن اور خادم مقرّر کیے گئے۔(مخزنِ افغانی)۔اِن سراؤں کے اطراف بستیاں بس گئی تھیں اور بہت سے پرانے دیہات بھی موجود تھے، تو وہاں کے باسی ان مسافر خانوں میں آنے والوں سے مختلف اشیا خریدتے اور اُنھیں غلّہ وغیرہ فروخت کرتے، یوں معاشی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔جی ٹی روڈ کے علاوہ بھی کئی اہم شاہ راہیں بنوائیں، جن میں لاہور ملتان، آگرہ برہان پور اور آگرہ چتوڑ سڑکیں اہم ہیں۔ اِن سڑکوں پر بھی درخت لگوانے کے ساتھ مسافر خانے بھی بنوائے گئے۔ شیر شاہ نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے، اِس ضمن میں روایتی طریقے بھی اختیار کیے گئے، جن کے تحت گاؤں کا بڑا، علاقے میں امن برقرار رکھنے کا ذمّے دار تھا۔

اگر چوری چکاری کی کوئی واردات ہوتی یا کوئی اور جرم ہوتا، تو اُسی سے ملزمان کی گرفتاری اور مسروقہ سامان کی برآمدگی کا مطالبہ کیا جاتا۔اگر وہ ایسا نہ کرتا، تو اُسے متاثرہ شخص کو معاوضہ ادا کرنا پڑتا۔ اِس پالیسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ علاقے والے جرائم پیشہ افراد پر نظر رکھتے اور اُنھیں امن و امان میں خلل نہ ڈالنے دیتے۔ تاریخِ فرشتہ کے مطابق، امن ایسا تھا کہ لوگ جنگل بیابان میں اپنا سامان سرہانے رکھ کر اطمینان سے رات بَھر سوتے۔شیر شاہ سوری نے ایک زبردست فوج بھی تیار کی، جو ڈیڑھ لاکھ گُھڑ سواروں،25 ہزار پیادوں اور پانچ ہزار جنگی ہاتھیوں پر مشتمل تھی۔اُنھوں نے ایک تبدیلی یہ کی کہ فوج، جو پہلے صوبوں کے حاکموں کے ماتحت ہوتی تھی، اُسے مرکزی حکومت کی نگرانی میں دے دیا۔

علاءالدّین کی طرح گھوڑوں پر نمبر لگوائے اور سپاہیوں کا ریکارڈ رکھا۔سپاہیوں کو خود بھرتی کرکے اُن کی تن خواہ مقرّر کرتے اور اِس معاملے میں اُن کا معیار انتہائی سخت تھا، جس پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جاتا۔ رہتاس، چتوڑ، جودھ پور وغیرہ میں چار بڑے مراکز قائم کیے، جہاں مستقل فوج کا پڑاؤ ہوتا۔ (سلطنتِ دہلی کا نظامِ حکومت، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی)۔اُن کا نظامِ انصاف بھی بہت اعلیٰ تھا،یہاں تک کہ ایک عام شہری کی درخواست پر اپنے بیٹے کے خلاف بھی فیصلہ سُنا دیا تھا۔جگہ جگہ ڈاک چوکیاں قائم کیں،جہاں ہرکاروں کے استعمال کے لیے دو گھوڑے تیار رہتے۔

یہ ہر کارے پورے مُلک کی خبریں بادشاہ تک پہنچاتے۔علاوہ ازیں، اُمراء کے کاموں پر نظر رکھنے کے لیے اُن کے ساتھ جاسوس چِپکے رہتے۔ مساجد، مدارس کے لیے رقوم فراہم کیں اور طلبہ کے وظائف مقرّر کیے۔مُلک بھر میں سرکاری لنگر خانے قائم کیے،جہاں سے ضرورت مندوں کو کھانا ملتا۔ یہ ہندوستان کا پہلا مسلمان بادشاہ تھا،جس نے ہندو رعایا کو یک ساں حقوق دینے کی داغ بیل ڈالی۔اُنھیں اہم مناصب دئیے، فوج میں بھرتی کیا اور یہاں تک کہ کئی مقامات پر اُنھیں کمانڈر بھی بنایا۔ ہندوؤں کی تعلیم کے لیے رقوم فراہم کی گئیں اور اُن کی مذہبی روایات کا احترام کیا گیا۔ 

شیر شاہ سوری کا ایک بہت بڑا کارنامہ سکّوں کا اجرا ہے۔اُنھوں نے سونے، چاندی اور تانبے کے خُوب صُورت سکّے جاری کیے، جو اِس قدر معیاری تھے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے تک ہندوستان میں رائج رہے۔ 167 گرام سونے کا سکّہ مُہر یا اشرفی،175 گرام چاندی کا سکّہ روپیا اور322 گرام تانبے کا سکّہ دام کہلاتا تھا۔ سکّے کو روپے کا نام اُنھوں ہی نے دیا تھا،جو آج بھی کئی ممالک میں رائج ہے۔ روپے کے سکّے کے ایک طرف کلمۂ طیّبہ اور کناروں پر خلفائے راشدینؓ کے اسمائے گرامی درج تھے اور دوسری طرف، عربی اور دیوناگری میں حکم ران کا نام کندہ ہوتا۔

شیر شاہ سوری کا کالنجر کی جنگ میں ایک گولہ لگنے سے 1545ء میں انتقال ہوا، اُس وقت عُمر تقریباً 73 برس تھی۔ وہ نمازِ فجر کے بعد سرکاری کام شروع کردیتے۔ہر محکمے کی جانچ پڑتال اور کام کی نگرانی خُود کرتے۔ہر جمعرات کو غربا کی دعوت کرتے، جس میں خود سر پر کھانے کے تھال اُٹھا اُٹھا کر اُن کے سامنے رکھتے۔سیّد ہاشمی فرید آبادی نے’’ تاریخ مسلمانانِ پاکستان و بھارت‘‘ میں اُنھیں یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے کہ’’ ایک غریب الوطن طالبِ علم، ایک معمولی سپاہی زادہ، ترقّی کرتے کرتے اقتدار کے سب سے اونچے مقام تک پہنچ گیا۔ 

اِس اعتبار سے یہ فردِ فرید ہماری تاریخ میں اُس سلسلۂ ذہب کی آخری کڑی ہے، جس کا سرحلقہ قطب الدّین ایبک تھا، کیوں کہ اس کے بعد پھر کسی غیر شاہی خاندان کے آدمی کو تمام ہندوستان کی فرماں روائی کرنی نصیب نہ ہوئی۔شیر شاہ سوری کا ہمایوں پر غلبہ پانا، ہندی مسلمانوں کی محض اتفاقی، ہنگامی کام یابی نہیں،بلکہ ایک سیاسی انقلاب کا سرِآغاز ثابت ہوا۔ اُسی نے ایک نئی، باضابطہ سلطنت کی بساط بچھائی جو آیندہ مغل بادشاہوں سے انتساب اور مزید رونق و ترقّی حاصل کرنے والی تھی۔ اکبری عہد کی سطوت و شان اور جہاں گیری دربار کے تزک و احتشام کے قصّے پڑھتے وقت ہمیں یہ نکتہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بابر و ہمایوں، بہ آں ہمہ اوصاف و قابلیت 13، 14 برس کے عرصے میں وہ استقلال و انتظام نہ پیدا کرسکے تھے، جو سہس رام کے ایک افغانی تُرک سپاہی زادے نے پانچ سال کے اندر قائم کر دکھایا۔‘‘

علاء الدّین خلجی نے تقریبا سات سو سال اور شیر شاہ سوری نے پانچ سو برس قبل اپنی بہترین انتظامی صلاحیتوں کے بل بُوتے پر ہمارے اِسی خطّے میں ایک ایسا مثالی نظام تشکیل دیا،جس کی نہ صرف بعد میں آنے والے حکم رانوں نے پیروی کی، بلکہ دنیا بھر کے مؤرخین آج بھی اُن کی تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ تقریباً پورے برّصغیر کے(کچھ علاقے چھوڑ کر) حُکم ران تھے اور مواصلاتی نظام بھی آج کی طرح جدید نہیں تھا،مگر اِس کے باوجود دہلی سے ریاست کے آخری کونے تک اُن کی گرفت مضبوط تھی۔ اگر آج کے حکم ران بھی مُلک اور عوام کی بہتری و خوش حالی کو اپنی پہلی ترجیح بناتے ہوئے پوری تن دہی سے کام کریں، تو وہ بھی یقیناً خلجی، سوری ثانی بن سکتے ہیں، مگر اِس کے لیے باتوں کی بجائے عملی طور پر کام کرنا ضروری ہے۔