• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیماتِ نبویؐ اور اُسوۂ رسولِ اکرمﷺ اعلیٰ انسانی اقدار اور مثالی اخلاق کیلئے دائمی نمونۂ عمل (قسط نمبر1)

ترجمہ:’’بے شک، آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘(سورۃالقلم، آیت نمبر4)۔
ترجمہ:’’بے شک، آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘(سورۃالقلم، آیت نمبر4)۔

قرآنِ کریم، فرقانِ حمید میں صاحبِ قرآن، پیکرِ خُلقِ عظیم، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ:’’بے شک، آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘(سورۃالقلم، آیت نمبر4)۔ 

صاحبِ خلقِ عظیم، امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔ ترجمہ: ’’بے شک، مجھے مبعوث اس لیے کیا گیا ہے کہ مَیں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کردوں۔‘‘ (علی متّقی ہندی /کنزالعمال 3/16)۔ 

ایک اور مقام پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’مَیں اس لیے مبعوث کیا گیا ہوں کہ عمدہ ترین اخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچادوں۔‘‘ (ایضاً، کنزالعمال 3/16)۔

ایک ایسے وقت، جب کہ انسانیت پر نزع کا عالم طاری تھا، دنیا اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ ہلاکت کے مہیب اور عمیق غار میں گرنے والی تھی، عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے محسنِ انسانیتؐ کو مبعوث فرمایا کہ آپؐ اس جاں بلب انسانیت کو نئی زندگی بخشیں اور لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔

ارشادِ ربّانی ہے۔’’یہ ایک کتاب ہے، جو ہم نے تم پر اُتاری ہے، تاکہ تم تمام لوگوں کو اُن کے پروردگار کے حُکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لاؤ، اُس ربّ کے راستے کی طرف، جو غالب اور ستودہ صفات ہے۔‘‘ (سورۂ ابراہیم/1)۔ 

قرآنِ کریم میں ایک مقام پر فرمایا گیا۔ ترجمہ:’’وہ (محمد رسول اللہﷺ) ان کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، بُرائی سے روکتے ہیں، پسندیدہ چیزیں حلال کرتے ہیں، گندی چیزیں حرام ٹھہراتے ہیں، اُس بوجھ سے نجات دلاتے ہیں، جس کے تلے وہ دبے ہوئے تھے، اُن پھندوں سے نکالتے ہیں، جو اُن پر پڑے ہوئے تھے۔‘‘ (سورۃ الاعراف/ 157)۔

یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ آپ ﷺکی بعثت نے انسانیت کو نئی زندگی، نئی روشنی، نئی طاقت، نئی حرارت، نیا ایمان، نیا یقین، نئی نسل، نئی اور مثالی تہذیب، نیا تمدّن، نیامعاشرہ عطا کیا۔ مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں۔

’’آپؐ کی بعثت کے بعد دنیا کی رُت بدل گئی، انسانوں کے مزاج بدل گئے، دِلوں میں خدا کی محبّت کا شعلہ بھڑکا، خداطلبی کا ذوق عام ہوا، انسانوں کو ایک نئی دُھن (اللہ کو راضی کرنے اور اللہ کی مخلوق کو اللہ سے ملانے اور اسے نفع پہنچانے کی) لگ گئی، جس طرح بہار یا برسات کے موسم میں زمین میں روئیدگی، سوکھی ٹہنیوں اور پتیوں میں شادابی اور ہریالی آجاتی ہے، نئی نئی کونپلیں نکلنے لگتی ہیں اور درودیوار پر سبزہ اُگنے لگتا ہے، اسی طرح بعثتِ محمدیؐ کے بعد قلوب میں نئی حرارت، دماغوں میں نیا جذبہ اور سَروں میں نیا سودا سما گیا۔ 

انسانیت صدیوں کی نیند سوتے سوتے بے دار ہوگئی۔ یہ انقلابِ عظیم محمد رسول اللہ ﷺ کا عظیم معجزہ اور آپؐ کی رحمۃ لّلعالمینی کا کرشمہ ہے۔‘‘(ابوالحسن علی ندوی، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر، صفحہ138)۔ 

شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خُوب کہا ہے؎ آپؐ دنیا میں جب جلوہ فرما ہوئے، زندگی مستند، معتبر ہوگئی.....تب گریبانِ شب چاک ہونے لگا، آسماں مسکرایا، سحر ہوگئی.....ذرّے ذرّے کا چہرہ دمکنے لگا، پتّے پتّے سے موجِ بہاراں اُٹھی.....رُخ سے پردہ اٹھا کر جدھر آگئے، صبحِ محشر اُدھر جلوہ گر ہوگئی.....کیا عرب کی زمیں، کیا عجم کی زمیں، احتشامِ مقدّر میں کچھ کم نہیں.....پھول ہی پھول کِھلنے لگے جس طرف، اُن کی رحمت میں ڈوبی نظر ہوگئی۔ (کلیاتِ اقبال، اردو،صفحہ 405)۔

حقیقت میں محمد رسول اللہﷺ نے نبوّت کی کنجی انسانی فطرت کے قفل پر رکھ دی تھی، بس وہ کُھل گیا اور اُس کے تمام خزانے عجائبات، طاقتیں اور کمالات دنیا کے سامنے آگئے۔ آپؐ نے جاہلیت کی شہہ رگ کاٹ دی، اس کے طلسم کو پاش پاش کردیا۔ 

آپ نے سرکش اور ضدّی دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طاقت سے مجبور کردیا کہ وہ زندگی کی ایک نئی شاہ راہ پر گام زن ہو اور تاریخ میں انسانیت کے ایک بالکل نئے دَور کا آغاز کرے، یہ وہ اسلامی دَور ہے، جو تاریخ کی پیشانی پر ہمیشہ دمکتا رہے گا۔ (ایضاً صفحہ 131)۔ یہ انقلاب معلّم اخلاق ، صاحبِ خلق عظیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار اور اخلاقِ حسنہ کی بدولت رونما ہوا۔

تعلیماتِ نبویؐ کی عظمت و اہمیت

ارشادِ ربّانی ہے۔’’آپ ؐ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! اگر تمہیں اللہ کی محبّت کا دعویٰ ہے، تو میری اتّباع کرو، تو اللہ تمہیں پیار کرے گا۔‘‘(سورۂ آلِ عمران/31)- علّامہ سیّد سلیمان ندوی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں۔’’آپؐ کی اتّباع، یعنی آپؐ کی زندگی کی پیروی کو اللہ تعالیٰ کی محبّت کا معیار بتایا گیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے نشۂ دینی سے سرمست ہوکر اپنی جان دینا آسان ہے، مگر پوری عُمر ہر شئے، ہر حالت اور ہر کیفیت میں آپؐ کی اتّباع کے پُل صراط کو اس طرح طے کرنا کہ کسی بات میں سنّتِ محمدیؐ سے قدم اِدھر اُدھر نہ ہو، سب سے مشکل امتحان ہے۔ 

اس اتّباع کے امتحان میں تمام صحابہؓ پورے اُترے اور اسی جذبے نے صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، محدثینؒ، مو ٔرخین اور اربابِ سِیر کا یہ اہم فرض قرار دیا ہے کہ وہ آپؐ کی ایک ایک بات، ایک ایک چیز، ایک ایک جنبش معلوم کریں اور پچھلوں کو بتائیں، تاکہ اپنے اپنے امکان بھر ہر مسلمان اس پر چلنے کی کوشش کرے۔ اس نکتے سے ظاہر ہوا کہ آنحضرتﷺ کی حیاتِ طیّبہ اس کے جاننے والوں کی نگاہ میں پوری کامل تھی، تب ہی تو اس کی اتّباع کو انہوں نے کمال کا معیارِ یقین بنایا۔‘‘(سیّد سلیمان ندوی/خطباتِ مدراس،صفحہ80)۔ 

سیّد سلیمان ندوی مزید لکھتے ہیں۔’’اسلام کی نگاہ میں آپؐ کی حیاتِ طیّبہ ایک مسلمان کے لیے مثالی نمونہ عمل ہے، اس زندگی کے آئینے میں صحابہؓ نے اپنی زندگیاں سجائیں اور ان کا عکس تابعینؒ نے اُتارا۔ اس طرح وہ تمام دنیائے اسلام کا عمل اور رسم بن گئی۔ وہ مقدّس زندگی مرکزی نقطہ تھی۔ صحابۂ کرامؓ نے اسے خط اور بعد کی نسلوں نے اسے دائرہ بنا دیا۔ 

گویا سیرتِ محمدیؐ دنیا کا آئینہ خانہ ہے، جس میں دیکھ کر ہر شخص اپنے جسم و رُوح، ظاہر و باطن، قول و عمل، زبان و دل، آداب و رسوم، طور و طریق کی اصلاح اور درستی کرسکتا ہے اور اسی لیے کوئی مسلمان قوم اپنی شائستگی اور ادب و اخلاق کے لیے اپنے مذہب سے باہر اور اپنے رسولؐ کی سیرت سے الگ کوئی چیز نہیں مانگتی اور نہ اس کی اسے ضرورت ہے۔ 

سیرتِ محمدیؐ دنیائے اسلام کا عالم گیر آئینہ ہے، اسی کے مقابلے سے حسن و قبح اور نیکی و بدی کا راز اس پر کھلتا ہے اور چوں کہ کوئی انسانی زندگی اس استیعاب اور استقصاء کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود نہیں، اس لیے تمام انسانوں کے لیے یہی ایک کامل نمونہ ہے اور ایسی ہی کامل اور مثالی زندگی انسانوں کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہوسکتی ہے۔‘‘(ایضاً ص 81۔82)۔

ادیانِ عالم کا مطالعہ کرنے والے حضرات سے یہ امر مخفی نہیں کہ یہ فخر صرف اور صرف رسولِ عربی ﷺ کو حاصل ہے کہ آپؐ نے اپنے مثالی اخلاق و کردار اور عملِ صالح کی وہ اعلیٰ اور درخشندہ روایات قائم کیں کہ قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کے لیے نہ صرف یہ کہ آپؐ اسوۂ حسنہ اور نمونۂ عمل قرار پائے، بلکہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے فیضانِ تربیت سے صحابۂ کرامؓ کی وہ عظیم جماعت تیار کی، جس کی مثال پوری تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ 

حضور اکرم ﷺ اگر سراجِ منیر (آفتاب ہدایت) ہیں، تو آپؐ کے صحابۂ کرامؓ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں، جن کی روشنی سے آنے والی نسلوں نے نورِ ہدایت حاصل کیا، ورنہ آپؐ کی بعثت سے پہلے یہی معمورۂ ہستی، جہانِ خراب کا منظر پیش کر رہا تھا، یونان اپنی عظیم تہذیب کے کھنڈر پر یکا و تنہا کھڑا آنسو بہا رہا تھا اور اہلِ یونان اس کھنڈر کے ملبے تلے دبے کراہ رہے تھے، یونانی حکماء نے اپنے فلسفے کے زور پر ہر مسئلہ حل کرنا چاہا، اس دور کا یونان فلسفیوں سے بھرا پڑا تھا، یہ ارشمیدس، یہ اقلیدس، یہ بطلیموس، یہ سقراط، یہ بقراط، یہ ارسطو یہ افلاطون، جس طرف نگاہ اٹھتی، فلسفیوں کی قطار بندھی نظر آتی، مگر بات پھر وہی ہے، جو حکیم الامت اقبال نے کہی ہے؎ اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ہوا.....آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا۔ یونان کی چمکتی دمکتی اکیڈمیز نے اندھیرا اور گہرا کردیا، یہ دنیا منور ہوئی، تو غارِ حرا کے گوشے سے طلوع ہونے والے آفتابِ نبوتؐ سے۔

اسوۂ رسول ؐ اور تعلیماتِ نبوی ؐمیں حُسنِ اخلاق کی اہمیت 

اللہ تعالیٰ نے صاحبِ خُلقِ عظیم، خاتم النبیین ﷺ کو اخلاقِ حسنہ کی صفت سے متصف گردانا ہے اور سوئے خُلق کے تمام پہلوؤں کی آپؐ سے نفی فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’بلاشبہ، آپؐ کا اجر کبھی نہ ختم ہونے والا ہے اور بلاشبہ، آپؐ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘ (سورۃ القلم/3،4)۔ 

قرآن، حضوراکرم ﷺ کو اعلیٰ ترین اخلاقی صفات سے متصف کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے۔’’تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آئے ہیں، انہیں تمہاری تکلیف گراں گزرتی ہے، انہیں ہر لحظہ تمہاری بھلائی کا خیال ہے اور وہ ایمان والوں پر بہت شفیق و مہربان ہیں۔‘‘(سورۃالتوبہ، آیت نمبر128)۔

اس آیت میں حضوراکرم ﷺ کی جس مہربانی اور شفقت و محبّت کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ ایک اور جگہ نہ صرف آپؐ کی شفقت و نرمی کا ذکر کیا گیا ہے، بلکہ درشتی و سختی کی نفی بھی کی گئی ہے۔ فرمایا گیا، ’’اللہ کی عنایت سے آپؐ ان لوگوں کے لیے نرم ہیں اور اگر آپؐ کہیں سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپؐ کے گردو پیش سے ہٹ جاتے۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران/ 159)۔

جس طرح قرآن پاک حیاتِ انسانی کے لیے ہدایت و رہنمائی کا مثالی سرچشمہ ہے، اسی طرح حضوراکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی ایک مکمل نمونہ عمل ہے، قرآن نے اگر آپؐ کو اسوۂ حسنہ کہا ہے، تو آپؐ کی حیاتِ طیّبہ کا اوّلین مشاہدہ کرنے والوں نے آپؐ کو قرآن کا نمونہ قرار دیا۔ 

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک صحابیؓ کے سوال پر فرمایا۔’’رسول اللہ ﷺکا خُلق، قرآن تھا۔‘‘(ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ باب صلاۃ اللیل، 2/87)۔آپؐ نے اپنی بعثت کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’مَیں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘(علی متّقی ہندی/کنزالعمال 3/16)۔ 

ایک اور روایت میں یہ مقصد زیادہ واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، ’’مَیں تو اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ مکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘ (ایضاً کنزالعمال 3/16)۔ حضرت ابوذرؓ کے بھائی انیس نے نبی کریمﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور مشاہدہ کرنے کے بعد جو بیان دیا، ان کے الفاظ میں مکارمِ اخلاق کا ذکر موجود ہے۔ 

انہوں نے کہا تھا۔’’رَأَیتُہٗ یَأ مُرُ بِمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ‘‘ ترجمہ:’’مَیں نے انہیں ﷺ لوگوں کو اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دیتے دیکھا۔‘‘(بحوالہ: خالد علوی، ڈاکٹر/ انسانِ کاملؐ، صفحہ 578)۔ آپؐ نے اپنی دعاؤں میں اللہ سے حسنِ خُلق مانگا ہے۔ تقرب و استجابت کے ان مواقع پر حُسنِ اخلاق کی دُعا مانگنا اُس کی اہمیت کا پتا دیتا ہے کہ کُتبِ حدیث میں منقول دُعاؤں میں یہ دُعا قابلِ غور ہے۔ یہ الفاظ ایک طویل دُعا کا حصّہ ہیں: ’’وَاھْدِنِی لِاحسَنِ الْاَخْلَاقِ لَایَھْدِی لِاَحْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّی سَیْئَھالَا یُصْرفُ عَنِّی سَیِّئَھا اِلَّا اَنْتَ‘‘۔(مسلم/ کتاب المساجد، باب الدعاء فی صلاۃ اللیل، 2/185)

آپؐ نے ارشاد فرمایا۔’’مسلمانوں میں کامل ایمان اُس کا ہے، جس کا خُلق سب سے اچھا ہے۔‘‘ (ترمذی/ کتاب الایمان، باب فی استکمال الایمان، 5/9، ابوداؤد، کتاب السنۃ باب الدلیل علیٰ زیادۃ الایمان و نقصانہ، 4/304، بحوالہ: خالد علوی، ڈاکٹر/ انسانِ کاملؐ، 579)۔ اللہ عزّو جل نے معلّمِ اخلاقؐ کو امام الانبیاء بنا کر آپؐ کے اخلاقِ حمیدہ کی تمام خصوصیات کو دنیا والوں کے سامنے اجاگر کرنے کا اہتمام فرمایا۔ 

آپؐ کو اس طرح سنوار کر تخلیق فرمایا کہ حضور سرورِ کائنات ﷺ جب بھی آئینہ دیکھتے، تو فرماتے۔ ’’اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ حَسَّنَ خَلقِیْ وَ خُلقِی‘‘۔ (بیہقی/ سنن کبریٰ)۔ تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں، جس نے میری تخلیق اور میرے اخلاق ہر دو کو مزیّن فرما دیا ہے۔ پھر ربّ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کا نزول فرمایا اور کلام اللہ کے ذریعے آپؐ کے آداب و اخلاق کی اشاعت فرما دی۔ 

جیسا کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ارشاد ہے کہ ’’وَکَانَ خُلْقِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَلْقُرْآن۔‘‘ ترجمہ: قرآن ہی آپؐ کے اخلاق ہیں۔ اسی بِنا پر آپؐ ہی کی ذاتِ گرامی تہذیب خلائق اور تادیبِ عالم کے لیے قرآن کا مقصود حقیقی ہے۔ اسی کو پیشِ نظر رکھ کر قرآن نے مکارمِ اخلاق کے ابدی اصول انسانوں کو عطا کیے اور پیارے رسول ﷺ کو ان کا سراپا اور عملی راہنمائی کا سرچشمہ بنادیا۔ 

آپؐ ہی کے اخلاق و آداب کا نور مخلوقات کو منور کرتا ہے اور آپؐ ہی کے خلقِ کریم کی روشنی انسانوں کے کردار کو چمکاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے حسنِ خُلق کے اس درجۂ کمال کی یوں توصیف فرمائی۔ ترجمہ: ’’اے نبیؐ، آپ تو بلاشبہ اخلاق کے بڑے درجے پر فائزہیں۔‘‘ (سورۃ القلم/4)۔یہی وجہ ہے کہ حضوراکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جن اعلیٰ اخلاق اور ملکات پر پیدا فرمایا، وہ مثالی ہیں اور آپؐ کے اعمال و اخلاق قرآن کی عملی تفسیر بھی ہیں۔

قرآن جس نیکی اور خوبی کی طرف دعوت دیتا ہے، وہ آپؐ میں فطرتاً موجود تھے اور جس بدی اور درشتی سے روکتا ہے، آپؐ طبعاً اس سے نفور و بے زار تھے۔ پیدائشی طور پر آپؐ کی سرشت اور تربیت ایسی واقع ہوئی کہ آپؐ کی کوئی بات اور کوئی چیز بھی حدِتناسب و اعتدال سے ہٹنے نہیں پائی۔ آپؐ کے حُسنِ خُلق کا تقاضا تھاکہ ہر بُرائی آپؐ سے دُور رہے اور کوئی بدی آپؐ کے قریب نہ آنے پائے۔ 

اسی کا نام معصومیت ہے۔ امام بخاریؒ کا قول ہے کہ ’’جس طرح ماں باپ اولاد کو سنگھارتے ہیں، رب تعالیٰ نبیؐ کو سنگھارتا اور مزیّن کرتا ہے۔‘‘ رب تعالیٰ نے جس حسین انداز میں اپنے محبوبؐ کی تزئین و آرائش فرمائی، اس کی مثال نہیں کہ آپؐ کو اخلاقِ حسنہ کا کامل اور مکمل نمونہ بنایا اور کائنات کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا کہ میری تخلیق کا شاہ کار یہ ہے۔ (بحوالہ:محمد عبدالجبار شیخ/ سیرت مجمع کمالاتؐ،صفحہ 198)۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید