• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر: نوشاد عثمان

صفحات: 214 ، قیمت: 1000 روپے

ناشر: ہارون پبلی کیشنز، بلال ٹائون، نارتھ کراچی،کراچی۔

زیرِ تبصرہ شعری مجموعے کے خالق، عرصۂ دراز سے جدّہ، سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ اُنہیں شاعری اور ادب کا ذوق وَرثے میں ملا، اُن کے والد محمّد عثمان کہنہ مشق شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ ان کے بڑے بھائی جمیل عثمان کی ادبی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، لیکن ایک نثرنگار کی حیثیت سے بھی اُن کی نمایاں شناخت ہے۔ جس آدمی کا گھر ایک دبستان کا درجہ رکھتا ہو، وہ کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ نوشاد عثمان ادبی دنیا میں نوآموز یا نووارد نہیں، بلکہ کئی برسوں سے شاعری کر رہے ہیں۔

یہ اُن کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جس میں اُن کی چار حمدیں، دو نعتیں اور98 غزلیں شامل ہیں۔ اس کتاب میں نوشاد عثمان کے فکر و فن کے حوالے سے اُن کے استاد مامون ایمن، جمیل عثمان اور زاہد رشید کے مضامین بھی سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ کتاب کے نام سے مایوسی عیاں ہے، لیکن کتاب کے اندر ’’موسمِ بہار‘‘ کے خوش گوار جھونکے بھی نظر آتے ہیں۔ اُنہوں نے ہجرت کے تجربات کو بھی شعری پیکر عطا کیا ہے۔ نوشاد عثمان روایتی آدمی ہیں، لیکن اُن کی شاعری روایتی ہرگز نہیں۔ 

اُنہوں نے موجودہ عہد کے نئے تجربات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی یہ ایک مکمل مجموعہ ہے۔ جس شاعری کو مامون ایمن جیسے ماہرِ علمِ عروض نے دیکھا ہو، اُس میں کوئی کجی کیسے رہ سکتی ہے۔ گھر کی گواہی کے طور پر اُن کے بڑے بھائی جمیل عثمان کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں،’’ نوشاد عثمان کا شعری سفر، گو بہت مختصر ہے، لیکن اُس کی شاعری توانا ہے۔ خیالات کی اُڑان اُسے دُور تک لے گئی ہے۔ اس کے مضامین ایسے ہیں کہ اُنہیں پڑھ کر دل اُچھل جاتا ہے۔‘‘