• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تم کو بھی ساتھ لے ڈوبیں گے‘‘۔مقبولیت کی موجودگی میں عمران خان کی بے بسی اور بے چارگی کی وجوہات اُن کے اپنے اندر کی بدنیتی کا شاخسانہ ہے ۔پچھلے ایک سال میں عسکری قیادت پر دھواں دھار یلغار ،قومی اسمبلی سے استعفے، دو ناکام لانگ مارچ ، آرمی چیف کی تعیناتی رُکوانے میں ناکامی ، دو صوبوں پر اپنی ہی حکومت پر کلہاڑا مارنا، ایسے سارے سیاسی فیصلے عمران خان کی نالائقی کا منہ چڑا رہے ہیں۔فرسٹریشن لب لباب ، موصوف کسی بڑے حادثے کے متمنی ہیں۔

بے شک وطن عزیز کے گرد دشمن کا گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔ دہائیوں سے سازشوں کا شکار وطن ، اکیسویں صدی کا آغاز بھیانک ، پہلی دہائی نے چولیں ہلا دیں۔ دہشت گردی اور امریکی ڈرون حملوں نے گھروں کے گھر اُجاڑدئیے۔ کُرہ ارض کا خطرناک ترین ملک قرار پایا۔ ایسی جنگ جس کا ہم سے واسطہ نہ تعلق ہم پر مسلط کر دی گئی ۔میرا موضوع مختلف ، کڑیاں ملانے کے لیے سرسری جائزہ، افغانستان ، شام ، لیبیا، ساؤتھ چائنا سمندر وغیرہ میں امریکی مصروفیات سے پاکستان کو سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا۔پہلی فرصت میں ریمنڈ ڈیوس اور سلالہ چوکی پر امریکی حملے کے فوراً بعد ہزاروں سی آئی اےاہلکاروں کو چُن چُن کر نکالا ۔امریکی فوجی کنٹریکٹر بلیک واٹر ، زی ، ڈیناکوپ وغیرہ کو چلتا کیا۔

یوں تو 21 ویں صدی کے آغاز ہی سے پاکستان اور چین نے اندرون خانہ آنے والے دنوں میں ہی ایسے منصوبے کے خدوخال پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔2012 میں موقع ملتے ہی عملی جامہ پہنانے کی ٹھانی۔مت بھولیں کہ وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز گوادر پورٹ سنگاپور کے حوالے کر کے چین کے راستے مسدود کر چکاتھا ۔پیپلز پارٹی دور حکومت کے آخر ی سال صدر زرداری نے کمالِ جُرات کے ساتھ نہ صرف گوادر بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کا انتظام چین کو منتقل کیا۔یہ معمہ ہی ہے کہ زرداری حکومت نے گوادر بندرگاہ کو سنگاپو ر سے واگزار کیسے کروایا؟ نوازشریف حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی منصوبے کو تیزی سے عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا ۔ سی پیک کے چار سو ڈنکے بج گئے۔امریکہ پاکستان کے تعلقات پُر اسراریت سے بھر پُور ، آغاز ہی سے ا شیائے خورونوش سے لےکر پاکستانی افواج کو مسلح کرنے کی امداد میں جہاں فراخدلی دکھائی وہاں پاکستان میں عدم استحکام ، لاقانونیت ، حکومتوں کے جوڑ توڑ کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

2015 سے لیکر 2018 تک بالواسطہ ، بلاواسطہ کالموں میں لکھا ، ہر فورم پر معاملہ اُٹھایا کہ سی پیک منصوبت نے پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈالنا ہے۔ممکنہ بام عروج کی غیر معمولی اور آخری کوشش و اُمیدہے۔اِس کو پایۂ تکمیل تک پہنچاناقومی سلامتی کی اشد ضرورت اور اولین ملکی مفاد ہے۔پاکستان کے لیے تین رہنما اُصول سیاسی استحکام ، خوشحالی ، قانون کی حکمرانی چین کی ذاتی ضرورت تھے اور ہیں۔دوسری طرف عدم استحکام ، بد حالی اور لاقانونیت امریکی وارے میں تھی۔ سی پیک کی تکمیل امریکہ کیلئے سوہانِ روح، ہر صورت میں بند کروانا تھاجب کہ سی پیک منصوبہ کی ناکامی چین کیلئے ناقابل قبول اور ناقابل تلافی نقصان تھی۔ آبنائے ہرمز تک اہم تزویراتی اور اقتصادی رسائی چین کی پالیسی کا جزو لاینفک ہے۔

چین نے پاکستان میں سینکڑوں ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنا تھی ۔ چند سال میں 12000 میگا واٹ بجلی کے کارخانے چل پڑے، سڑکوں کا جال بچھ گیا ۔ چینی سفیر نے کئی دفعہ بالمشافہ بتایا کہ 2020 تک ہم ایک ملین بیرل تیل براستہ گوادر چین لے جانے میں کامیاب ہوئےتوپاکستان کو صرف ٹول ٹیکسوں کی مد میں 11 سے 13 ارب ڈالر کی سالانہ آمدنی ہو گی ۔ اس کے علاوہ بے شمارکاروباری و سرمایہ کاری اور دیگر منصوبوں کا لامتناہی سلسلہ منسلک تھا ۔جیسے ہی CPEC منصوبہ ٹھپ ہوا چین نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ تک رسائی اور اقتصادی منصوبوںپر ساڑھے چار ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا معاہدہ کر ڈالا ۔ دراصل ہمارے پروجیکٹس ہی ایران منتقل ہوئے۔

2018 میں جب عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تو سی پیک منصوبے کا بند ہونادیوار پر نقش تھا۔ پاکستان کی بد نصیبی اور بدبختی کا ایک بار پھر آغاز یہیں سے ہوا۔2014 میںجب سی پیک منصوبےپر کام کا آغاز ہوا توہماری اسٹیبلشمنٹ’’ سیاست نہیں ریاست‘‘ بچانے کا عظیم الشان منصوبہ لے کر کود پڑی ۔’’سیاست نہیں ریاست‘‘پروجیکٹ نے ہی نے تو سی پیک کو نگل لیا۔

اِس عمل میں جنرل راحیل اور جنرل باجوہ دونوں شریک تھے ۔ 2018 میں عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو سی پیک کا دھڑن تختہ ہو چکا تھا۔ آج سی پیک ابدی نیند سو چکا ہے جب کہ وطن عزیز مکمل طورپر امریکی رحم و کرم پر ہے۔ نواز شریف حکومت پر جنرل راحیل ،جنرل باجوہ ، ثاقب نثار ، کھوسہ ،عمران خان کی باجماعت یلغار دراصل پاکستان پر یلغار ثابت ہوئی۔

شبہ نہیں کہ IMF، ورلڈبینک ، ADB مع سارے کلب و خلیجی ممالک باجماعت واشنگٹن کی مرضی کے بغیر چند لاکھ ڈالر دینے کی جرأت نہیں رکھتے۔ عمران خان حکومت کو اِسی مد میں IMF سمیت خلیجی ممالک نے قرضے دئیے۔ عمران خان نے حکومت جاتے دیکھی تو IMF معاہدہ منسوخ کیا اور پیٹرول سستا کر دیا۔عمران خان کوپورا ادراک تھا کہ پاکستان کی بربادی کا عمل تیز رہے گا۔آج عمران خان نےعوام الناس کے بڑے حصے کو اپنے جھانسے میں لےکراپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔

آج پاکستان جس ’’کھائی‘‘میں گِر چکا ہے ، بظاہر اُس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔راستے دو ہی IMF یا NO IMF، امریکہ نے اگر IMF کو اجازت دے دی اور ہم نے شرائط مان لیں تو یہاں طوفان کھڑا ہو جائے گا ۔ عوام الناس ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے کو ترسیں گے جب کہ سیاسی انتشارسونے پر سہاگہ ہو گا۔IMF کے ساتھ اگر معاملہ طے نہ ہوا توجو کچھ IMF قرضے کی منظوری پر متوقع ، اس سے بھی چار گنا یعنی کہ مملکت مکمل انارکی کی گرفت میں آجائے گی ۔قرضہ لیتے ہیں تو مرتے ہیں ، نہیں لیتے تو مرتے ہیں ۔

عمران خان کو اگر فوری الیکشن نہ ملے تو آنے والے حالات موافق رہیں گے ۔ انارکی لگا کھائے گی۔ بالفرض محال فوری الیکشن مل گئے تو مملکت عمران خان کے رحم و کرم پر، ِاس کا ناک نقشہ شاید میرے جیسوں کے شاید وارے میں، ریاست کا حشرمشرقی پاکستان جیسا ہوگا۔ ہردو صورتوں میں اسٹیبلشمنٹ کی پچھاڑ، پاکستان پر دونوں صورتیں بھاری۔

تازہ ترین