• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبور فاطمہ

بظاہر دیکھیں، تو دنیا کے تمام تر انسان ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں۔ سب کے پاس دو آنکھیں ہیں، آنکھوں کے اوپر بھنویں ہیں، دو کان ہیں، بتیس دانت ہیں، ہونٹ ہیں، ناک ہے۔ دو ہاتھ ہیں، جن میں انگلیاں ہیں، انگلیوں پر ناخن ہیں، دو پائوں ہیں، جن میں چار چار انگلیاں، دو دو انگوٹھے ہیں۔ جسمانی ساخت کی یہ ترتیب کم و بیش سب انسانوں میں یک ساں ہے، لیکن جب بات آتی ہے، معاملاتِ زندگی کی، تو امورِ حیات نمٹانے یا طے کرنے کے ضمن میں ہم جس معیار کے متلاشی ہوتے ہیں، وہ اِن دو ہاتھ، پاؤں، ناک، کان، آنکھوں، دانتوں سے طے نہیں ہوتا بلکہ اصل معیار طے پاتا ہے، محنت، ایمان داری، کام میں مہارت، اِخلاص، جرات مندی، شخصی خُوبیوں، بلند کرداری اور اچھی اقدار و روایات کے حامل ہونے سے بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بہت قابل اور مطلوبہ اہلیت کا حامل شخص بھی اپنی ملازمت سے محض اپنے کم زور کردار یا اخلاق کے سبب فارغ کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ وہ ڈگری یافتہ یا نوکری کا اہل بھی ہوتا ہے، لیکن اچھّی اقدار و روایات، اچّھے اوصاف و اخلاق سے محروم ہونا، اُس کے لیے روزگار سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے۔ وقت کا پابند نہ ہونا، بات، بے بات جھوٹ بولنا، بہانے بازی کرنا، اپنے کام، کولیگز سے مخلص نہ ہونا، بلاوجہ کی سیاست کرنا اور عیب جوئی، غیبت، بہتان بازی، الزام تراشی وغیرہ کو معیوب نہ جاننا جیسی عادات و حرکات کسی بھی شخص کو بہت جلد اُس کے ارد گرد کے لوگوں میں غیر مقبول یا ناپسندیدہ کردیتی ہیں۔ 

ہمارے بےشمار احباب، واقف کارہوتے ہیں، جن سے ضروری نہیں کہ ہماری کوئی رشتے داری ہو، سلام دُعا، واقفیت، میل جول ہی ہوتا ہے، لیکن اُن میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے دٍل میں ایک علیحدہ مقام ضرور ہوتا ہے اور یہ مقام کسی کے لیے بہت بلند ہوتا ہے، تو کسی کے لیے مناسب، کچھ کے لیے بس گزارے لائق اور کچھ کا ہمارے لیے ہونا، نہ ہونا ہی برابر ہوتا ہے۔ حالاں کہ جو ہمارے لیےبہت معتبر ہےاور جس کا ہونا، نہ ہونابرابرہے، دونوں کے پاس دو آنکھیں، دوکان، بتیس دانت، ہونٹ ، ناک ،دو ہاتھ ، دو پائوں موجودہیں ۔ تو بھلا پھر ایک ہمارےدل میں اس قدر بلند مقام پر کیوں فائز ہے اور دوسرے کو دیکھتے ہی ہم راہ بدلنے کی کیوں سوچنے لگتے ہیں۔

دراصل مقام کی اس تفریق کا راز، انسان کے ظاہری حُسن نہیں، باطنی کردار میں پوشیدہ ہے۔ اوریہ کردارتخلیق پاتا ہے،ہماری فطرت، شخصیت، مزاج، مختلف عادات و اطوار اوررویّوں سے۔ بلاشبہ کچھ عادات فطرتاً ہمارے مزاج کا حصّہ ہوتی ہیں، اور یہ اچھی اور بُری دونوں طرح کی ہو سکتی ہیں۔ جیسےکچھ لوگ فطری طور پر بےحد نرم مزاج ہوتے ہیں۔ اُنھیں بڑی سے بڑی بات مشتعل نہیں کرتی۔ جب کہ کچھ لوگ ذرا ذرا سی بات پر اشتعال میں آجاتےہیں، پھر کچھ عادات کو بآسانی بدلا جا سکتا ہے۔ والدین، گھر کے بڑے بوڑھوں، اساتذہ کی اچھی تربیت، خود اپنی اصلاح کی کوشش اور گھر کا پُرسکون ماحول اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، جب کہ بد قسمتی سے بعض افراد کو یہ سب نعمتیں میسّر نہیں آ پاتیں، تو اُن کی تعلیم و تربیت میں خاصی کمی، کجی رہ جاتی ہے۔

حالاں کہ ہماری یہی عادات اللہ کے نزدیک اور لوگوں کے دِلوں میں بھی ہمارے اصل مقام کا تعیّن کرتی ہیں ۔زندگی کے اب تک کے مشاہدے اور تجربے نے تو یہی بتایا کہ دُنیا میں منفی اور غلط سوچ رکھنے والوں کی تعداد، اچھے لوگوں کی نسبت زیادہ ہی ہے۔ لیکن دیکھ لیں، دنیاتوپھربھی قائم ہے۔ دن وہی چوبیس گھنٹوں کاہے۔ سال کے چاروں موسم اپنے اپنے اوقات میں آ،جارہےہیں۔

پھل، پھول، سبزیاں، اناج فراوانی سے پیدا ہورہے ہیں اور لوگوں کی دست رس میں بھی ہیں، یعنی اللہ کی رحمت ہر سُو ہے۔ اور سُنتے تو یہی ہیں کہ اللہ کی رحمت اچھائی، نیکی، خیر، بھلائی اور نرمی ہی پر اُترتی ہے۔ بُرائی بےشک تعدادمیں زیادہ نظرآئے،غالب یا خطرناک محسوس ہو، لیکن اپنے نتائج اور تاثیر کے اعتبار سے نیکی، رحمت، اچھائی اور خیر ہی غالب، بھاری، وزن دار،فاتح اور نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ بُرائی عود کے ضرور آتی ہے، لیکن کام یاب نہیں ہو پاتی، کیوں کہ بہرحال، نیکی اور اچھائی کی بنیاد مضبوط اور الہٰامی تعلیمات پر ہے اور ظاہر ہے، جو امر اللہ کی جانب سے ہوگا، تو وہی مستحکم اور دیرپا بھی ہوگا۔ سو، برائی، منفیت، باطل سوچ، غلط اعمال کا استحکام اور فتح ممکن ہی نہیں۔

یہ طے شدہ امر ہے کہ جو لوگ اللہ کے احکامات کے تابع ہو کر اپنے کردار کی تربیت و اصلاح کی جستجو کرتے ہیں،پھر اللہ رب العزّت اُنھیں خُود پار لگاتا ہے۔ اتباعِ رسول اللہ ﷺ کی خواہش رکھنے والے، الہٰامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئےمشکل صورتِ حال میں بھی سچ بولنے، موقع ملنے پر بھی بدلہ نہ لینے، معاف کردینے، پردہ پوشی کرنے، تجسّس نہ کرنے، غیبت سےحتی الامکان بچنے، بدگمانی نہ کرنے، غلط صحبت سے دُور رہنے، ذکر اللہ کرنے، مخلوق کے ساتھ نرمی برتنے، اپنےکام سے کام رکھنے، دوسروں کے معاملات میں بلاوجہ تاک جھانک نہ کرنے، اپنی تنہائی کو پاک رکھنے، گالی گفتار سے احتراز برتنے، نیّت کو صرف اللہ کے لیے خالص رکھنے، چھوٹے بڑے کی تفریق کےبغیر ہر ایک سے مُسکرا کر ملنے، حرام سے دُور رہنے، حلال اختیار کرنے، غم و الم کے ماروں کی دل جوئی کرنے، اور کسی سے کینہ، بُغض ، حسد نہ رکھنے جیسے بہترین اوصاف سے متصف ہوتے ہیں۔ اور پھر انسان کے یہی اوصافِ حمیدہ اُس کے کردار کو بلند، قابلِ رشک بناتے، اللہ کے ہاں مقبول اور دیگر انسانوں کے دلوں میں بھی اعلیٰ مقام کا حامل کرتے ہیں۔

چوں کہ ایک باکردار انسان، اللہ تعالیٰ کی تعلیمات اور ہدایت کے مطابق نیک عادات کو اپنے کردار کا حصّہ بناتا ہے، تو پھر عموماً زندگی کے مشکل ترین اوقات میں یہی اچّھی صفات اس کی طاقت بن جاتی ہیں، اسے حوصلہ دیتی ہیں۔ غیب سے اُس کی مددکا وسیلہ بنتی ہیں اور لوگوں کے دِلوں میں اس کی قدر بڑھاتی ہیں۔ کیوں کہ یہ اللہ کا بھی وعدہ ہے، جس کا ذکر سورۃ مریم کی آیت 96 میں ہے۔ نیز، کردار کی اہمیت کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ انسان کا غائبانہ تعارف ہوتا ہے۔ پھر ہمارے یہاں عموماً کردار ہی کی بدولت کسی کی بات کو تسلیم یا رَد کیا جاتاہے۔ 

ویسے تو اچھے کردار کی ضد بدکردای ہے، مگر یاد رکھیں، بدکرداری صرف فحاشی و بے حیائی ہی نہیں، بلکہ ہر اُس عمل کو اختیار کرنابد کرداری ہے، جو اللہ کے احکامات کے منافی اورسنّتِ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہے، لہذا زندگی میں ہمیشہ باکردار رہیے۔ اچّھے اوصاف اختیار کیجیے کہ بالآخر یہی اچھے اعمال آپ کے ساتھ قبر میں جائیں گے، آخرت میں آپ کے مراتب بڑھائیں گے۔

اپنے کردار کی مضبوطی و پختگی کے لیے حوصلہ بلند رکھیں، ڈٹے رہیں۔ یوں بھی آپ اپنی سوچ، مزاج، عادات کی اصلاح و بہتری کے لیےجس قدر محنت و جستجو کریں گے، اللہ کے ہاں اتنے ہی منظورنظر ہوں گے۔ تو بس، آج ہی سے خود پر بھرپور محنت شروع کیجیے اور اس ایمان و یقین کے ساتھ کہ یہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔

سنڈے میگزین سے مزید