• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اِس کی آزادی کی جنگ لڑی، ہمارے قبائلی علاقوں کے حریّت پسندوں نے وہ علاقہ آزاد کروایا، جسے آج ہم’’ آزاد کشمیر‘‘ کہتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی، تکمیلِ پاکستان کا ایجنڈا ہے اور یوں ہمارے بزرگوں کے خواب کی تعبیر ابھی ادھوری ہے۔پاکستانی قوم نے ہمیشہ کشمیر کی آزادی کے لیے بلا تفریقِ رنگ و نسل اور پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر کام کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب امیرِ جماعتِ اسلامی، قاضی حسین احمدؒ نے 5فروری کو کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کا دن منانے کا اعلان کیا، تو پوری قوم نے ایک آواز ہو کر اُن کی دعوت پر لبّیک کہا۔ 5فروری کا اعلان کیسے ہوا؟ 

آزادیٔ کشمیر کے لیے کام کرنے والے اَن تھک رہنما، ڈاکٹر غلام بنی فائی اِس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ یہ 1989ء کا زمانہ تھا، جب الیف الدّین ترابی، عبدالرشید ترابی، ڈاکٹر غلام نبی فائی اور ڈاکٹر ایّوب ٹھاکر منصورہ آ کر قاضی حسین احمدؒ سے ملاقاتیں کرتے اور اُنھیں کشمیر کے اندرونی حالات سے بھی آگاہ کیا کرتے تھے۔ اُس وقت وادی کے اندر انتفاضہ کی جو نئی تحریک شروع ہوئی تھی، پاکستان کے لوگ اُس سے بالکل بے خبر تھے۔ 1989ء کے اوائل میں دسمبر اور جنوری کی یخ بستہ راتوں میں اچانک بہت سے نوجوان فراسٹ بائٹ، یعنی برفانی موسم کا شکار ہو کر جب بیس کیمپ، مظفّر آباد پہنچے، تو پتا چلا کہ وادی میں بے داری کی ایک بڑی لہر آ چُکی ہے۔

اُن دنوں افغانستان کا جہاد بھی اپنے عروج پر تھا اور وہاں کے مظلوموں کی ہمّت و جرأت دیکھ کر خطّے کے دوسرے مظلوم عوام نے بھی ہمّت پکڑی اور بڑی تعداد میں کشمیری نوجوانوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ وہ افغانستان بھی گئے اور اپنے علاقے کی آزادی کی تحریک میں بھی اُنھوں نے جان ڈال دی۔جب نوجوان بڑی تعداد میں پاکستان آئے، تو یہاں بیس کیمپ میں اُن کے لیے کوئی انتظام موجود نہیں تھا۔ ایسے میں جماعتِ اسلامی نے دامے، درمے، سخنے اپنے کارکنان کے ساتھ پورے مُلک میں ایک بھرپور مہم چلا کرمظلوم کشمیریوں کے حق میں رائے عامّہ بیدار کی۔اُنہی دنوں 5جنوری 1990ء کو ملتان ایئر پورٹ پر جماعتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ایک اہم پریس کانفرنس میں اُس وقت کے امیرِ جماعتِ اسلامی، قاضی حسین احمد نے پوری قوم سے کشمیریوں کی پُشتیبانی کرنے کی اپیل کی۔‘‘

ڈاکٹر غلام نبی فائی مزید کہتے ہیں کہ ’’مَیں اور ڈاکٹر ایّوب ٹھاکر، قاضی صاحب سے ملنے منصورہ آئے، تو اُنھوں نے مجھ سے پوچھا کہ’’ کشمیر کی تاریخ میں کون سا ایسا اہم دن ہے کہ جسے ہم اِدھر پاکستان میں منا سکیں‘‘، اس پر مَیں نے اُنھیں کہا کہ’’ ایک تو 5 جنوری ہے کہ5 جنوری 1949ء کو اقوامِ متحدہ کے پاک و ہند کمیشن نے کشمیر پر قرار داد منظور کی تھی اور دوسری اہم تاریخ21 اپریل 1948ء ہے، جب سلامتی کاؤنسل نے کشمیر پر قرارداد نمبر 47 قبول کی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ’’ آغا جان نے کہا کہ’’ پانچ جنوری تو گزر چکی ہے، لیکن ہم اِن شاء اللہ 5فروری کو’’ یومِ یک جہتیٔ کشمیر‘‘منانے کا اعلان کرتے ہیں اور اس کی تیاریوں کے لیے ہمارے پاس پندرہ، بیس دن ہیں۔‘‘ 

پھر وہ ہمیں عبداللہ نصیف عُمر نصیف کے پاس لے گئے، جو رابطہ عالمِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل تھے اور اُس وقت میاں نواز شریف کے پاس بیٹھے تھے۔قاضی صاحب نے اُنھیں کہا کہ’’ہم کشمیر کے لیے پورے عالمِ اسلام کو متحرّک کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اُن دنوں بے نظیر بھٹّو صاحبہ کی حکومت تھی اور قاضی صاحب کی خواہش تھی کہ بے نظیر بھٹو ہی یہ دن منانے کا اعلان کریں۔‘‘ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ’’ مَیں حیران ہوا کہ کس قدر بے غرض اور بے لوث انسان ہیں کہ اللہ نے اُنھیں موقع دیا ہے، مگر یہ پھر بھی دوسروں ہی کو آگے کر رہے ہیں۔ 

اُنھوں نے کہا کہ’’ اِس تحریک میں سب لوگوں کو شامل ہونا چاہیے، یہ صرف جماعتِ اسلامی کی تحریک نہیں بلکہ پوری قوم کی تحریک ہے۔‘‘مجھے بہت زیادہ حیرت ہوئی کہ ایک لیڈر کا اِتنا ویژن ہے کہ اپنے آپ کو پیچھے رکھ کر اپنے مقاصد کو آگے رکھتا ہے۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے5 فروری’’ یومِ یک جہتیٔ کشمیر‘‘ کو کشمیریوں کے لیے قاضی حسین احمد کا تحفہ بنا دیا۔‘‘ مَیں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ’’ مَیں جب قومی اسمبلی میں اپنا حلف لینے جا رہی تھی، تو مجھے آغا جان نے تین نصیحتیں کی تھیں کہ’’ بیٹا! اپنی ذات کو پیچھے اور اپنے مقاصد کو آگے رکھنا۔ اللہ بہت قدر دان ہے، وہ تمھاری ذات کو بھی پیچھے نہیں کرے گا۔ تم نے اپنی نیّت بھی خالص رکھنی ہے اور اپنے مقصد پر نگاہ رکھنی ہے۔‘‘ 

دوسری نصیحت مجھے یہ کی تھی کہ’’ تمھیں کوئی بھی بات معلوم ہو، تو اُسے فوراً اپنی قیادت تک پہنچانا اور تنہا کسی بات کی ذمّے داری نہ لینا‘‘ اور تیسری نصیحت یہ تھی کہ’’ کسی بھی جگہ اکیلے نہ جانا، اپنے گروپ کے ساتھ جانا۔ اِس طرح ذمّے داریاں بھی بٹ جاتی ہیں اور تمھیں تنہا کسی بات کی جواب دہی بھی نہیں کرنا پڑے گی۔‘‘ مَیں نے یہ تینوں نصیحتیں اپنے پلّو سے باندھ لیں۔‘‘

پھر مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب دو سال بعد 1993ء کا 5فروری آیا، تو وہ الیکشن کے دن تھے۔اُن دنوں اسلامک فرنٹ بن رہا تھا اور پاسبان بھی بن چُکی تھی، تو لوگ بہت زیادہ متوجّہ تھے۔یہاں تک کہ وہ نقد رقوم کے ساتھ اپنے زیور بھی آزادیٔ کشمیر کی تحریک کے لیے جمع کروا رہے تھے۔یہ جنوری 1993ء کی بات ہے کہ ایک دُلہن نے جہادِ کشمیر کے لیے قیمتی زیور لا کر دیا۔یہ وہ موقع تھا،جب آغا جان نے پہلی بار ایک ہیلی کاپٹر کرائے پر لیا اور چار شہروں پشاور، راول پنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں5 فروری کے اجتماعات میں پہنچے اور خطاب کیا۔اُنھوں نے ان اجتماعات میں دُلہن کی جانب سے عطیہ کردہ سونے کا بڑا ہار بھی عوام کو دِکھایا اور واپس آکر اُسے جماعتِ اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دیا۔ 

کچھ عرصے بعد اُس خاتون نے اچانک اپنے ہار کی رسید کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ مجھے اُس ہار کی رسید نہیں ملی، پتا نہیں کہ وہ کہاں گیا۔‘‘ اِس پر آغا جان نے کہا کہ وہ بیت المال میں ہے۔ تم لوگ ذرا اُس کی رسید تلاش کرو کہ وہ کدھر ہے۔ گھر میں اُن کے بریف کیس میں بھی بہت سی چیزیں ہوا کرتی تھیں، ہم نے رسید بہت تلاش کی،مگر نہیں ملی۔جب وہ بیت المال گئے، تو مَیں نے اُنھیں یاد دلایا کہ’’ آغا جان! آپ5 فروری کو جس ہیلی کاپٹر میں جلسوں کے لیے گئے تھے، اُس میں آپ نے وہ ہار رکھا ہوا تھا اور میرے پاس اُس کی تصاویر محفوظ ہیں۔‘‘ 

بہرحال، بیت المال سے رسیدیں مل گئیں، جس پر ہار دینے والے بہت شرمندہ ہوئے کہ ہم نے بلاوجہ قاضی صاحب پر شک کیا۔جماعتِ اسلامی کے ناظمِ مالیات ،مسعود احمد خاں نے وہ رسید خاتون کو دی اور ساتھ ہی اُسے یہ بھی کہا کہ’’ اگر آپ چاہتی ہیں کہ ہار کی قیمت یا سونا آپ کو واپس کر دیں، تو ہم اُس کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘اس پر وہ بہت شرمندہ ہوئیں اور کہا کہ’’ نہیں، مجھے لگا کہ قاضی صاحب نے میرے اس ہار کا پتا نہیں کیا کیا، مگر مجھے علم ہو گیا ہے کہ جماعتِ اسلامی کا نظام بہت ہی شفّاف نظام ہے۔‘‘

ہم ایک لمحے کے لیے آنکھیں موند لیں اور تصوّر کریں ایک گھر کا، جو کشمیر کے ایک دُورافتادہ گائوں میں واقع ہے، جہاں گھر کے چھے افراد نہایت تنگی سے گزارہ کرتے ہیں۔ گھر کا سربراہ دن بَھر مزدوری کر کے یا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بچّوں کے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کرتا ہے اور غذائی قلّت کی بہت شکار کم زور سی، معمولی سے کپڑے پہنے اُس گھر کی عورت، گھر بَھر کا کام کرتی ہے، ایسے میں ایک دن بھارتی فوجی دندناتے ہوئے کسی مجاہد کی تلاش کا بہانہ بنا کر اُس گھر میں آن گھستے ہیں اور دروازے توڑ دیتے ہیں، معصوم بچّے سہم کر ماں کے پیچھے چُھپ جاتے ہیں۔ 

شوہر آگے بڑھتا ہے، تو فوجی کی گن کے آہنی بٹ سے اُس کا سر پھاڑ دیا جاتا ہے، وہ روتا ہے اور اپنے بچّوں کے لیے رحم کی بھیک مانگتا ہے، مگر اُس کی آواز اُس کے حلق ہی میں خاموش کر دی جاتی ہے۔ فوجی درندے بچّوں کی ماں سے توہین آمیز سلوک کرتے ہیں اور اُن سب کو روتا چِلّاتا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔یہ کشمیر کے محض ایک گھر کا منظر ہے،جب کہ کشمیر تو چنار کے اداس درختوں کی طرح ایسے مناظر سے بَھرا پڑا ہے۔ یہ منظر یہیں ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ اب ایک مظلوم عورت کو اپنی کُچلی ہوئی نفسیات اور جذبات کے ساتھ اپنے بچّوں کا پیٹ پالنے اور اپنی زندہ لاش کے بوجھ کو گھسیٹنے کے لیے محنت مزدوری بھی کرنی پڑتی ہے۔ کشمیری عورت کم از کم سابقہ تین دہائیوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک عذاب سے گزر رہی ہے۔ 

اس کے حصّے کے محمّد بن قاسم بے حمیّتی کی چادر اوڑھے بے خبر سو رہے ہیں۔ اُس کے لیے کوئی دَر نہیں کُھلتا، اُس کے لیے زبانیں گنگ ہیں اور قدم زنگ آلود کہ اُس پر ظلم ڈھانے والے عالمی آقائوں کے لیے بڑی منڈی بھی رکھتے ہیں اور اُن کے اتحادی بھی ہیں۔کشمیر کے حوالے سے کام کرنے والے بہت سے باوثوق ادارے بتاتے ہیں کہ کشمیر میں گزشتہ برسوں کے دَوران اپنے محبّت کرنے والے شوہروں سے محروم ہو جانے والی دُکھی خواتین کی تعداد پچاس ہزار سے بڑھ چُکی ہے۔ ایک بڑی تعداد اُن مائوں کی ہے، جن کے نوجوان یا کم سِن بیٹے تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں شہادت کا درجہ پا چُکے ہیں یا لاپتا ہیں اور کم و بیش ڈیڑھ لاکھ یتیم بچّوں کی پرورش کی ذمّے داری بھی ان پریشان حال عورتوں پر آن پڑی ہے۔

یہی نہیں، اِن برسوں کے دَوران بیس ہزار سے زائد خواتین کو بھارتی درندوں نے اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنایا اور ایک ہول ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ کشمیر میں بھارتی ظلم کا شکار ہو کر جان گنوا دینے والے ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد میں بے شمار خواتین بھی شامل ہیں۔یہ وہ اعداد وشمار ہیں، جو کشمیر کے بعض علاقوں سے دست یاب ہو سکے ہیں۔ اِن کے علاوہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے، جن تک ذرائع ابلاغ اور تحقیق کار پہنچ ہی نہیں پاتے۔کشمیر میں اِن دنوں ایک نئی اصطلاح بہت مشہور ہے اور وہ ہے،’’ آدھی بیوائیں‘‘، یعنی جن کے شوہروں کا پتا ہی نہیں کہ وہ مر چُکے ہیں یا زندہ ہیں۔ وہ ایسی معلّق لاشیں ہیں، جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اُن کی وراثت، اُن کے بچّوں کی وراثت کا کچھ علم نہیں۔ نہ ہی وہ دوسرے نکاح کرسکتی ہیں۔عجیب موت و زندگی کی کشمکش ہے۔

یاد آیا، آغا جان( قاضی حسین احمد) کشمیر کے لیے عالمِ اسلام کے رہنمائوں کے پاس ایک وفد بھی لے کر گئے، جس میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون، جمعیت علمائے اسلام کے نمایندوں کے ساتھ عبدالرشید ترابی بھی شامل تھے۔ یہ وفد عالمِ اسلام کے بہت سے رہنمائوں سے ملا۔ آغا جان ہمیں بتاتے تھے کہ تُرکی کے صدر، ترگت اوزال سے ملاقات کے لیے اُنھیں آدھا گھنٹہ دیا گیا تھا، لیکن وہ کشمیر سے متعلق گفتگو میں اِتنے محو ہو گئے کہ تین گھنٹے گزر گئے اور وہ وقت آگے بڑھاتے رہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ’’ مَیں اس مسئلے کو پوری طرح سمجھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے تنازعۂ کشمیر پر ہماری بہت مدد کی اور تُرکی اُس وقت سے جہادِ کشمیر اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں ہمارا پُشتیبان ہے۔ اس کے علاوہ، وہ امامِ کعبہ اور جامعۃ الازہر کے علما سے بھی ملے اور یہ وفد مہینہ بَھر قطر، بحرین، عرب امارات، سوڈان اور ایران وغیرہ میں مصروفِ کار رہا۔تو آزادیٔ کشمیر کے لحاظ سے یہ یقیناً ایک بہت ہی اہم پیش رفت تھی۔تب ہی تو 5 فروری کا دن،بطور یومِ یک جہتیٔ کشمیر آج پوری اُمّت کے اکثر سفارت خانوں میں باقاعدہ طور پر منایا جاتا ہے اور اسی کی وجہ سے آج تک کشمیر کی پُشتیبانی ہو رہی ہے۔پھر سیّد علی گیلانی بابا کے ساتھ بھی ہماری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔اُن کے ساتھ دو تین دفعہ ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ 

ایک بار اچانک مجھے ایک فون کال آئی کہ آپ سے علی گیلانی بابا بات کرنا چاہتے ہیں۔تب مَیں پہلی دفعہ اُن سے براہِ راست بات کر رہی تھی، تو مجھ سے بات بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ اُنھوں نے مجھے بالکل آغا جان کی طرح’’ سمیحہ بیٹی!‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور بہت دعائیں دیں کہ اُنھوں نے میرا ایک ویڈیو کلپ دیکھا تھا، جس میں، مَیں نے ایک پیغام دیا تھا کہ علی گیلانی بابا کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔ تو یہاں کی بیٹیاں اُنھیں جواب دیتی ہیں کہ’’ ہم کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے۔‘‘

اس پر اُنھوں نے مجھے بہت دعائیں دیں اور کہا کہ’’ اللہ کرے، تم سب اپنے والد کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائو۔‘‘ پھر اُنھوں نے ایک کتاب بھی بھیجی’’ روحِ دین کا شناسا اقبال۔‘‘ یہ کتاب اقبالؒ کی فارسی شاعری سے متعلق تھی۔ اُنھوں نے آغا جان کے لیے اس کتاب پر ایک خُوب صُورت فارسی شعر بھی لکھا تھا؎ گماں مبر کہ خردرا حساب و میزان نیست…نگاہِ بندۂ مومن قیامت خرد است۔

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ کشمیر، کشمیریوں کی آرزوؤں، امنگوں کے مطابق جلد آزاد ہو اور ظلم و ستم کی یہ گھور رات بالآخر نویدِ سحر میں ڈھل جائے۔