• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دس سال اور تین ہزار چھے سو پچاس دن اُس شفیق وجود کے بغیر گزر گئے، جس کے بغیر زندگی گزارنے کا کبھی سوچا تک نہ تھا۔ اُن کی تربیت اور اپنے مشن سے جوڑنے کی وجہ سے یہ کٹھن وقت بھی خوش اسلوبی سے گزر رہا ہے۔ اُنھوں نے ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ دین کی خدمت میں لگے رہنا، تو میرے بعد لوگ تمہیں اور زیادہ محبّت و عزّت سے نوازیں گے۔ اُنھوں نے ساری عُمر لوگوں سے محبّت واحترام کے رویّوں کے ساتھ گزاری اور اب اُس کا ثمر ہمیں اُسی محبّت و احترام کے ساتھ مل رہا ہے۔

سلجوقی قبیلے سے تعلق کی وجہ سے ہمارے خاندان میں عورت کی قدر ومنزلت بہت زیادہ رہی ہے۔ پھر علماء اور پٹھانوں سے تعلق کی وجہ سے اِس وصف میں مزید اضافہ ہوا اور روایتی تصوّر کے برعکس، اُنھوں نے نہ صرف ہماری، بلکہ حلقۂ خواتین جماعتِ اسلامی کی بہت زیادہ سرپرستی کی۔ خاندان اور جماعت، دونوں میں عورتوں کو بہت زیادہ تحفّظ دیا اور صِنفی امتیاز کا خاتمہ کیا۔ ہماری تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔بچپن سے اعلیٰ تعلیم تک ہمارے اور بھائیوں کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا۔اقبال کی یہ دو رُباعیاں ہمیں سُنایا کرتے’’بہل ای دخترک ایں دلبری ہا…مسلمان را نزیبد کافری ہا…منہ دل بر جمال غازہ پرورد…بیاموز از نگہ غارتگری ہا‘‘ یعنی’’ اے میری چھوٹی سی بٹیا!اپنے آپ کو کافرانہ تہذیب اور اُن کی دل بَری کے رویّوں سے بچا کر رکھو۔ اِس مصنوعی آرائش و زیبائش سے دور رہ کر اپنے کردار کی طاقت سے دِلوں کو مسخّر کرنا سیکھو۔‘‘

ہمیں نصیحت کرتے کہ کردار کی زبان، سب سے اچھی زبان ہوتی ہے اور اس کا نقش دیر پا ہوتا ہے۔ ایک اور رباعی سُناتے’’ز شامِ ما بَروں آوَر سحر را…بہ قرآن باز خواں اہلِ نظر را…تُو می دانی کہ سوزِ قرآتِ تُو…دگرگوں کَرد تقدیرِ عمرؓ را‘‘یعنی’’اے خاتون! میری اُمّت کی تاریک شام سے سپیدۂ سحر کی نوید دے دے۔ پھر سے اہلِ بصیرت کو قرآن کی تلاوت سُنا دے، کیا تجھے نہیں معلوم کہ یہ تیری تلاوت کا سوز ہی تو تھا، جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی تقدیر بدل گئی تھی۔‘‘( اِس رُباعی میں حضرت عمُر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے واقعے کی جانب اشارہ ہے)۔اُنھوں نے ہماری دینی اور دنیاوی تربیت کچھ اِس طرز پر کی کہ ہمیں اپنی دینی روایات کی پاس داری سِکھائی اور جدید چیلنجز سے عُہدہ برآ ہونے کا سلیقہ بھی۔ قرآنِ کریم کو مختلف مکاتبِ فکر کے علماء سے سیکھنے کا انتظام کروایا اور دنیاوی تعلیم کے حصول میں ہر قسم کی سہولت فراہم کی۔ ہم تین بہن بھائیوں نے یونی ورسٹی میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی اور چھوٹا بھائی ڈاکٹر بنا۔

میرے پی ایچ ڈی کے دَوران میری اور میرے بچّوں کی ایسی سرپرستی کی کہ مجھے لگتا کہ جیسے وہ خود میرے ساتھ ہر لمحہ تحصیلِ علم میں شریک ہیں۔ وہ ویسے بھی ہمارے لیے چوبیس گھنٹے کسی کُھلی جامعہ کی مانند تھے۔ کسی بھی معاملے پر، کسی بھی وقت کوئی رہنمائی چاہیے ہوتی، تو بہت خوشی سے تفصیلی پوائنٹس بتا دیتے۔میرے والدین رات رات بھر جاگ کر بڑی خوشی سے مقالہ لکھنے میں مجھے مدد فراہم کرتے رہے۔ میرے کانوکیشن پر جامعہ پنجاب کے اُس وقت کے وائس چانسلر نے اطلاع دی کہ’’ قاضی صاحب اِس موقعے پر یونی ورسٹی نہ آئیں، تو بہتر ہو گا۔‘‘ یہ سُن کر اُنھوں نے کہا کہ’’ ایک والد ہونے کے ناتے وی سی صاحب مجھے اپنی زندگی کے اِتنے پُر مسرّت موقعے سے کیسے محروم کر سکتے ہیں۔ 

مَیں اُن سے کوئی پروٹوکول نہیں مانگ رہا اور دوسروں کے ساتھ ایک عام والد کی طرح ہال میں ضرور بیٹھوں گا۔‘‘اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ میرے دونوں بچّوں کو لے کر ہال میں والدین کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔جب وی سی صاحب نے اُنھیں اسٹیج سے ہال میں بیٹھے دیکھا، تو اُنھیں بہت عزّت و احترام سے نوازا۔تقریب کے اختتام پر میری سہیلیاں اُن کے پاس آ آ کر اپنی ڈگری کے ساتھ تصاویر بناتی رہیں۔

فوٹوگرافر نے اُن کے پاس آکر کہا کہ’’ قاضی صاحب! کیا آج آپ اپنی بیٹی کے ساتھ ایک تصویر بنوائیں گے؟‘‘ تو اپنے نورانی چہرے پر بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ میری زندگی کی واحد تصویر اُنھوں نے کھڑے ہو کر بنوائی کہ’’ آج کیوں نہیں؟‘‘ڈگری لینے کے بعد گھر آئی، تو کھانے کی میز پر رکھے ٹشو پیپرز پر میرے نام کے ساتھ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ’’ڈاکٹر‘‘ خوش خطی کے ساتھ لکھا ہوا تھا اور اُن کی مسرّت اُن کے چہرے اور گفتگو سے عیاں تھی۔کہنے لگے’’ بیٹی! تم نے آج میری عزّت میں اضافہ کیا ہے۔بولو، تمہیں کیا انعام دوں؟‘‘مَیں نے کہا،’’ آپ کی محبّت، شفقت اور آپ کی اِتنی خوشی سے بڑھ کر بھی میرے لیے کوئی انعام ہو سکتا ہے؟‘‘ کہنے لگے کہ الحمد للہ ہمارا خاندان طب کے ڈاکٹرز سے بھراہوا ہے، مگر اِتنے بڑے خاندان میں دوسری پی ایچ ڈی ڈاکٹر تم ہی ہو۔ میرے بڑے تایا جان، ڈاکٹر عبدالسبوح قاسمی پچاس کی دہائی میں دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد نیو یارک کی کولمبیا یونی ورسٹی سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے پاکستان کے اوّلین افراد میں شامل ہیں۔

پھر نصیحت کی کہ اپنے مقالے کو ضرور شائع کروا لینا اور اس مقصد کے لیے انعام میں رقم بھی دی۔ اِس مقالے کا پہلا حصّہ، اب ادارہ معارفِ اسلامی نے اُسی رقم سے’’Familyism ‘‘کے عنوان سے شائع کر کے میری عزّت افزائی کی ہے۔میری چھوٹی بہن، خولہ سلجوقی کو میری امّی اور آغا جان نے میٹرک کے ساتھ قرآنِ پاک بھی حفظ کروایا اور اُس نے اسلامک یونی ورسٹی سے ایل ایل بی شریعہ میں ٹاپ کرنے کے بعد پنجاب یونی ورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز بھی کیا ہے۔ ہمارے علماء کے خاندان میں بچیوں کی دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور اب بچیاں تعلیم، طب، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں بھی خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔ حلقۂ خواتین جماعتِ اسلامی کی قیادت، تمام جماعتوں کی خواتین کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ منظّم ہے اور یہ ہمارے مَردوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجے ہی میں ممکن ہوا ہے۔

آغا جان، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سچّے عاشق تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محسنِ انسانیت تو تھے ہی، مگر مظلوم و مجبور عورت کے لیے اُن کا وجود اِتنا مہربان تھا کہ ایک عرب شاعر نے طنزیہ شعر لکھا تھا کہ جب سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آئے ہیں، ہر طرف عورت ہی عورت ہونے لگی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں عورت کا بہت جان دار اور متحرّک کردار نظر آتا ہے۔آپﷺ سے محبّت کرنے والے اور اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والے اُن کے اُمّتیوں کا بھی یہی کردار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی عورتوں کو اُن کی صلاحیتوں کے مطابق ایسا ماحول فراہم کریں کہ وہ اپنے خاندان اور اپنی ملّت کے لیے کارآمد بن سکیں۔

آغا جان کی زندگی میں آنے والی ہر عورت کے لیے تین لفظ بہت اہمیت رکھتے تھے۔ محبّت، عزّت اور حفاظت۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ بی بی حوّاؑ کو حضرت آدم ؑ کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی دل کے قریب اور بازو کے ساتھ ہے۔ ہر عورت کی فطرت میں ہے کہ اُسے محبّت، عزّت اور حفاظت فراہم کی جائے۔ جب عورت کو یہ تینوں چیزیں مل جاتی ہیں، تو وہ ہر ناممکن کو ممکن کر دیتی ہے۔ اُنھوں نے اپنے روشن، مسکراتے چہرے کے ساتھ بہت خوش گوار زندگی گزاری۔ اپنے بچّوں اور پھر اُن کے بچّوں کو بھرپور توجّہ دی۔ 

میری بیٹی کو میڈیکل کالج میں خود داخل کروانے گئے اور اُس کے پرنسپل سے رابطے میں رہے۔ایک دن اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ’’ مَیں ویسے بھی قاضی صاحب کی بہت عزّت کرتا تھا، مگر جس طرح وہ اپنی یتیم نواسی کا خیال رکھتے ہیں، اُس کی تعلیم اور دیگر معاملات میں دل چسپی لیتے اور فکر مند رہتے ہیں، اس سے میرے دل میں اُن کی قدر مزید بڑھ گئی ہے۔‘‘ ایک دن میری بیٹی کہنے لگی کہ’’آپ لوگ آغا جان سے زیادہ تو مصروف نہیں ہو، مگر اُن جتنا وقت ہمیں نہیں دے پاتے۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہماری بات سُننے کے لیے ہر وقت دست یاب ہوتے ہیں اور اُن کے اوقات میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت عطا کی ہوئی ہے۔‘‘

اُنھوں نے پوری زندگی خود بھی زبان کی حفاظت کی اور ہمیں بھی یہی تربیت دی کہ اخلاق سے گِرا ہوا کوئی لفظ زبان پر نہیں لانا۔ اُنھوں نے اپنے بدترین مخالف کے لیے بھی کبھی کوئی اخلاق سوز جملہ نہیں کہا۔ آج جب اخبارات اور میڈیا پر پگڑیاں اچھلتی نظر آتی ہیں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیا ہیرے لوگ تھے، جن کے فیضان میں ہم نے تربیت پائی اور ہم اپنی اگلی نسلوں کے لیے کیا روایات چھوڑ کر جا رہے ہیں؟وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک انقلابی اور روایت شکن شخص تھے۔ اُن کے دل میں انقلاب دھڑکتا تھا۔ میری بہت ہی عزیز سہیلی، افشاں نوید نے آغا جان کے بارے میں لکھا کہ ’’ حقیقت یہی ہے کہ وہ انقلاب کا استعارہ تھے۔ 

لفظ انقلاب کی تفہیم ہم اپنی آئندہ نسل کو دینا چاہیں گے، تو اس کے لیے ایک نام ہی کافی ہو گا، قاضی حسین احمد۔‘‘ وہ صرف علّامہ اقبال کے کلام کے حافظ ہی نہیں تھے بلکہ اقبال کے اشعار کی زندہ تفسیر بھی تھے۔ ایک سمت ڈوب کر فوراً دوسری سمت اُبھرنے والی وہ عقابی شخصیت، جو مثلِ خورشید زندگی جی کر گئی۔ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اُن کے اندر ایک Reminder نصب تھا، جو سفر کے اختتام سے قبل ہی بج اُٹھتا ہے،’’ایک اور سفر کے لیے لوٹ آؤ سفر سے…‘‘مگر اب کی بار وہ ایسے سفر پر گئے کہ اب پلٹنے والے نہیں۔ موت کے آئینے نے اُنہیں رُخِ دوست جو دِکھا دیا ہے۔ ہاں اُن کی رُوح اپنے ادھورے کاموں کی تکمیل تک بے چین ضرور رہے گی۔ اُن کی جدائی نے ہمیں بھی امامت کی حقیقت بڑی حد تک سمجھا دی ہے’’ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق…جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے…موت کے آئینے میں تجھ کو دِکھا کر رُخِ دوست…زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے۔‘‘