علی وزیر کا تعلق جنوبی وزیرستان کے قبیلے احمد زئی وزیر سے ہے۔ ان کے والد میرزالم خان چیف آف احمدزئی کہلاتے تھے اور پوری وانا تحصیل میں ان کا طوطی بولتا تھا۔وہ اور ان کے خاندان کے دیگر لوگ قوم پرست سیاست میں متحرک تھے جب کہ ان کے قبیلے کے لوگ بھی سرحد کے آر پار تقسیم تھے۔ ماضی میں آنے جانے پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے وہ میرزالم خان سرحد کے دونوں جانب اثرورسوخ کے حامل تھے۔ گومل یونیورسٹی میں تعلیم کے وقت علی وزیر قوم پرست طلبہ تنظیم سے منسلک تھے جب کہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد قوم پرست اور اینٹی طالبان سیاست میں مگن ہوگئے۔ 2003میں ان کے بھائی فاروق وزیر ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔ 2004 میں علی وزیر کے والد میرزالم خان ایف سی آر کے کالے قانون کے تحت گرفتار کرلئے گئے۔ بعدازاں انہیں رہا کر دیا گیا لیکن 2005 میں علی وزیر کو اسی قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔وہ جیل میں تھے کہ اس دوران ان کے والد میرزالم خان، ان کے بھائی طارق وزیر، چچا سعداللہ جان وزیر اور کزن فیروز خان وزیر کو نامعلوم افراد کی طرف سے قتل کردیا گیا۔ اسی طرح یکم مئی 2020 کو عمران خان کی حکومت میں ان کے کزن عارف وزیر کو بھی قتل کردیا گیا۔ انسانی کے علاوہ مالی نقصانات اس کے علاوہ تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل وانا میں علی وزیر کے خاندان کی سو سے زائد دکانوں پر مشتمل ایک مارکیٹ تھی۔ اس میں ایک خودکش حملہ ہوا جس میں ایک میجر کو نشانہ بنایا گیا ۔ چنانچہ اجتماعی ذمہ داری اور ایف سی آر کے قانون کے تحت ان کی سو سے زائد دکانوں پر مشتمل مارکیٹ کو بارود سے اڑا دیا گیا ۔ میں علی وزیر کو جانتا تھا اور نہ ان کے خاندان کے کسی فرد کو لیکن مجھے یاد ہے کہ جب ان کی مارکیٹ کو مسمار کیا گیا تو میں نے اس کے خلاف جیوٹی وی پر آواز اٹھائی۔ بہر حال علی وزیر وانا تحصیل میں طالبانائزیشن اور ملٹری آپریشنز کے خلاف آواز اٹھاتے رہے جب کہ منظور پشتین جیسے لوگ محسود علاقے میں۔ منظور پشتین نے پہلے محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے نوجوانوں کی تنظیم بنائی تھی جس میں بعدازاں علی وزیر وغیرہ بھی ان کے ہمرکاب بن گئے اور جب وہ اسلام آباد دھرنا دینے آرہے تھے تو درمیان میں کراچی میں نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل کا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے اس تحریک کو ملک گیر پذیرائی مل گئی۔ منظور پشتین کا معاملہ علی وزیر سے مختلف لیکن اپنی جگہ دردناک ہے ۔ ان کے دادا کشمیر کی آزادی کیلئے 48 اور پھر 65 کی جنگوں میں رضا کارانہ طور پر شریک ہوئے تھے اور پاک فوج کی طرف سے ان کو توصیفی سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا تھا۔ ان کے والد اسکول ٹیچر تھے اور گھر میں ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس میں تفاخرانہ انداز میں اپنے والد کے اس سرٹیفکیٹ کو بھی سجا رکھا تھا۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں آپریشن کے بعد جب منظور پشتین اپنے علاقے میں واپس گئے تو ان کا گھر صفحہ ہستی سے غائب تھا لیکن انہیں سب سے زیادہ دکھ کتابوں اور اس سرٹیفکیٹ کے غائب ہونے کا تھا۔ آج تک ریاست نے منظور پشتین کا تباہ شدہ مکان دوبارہ تعمیر نہیں کیا اور انہوں نے مٹی اور گارے سے دوبارہ اپنا چھوٹا سا مکان تعمیر کیا ہے۔ دوسری طرف منظور پشتین کا شناختی کارڈ بلاک ہے اور ان کا پاسپورٹ نہیں بننے دیا جارہا جس کی وجہ سے آج تک انہوں نے باہر کے ملک کا سفر نہیں کیا۔ اسلام آباد دھرنے میں محسود تحفظ موومنٹ کا نام پختون تحفظ موومنٹ پڑ گیا لیکن چونکہ وہ سیاسی جماعت نہیں بلکہ تحریک ہے اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوئے ۔ پی ٹی ایم کے بعض لوگوں کے بعض اقدامات اور بعض نعروں سے مجھے بھی شدید اختلاف ہے، اس لئے میں اس تحریک کا حصہ نہیں بنا اور ایشو ٹو ایشو اس کی حمایت یا مخالفت کرتا رہا۔ علی وزیر کو پہلے بھی متعدد بار گرفتار اور پھر رہا کیا گیا لیکن 2020میں عمران خان کی حکومت میں علی وزیر کو آرمی چیف اور فوج کے خلاف ایک تقریر کی بنیاد پر گرفتار کرلیا گیا اور فوج کے ایما پر بلاول بھٹو کی حکومت نے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کرلیا۔انہیں گھر سے بہت دور کراچی کی سنٹرل جیل میں رکھا گیا ۔ اس دوران شہباز شریف کے لئے اعتماد کے ووٹ کے لیے بھی اسپیکرکو ہمت نہ ہوئی کہ انہیں پروڈکشن آرڈر پر رہا کرسکے۔ اس پورے عرصے میں نہ وہ روئے، نہ کسی کی منت کی، نہ کسی سے معافی مانگی لیکن سب سے المناک بات یہ ہے کہ کوئی اعلیٰ عدالت ان کے لئے اس طرح حرکت میں نہیں آئی جس طرح پی ٹی آئی والوں کے لئے حرکت میں آتی ہے۔ لیکن علی وزیر کے گھر سے تو اتنی لاشیں اٹھی تھیں اور مظلوم ہونے کے ناطے آپ کسی انسان کے ردعمل کو ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی رعایت بھی دیتے ہیں لیکن عمران خان، اعظم سواتی یا پھر شہباز گل وغیرہ نے الحمدللہ اس طرح لاشیں اٹھائی ہیں اور نہ اسی طرح ان کے گھر مسمار ہوئے ہیں ۔ پھر بھی ان کیلئے عدلیہ بھی حرکت میں آتی ہے اور دن رات مین اسٹریم میڈیا پرتجزیہ کار بولتے بھی ہیں لیکن علی وزیر اور منظور پشتین مین اسٹریم میڈیا پر اپنی فریاد بھی نہیں کرسکتے، جو عدلیہ اور جو بارایسوسی ایشن پی ٹی آئی کے 4رہنمائوں کے بنیادی حقوق کے لئے بے چین ہے، ان میں سے کسی نے پچھلے سالوں میں یہ سوال نہیں اٹھایا کہ پی ٹی ایم کی سرگرمیاں مین اسٹریم میڈیا میں کیوں بین ہیں؟ حالیہ دنوں میں جب علی وزیر کی تمام کیسز میں ضمانتیں ہوچکی تھیں، تب بھی ان کو رہا نہیں کیا جارہا تھا لیکن کسی اعلیٰ عدالت نے اس کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ اب عدالتوں میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ فلاں لیڈر بہت مقبول ہے اور شاید علی وزیر مقبولیت کے اس ”اعلیٰ“ مقام پر فائز نہیں ۔ گزشتہ روز مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی طرف سے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات کی مذمت میں قرارداد بار کے ایک عہدیدار نے بھیجی تو میں نے انہیں جوابی مسیج کیا کہ کیا اسی طرح کی قرارداد آپ لوگوں نے کبھی علی وزیر کے بارے میں بھی پاس کی ہے تو وہ خاموش اور غائب ہوگئے۔ بہر حال علی وزیر ضمانت پر رہا ہوگئے اور اب اس مقبول لیڈر نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے تو میرا ان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے رہنمائوں کی علی وزیر سے کوچنگ کرا دیں کہ جیل کس طرح کاٹی جاتی ہے۔ علی وزیر کو عمران خان کی حکومت میں جنرل باجوہ پر تنقید کی وجہ سے اندر کرایا گیا اور ان کی حکومت کے پختون وزرا اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر انہیں غدار اور غیر ملکی ایجنٹ کہتے رہے لیکن مجھے یقین ہے کہ علی وزیر قوم کے وسیع تر مفاد میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو جرات کے ساتھ جیل گزارنے کی ٹریننگ کیلئے ضرور آمادہ ہوں گے اور انہیں حوصلہ دیں گے کہ گھبرانا نہیں۔