• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 12)

دُشمنِ اسلام، ابولہب کا بدترین انجام: ابولہب، غزوۂ بدر میں شریک نہیں تھا، لیکن وہ قریش کی بدر کے میدان میں ہونے والی شرم ناک شکست کو برداشت نہ کرسکا۔ بے عزّتی و بدنامی کے شدید احساس اور انتقام کے شعلوں نے اُس کے جسم میں طاعون کی گٹھلیوں کی شکل اختیار کرلی۔ چناں چہ، جنگ کے سات روز بعد ہی وہ اپنے بدترین انجام کو جا پہنچا۔اُس کی لاش تین دن تک پڑی سڑتی رہی، جس سے علاقے میں تعفّن پھیل گیا۔ اُس کے بیٹوں نے اہلِ علاقہ کے بُرا بھلا کہنے پر کرائے کے حبشی غلاموں کے ذریعے باپ کی بدبودار لاش ایک گہرے گڑھے میں پھنکوادی اور اُس پر مٹّی ڈالنے کی بجائے اہلِ علاقہ نے دُور سے پتھر پھینکنے شروع کر دیئے، یہاں تک کہ وہ گڑھا اینٹ اور پتھروں سے پاٹ دیا۔ ابنِ اسحاق نے لکھا ہے کہ’’ آج تک یہ طریقہ رائج ہے کہ جو بھی اس قبر کے پاس سے گزرتا ہے، اُس پر ایک پتھر ضرور پھینک دیتا ہے۔‘‘ (سیرت ابنِ اسحاق،428 )۔

یثرب کے یہودیوں کا پہلا قبیلہ ،جسے شہر بدر کیا گیا: قبیلہ بنی قینقاع یہودیوں کا وہ پہلا قبیلہ تھا، جس نے اجتماعی طور پر جنگِ بدر کے بعد اپنا معاہدہ توڑا۔ یہ لوگ شہرِ مدینہ کے اندر ایک محلّے میں آباد تھے اور چوں کہ یہ سُنار، لوہار اور ظروف ساز تھے، اِس لیے اُن کے بازار میں اہلِ مدینہ کا کثرت سے آنا جانا رہتا تھا۔ اُنھیں اپنی شجاعت و بہادری پر بھی بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ سے اُن کا بچّہ بچّہ مسلّح تھا، جب کہ قبیلے میں سات سو جنگ جُو مرد موجود تھے۔ 

یہ لوگ قبیلۂ خزرج کے پرانے حلیف تھے۔ اُنھیں نہ صرف خزرج سے اپنے اس تعلق پر فخر تھا، بلکہ وہاں کا ایک نام وَر سردار، عبداللہ بن ابی سلول اُن کا پشتیبان بھی تھا۔ بدر کے واقعے کے بعد اُن لوگوں نے آنے جانے والے مسلمانوں پر آوازیں کَسنا، خاص طور پر انصار کی خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ رفتہ رفتہ اُن کی جسارت اِتنی بڑھی کہ ایک روز اُن کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو سرِعام بے پردہ کر دیا گیا، جس پر سخت جھگڑا ہوا۔ اس ہنگامے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی مارے گئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو اس واقعے کی اطلاع ملی، تو آپؐ اُن کے محلّے میں تشریف لے گئے اور سب کو جمع کرکے راہِ راست پر آنے، غیراخلاقی حرکات چھوڑنے اور محبّت و پیار سے رہنے کی تلقین فرمائی، مگر جنگ جُو اور بہادر ہونے کے زعم میں اُنھوں نے دھمکی آمیز انداز اختیار کیا اور بولے ’’اے محمّد (صلی اللہ علیہ وسلّم)! آپؐ نے ہمیں بھی شاید قریش سمجھ رکھا ہے؟ وہ تو لڑنا نہیں جانتے تھے، اِس لیے آپؐ نے اُن کو مار دیا۔جب ہم سے سابقہ پڑے گا، تو معلوم ہو جائے گا کہ جنگ جُو مرد کیسے ہوتے ہیں۔‘‘ گویا یہ اُن کی طرف سے صاف صاف اعلانِ جنگ تھا۔ 

مسلمان خاتون کے سرِ بازار بے پردہ کرنے کے واقعے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لب ریز ہوچُکا تھا،اب اوپر سے جنگ کی دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں۔ آخرکار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے شوال 2ہجری کے آخر میں اُن کے محلّے کا محاصرہ کرلیا۔ ابھی محاصرے کو صرف15 روز ہی ہوئے تھے کہ پورے قبیلے نے ہتھیار ڈال دیئے، جس پر اُن کے تمام مَردوں کو قید کر لیا گیا۔ اُس وقت کے جنگی اُصولوں کے تحت اُن سب کو قتل کیا جانا تھا، لیکن رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی نے منافقانہ کردار ادا کرتے ہوئے حضورؐ سے پُرزور اصرار کیا کہ ان سب کو معاف کر دیا جائے۔ اس شخص کا اصرار اس قدر بڑھا کہ رحمۃ للعالمینؐ نے درخواست قبول کرکے یہ فیصلہ فرمایا کہ بنی قینقاع اپنا سب مال، اسلحہ اور آلاتِ صنعت چھوڑ کر مدینے سے نکل جائیں۔(سیرتِ سرور عالمؐ ، 141/3)۔

2 ہجری کے چند اہم واقعات

٭17رمضان المبارک کو غزوۂ بدر کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی صاحب زادی اور حضرت عثمان غنیؓ کی اہلیہ، حضرت رقیّہؓ کا انتقال ہوا۔٭غزوۂ بدرکے بعد ذی الحجہ2ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی سب سے چھوٹی صاحب زادی، حضرت فاطمہؓ کا حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے ساتھ نکاح ہوا۔٭رمضان کے روزے اور صدقۂ فطر فرض ہوئے۔ زکوٰۃ کے نصاب کا تعین کیا گیا۔٭شوال 2ہجری کو مسلمانوں نے اپنی پہلی عیدالفطر منائی۔ آنحضرتؐ نے عید کے نماز کی امامت فرمائی۔ اسی سال عیدِ قرباں بھی منائی گئی۔٭ غزوۂ قینقاع سے ایک ماہ پہلے رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی نے بظاہر اسلام قبول کرلیا، لیکن عُمر بَھر منافق ہی رہا۔٭ ذی الحجہ میں غزوۂ سویق، شوال میں غزوۂ قینقاع اور غزوۂ بنی سلیم، رمضان میں سریا عمیر بن عدی اور سریا عالم بن عمیر ہوا۔

ریاستِ مدینہ پر ایک بڑے حملے کی تیاری: ابوجہل، ابولہب اور عتبہ بن ربیعہ کی عبرت ناک موت کے بعد قریش کی سرداری کا تاج ابوسفیان بن حرب کے سر پر رکھا گیا۔ غزوۂ بدر نے قریشِ مکّہ کی ہزاروں برس کی بادشاہت چکنا چُور کردی تھی۔ قریش کا غرور، تکبّر، رعونت و فرعونیت، جاہ و جلال، مکّہ سے بہت دُور، بدر کی ایک ویران وادی کے اندھے کنویں میں دفن ہوچُکا تھا۔ بدر کی شرم ناک شکست جزائرِ عرب میں قریش کی شدید بدنامی، ذلت و رُسوائی کا باعث بنی ہوئی تھی۔ 

مقتولینِ بدر کے لواحقین کے آتشِ انتقام کے شعلے ہر گزرتے دن کے ساتھ بُلند ہوتے چلے جا رہے تھے۔ مدینے کے منافقین، مشرکین، یہود سمیت اپنوں اور غیروں کے طنز، طعنہ زنی کے تیروں نے قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا تھا۔ معرکۂ بدر کے بعد سے تجارتی راستے کا بند ہونا اور زرِ فدیہ میں مسلمانوں کو دیئے جانے والے ڈھائی لاکھ سے زاید دینار کی رقم کی وجہ سے اقتصادی صُورتِ حال بھی اَبتر ہوتی چلی جارہی تھی۔ چناں چہ، ابوسفیان نے زبردست تیاری کے ساتھ مدینۂ منوّرہ پر حملے کا فیصلہ کیا۔

غزوۂ اُحد: مدینۂ منوّرہ کے شمال میں پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر، آٹھ کلومیٹر لمبا، تین کلومیٹر چوڑا اور تین سو میٹر بُلند سُرخی مائل خُوب صُورت پتھروں سے مزیّن، جبلِ اُحد شہرِ مدینہ کا قدرتی حصار ہے۔ یہ وہ خوش قسمت پہاڑ ہے، جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم فرمایا کرتے تھے،’’اُحد ہم سے محبّت کرتا ہے اور ہم اُحد سے محبّت کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، احادیث 4083، 2889، 4422)۔ اس پہاڑ کے دامن میں ابوسفیان عرب کے تین ہزار جنگ جُو اور جدید ترین سامانِ حرب کے ساتھ صف آرا، جب کہ اس کے مقابل سات سو مفلوک الحال مجاہدین کا لشکر ہے، جن کی بے سروسامانی کا یہ عالم ہے کہ کسی کے پاس تلوار ہے، تو نیزہ نہیں۔ اگر نیزہ ہے، تو تلوار نہیں۔

لشکرِ اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی، جن میں رئیس المنافقین،عبداللہ بن اُبی کے تین سو منافق ساتھی بھی شامل تھے۔ عین لڑائی کے وقت، جب دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں،عبداللہ بن اُبی نے بغاوت کردی اور اپنے تین سو منافقین کو لے کر میدانِ جنگ سے واپس ہوگیا۔ چناں چہ، میدانِ جنگ میں مجاہدین کی تعداد سات سو رہ گئی۔ (طبقات ابنِ سعد ، 221/1)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے پچاس ماہر تیر اندازوں کا ایک دستہ حضرت عبداللہ ؓ بن جبیر کی زیرِ قیادت کیمپ سے ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں ایک چھوٹی پہاڑی، جبلِ رماتا پر تعیّنات فرمایا اور سختی سے تاکید فرمائی کہ’’ جب تک مَیں خود نہ بُلائوں ،اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر،3039)۔جنگ شروع ہوئی، تو ابتدا میں مسلمانوں کا پلّا بھاری رہا۔ 

عرب سورمائوں کے قدم اُکھڑ گئے اور کفّار کے لشکر میں اَبتری پھیل گئی۔ یہ منظر دیکھ کر جبلِ رماتا پر تعیّنات تیر انداز سمجھے کہ لڑائی ختم ہوچُکی ہے، چناں چہ پچاس میں سے چالیس تیر اندازوں نے وہ حسّاس مورچہ چھوڑ دیا (اور مالِ غنیمت لینے نیچے اُتر گئے۔) خالد بن ولید نے، جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، جب مورچہ خالی دیکھا، تو اپنے ایک سو سواروں کے ساتھ اُس سمت سے حملہ کردیا۔ عبداللہ بن جبیرؓ اور اُن کے نو ساتھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ جنگ کا پانسا پلٹ چُکا تھا۔ ابوسفیان اور عکرمہ بن ابوجہل نے دو جانب سے دھاوا بول دیا۔ مسلمانوں کو جب ہوش آیا، تو اُس وقت تک کافی دیر ہوچُکی تھی۔ کفّار کی برہنہ شمشیریں اُنھیں چاروں طرف سے گھیر چُکی تھیں۔

اِسی گھڑی کا ذکر سورۂ آلِ عمران میں یوں ہے کہ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بُلا رہے تھے۔‘‘ اُس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ بارہ صحابہؓ کے سِوا اور کوئی نہ تھا۔(صحیح بخاری 3039)۔ اس دوران آپؐ کے آس پاس خون ریز لڑائی شروع ہوگئی، آپؐ کے ساتھ نو صحابہؓ تھے، سات انصار اور دو مہاجر۔ پھر ساتوں انصار بھی شہید ہوگئے۔ دو قریش صحابہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ زخموں سے چُور ہونے کے باوجود آپؐ کے سامنے ڈھال بنے کفّاروں پر تیر برساتے رہے۔ (صحیح بخاری ۔ 4060، 4061)۔ 

اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور زخمی ہوا اور دندانِ مبارک شہید ہوئے۔(صحیح بخاری۔ 4075، 4076 )۔ آنحضرتؐ کے چچا حضرت حمزہؓ سمیت 70مسلمان شہید ہوئے۔ حضرت حمزہؓ کو وحشی بن حرب نے نیزہ مار کر شہید کیا۔ ابوسفیان کی بیوی، ہند بنتِ عتبہ نے قریش کی خواتین کے ساتھ مل کر حضرت حمزہؓ اور دیگر شہداء کی لاشوں کا مثلہ اور بے حرمتی کی۔ (تاریخِ طبری 242/1 )۔

غزوۂ اُحد کے بعد کے چند اہم واقعات

غزوۂ حمراء الاسد: غزوہ اُحد کے دُوسرے دن صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے زخموں سے چُور صحابہؓ کے ساتھ کفّارِ مکّہ کا تعاقب کیا۔ ابوسفیان حمراء الاسد کے مقام پر ٹھہرا ہوا تھا، لیکن اُسے جیسے ہی حضورؐ کے آنے کی اطلاع ملی، وہ اپنی فوج لے کر جلدی سے مکّے کی جانب روانہ ہوگیا۔ (سیرت ابنِ ہشام 31/3)۔

سریہ ابو سلمہؓ: قبیلہ بنو اسد کا سردار خویلد اپنے دو بیٹوں اور قبیلے کے جنگ جوئوں کے ساتھ مدینے پر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے یکم محرّم 4 ہجری کو حضرت ابو سلمہؓ کی قیادت میں 150 مجاہدین کا لشکر روانہ کیا،جس پر کفّار ڈر کربھاگ گئے اور لڑائی کی نوبت نہیں آئی۔ (طبقات ابنِ سعد، 228/1)۔

واقعہ رجیع: ماہِ صفر 4ہجری کو پیش آیا، جس میں مشرکین نے دس صحابہؓ کو دھوکے سے لے جا کر بے دردی سے شہید کر دیا۔ (صحیح بخاری، 4095)۔

سریہ عبداللہؓ بن انیس: 5محرّم 4ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت عبداللہؓ بن انیس کو کوہستان عرفہ کے رئیس سفیان بن خالد کی جانب روانہ کیا، جو مدینے پر حملے کے لیے ایک بڑی فوج جمع کر چُکا تھا۔ حضرت عبداللہؓ 18روز مدینے سے باہر رہے۔ واپسی پر خالد کو قتل کر کے اُس کا سر آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضورؐ نے اُنھیں ایک عصا عطا فرمایا۔ (طبقات ابنِ سعد 232/1)۔

غزوۂ بنو نضیر: ربیع الاوّل4 ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم قبیلہ بنو نضیر سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ اُنھوں نے آپؐ کو شہید کرنے کا خوف ناک منصوبہ بنایا، تاہم اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپؐ کو مطلع فرما دیا، چناں چہ اس پورے قبیلے کو مدینے سے بے دخل کردیا گیا۔ (سیرت ابنِ ہشام،55/3)۔

غزوۂ نجد: یہ معرکہ ربیع الآخر،4ہجری میں پیش آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو اطلاع ملی کہ بنو غطفان کے قبیلے بنو صحارب اور بنو ثعلبہ نے مدینے پر چڑھائی کے لیے ایک بڑی فوج صحرائے نجد میں جمع کرلی ہے۔ حضورﷺ 400صحابہ کرامؓ کے ساتھ خود تشریف لے گئے، لیکن مخالفین فرار ہو کر پہاڑوں میں چُھپ گئے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ اس غزوے میں آپؐ نے صلوٰۃ الخوف پڑھائی تھی۔‘‘(رحیق المختوم، ص 404)۔

غزوۂ بدر ثانی: ابوسفیان نے غزوۂ اُحد کے روز آئندہ سال بدر کے مقام پر جنگ کا اعلان کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم شعبان4ہجری کو پندرہ سو صحابہؓ کے ساتھ وہاں پہنچے اور آٹھ دن تک ابوسفیان کا انتظار کیا، لیکن وہ نہ آیا۔ (سیرت ابنِ ہشام61/3)۔

شوال 4ہجری میں آپؐ نے حضرت اُمّ ِ سلمہؓ سے نکاح فرمایا۔ شعبان4ہجری میں حضرت امام حسینؓ کی ولادت ہوئی۔l اِسی سال آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو غیرمُلکی زبانیں سیکھنے کا حکم فرمایا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے پندرہ دن میں عبرانی زبان پرعبور حاصل کر لیا تھا۔

ریاستِ مدینہ کا پانچواں سال

غزوہ دومۃ الجندل: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو اطلاع ملی کہ مُلکِ شام کے قریب دومۃ الجندل کے عیسائی بادشاہ نے مدینے پر حملے کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے۔ آپؐ ایک ہزار صحابہؓ کے ساتھ پندرہ راتوں کی مسافت طے کر کے وہاں پہنچے، لیکن آپؐ کی آمد کی اطلاع پا کر وہ خوف زدہ ہو کر بھاگ نکلے۔ (طبقات ابن سعد،236/1)۔

غزوہ بنی مصطلق: مدینے سے نو منزل کی مسافت پر وادئ مریسیع میں یہودیوں کے قبیلے میں خزاعہ کی ایک شاخ، بنو مصطلق آباد تھی۔ آنحضرتؐ کو اطلاع ملی کہ قبیلے کے سردار، حارث بن ابی ضرار نے قریشِ مکّہ کے ساتھ مل کر مدینے پر حملے کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے۔ تصدیق کے بعد شعبان5ہجری (کچھ نے6ہجری لکھا ہے) کو آنحضرتؐ مجاہدین کے ساتھ چشمہ مریسیع پہنچے۔ بنو مصطلق سے جنگ ہوئی۔ دس یہودی مارے گئے اور چھے سو قید کرلیے گئے۔ اُن قیدیوں میں سردار حارث کی بیٹی، جویریہ بھی تھیں، جن سے آپؐ نے نکاح فرمایا اور حقِ مہر کے طور پر اُن کے قبیلے کے تمام چھے سو افراد رہا کردیئے گئے۔ 

بعدازاں، اُن کے والد، بھائی اور پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا۔ یثرب کے یہودیوں کے اتنی بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے کا یہ پہلا واقعہ تھا، جس کے بڑے دُور رَس نتائج مرتّب ہوئے۔ اسی غزوے سے واپسی پر واقعۂ افک پیش آیا، جس میں رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی نے اُمّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگائی تھی۔ بعدازاں، اللہ تعالیٰ نے سورۂ نُور میں سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی برأت کا اعلان کرتے ہوئے جھوٹی تہمت پر80کوڑوں کی سزا مقرّر فرمائی۔ (جاری ہے)