اللہ کے نبیﷺ بارگاہِ خداوندی میں: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی صف بندی کا معائنہ فرمایا، پھر اپنے عریش (سائبان) میں جاکر رَبِّ کعبہ کے حضور سربہ سجود ہوگئے۔ آنکھوں سے جاری اشکوں کے درمیان عجز و انکساری اور آہ و زاری کے ساتھ درد بھرے لہجے میں یوں التجا کی۔’’اے میرے رَبّ! یہ کفارِ قریش، غرور و تکبّر کے نشے میں سرشار تیری مخالفت میں اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہوئے یہاں تک آگئے ہیں۔
اے میرے رَبّ! تُو اچھی طرح واقف ہے کہ آج اگر یہ مٹھی بھر جماعت بھی ہلاک ہوگئی، تو پھر اس دُنیا میں قیامت تک کوئی تیرا نام لیوا نہ رہے گا۔ پس اے اللہ! اپنی اس نصرت کو بھیج، جس کا تُونے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ یہ رقّت آمیز دُعا سُن کر حضرت صدیق اکبرؓ نے آپ ؐ کا ہاتھ پکڑلیا اور عرض کیا۔ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! بس کیجیے، آپؐ نے اپنے رَبّ کے حضور بڑے الحاح کے ساتھ دُعا فرمالی۔ (صحیح بخاری، حدیث، 3953،2915)۔
رحمتِ الٰہی جوش میں آگئی: سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشکوں نے زمین و آسمان کو ہلا دیا۔ فرشتے بے قرار ہوگئے اور پھر رحمتِ الٰہی جوش میں آئی۔ فرشتوں کو حکم ہوا کہ فوراً زمین پر جائو اور میرے محبوب نبی ؐ کو میرا پیغام پہنچا دو ’’(اے نبی) میں تمہارے ساتھ ہوں۔ سو، تم ایمان والوں کی ہمّت بڑھائو۔ میں ابھی کفّار کے قلوب میں رُعب ڈالے دیتا ہوں۔‘‘ (سورئہ انفال، آیت۔ 12)۔ اللہ نے پھر مزید وحی نازل فرمائی، ’’(اے نبیؐ) میں ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا، جو ایک دُوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے۔‘‘ (سورۂ انفال، آیت۔9)۔حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوئہ بدر کے دن فرمایا کہ یہ جبرائیل امین ہیں، جو اپنے گھوڑے کا سر تھامے اور لڑائی کا ہتھیار لگائے ہوئے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث۔ 3995)۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد تاریخِ انسانی کا یہ محیّرالعقول معرکہ کفّارِ قریش کی عبرت ناک اور ذلت آمیز شکست پر اختتام پذیر ہوا۔
وقت کے فرعون عبرت کا نشان بن گئے: مٹھی بھر مفلوک الحال مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں نے مشرکین کی صفوں کو درہم برہم کر دیا۔ اور وہ خوف و بدحواسی کے عالم میں اپنے مقتولین کی لاشیں اور لبِ جان زخموں سے چُور عزیزوں کو تڑپتا چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اس پہلے ہی معرکے میں کفارِ قریش کے تمام نام وَر جنگجو سپہ سالا، اہم سردار اور رؤساء واصلِ جہنّم ہوچکے تھے۔ ابولہب بیماری کی وجہ سے اور ابوسفیان تجارتی قافلے میں ہونے کی وجہ سے جنگ میں شرکت نہ کرسکے۔ آنحضرت ؐ کے حکم پر ابوجہل سمیت 24نام وَر لوگوں کی لاشیں بدر کے ایک ویران کنوئیں میں پھینک دی گئیں۔ (صحیح بخاری، حدیث۔ 3976)۔
اورابوجہل واصلِ جہنّم ہوا: مشرکینِ مکّہ کے سپہ سالار اور فرعونِ وقت، ابوجہل کو انصار کے دو کم سِن بچّوں نے واصلِ جہنّم کیا۔ یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔ (صحیح بخاری، حدیث۔ 3988)۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ یہ دونوں لڑکے ابوجہل کو قتل کرنے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے دریافت کیا کہ ’’تم میں سے کس نے ابوجہل کو قتل کیا؟‘‘ پھر آپؐ نے دونوں کی تلواریں چیک کیں اور فرمایا، ’’واقعی تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے اس کا تمام سامان ان دونوں کو دے دیا۔(صحیح بخاری حدیث۔3141)۔
مقتولین و شہداء کی تعداد: اس جنگ میں قریش کے140مشرکین کو نقصان پہنچا۔ 70افراد قتل ہوئے اور 70ہی گرفتار ہوئے۔ (صحیح بخاری حدیث۔3986)۔ 14صحابہ کرامؓ نے شہادت پائی، جن میں سے 8انصار اور 6مہاجرین تھے۔ یہ صحابہؓ بدر کے میدان میں ایک احاطے کے اندر اپنی قبروں میں آرام فرماہیں۔ (طبقات ابنِ سعد208/1)۔
قرآنِ کریم میں تذکرہ: قرآن کریم میں اس تاریخ ساز غزوہ کو ’’یومِ فرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ سورۂ انفال میں غزوئہ بدر کے واقعات کوتفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
زرِ فدیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زر فدیہ کے عوض سب قیدیوں کو رہا کردیا۔ جن کے پاس زرفدیہ نہیں تھا، لیکن وہ پڑھے، لکھے تھے، تو مدینے کے دس بچّوں کو پڑھنا لکھنا سکھانا، ان کا فدیہ مقرر کیا گیا۔ (تاریخِ اسلام146/1)۔ حضوراکرمؐ کے چچا حضرت عباس اور حضرت عقیل بن طالب بھی فدیہ ادا کرکے رہا ہوئے، جب کہ آپؐ نے کچھ کو فدیہ نہ ہونے کی وجہ سے بغیر فدیہ بھی رہا فرمادیا۔
حضورؐ کے داماد ابوالعاص بھی قید میں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور آپؐ کی بڑی صاحب زادی، سیّدہ زینبؓ کے شوہر ابوالعاص بن ربیع بھی قیدیوں میں شامل تھے۔ جنھیں ایک انصاری صحابی عبداللہؓ بن جبیر نے گرفتار کیا تھا۔ زرِ فدیہ کے لیے انھوں نے مکّہ میں اپنی اہلیہ کو پیغام بھجوایا۔ سیّدہ زینبؓ کو اس بات کا اندازہ تھا کہ والدِ محترم اُن کے ساتھ بھی عام قیدیوں جیسا سلوک روا رکھیں گے۔ چناں چہ اگر شوہر کی رہائی مطلوب ہے، تو زرِ فدیہ کا بندوبست کرنا ہوگا۔
اس وقت گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ اور سیّدہؓ کے مسلمان ہونے کی وجہ سے مشرک عزیز، رشتے دار بھی خوش نہ تھے۔ باوفا و باشعار اہلیہ فدیے کی رقم کے لیے پریشانی کے عالم میں سوچ بچار میں مصروف تھیں اور اللہ تعالیٰ سے کسی غیبی مدد کے لیے دُعاگو تھیں کہ اچانک اَمّاں کا وہ قیمتی ہار یاد آگیا، جو انھوں نے رُخصتی کے وقت اپنے متبرّک ہاتھوں سے پہناتے ہوئے بڑے پیار سے کہا تھا کہ ’’بیٹی! میرا یہ ہار تمہیں ہمیشہ ماں کی یاد دلاتا رہے گا۔‘‘ ذہن کے لاشعور میں منقش ان سُنہری یادوں نے دُکھی بیٹی کے ضبط کے سارے بندھن توڑ ڈالے۔ پُرنم آنکھوں میں چُھپے، سفید موتی چھلک پڑے اور پھر بوجھل آنکھوں سے اُمڈتے آنسوئوں نے سیلاب کی صُورت اختیار کرلی۔
اَمّاں کی یاد نے بے قرار کردیا۔ اور پھر سیّدہؓ کو یاد آیا کہ جب بابا اپنوں اور پرایوں کی دُشمنیوں اور دشنام انگیزیوں سے پریشان ہوکر اُداس اور غم گین گھر آیا کرتے، تو اَمّاں انؐ سے محبّت بھرے لہجے میں کہتیں، ’’آپؐ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ مَیں آپؐ کے ساتھ ہوں ناں۔‘‘ سیّدہ زینبؓ نے خوش گوار یادوں کے درمیان بے اختیار ہار کو چُوم کر آنکھوں سے لگایا۔ آج ماں کی محبّت کی یادگار، یہ ہار ہی شوہر کی رہائی کے کام آرہا ہے۔ بیٹیوں کو مائوں کی جانب سے دیئے گئے تحفے خواہ دُعائوں کی صُورت ہوں یا مال و زَر کی صُورت، کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی آڑے وقت میں کام آہی جاتے ہیں اور پھر نم آنکھوں، لرزتے ہاتھوں سے ماں کے پیار کی وہ نشانی مدینہ روانہ کردی۔
زرِ فدیہ بارگاہِ رسالتؐ میں: عمر بن الربیع اپنے بھائی ابوالعاص کا زرِ فدیہ لے کر بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ’’اے اللہ کے رسولؐ! میری بھابی زینبؓ بنتِ محمّدؐ نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے زرِفدیہ بھیجا ہے۔ قبول فرمایئے۔‘‘ صحابہؓ نے زرِ فدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ حضورؐ کی نظر مبارک جب اُس اَن مول ہار پر پڑی، تو بے اختیار آنے والی اہلیہ محترمہ کی یادنے بے قرار کردیا۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت یہ ہار سیّدہ خدیجہؓ کے گلے میں تھا۔ اور جب بڑی بیٹی زینب کی شادی ہوئی، تو ماں نے یہ ہار بڑے پیار سے اپنی بیٹی کو پہنایا تھا۔ ان سب یادوں نے آپؐ پر رِقّت طاری کردی۔ صحابہؓ سے فرمایا کہ ’’اگر مناسب سمجھو، تو میری بیٹی کو ماں کی یادگار واپس کر دو۔‘‘ صحابہؓ نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے نہ صرف ہار واپس کردیا، بلکہ ان کے شوہر ابوالعاص کوبھی رہا کردیا۔ رہائی کے بعد ابوالعاص حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپؐ نے فرمایا۔ ’’اے ابوالعاص! جب تم مکّہ پہنچو، تو ہماری بیٹی کو مدینہ روانہ کردینا۔‘‘
مدینہ منورہ ہجرت کی ایک اور الم ناک داستان: حضرت ابوالعاصؓ، حضرت زینبؓ کی خالہ حضرت ہالہؓ بنتِ خویلد کے بیٹے تھے۔ نہایت سمجھ دار اور شریف النفس انسان تھے۔ انھوں نے اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی، کنانہ بن ربیع کے ساتھ سیّدہ زینبؓ اور دونوں بچّوں علی اور اُسامہ کو مدینہ روانہ کردیا۔ اہلِ قریش کی جانب سے خطرے کے پیش نظر کنانہ نے ہتھیار بھی ساتھ رکھ لیے تھے۔ قریش کو جیسے ہی سیّدہ زینبؓ کے مدینے ہجرت کی اطلاع ملی، انھوں نے ہبار بن اسود کی قیادت میں ایک گروہ تعاقب میں روانہ کردیا۔
جس نے اس مختصر سے قافلے کو وادئ ذی طویٰ کے مقام پر جالیا۔ ہبار بن اسود نے سیّدہ زینبؓ کی اُونٹنی کو تیر مارا، تیر کھا کر اُونٹنی گری، تو وہ بھی زمین پر گرگئیں۔ اس وقت سیّدہؓ امید سے تھیں۔ گرنے سے ان کا حمل ضائع ہوگیا۔ پھول جیسے دونوں معصوم بچّے بھی نیچے گرپڑے اور ماں سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگے۔ سیّدہ زینبؓ کبھی اپنی تکلیف کو دیکھتیں اور کبھی خوف زدہ زخمی بچّوں کو سینے سے چمٹاتیں۔ سر پر خون کے پیاسے کفّار کی برہنہ تلواریں تھیں، عجب بے بسی کا عالم تھا۔
رحمتِ دوجہاں، سرکارِ مدینہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نُورِ نظر، اَمّاں خدیجہؓ کے دل کا ٹکڑا، خانوادہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کا مہکتا گلاب، اُمّتِ مسلمہ کی برگزیدہ، باحیا بیٹی کہ جس کی عظمت و حرمت کو فرشتے سلام کریں۔ آج بے یار و مددگار، بے سہارا و بے آسرا ویران صحرا میں اپنے معصوم بچّوں کے ساتھ دُشمنوں کے رحم و کرم پر پڑی ہیں۔ یہ قیامت خیز منظر دیکھ کر زمین و آسمان دَم بخود ہیں۔ مکّے کے سنگلاخ پہاڑوں کے سیاہ پتھر ان مشرکین کے سروں کو کچلنے کے لیے بے تاب ہیں۔ غم و غصّے سے آگ بگولا غضب ناک دہکتا سُورج ان مشرکین کو جلا کر راکھ کردینے کو بے قرار ہے۔ مکّے کی گرم ہوائیں اس ہول ناک منظر کی تاب نہ لا کر کہیں جا چُھپی ہیں۔ فضا میں خوف ناک خاموشی ہے۔ مشرکین بھی خوف زدہ ہیں۔
آسمانوں پر فرشتے بھی اپنے رَبّ کے اشارے کے منتظر ہیں۔ مہربان ربّ کے لیے ان مشرکین کو لمحوں میں نیست و نابود کردینا کون سا مشکل تھا، لیکن رَبِّ کعبہ کے فیصلے عام سوچ سے ماورا ہوتے ہیں۔ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت اور جاں نثار ساتھیوں کی قربانیوں اور جہدِ مسلسل کی یہ عظیم الشّان داستانیں مستقبل کے سرفروشانِ اسلام کے لیے تاریخ میں محفوظ ہورہی ہیں۔ مصائب و آلام کے کوہِ گراں پر مبنی یہ دل سوز داستانیں تاریخ کا حصّہ بن کر رہتی دُنیا تک حق و صداقت کا پرچم بُلند کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں گی۔
سیّدہ زینبؓ بچّوں کے ساتھ زمین پر بیٹھی ہیں، لبوں پر آیتِ مبارکہ کے الفاظ ہیں، (ترجمہ) ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں صعوبتیں اور مشقّتیں برداشت کرتے ہیں، ہم انھیں اپنا راستہ ضرور دکھاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ العنکبوت، آیت۔ 69)۔ کنانہ نے جب بھابی کو زخمی حالت میں زمین پر گرتے اور بچّوں کو بلکتے دیکھا، تو غصّے سے بپھر گیا۔
ایک ہاتھ میں تلوار اور دُوسرے ہاتھ میں تِیر لے کر نہایت جوشیلے انداز میں چیخ کر بولا، ’’اب اگر تم میں سے کسی ایک میں بھی ہمّت ہے، تو قریب آکر دکھائو، مَیں اپنے تیروں سے تمہارے جسموں کو چھلنی اور اپنی تلوار سے تمہارے جسموں کو تمہاری گردنوں سے محروم کردوں گا۔‘‘ کنانہ بھی قریش کے جنگ جُو نوجوانوں میں سے تھا، اس کا غصّہ اور جلال دیکھ کر لوگ اس کی پہنچ سے دُور ہوگئے۔ (تاریخِ طبری، اُردو حصّہ اوّل، ص 196،195)۔
ابو سفیان کا مشورہ: قریش کے سردار ابوسفیان بھی اطلاع ملنے پر جائے وقوع پر پہنچ چکے تھے۔ انھیں معاملے کی نزاکت کا احساس تھا، وہ جانتے تھے کہ اگر کنانہ کو کچھ ہوا، تو قریش کے اپنے قبیلوں میں نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ جائے گی اور اگر زینبؓ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ہوا، تو مسلمان مکّے پر چڑھائی کردیں گے۔
غزوئہ بدر میں شرم ناک شکست کا زخم ابھی تازہ ہی تھا۔ وہ کنانہ کے قریب گئے اور اسے سمجھایا کہ غزوئہ بدر میں بھاری جانی و مالی نقصان کی وجہ سے اہلِ قریش ابھی غم و غصّے میں ہیں۔ تم انہیں علانیہ لے جائو گے، تو یہ اسے بھی اپنی شکست تصوّر کریں گے، تم انھیں ابھی واپس مکّہ لے جائو اور پھرکسی دن خاموشی سے مدینہ لے جانا۔‘‘
سیّدہ زینبؓ بھی زخمی ہونے کی وجہ سے طویل سفر کے قابل نہ تھیں، چناں چہ کنانہ انہیں واپس اپنے بھائی کے پاس مکّہ لے آئے اور چند دن کے علاج کے بعد ایک رات خاموشی سے اُنھیں لے کر مدینہ روانہ ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو پہلے ہی مدینے سے روانہ کردیا تھا۔ وہ بطن کے مقام پر موجود تھے۔ کنانہ نے بھابی زینبؓ اور بچّے ان کے حوالے کیے اور حضرت زیدؓ اپنی مُنہ بولی بہن کو لے کر مدینہ روانہ ہوگئے۔ (تاریخ ِطبری،197/1)۔
حضرت زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ کا انتقال: حضرت زینبؓ2ہجری کو مدینہ آئیں اور اُن کی ہجرت کے چار سال بعد اُن کے شوہر ابوالعاص مدینے آکر مسلمان ہوگئے۔ ہجرت کے دوران پیش آنے والے سانحے کے بعد سیّدہ زینبؓ مستقل بیمار رہنے لگی تھیں اور اس سانحے میں لگنے والے زخم ہی اُن کی وفات کا سبب بنے۔ چناں چہ8ہجری کو 31سال کی عُمر میں اپنے رَبّ سے جا ملیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنے دستِ مبارک سے اپنی لخت جگر کو جنّت البقیع میں سپردِ خاک کیا۔
حضرت ابوالعاصؓ کو اپنی اہلیہ سے بڑی محبّت تھی، اکثر اُنھیں یاد کرکے آب دیدہ ہو جایا کرتے۔ سیّدہ زینبؓ سے جدائی کا یہی غم اُن کی وفات کا باعث بنا اور حضرت زینبؓ کے انتقال کے چار سال بعد12ہجری کو وہ بھی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ (بناتِ طیبات، ص39)۔ (جاری ہے)