• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب، خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت مکمل، فیصلہ کل سنایا جائے گا

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے اس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ سب اپنے اپنے لیڈر کو فون کریں اور ہدایات لیں، حل نکل آئے گا۔

عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ 

چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم تمام وکلا کاشکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے عدالت کی معاونت کی۔

چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ ہم فیصلہ سنانے کے لیے کتنی دیر میں واپس آتے ہیں، اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ 

بعدازاں سیکریٹری ٹو چیف جسٹس نے بتایا کہ ازخود نوٹس کا فیصلہ کل دن 11 بجے سنایا جائے گا۔

سماعت کے دوران انتخابات کی تاریخ کے لیے سیاسی جماعتوں کو مشاورت کرنے کا حکم دے دیا۔

صدر سپریم کورٹ بار کے دلائل

سپریم کورٹ میں انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری دلائل دینے کے لیے آئے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عابد زبیری پر اعتراض اٹھا تے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں، جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستحط کر دیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ انتخابات 90 دنوں میں ہی ہونے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے تحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت نگراں حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا؟

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکریٹری قانون نے جاری کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اسمبلی کی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا نگراں وزیرِ اعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتے ہیں؟

عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگراں حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگراں حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتے ہیں؟

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ نگراں حکومت کا کام تاریخ دینا نہیں، حکومتی امور سنبھالنا ہے، الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے، وزیرِ اعلیٰ کا نہیں۔

عابد زبیری نے کہا کہ سیف اللّٰہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کا عمل لازمی قرار دیا تھا۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہو گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 48 کے مطابق تو الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہو گا۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نگراں حکومت تو 7 دنوں کے بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب کے کیس میں گورنر نے نہیں وزارتِ قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔

عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد کی ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہو سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ اگر حکومت کی تاریخ سے متعلق ایڈوائس آ جائے تو گورنر کیسے انکار کر سکتا ہے؟

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگراں حکومت آئی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اتنے دنوں سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔

90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت آئینی ذمے داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے کہ آئینی نکات پر معاونت کریں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ وقت کی میعاد مکمل ہونے پر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر تاریخ دیں گے، میرا مؤقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا صدرِ مملکت کا اختیار ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دیں گے تو 52 دنوں کا مارجن رکھا جائے گا۔

صدر کے اختیارات براہِ راست آئین نے نہیں بتائے: جسٹس مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر کے اختیارات براہِ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہو گا، قانون بھی آئین کے تحت ہی ہو گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے،صدرِ مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدرِ مملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگرمان لیا کہ قانون صدرِ مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کے پابند ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نگراں حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے کہ صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کے پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کے پابند نہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو وہ اس کے پابند ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل اور صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کے دلائل مکمل ہو گئے۔

اٹارنی جنرل شہزاد عطاء الہٰی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر گورنر اسمبلی کی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دیں تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدِنظر رکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ الیکشن 90 دنوں میں ہی ہونے چاہئیں، الیکشن کو 90ء دنوں سے آگے نہیں لے جانا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پراستعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی کی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دیں تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر کو الیکشن ایکٹ کو بھی مدِ نظر رکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن 90 دن میں ہی ہونے چاہئیں، آگے نہیں لے جانا چاہیے، انتخابات 90 دن سے آگئے کون لے کر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ پر تاخیر کر سکتا ہے؟ گورنر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدرہو ںیا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن سے گورنر کی مشاورت کرائیں اور کل تاریخ دے دیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل شہزاد الہٰی نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہو سکتی، آئین سپریم ہے، صدرِ مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینے کی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، لاہور ہائی کورٹ نے واضح کہا ہے کہ انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن کو طے اور گورنر کو اعلان کرنا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 14، 14 دن ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التواءکیوں ہو رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اختیار آئین کی کس شق کے تحت آیا؟

جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تاریخ میں صدر کے کچھ جمہوری کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن 57 ختم کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا کسی نے سیکشن57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا؟

جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں، الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائے گا؟ کیا صدر کا کردار صرف نیوز کاسٹر کا ہے کہ وہ اعلان کرے؟ اعلان تو کوئی چھت پر چڑھ کے بھی کر دے، اعلان ہی کرنا ہے تو الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ استعمال کرے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکشن کمیشن کا کردار مرکزی ہے، دوسری جانب کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا کردار مشاورتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جا سکتا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، انتخابی مہم کا دورانیہ 2 ہفتے تک کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988ء کا الیکشن مشکوک ہو گا؟ 2008ء کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 2008 ء میں بہت بڑا سانحہ ہوا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟ الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہو گی، قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کر دیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہو وہاں ہی کریں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا نگراں کابینہ گورنرز کو سمری بھجوا سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کے پابند ہیں، نگراں کابینہ الیکشن کی تاریخ کے لیے سمری نہیں بھجوا سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ وزیرِ اعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو صدر کو کب تک انتظار کرنا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے، آج بھی قانون بنا کر ذمے د اری دے دیتے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج کی قانون سازی پر طعنہ ملتا ہے کہ پارلیمنٹ نامکمل ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے، 90 دن کی مدت مکمل ہو رہی ہے، الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا، اگر انتخابات کی تاریخ پر ڈکٹیشن کہیں اور سے آنا ہے تو الیکشن کمیشن باقی ذمے داریوں سے بھی انکار کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریوں سے نہیں نکل سکتا۔

اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت کام کرنا ہے، الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے 3 طرح کی تاریخ دے سکتا ہے، الیکشن کمیشن سینیٹ، صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے، ہم صرف پنجاب اور کے پی کے الیکشنز کی بات کر رہے ہیں، ہمارا پہلے دن سے ہی مؤقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے، حتیٰ کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھر بھی وہ عمل درآمد ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے یا نہیں، وہ تاریخ دے گا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پنجاب کے گورنر کہتے ہیں کہ میں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا وہ آج تک اس مؤ قف پر قائم ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم نے گورنر پنجاب کو 9 سے 13 اپریل تک الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے خط لکھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر آنکھیں بند کر کے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے؟ گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کا کیا علم؟ گورنر نے مشاورت کے لیے آپ کو بلایا یا نہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ گورنر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت تقاضہ نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر نے مشاورت کی بجائے انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی، ہائی کورٹ نے مشاورت کر کے تاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنر سے ملاقات کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنر کے پی سے تاریخ کے لیے بات ہوئی ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ گورنر کے پی کو یاد دہانی کا خط بھی لکھا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ بھی نوٹس نوٹس ہی کر رہی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ گورنر کے پی نے مشاورت کی، نہ ہی تاریخ دی، گورنر کے پی نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہے، گورنر نے ایجنسیوں سے رجوع کرنے کا کہا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ہدایت کی کہ گورنر کے پی کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کر کے تاریخ کا تعین کیا جائے، انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا کہ مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا، الیکشن کمیشن صرف چٹھیاں نہ لکھے، پنجاب میں گورنر سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے گورنر کے پی کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر کے پی کے خط کا کیا مطلب ہے؟

ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے جواب دیا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینے کا مجاز ہے۔

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ گورنر نے خط میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ تاریخ نہیں دیں گے۔

ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ گورنر کے پی نے اسمبلی وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس پر تحلیل کی، الیکشن کمیشن نے 3 فروری کو گورنر کو صوبائی حکومت سے رجوع کرنے کا کہا، خط میں الیکشن کمیشن نے اپنی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔

فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی گئی

اس موقع پر پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے، فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے، چیف جسٹس نے 5 رکنی لارجر بینچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے۔

اس کے بعد فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے پنچایتی دماغ میں آیا کہ ہم بہت دیر سے کیس سن رہے ہیں، کچھ آپ آگے کر لیں، کچھ دوسری طرف والے پیچھے لے آئیں، معاملہ حل کریں، آپ لوگ سیاستدان ہیں، ہم سےبہتر یہ معاملات جانتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ انتخابات میں تاخیر ہو بھی جائے تو آئین کا آرٹیکل 254 موجود ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر انتخابات کے لیے 90 دنوں سے آگے جانا ہے تو آئین میں ترمیم درکار ہو گی۔

جسٹس منصور نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں پاکستان کو بیچ میں رکھ لیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔

کیس کا فیصلہ آج ہی کریں گے، چیف جسٹس

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس کی سماعت کل دن 1 بجے رکھ لیں، سب کو اپنے مؤکلین سے ہدایات لینی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کا فیصلہ آج ہی کریں گے، عوامی مفاد کے لیے سیاستدان مل بیٹھیں، جا کر اپنے بڑوں سے پوچھیں کہ وہ آپس میں بات چیت کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے اس موقع پر پی ٹی آئی رہنماؤں فواد چوہدری اور شیریں مزاری کو روسٹرم پر بلا لیا۔

فواد چوہدری نے عدالت کے روبرو کہا کہ اگر ایک بار 90 دن سے اوپر انتخابات کرانے کی اجازت دی گئی تو مستقبل میں خرابی ہو سکتی ہے، ہم پارلیمنٹ میں جا کر ترمیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کے لیے عدالت سے فیصلے کی روایت بنائی گئی تو مستقبل کے لیے ٹھیک نہیں ہو گا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ بے فکر رہیں، اس کو روایت بننے نہیں دیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کےعلا وہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لے کر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے، معاشی مشکلات کا ذکر 1988ء کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا، آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے، آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے زیادہ تاخیر ہو، قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے، الیکشن بر وقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، پہلی بار ایسی صورتِ حال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرِ مبادلہ نہیں ہے، آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے، اگر 90 دنوں سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کر دے گا اور معاملہ عدالت میں آئے گا تو دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے سماعت 4 بجے تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ روز 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

گزشتہ روز عدالتِ عظمیٰ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اجراء میں تاخیر کے تنازع سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت میں 4 معزز جج صاحبان نے خود کو 9 رکنی لارجر بینچ سے الگ کر لیا جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دار و مدار تشریح پر ہے، آئین کی تشریح کے لیے عدالت کا باقی بینچ کیس کی سماعت جاری رکھے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کل بروز منگل ہر صورت مقدمہ مکمل کرنا ہے۔

قومی خبریں سے مزید