پیرزادہ عامر نصیری سے رابطے کے بعد ہم لوگوں نے شرفو میاں سے رخصت لی، الوداعی معانقہ کیا، مہرولی کے بازار میں جس گُل فروش کے پاس جوتے رکھوائے تھے، وہاں سے اپنے جوتے پہنے اور ایک بار پھر بازار کی رونق دیکھتے چل دیئے۔ ہمارا ساتھی قادر گُل بھاری تن و توش کا ہے، اِسی لیے اُسے بھوک بھی زیادہ لگتی تھی۔ اُس نے کہا ’’اب جو بھی پہلا ہوٹل آئے گا، وہاں پیٹ پوجا کر کے ہی آگے کا سفر طے کریں گے۔‘‘ اُس کی خوش قسمتی کہہ لیں یا ہماری قسمت کہ بازار میں تھوڑا ہی آگے بڑھے، تو بائیں ہاتھ ایک گندا مندا سا کھانے کا ہوٹل نظر آگیا۔ بس جی، قادر میاں تو وہیں پسر گئے کہ ’’اب یہیں کھانا کھانے بیٹھ جاؤ۔‘‘ہم نے کہا، ’’بھائی! ہوٹل بہت گندا ہے۔‘‘ تو کہنے لگا، ’’بھوک سے موت سامنے نظر آرہی ہو، تو مُردار کھانا بھی جائز ہے۔
مجھے اب قریب المرگ سمجھو اور یہاں بیٹھ کے کھانا کھا لو یا پھر میرے جنازے کو کندھا دینے کی تیاری کر لو۔‘‘ گوکہ ہوٹل کی حالت قابلِ رشک نہیں تھی، لیکن ہوٹل کے مالک نے دُور ہی سے آواز لگائی ’’بھیّا!یہاں سے کھانا کھائے بغیر آگے بڑھ گئے تو زندگی بھر پچھتاؤ گے۔ ایسا بڑھیا کھانا مہرولی تو کیا، پورے بھارت میں نہیں ملے گا۔‘‘اُس نے ہمیں گومگو کی کیفیت میں دیکھ کے گویا تُرپ کا پتّا پھینکا۔ اُس کے آواز دینے کے باوجود ہم لوگوں کے چہروں پہ ہچکچاہٹ کے آثار دیکھ کےپھر اُس قوی الجثّہ شخص نے الفاظ کا ایسا جال بُنا کے ہم بآسانی اُس میں پھنس گئے۔ ہوٹل کے دَر و دیوار پہ میل اور چکنائی کے دھبّوں نے روغن کا کام رکھا تھا، جب کہ دیواروں کا اصل رنگ و روغن میل کچیل کے غازے کے نیچےچُھپ چُکا تھا۔
میز، کرسیاں بھی ٹوٹی پُھوٹی، بیتے وقت کی لاتعداد چوٹیں کھا کے زخموں سے چُور نظر آرہی تھیں۔ اُن پہ بیٹھتے ہی ڈھیلی ڈھالی چُولوں اور جوڑوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ خواجہ حسن نظامی نے بلی ماروں کے کُوچے میں کچھ کبابیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’وہاں کی صفائی سُتھرائی تو کچھ خاص نہیں، مگر ان کے کبابوں کا لاجواب ذائقہ آپ کو اور کہیں نہیں ملے گا۔‘‘ بھوک چوں کہ بہت چمک اُٹھی تھی، تو ہم نے بھی سوچا کے مہر ولی کے اس ہوٹل میں گرچہ صفائی ستھرائی تو نام کو نہیں، لیکن خواجہ حسن نظامی نے جن کبابیوں کا ذکر کیا تھا، ہو سکتا ہے، اُنہی کی طرح اِن کا کھانا بھی بہت ذائقے دار ہو۔ تو فی الحال صفائی سے صرفِ نظر کرتے ہوئےکھانے سے دو دو ہاتھ کرتے ہیں۔ کانسی کے جگ میں ٹھنڈا پانی اور دو گلاس ٹیبل پر رکھے گئے۔
پھر ایک اسٹیل کی پلیٹ میں موٹے سے کٹے ہوئے پیازوں کا سلاد رکھ دیا گیا۔ قادر گل نے ہوٹل کے مالک سے استفسار کیا ’’کھانے میں کیا کیا ہے؟‘‘ اُس نے منہ میں رکھے پان کی جگالی کرتے ہوئے کہا، ’’ارے بھیّا! مٹن قورما، مٹن نہاری، دال ماش، مٹن کڑاہی، چکن قورما یہ سب ادھر ہی پڑا ہے۔‘‘ پھر کف گیر اُٹھا کے اپنے سامنے رکھے مختلف دیگچوں کی طرف اشارہ کیا۔ ویسے ایک بات تو تھی کہ ہوٹل والے کے منہ میں چاہے پان تمباکو والا کڑوا تھا، لہجے میں مٹھاس اور شیرینی شہد کی سی تھی۔
یہی نہیں، ویٹرز تک بےحد اخلاق سے بات کر رہے تھے۔ کام بھی پُھرتی اور مستعدی سے کررہے تھے اور چہروں پر خوش گوار مُسکرہٹ بھی سجی ہوئی تھی۔ قادر گل نےایک پلیٹ مٹن نہاری، ایک پلیٹ مٹن قورما اور ایک دال آرڈر کی۔ سالن کی خُوش بُو لاجواب تھی۔ گرما گرم خمیری روٹیاں ایک پلاسٹک کی چھابے میں سامنے رکھ دیں گئیں۔ پہلا لقمہ توڑ کے منہ میں رکھا تو ذائقہ واقعی لاجواب تھا۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سخت بھوک کا کرشمہ تھا یا سالن واقعی لذیذ تھا۔ بہرحال، اس کھانے کا ہم لوگوں نے بہت لُطف اُٹھایا۔ بلاشبہ، اُس ناقابلِ رشک ہوٹل کے کھانے کا ذائقہ قابلِ رشک تھا، جو آج تک نہیں بُھولتا۔ اگر ہوٹل والا کچھ پیسے ہوٹل کے رنگ روغن، چہرے مُہرے پہ خرچ کر لے، تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اُس کی سیل دگنی تگنی ہوجائے گی۔
بدن دن بَھر کی تھکاوٹ سے ٹُوٹ رہا تھا اور صبح چوں کہ جلدی بیدار ہوئے تھے، تو نیند بھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ پھر کھانے کا خمار آہستہ آہستہ آنکھوں میں اُترنے لگا۔ دل کر رہا تھا دُکان کے کونے میں جو تھڑا ہے، اُسی پر لمبی تان کے سو جائیں ۔ قادر گُل نے نیند سے بوجھل آنکھیں دیکھیں، تو ویٹر کو تیز پتّی کی کڑک چائے لانے کا کہہ دیا۔ چائے بھی بہت مزے کی تھی۔ چائے کی چسکیوں نے بدن کی تھکن اور ٹُوٹ پُھوٹ کو چاروں شانے چِت کردیا اور ہم لوگ پھر سے تازہ دَم ہوگئے۔ بِل چُکانے کے بعد باہر نکلے اور مہرولی بازار میں ہمارا کارواں واپسی کے لیے جادۂ پیما ہوگیا۔ ستیش کمار یادیو گاڑی کے اسٹیرنگ وہیل پر سر رکھے محوِ خواب تھا۔ ہم نے گاڑی کے دروازے کے شیشے پہ دستک دی، تو وہ ہڑبڑا کے اُٹھا اور ہمیں دیکھ کر گاڑی کا لاک کھولا۔ چاروں سوار اُس آہنی بگھیا پہ سوار ہوئے اور قطب مینار کی طرف چل دئیے۔
بچپن کے دن تھے اور ہمارے فقط تین ہی شوق، سارا دن گلی میں کھیل کود، گھر آکے یا تو کہانیوں کی کتابوں میں گُم ہو جانا یا ٹی وی کے سامنے چوکڑی جما کر بیٹھ جانا۔ امّی کہتی تھیں کہ ’’ہر وقت کتابوں میں گُم رہتے ہو، نظر کم زور ہو جائے گی۔‘‘ چوں کہ گاؤں کے ایک، دو بابے جو چند جماعتیں پڑھے ہوئے تھے، اُنہیں بہت موٹے عدسوں کے چشمے لگےتھے اور وہ اکثر اخبارہاتھ میں تھامے خبروں کے سمندرمیں یوں غوطہ زن ہوتےکہ اردگرد کی دنیا سے بالکل بے نیاز ہو جاتے، تو ہماری ہی کیا، پورے گاؤں کی امّیوں کا یہی خیال تھا کہ زیادہ کتابیں پڑھنے سے موٹے عدسوں کا چشمہ لگ جائے گا۔ پھر بھی ہم امّی سےچُھپ چُھپا کر کتاب تھام کے چوبارے کی سیڑھیوں میں دُبک جاتے، تو کبھی چارپائی کے نیچے گُھس کر پڑھتے رہتے۔
دن اسی طرح گزر رہے تھے کہ ہائی اسکول جا پہنچے، جہاں کی لائبریری بہت بڑی تھی۔ اب ہمارے ہاتھ تو سمجھیں قارون کا خزانہ آلگا۔ احمد یار سیالوی صاحب ہائی اسکول میں عربی کے مدرّس اور لائبریری اِن چارج تھے۔ ہم نے اُن سے علیک سلیک کر لی۔ بہت دھیمے مزاج کے انسان، عجز و انکسار کا پیکر۔ اپنے طالبِ علموں سے اولاد کی طرح محبّت کرنے والے اور لائبریری کی کتابوں سے بھی اُنہیں اولاد ہی کی طرح کا اُنس تھا۔ کسی کھلنڈرے، شرارتی بچّے کو کبھی کتاب جاری نہیں کرتے کہ مبادا کتاب گُم ہی نہ ہو جائے یا کتابوں کو کسی قسم کانقصان پہنچ جائے۔لیکن جس بچّے میں اُنہیں مطالعے کا ذوق نظر آتا، لائبریری سمجھیں اُس کے حوالے ہو جاتی۔
ہم میں اُنہیں پڑھنےلکھنے کا شوق نظر آیا، تو ایک طرح سے لائبریری ہمیں ہی سونپ دی۔ اور ہماری وہ مثال تھی کہ شکر خورے کے ہاتھ شکر لگ گئی۔ دن رات لائبریری میں رکھی کتابیں پڑھتے رہتے۔ اُس زمانے میں ایک کتاب کے سرورق پہ ایک بہت ہی عالی شان مینار کی تصویر نظر آئی ، جس نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ کتاب دلّی سے متعلق تھی اور سرورق پر قطب مینار کی تصویر تھی۔ وہ پہلی جھلک تھی، جو قطب مینار کی ہم نے دیکھی اور اُسی وقت دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی کہ زندگی میں ایک بار تو یہ مینار دیکھناہی ہے۔ وقت کی گرد یادداشت کے صفحوں پہ جمتی چلی گئی، پھر زمانہ ایم بی بی ایس کا آن پہنچا اور ہم طالب علم تھے علّامہ اقبال میڈیکل کالج کے۔
کالج کے میگزین ’’شاہین‘‘ کی ادارت ہمارے ذمّے تھی۔ سردیوں کی ایک شام ہم اپنے ایک قریبی دوست ناصر اعوان کی ہم راہی میں انارکلی بازارجانکلے۔تلاش تھی شاہین میگزین کے پبلشر شاہ جی کی، جنہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے انارکلی بازار کےآخر میں ایک بغلی گلی میں پہنچ گئے، وہاں ایک پرانےطرزِ تعمیرکا سادہ، مگر پُروقار پیلے رنگ کا مقبرہ ایک چھوٹے سے احاطے میں نظر آیا۔ ناصر اعوان، جو طباعت کے کام سے منسلک تھے اور اُن کا اکثر اُس طرف آنا جانا ہوتا تھا، تو وہ ہمیں اُس گلی میں لے کر تو چائے پلانے گئے تھے، لیکن ساتھ ہی ہم نے مقبرہ دریافت کرلیا اور پھر اُن سے اس کی بابت پوچھا۔ ناصر اعوان نے بتایا کہ ’’یہ سلطنتِ دہلی کے پہلے مسلمان تاج دار، قطب الدّین ایبک کامقبرہ ہے، جو لاہور میں چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرکر فوت ہوا تھا۔
چائے پی کر ہم نےمقبرے پہ فاتحہ خوانی کی۔ مقبرے کے احاطے کی دیواروں پر قطب مینار کی شبیہات کُھدی تھیں، جو دیکھ کر ہائی اسکول کے زمانے میں پڑھی اُس کتاب کا سرورق پھر سے یاد آگیا۔ اور برسوں پرانی وہ خواہش دوچند ہوگئی۔ اَب دودہائیوں بعد ہماری یہ دلی خواہش پوری ہونے جا رہی تھی۔ ستیش کی گاڑی مہرولی کی سڑک پہ قطب مینار کی طرف جارہی تھی۔ دُور ہی سے قطب مینار نظر آنا شروع ہوگیا۔ مہرولی میں وہ علاقہ، جہاں قطب مینار واقع ہے، اس کی جو چیز ہمیں سب سے زیادہ یاد آتی ہے، وہ وہاں کی بے تحاشا ہریالی ہے۔ اگر اُس علاقے سے تارکول کی سیاہ سڑکیں، اُن پر رینگتی گاڑیاں اور کنکریٹ کی عمارتیں نکال دی جائیں، تو وہ علاقہ ایک گھنا جنگل لگے۔
ستیش بابو نے ہمیں قطب مینار کمپلیکس کے سامنے سڑک کنارے اُتار دیا۔ درختوں کے ساتھ ساتھ سڑک کنارے خوانچوں، ریڑھیوں اور کھوکھوں کا بھی ایک گَھنا جنگل دکھائی دیتا ہے۔ ریڑھیوں پہ پھل، نمکو، دال، چپس، کولڈ ڈرنکس، پانی کی بوتلیں وغیرہ فروخت کی جاتی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر دل ہی دل میں خوشی ہوئی کہ چلو صرف ہمارے لاہور ہی کی سڑکیں ریڑھی، خوانچے والوں کے زیرِ تسلّط نہیں، دلّی کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ دائیں ہاتھ سڑک پار کر کے ٹکٹ کاؤنٹر تھا، قریب ہی فلیکس پہ کیو آرکوڈ اسکین کر کے آن لائن ٹکٹس خریدے۔ یہاں بھی انڈین نیشنلز کے لیے ٹکٹ بیس روپے اور غیر مُلکیوں کے لیے چھے سو روپے کا ہے۔ ایک بار پھر قادر گل کو ٹکٹ خریدنے کی لائن میں کھڑا کر کے فیض، چچا منظور اور ہم اِدھر اُدھر گھومنے لگے۔
بائیں ہاتھ ٹھنڈے پانی کا فلٹریشن پلانٹ نظر آیا، وہاں سے ٹھنڈا پانی پی کر مہرولی کی گرمی سے دو دو ہاتھ کر نے کی کوشش کی۔ سامنے ہی قطب مینار کمپلیکس کا داخلی دروازہ ہے۔ یہ ایک مرغولہ دار محرابی شکل کادروازہ ہے۔ کسی نے اگر لکھنؤ کا مشہور رومی دروازہ دیکھا ہو، تو وہ سمجھ لے کہ یہ دروازہ، اُس دروازے کا اسمال ورژن ہے۔ ٹکٹ خرید کے قادر گل آن پہنچا اور ہم اُس دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔ دائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی بہت پرانی مسجد نظر آئی، جس کا نام ’’مغل مسجد‘‘ تھا اور تین چھوٹے چھوٹے سُرمئی گنبدوں کی چھت اُس پر سایہ کیے ہوئے تھی۔ اُسی سے ملتی جلتی ایک مسجد لال قلعہ کی پارکنگ کے پاس بھی تھی، جس کا نام غالباً ’’سنہری مسجد‘‘ تھا۔
مغل مسجد کی دیوار کے قریب سُرخ رنگ کے کچھ کتبے لگے ہوئے تھے، جن پہ قطب مینار کمپلیکس میں موجود مختلف مقبروں اور عمارتوں کا تعارف درج تھا۔ دائیں ہاتھ داخلی دروازے سے مِلتا جُلتا ایک اور دروازہ تھا، جس سے ہم داخل ہونے کی بجائے باہر نکل آئے اور بائیں ہاتھ سبزہ زار کے ساتھ جو پختہ راستہ جا رہا تھا، اُس پہ خراماں خراماں چل دیئے۔ اِس پختہ راستے کے اختتام پہ بائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا مقبرہ ہے، جس کی دیواریں سفید ستونوں اور سنگِ سُرخ کی جالیوں سے بنی ہیں۔
ان دیواروں پہ سنگِ مَرمَر کی چوکور چھت ہے، جس کے کناروں پہ سنگِ سُرخ کے کنگرے تھے، جن پر’’اللہ اکبر‘‘ کُھدا ہوا ہے۔ نیز، بے کواڑ سنگِ مرمر کا دَر مزار کے اندر کُھلتا ہے اور اس کے حاشیے پر سنگِ سُرخ کی جالیاں ہیں، جب کہ روکار سنگِ مَرمَر کی ہے، جس پہ آیتِ کریمہ کُھدی ہے۔ ہم لوگوں نے وہاں فاتحہ خوانی کی۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب ’’سیرِ دہلی‘‘ میں اُس مزار کا ذکر کیا ہے کہ یہ کسی بزرگ امام ضامن کا ہے۔ امام ضامن کے مزار کے قریب ہی مسجد ’’قوت الاسلام‘‘ کا علائی دروازہ ہے۔ یہ نہایت عالی شان قسم کا دروازہ ہے، جسے دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ گویا ’’ٹُک ٹُک دیدم، دَم نہ کشیدم‘‘ کا منظر نامہ بن جاتا ہے۔
لاہورکے انارکلی بازار میں اگر کسی نے پیلے رنگ کا قطب الدّین ایبک کا مزار دیکھا ہو، تو سمجھیں وہ علائی دروازے کو نقل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ علائی دروازہ، مسجدِ قوت الاسلام کے جنوب میں واقع ہے۔ خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں، ’’اُس زمانے میں دلّی شہر کی آبادی اُس دروازے کے جنوب میں تھی اور لوگ اُس دروازے سے مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے۔ سنگ سُرخ اور سنگِ مرمر کے امتزاج سے بنی اونچی اونچی دیواریں تھیں، جن میں چاروں طرف اونچے محراب دار دَر تھے، جن کے آس پاس سنگِ مَرمَر کی جالیوں سے مزیّن کھڑکیاں تھیں۔
کھڑکیوں اور دروازوں کی محرابوں پہ مُنَبَّت کاری سے آیات کی کشیدہ کاری کی گئی تھی، ان آیات کو دیکھ کر یوں لگتا تھا، جیسے مسجد قوت الاسلام کا یہ دروازہ ہر وقت تلاوتِ کلامِ پاک میں مشغول رہتا ہو۔‘‘ اورحقیقت یہ ہے کہ اُسے دیکھ کرخُود ہمیں بھی یہی گمان ہوا۔ علائی دروازے کی چھت ایک سادہ گنبد سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ابنِ بطوطہ نےاپنےسفرنامۂ ہند ’’عجائب الاسفار‘‘ میں بھی دلّی کی جامع مسجد کا ذکر کرتے ہوئے ’’قوت الاسلام مسجد‘‘ کے شرقی دروازے کا ذکر کیا ہے کہ اس دروازے سے احاطے میں داخل ہوتے ہیں، جس کے بیچوں بیچ چندر گپت موریہ عہد کی لوہے کی لاٹھ نصب تھی۔ مسجد کا یہ حصّہ 1192ء میں سلطان قطب الدّین ایبک نے تعمیر کروایا تھا۔
اس حصّے میں پانچ اونچی محرابیں تھیں اور درمیان کی محراب سب سے اونچی تھی۔ یہ پانچ محرابیں پانچ وقت کی نمازوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعمیر کی گئیں۔ ابنِ بطوطہ نےاس حصّہ کا ذکر یوں کیا ہے، ’’اس کے دروازے کے سامنے دو تانبے کے بُت پتھروں کے فرش میں جَڑے ہیں، جو پُل کا کام دیتے ہیں، جن سے گزر کر لوگ مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔‘‘ ابنِ بطوطہ کے سفر نامہ ہند کے حاشیے میں مترجّم خان بہادرمولوی محمّد حُسین لکھتے ہیں کہ ’’ان میں سے ایک راجا بکرما جیت کا بت تھا، جسے شمس الدّین التمش نے جب اجین فتح کیا، تو وہاں کے مہاکال مندر سے توڑا اور یہاں لا کر نصب کر دیاتھا۔‘‘ہم لوگ علائی دروازے سے مسجد قوت الاسلام میں داخل ہوئے۔ بائیں ہاتھ پتھر کے ستونوں اور چھت کی ایک غلام گردش تھی، جس کے نیچے کھڑے ہو کر اپنی بچپن کی آرزو پوری کی اور سُرخ پتھروں کے عجوبے، قطب مینار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس مینار کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کے عہدِ رفتہ کی صدیوں پر محیط شان دار تاریخ بھی آنکھوں کے سامنے پھیل گئی۔
قطب الدّین ایبک نے مسجد کے باہر قطب مینار کی تعمیر1199ء میں شروع کروائی۔ ایبک اس کی بس پہلی منزل ہی مکمل کرسکا تھا کہ اجل کے فرشتے نے اُسے موت کی ابدی منزل کی طرف بُلا لیا اور، باقی کےمینار کی تکمیل اس کے داماد شمس الدین التمش نے کروائی۔ قطب مینار کی بلندی ساڑھے بہتّر میٹر ہےاور یہ کُل پانچ منزلوں پر مشتمل ہے۔ یہ بھارت کا بلند ترین مینار ہے۔ شمس الدّین التمش نے مسجد قوت الاسلام کی توسیع بھی کی تھی اور ایبک کی پانچ محرابوں کے اردگرد تین، تین محرابوں کے ساتھ دو حصّوں کا اضافہ کیا تھا۔ ہاں، اُس جگہ کے حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ یہاں ’’پرتھوی راج چوہان‘‘ یا ’’رائے پتھورا‘‘ کا مندر تھا، جسے گِرا کر یہ مسجد تعمیر کی گئی۔
مسجد کے باہر لگے ایک کتبے پہ لکھا ہے کہ ’’لگ بھگ ستائیس مندروں کو گِرا کر اُن کے پتھروں سے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔‘‘ مسجد کے پتھروں پر اب بھی کئی مورتیاں کُھدی نظر آتی ہیں، جن میں ہندوؤں کے بھگوان گنیش کی مورتی اور نٹ راج کی مورتیاں نمایاں ہیں۔ جب ہم لوگ قطب مینار پہنچے، تو اُس وقت بھی کچھ انتہا پسند ہندو تنظیمیں قطب مینار کمپلیکس کے باہر دھرنا دیئے بیٹھی تھیں۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ اِس جگہ پر مندر بحال کیا جائے اور اُنہیں پوجا پاٹھ کی اجازت دی جائے۔ اس ضمن میں دہلی ہائی کورٹ میں ایک رِٹ بھی دائر کی گئی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ ’’دیوی، دیوتا ایک ہزار سال سے مندر میں پوجا کے منتظر ہیں، تو اب ہمیں اجازت دی جائے کہ یہاں پوجا پاٹھ کریں۔‘‘
جس پر دہلی ہائی کورٹ کے جج نے یہ ریمارکس دے کر رِٹ خارج کر دی کہ ’’اگر ایک ہزار سال سےدیوی، دیوتا پوجا کے بغیر گزارہ کررہے ہیں، تو آگے بھی کرلیں گے۔‘‘ عجائب الاسفار میں ابنِ بطوطہ لکھتا ہے کہ’’مشرق و مغرب میں اس نظیر کا عظیم الشّان مینار اور ایسی رفیع الشّان مسجد کہیں نہیں ملتی۔‘‘ کافی دیر تک اِسی غلامِ گردش میں کھڑے ہو کر ہم سُرخ پتھروں کی یہ عالی شان بلندی تکتے رہے۔ مینارکےمحیط پہ سنگِ سُرخ کی گولایاں اور تکونیں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ مینار کی بلندی کے رُخ تھوڑے فاصلے پہ مُنَبَّت کاری سے کچھ آیات کندہ ہیں، جن کے اِردگرد گرد خُوب صُورت، پُھول دار حاشیے بھی اُس زمانے کے کاری گروں کی صنّاعی کا عظیم نمونہ ہیں۔ صدیوں سے وہ پُرشکوہ مینار سینہ تانے اِس دھرتی پہ اپنے جلال و جمال کا مظاہرہ کر رہا ہے اورہمارا دل چاہنے لگا کہ صدیاں بیت جائیں اور ہم یہیں کھڑے اِس عالی شان عجوبے کو بس تکتے ہی رہیں۔ (جاری ہے)