• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی شہرت یافتہ، جفت ساز کمپنی کا بانی، طامس باٹا

عالمی شہرت یافتہ جفت ساز کمپنی، باٹا شُو کمپنی کے بانی، طامس باٹا اپنی کمپنی کے قیام کے ایک سال بعد ہی ناسازگار کاروباری حالات کے باعث انتہائی دل گرفتہ تھے۔ اُن کے تیار کردہ جوتوں کی خریداری کے لیے گاہک نہیں ملتے تھے۔ وہ قرض لے کر ملازمین کی تن خواہیں ادا کررہے تھے، مگر یہ سلسلہ آخر کب تک چلتا۔ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبنے لگے، اُن کی نوزائیدہ جفت ساز کمپنی بدترین کاروباری حالات کے باعث دیوالیہ ہونے کے قریب تھی کہ ایک دن ایک نصیحت گر، دانا بوڑھے مزدور کی قیمتی نصیحت نے اُن کے ڈوبتے کاروبار کو بامِ عروج تک پہنچادیا۔ 

بوڑھے مزدور نے کاروبار میں خسارے کے شکار اور مقروض مالک کو دانائی کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے کہا ، ’’بیٹا! تم ہمیشہ یہ خیال کیا کرو کہ تمہاری پراڈکٹ منہگی ہے اور تم مزدوروں کو ان کی محنت سے کم اجرت دے رہے ہو۔ اسی طرح یہ بھی کوشش کرتے رہو کہ کسی طرح تمہاری پراڈکٹ سستی ہوجائے اور مزدوروں کو زیادہ اجرت ملے۔‘‘

طامس باٹا نے بوڑھے دانا مزدور کی نصیحت گرہ میں باندھ لی، جو دنیا بھر کے آجروں کے کاروبار کی ترقی اور ان کے اداروں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لیے زرّیں حروف میں تحریر کرنے کے قابل ہے۔ اگرچہ وہ مزدور اب بوڑھا ہوچکا تھا، واجبی سی تعلیم تھی، لیکن وہ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات سے مالامال تھا۔ وہ زندگی کے پُرپیچ راستوں سے بھی خُوب واقف تھا۔ اُسی بوڑھے مزدور کے تجربات سے بھرپور نصیحت نے طامس باٹا کو عام موچی سے ایک کثیرالقومی جفت ساز کمپنی کا مالک بنادیا۔

اس کمپنی کی کہانی آسٹریا، ہنگری (موجودہ چیکو سلواکیہ) کے ایک چھوٹے سے قصبہZlin سے شروع ہوتی ہے، جہاں باٹا نامی خاندان صدیوں سے جفت سازی (جوتےبنانے) کے پیشے سے منسلک تھا۔3،اپریل1876ء میں اس خاندن میں ایک بچّے نے جنم لیا، جس کا نام طامس باٹا رکھا گیا۔ پرائمری تعلیم کے بعد ہی اس نے خاندانی دستور کے مطابق صرف 15برس کی عمر میں جفت سازی کے کام کا آغاز کردیا، ساتھ ہی اپنے والد کے کارخانے کے لیے مختلف علاقوں سے آرڈر حاصل کرکے لانے لگا۔

اسی دوران اس نے وقت کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے باقاعدہ طور پر جفت سازی کی کمپنی قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور24اگست1894ء کو اپنے بھائی انطونین اور بہن انا کی شراکت سےT&A Bata Shoe Co کی بنیاد رکھ دی۔ وراثتی پیشے کے باعث اس کی قائم کردہ جفت ساز کمپنی جلد ہی عوام میں مقبول ہونے لگی۔ اس نے کام کی طلب دیکھتے ہوئے مزید ملازمین بھی بھرتی کرلیے۔ ایک سال تک تو اس کا کاروبار خوب چلا ،لیکن پھر رفتہ رفتہ مندی کا شکار ہونے لگا اور1895ء میں مالی خسارے کے باعث بُری طرح قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ 

اس مایوس کُن صورتِ حال کے باعث اس کا کاروباری شراکت دار بھائی انطونین، فوج میں بھرتی ہوگیا، جب کہ اجرت نہ ملنے کی وجہ سے 50 ملازمین کام چھوڑگئے۔ اس مخدوش کاروباری صورتِ حال اور قرض خواہوں سے بچنے کے لیے طامس باٹا گھر بیٹھنے پر مجبور ہوگیا۔ اسی مایوسی کے عالم وہ دن گزار رہا تھا کہ ایک روز ایک بوڑھے دانا مزدور کی ایک نصیحت نے اس کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔

اُس دَور میں جوتے صرف خالص چمڑے ہی سے تیار کیے جاتے تھے، لیکن طامس باٹانے1897ء میں دنیا میں پہلی مرتبہ چمڑے اور ولایتی ٹاٹ (Canwas)کے ملاپ سے ایک’’Batovka ‘‘نامی جوتا تیار کیا، جو کم قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ خُوب صُورتی اور اسٹائل میں خاصانمایاںرکھتا تھا۔ اس نئی پراڈکٹ کو ہر طبقے کے گاہکوں نے بے حد پسند کیا اور پھر اس منفرد کینوس شوز کی مانگ میں بے پناہ اضافے کی بدولت طامس باٹا کی کام یابی اور خوش حالی کے دروازے کُھلتے چلے گئے۔ اُس دَور میں یورپ کے بعض دُور دراز علاقوں میں اکثر لوگ غربت اور بدترین اقتصادی حالات کے باعث ننگے پاؤں بھی رہنے پر مجبور تھے۔

ایک رحم دل اور حسّاس انسان کی حیثیت سے طامس باٹا کی ہمیشہ خواہش رہی کہ کم آمدنی والے افراد سخت موسمِ سرما میں ننگے پائوں نہ رہیں۔ چناںچہ اس کی ہم دردانہ سوچ اور رحم دلی کی بدولت غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی باٹا شوکمپنی کے سستے اور پائیدار جوتے خریدنے کے قابل ہوگئے۔ یہی سستی اور پائیدارپراڈکٹ آگے چل کراس کمپنی کے لیے زبردست کاروباری کام یابی اور شہرت کی بنیاد ثابت ہوئی۔ اِسی پھر روز افزوں زبردست مقبولیت ملتی چلی گئی، توطامس نے1900ء میں اپنی کمپنی کو Shoe Co T&A Bata کے تجارتی نام سے رجسٹر کروالیا۔ 

بعدازاں، فیکٹری میں پہلی مرتبہ بھاپ سے چلنے والی مشینیں نصب کروائیں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق 1904ء میں میکنیکل پراڈکٹ تیکنیک بھی متعارف کروائی۔ جس کے بعدپیداواری صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور اس کی کمپنی یورپ کی صفِ اوّل کی جفت ساز کمپنی بن گئی۔ ایک کے بعد ایک کام یابی کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی دوران ستمبر1906ء میں فیکٹری کے مزدوروں نے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر عام ہڑتال کردی، جو تین ماہ تک جاری رہی۔ ہڑتال کے نتیجے میں کمپنی تقریباً مفلوج ہوکر رہ گئی۔اگرچہ اس واقعے کے بعد طامس باٹا نے فیکٹری میں چند اصلاحی اقدامات کرتے ہوئے مزدوروں کے جائز مطالبات تو تسلیم کرلیے، لیکن ساتھ ہی اپنی فیکٹری سے ٹریڈ یونین کا خاتمہ بھی کردیا اور’’کام کی جگہ، سیاست نہیں‘‘ (No Politics at work)کی پالیسی کا نفاذ کیا۔

1922ء میں طامس باٹا، چیکو سلواکیہ میں جفت سازی کا سب سے بڑا تیار کنندہ بن کر اُبھر چکا تھا اور 1930ء کی دہائی تک اس کی کمپنی پورے یورپ میں اپنے کارخانے اور اسٹورز کا جال قائم کرچکی تھی۔ Zlin کے بعد اس نے سوئٹزر لینڈ، جرمنی، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور بھارت میں بھی باٹا شو کمپنی کے کارخانے قائم کرکے وہاں پراڈکشن لائن، مزدوروں کے لیے رہائشی آبادی، اسپورٹس، تعلیم اور علاج معالجے کے مراکز قائم کیے۔ وہ اپنی جفت ساز فیکٹری کے افسران اور کارکنوں کومختلف شرح کے لحاظ سے اجرتیں ادا کیا کرتا تھا۔ 

آج اس معروف کمپنی کا مرکزی دفتر سوئٹزر لینڈ میں ہے اور دنیا کے پانچ براعظموں اور114ممالک میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے، جب کہ اس کی فروخت کا سالانہ حجم 150ملین جوتوں کی جوڑی ہے۔ دنیا بھرمیں کمپنی کے براہ راست ملازمین کی تعداد تقریبا 90ہزار اور بالواسطہ ملازمین اس کے علاوہ ہیں۔ یورپ میں جفت سازی کے میدان میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعدباٹا شو کمپنی نے دنیا کے دیگر خطّوں کے گاہکوں کے لیے بھی اپنی پراڈکٹس متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ 

اس مقصد کے تحت جنوبی ایشیاء کے اہم خطّے، بھارت کا رُخ کیا اور شہریوں کی باٹا کمپنی کی پراڈکٹ کی پسندیدگی اور مقبولیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے1931ء میں مغربی بنگال میں کلکتہ شہرکے نزدیک ’’باٹا نگر‘‘ کے نام سے ایک جفت ساز فیکٹری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی باٹا شو کمپنی کی تیار کردہ معیاری اور آرام دہ پراڈکٹس نسل دَر نسل مقبول چلی آرہی ہیں۔ باٹا شوکمپنی نے1942ء میں لاہور شہر کے مضافات میں اپنی جفت ساز فیکٹری اور اس کے احاطے میں مزدوروں کے لیے ایک رہائشی کالونی قائم کی، جو آج بھی’’باٹا پور‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ پاکستان بھر میں باٹا شو کمپنی کی پراڈکٹس کے500خوردہ اسٹور،200رجسٹرڈ تھوک ڈیلر، 10سیلز آفس، 9ڈسٹری بیوٹرز اور5تھوک فروش مقرر ہیں۔

باٹا شوز کمپنی کی کاروباری اقدارمیں اپنے گاہکوں کے لیے سستی اور معیاری مصنوعات کی فراہمی سرِفہرست ہے، جو اس کمپنی کی اپنے معزز گاہکوں کے لیے ایک منفرد کاروباری اخلاقیات کی جداگانہ پہچان رکھتی ہے اور اس انفرادیت کے لحاظ سے اسے دنیا کے دیگر کاروباری اداروں کے مقابلے میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل بھی بناتی ہے۔ باٹا شو کمپنی اپنی پراڈکٹس کی ’’بعداز فروخت تبدیلی اور رقم کی واپسی کی ضمانت کی پالیسی‘‘ کے تحت خریدی گئی کسی بھی پراڈکٹ میں نقص یاخرابی کی صورت میں اس کی تبدیلی کی سہولت فراہم کرتی ہے، اسی طرح کمپنی کی جانب سے گاہکوں کوکسی پراڈکٹ کے پسند نہ آنے کی صُورت میں مقررہ میعاد کے دوران خریدار کو پوری رقم کی واپسی(Refund Policy) کی منفرد پالیسی بھی رائج ہے، جو اسے دیگر نام ور کمپنیز سے ممتاز کرتی ہے۔

اسی طرح طامس باٹا نے اپنی شوکمپنی کی اپنی مختلف پراڈکٹس کے لیے بھی قیمت کے تعیّن کا ایک اُچھوتا انداز’’ Bata Price ‘‘بھی متعارف کروایا تھا۔ جس کے تحت باٹا شو کمپنی کی ہر پراڈکٹ کی قیمت کاروباری حکمتِ عملی کے مطابق 99پر ختم ہوتی ہے۔ اگرچہ اس میں محض ایک ہی عدد کا معمولی فرق ہے، لیکن کسی پراڈکٹ کی ایک کم ہندسے والی قیمت گاہک کی خریداری کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتّب کرتی ہے۔

1914 ء میں شروع ہونے والی جنگ ِعظیم اوّل، اپنی تمام تر تباہی و بربادی کے باوجود طامس باٹا کے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔ اس کی کمپنی کے پاس جرمن افواج کے جوتے بنانے کے آرڈر آنے لگے۔ چناں چہ اُسے بڑی تعداد میں فوجی جوتوں کے بروقت آرڈر نمٹانے کے لیے اپنے کارخانوں میں دس گنا زیادہ ملازمین رکھنے پڑے۔ اس دوران کاروباری دنیا میں کام یابی کے ساتھ طامس باٹا کو کئی بار سخت ذہنی اور مالی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اور پھر جنگِ عظیم اوّل کے خاتمے کے بعد دیگر یورپی ممالک کی طرح چیکوسلواکیہ میں بھی شدید اقتصادی بحران پیدا ہوگیا اور اس کی کرنسی کی مالیت 75فی صد تک گھٹ گئی، جس کے نتیجے میں باٹا شُو کمپنی کی مصنوعات کی طلب میں شدید کمی، پیداوار میں تخفیف کے باعث اس کا کاروبار بے حد مندی کا شکار ہوگیا، لیکن طامس باٹانے ان تمام ترنا مساعد حالات کے باوجود ہمّت نہ ہاری۔ 

ان نازک ترین حالات میں بھی اس کے ذہن رسا نے ایک ایسا انقلابی فیصلہ کیا کہ جس کی دنیا بھرکے کاروباری شعبوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ طامس باٹا نے اس سنگین اقتصادی بحران کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ایثار، زبردست انسانی ہم دردی اور سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو شدید سردی میں ننگے پائوں رہنے سے بچانے کے لیے اپنی کمپنی کے جوتوں کی قیمت نصف کردی۔ اسی وجہ سے طامس باٹا کی جانب سے اپنے گاہکوں کے ساتھ کڑے وقت میں ساتھ نبھانے کے اس غیرمعمولی اور مقبول فیصلے نے اس کے لاکھوں گاہکوں کے دل میں گھر کرلیا۔ 

دیکھا جائے، توباٹا شُو کمپنی کا قیام کاروبار کے ساتھ ساتھ دنیا میں ایک اہم صنعتی اور سماجی تجربہ تھا۔ چناں چہ اس کے زرّیں قول’’ ہمارے گاہک، ہمارے آقا ہیں۔‘‘ کے باعث بھی اس کا کاروبار ایک بار پھر تیزی سے عروج کی طرف بڑھنے لگا۔ طامس باٹا نے اپنی انسان دوستی اور سخاوت کی بدولت بے شمار سماجی، تعلیمی، تربیتی اور خیراتی اداے بھی قائم کیے تھے۔ 

جن میںZlin شہر میں1927ء میں تعمیر کردہ 1,084بستروں، 294 ڈاکٹروں اور طبّی عملے پر مشتمل ایک جدید اسپتال،جس سےسالانہ40ہزار مریض استفادہ کرتے ہیں، شامل ہے، تو باٹا یونی وَرسٹی، گرانڈ سنیما اور1933ء میںZiln شہر ہی میں قائم ہونے والی ’’طامس باٹا میموریل عمارتیں‘‘ بھی اپنی تعمیر کے لحاظ سے قابلِ دید ہیں۔ ورلڈ باٹا آرگنائزیشن کی جانب سے ایک وسیع عمارت Bata Skyscraper کا شمار چیکو سلواکیہ کی بلند ترین عمارت میں کیا جاتا ہے۔ اسی طرح 1979ء میں ٹورنٹو، کینیڈا میں جوتوں کی 13ہزار جوڑی کے مجموعے کے علاوہ جفت سازی سے متعلق قدیم اشیائے نوادرات پر مشتمل ’’باٹا شُو عجائب گھر‘‘ بھی قائم کیا گیا۔

بدقسمتی سے طامس باٹا کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ 12جولائی 1932ء کو Zlin ہوائی اڈے سے موہلن، سوئٹزر لینڈ جاتے ہوئے خراب موسم اور شدید دُھند کے باعث ہوائی جہاز کے حادثے میں صرف56برس کی عُمر میں ہلاک ہوگیا۔ طامس باٹااپنی موت تک جفت سازی کا معروف تیارکنندہ، تجارت، خدمات اور ٹرانسپورٹیشن کے36 شعبوں کا منتظم تھا اوراُس وقت اس کی کمپنی میں 16,560ملازمین خدمات انجام دے رہے تھے۔ دنیا کاکام یاب ترین، انسان دوست اور مخیّر صنعت کار، طامس باٹا خود تو اس دنیا سے چلا گیا، لیکن آج بھی دنیا بَھر کے لوگ اُس کے لگائے ہوئے جفت سازی کے ثمر آور درخت باٹا شو کمپنی سے مستفید ہورہے ہیں۔ (مضمون نگار، سوشل سیفٹی نیٹ، پاکستان کے ڈائریکٹر ہیں)