جب نیچے سے اوپر تک مینار کی بلندی کو تکتے ہیں، تو یوں لگتا ہے، جیسے وہ آسمان کی بلندیوں سے ہم کلام ہے اور آسمان اپنے سینے کے سربستہ راز اُس کے گوش گزار کر رہا ہے۔ قطب مینار کے اردگرد لوہے کی سلاخوں سے حفاظتی جنگلہ بنایا گیا ہے۔ مینار کے دروازے کے کواڑ بند تھے اور اُنہیں تالا لگا ہوا تھا۔ کسی زمانے میں لوگ مینار کے اوپر جا سکتے تھے اور اُس کی بلندی سے دہلی شہر کا نظارہ کر سکتے تھے، مگر 1981 ءمیں ایک اسکول ٹرپ میں بچّے یہاں آئے، تو اُترتے ہوئے کسی وجہ سے بھگدَڑ مچ گئی، جس کے نتیجے میں قریباً بیس، پچیس بچے ہلاک ہو گئے۔ بس، اُس واقعے کے بعد سے مینار کے اوپر جانے پہ پابندی عائد کر دی گئی۔ فیروز شاہ تغلق اور علاؤ الدین خلجی نے اپنے اپنے زمانے میں اس مینارکی مرمّت کراوئی۔
مسجد قوّت الاسلام کے اردگرد ایک خندق نُما نہر تھی، جس سے مسجد میں وضو کے لیے پانی لایا جاتا تھا۔ علائی دروازے کے سامنے نہر پر لکڑی کا پُل تھا۔ ایسا ہی ایک پُل مسجد کے بائیں ہاتھ کی محرابوں کی مغربی طرف بھی تھا۔ ہم اس لکڑی کے پُل سے گزر کر بائیں ہاتھ چل دیئے، جو اجاڑ، ویران تھا، اور وہاں کھنڈرات ہی کھنڈرات تھے، جب کہ عین سامنے سبزہ زار تھا۔ دراصل بائیں ہاتھ یہ اُجاڑ بیاباں قسم کے کھنڈرات سلطان الہند علاؤ الدین خلجی کے مقبرے کے تھے۔
علاؤ الدین خلجی سے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک ظالم حُکم ران تھا اور ایک نیا مذہب جاری کرنا چاہتا تھا۔ اس نے حوضِ خاص تعمیر کروایا تھا، جہاں اب مہرولی سے پرانی دلّی کی طرف ایک بہت ماڈرن مارکیٹ ہے۔ ابنِ بطوطہ عجائب الاسفار میں لکھتا ہےکہ ’’یہ حوض مِیلوں پر محیط تھا۔ علاؤ الدّین خلجی نے یہ حوض سیری کے قلعے کو پانی کی فراہمی کے لیے تعمیر کروایا تھا۔‘‘ شمس الرحمٰن فاروقی نے ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرنامے ’’عجائب الاسفار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یہ علاقہ طوائفوں اور گانے والیوں کا علاقہ ہے، کئی مطربائیں اس علاقہ میں رہتی ہیں۔‘‘ اب بھی حوضِ خاص کے علاقے میں بہت سے نائٹ کلبز، بارز اور ڈانس کلبز ہیں۔ اِسے دہلی کا ’’ریڈ لائٹ ایریا‘‘ سمجھ لیں۔ خیر، قطب مینار کمپلیکس میں علاؤ الدین خلجی کا مقبرہ اجاڑ اور ویران کھنڈر نما مقبرہ ہے، جس پرسُرمئی رنگ کا ایک مستطیل چوکور سا بےنام و نشان کتبہ لگا ہےاور اُس پر کچھ تحریر نہیں۔
مقبرے کے سامنے بائیں ہاتھ کچھ حُجرے اب بھی باقی ہیں، جو خلجی دَور کے مدرسے کی باقیات ہیں۔ سُنا ہے کہ اس مدرسے کے حفّاظ علاؤ الدین خلجی کے ایصالِ ثواب کے لیے دن رات فاتحہ خوانی میں مشغول رہتے تھے۔ خلجی کے مقبرے کے مغرب میں ایک بہت پرانی فصیل کے آثار بھی نظر آئے۔ یہ فصیل لال کوٹ کے قلعے کی ہے، جو اس علاقے میں اننگ پال حُکم ران نے بنوایا تھا۔ بعدمیں پرتھوی راج چوہان نے اِس کی توسیع کی اور جب اُسےسلطان معز الدّین بن سام شہاب الدّین غوری نے ترائن کی جنگ میں شکست دے کر دہلی کی حکومت اپنے غلام قطب الدّین ایبک کے حوالے کی، تو لال کوٹ قلعہ مسجد قوّت الاسلام میں شامل ہوگیا۔
علاؤ الدین خلجی کے مقبرے کے سامنے شمال کی طرف پھیلے سبزہ زاروں میں چلتے گئے، تو بالکل سامنے بغیر گنبد کے ایک مقبرہ نظر آیا، جس کی کُھلی چھت سے آسمان اس لحد پہ شبنم افشانی کرتا ہے۔ یہ مقبرہ ہے، سلطان شمس الدّین التمش کا، جس کی دیواریں سنگِ سُرخ کی ہیں، جن پہ قرآن کی آیات بہت خُوش نُما انداز میں مُنَبَّت کاری سے رقم کی گئی ہیں۔ مقبرے کی مغربی دیوار کے درمیان سنگِ مرمر کی ایک بڑی محراب بنی ہوئی ہے، بغل میں دو سنگِ سُرخ کی محرابیں ہیں، جب کہ باقی تین دیواروں میں بےکواڑ دَر ہیں۔
درمیان میں قبر کا تعویذ ہے، جس کی مستطیل شکل کی بنیاد سنگِ سُرخ کی اور تعویذ کا اوپری حصّہ سنگِ مَرمَر کا ہے۔ سلطان التمش کی اصل قبر تہہ خانے میں ہے، جب کہ قبر کے بالکل اوپر اصل قبر سے مماثل ایک تعویذ بنایا گیاہے۔ شمال کے دروازے کے باہر فرش میں سےتہہ خانے میں اُترتی سیڑھیاں نظر آئیں۔ جن کاراستہ فرش میں آہنی سلاخوں کا دروازہ لگا کر بند کیا ہوا ہے۔ یہ سیڑھیاں تہہ خانے میں اصل قبر کی طرف جاتی ہیں۔
شمس الدین التمش کا مقبرہ دیکھ کر ایک عجیب قسم کا رعب رُوح پہ طاری ہوگیا۔ دیواروں پہ لکھی آیات اس مقبرے کو ایک تقدّس سے ہم کنار کر رہی تھیں۔ جب حضرت قطب الدّین بختیار کاکیؒ کا وصال ہوا، تو اُن کی وصیّت کے مطابق اعلان ہوا کہ’’جنازہ وہ شخص پڑھائے گا، جس کی عصر کی سُنتیں کبھی قضا نہ ہوئی ہوں اور جس نے زندگی میں تمام فرض نمازیں ہمیشہ تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ ادا کی ہوں۔‘‘بہت دیر بعد ایک شخص جنازہ پڑھانے کے لیے آگے آیا، جب اُس نے چہرے سے رومال ہٹایا، تو پتا چلا کہ وہ وقت کا بادشاہ، سلطان شمس الدّین التمش ہے۔
سلطان شمس الدّین التمش بہت نیک دل، دین دار، بزرگان ِدین کے خدمت گزار اور رعایا کے دُکھ درد بانٹنے والے تھے۔ ایک دن اُن کے خواب میں آقائے دو جہاں نبی کریمﷺ تشریف لائے اور اُنہیں اپنے ساتھ ایک جگہ لے کر گئے اور کہا کہ ’’یہاں خلقِ خدا کے استعمال کے لیے ایک حوض یا تالاب تعمیر کرواؤ۔‘‘ سلطان التمش جب نیند سے بیدار ہوئے، تو انھوں نے وہ جگہ تلاش کر کے وہاں حوض کا سنگِ بنیاد رکھا۔ پھر اِس حوض کا نام بادشاہ کے نام پہ ’’حوضِ شمسی‘‘ پڑ گیا۔ یہ حوض آج بھی مہرولی میں واقع ہے، جس کے کنارے ایک قدیم مسجد ہے، اسے ’’اولیاء مسجد‘‘ کہتے ہیں، اِس میں بہت برگزیدہ اولیاء نے نمازیں ادا کی ہیں۔
یہاں سنگِ خارا کے تین مصلّے بھی ہیں، جہاں حضرت معین الدّین چشتی اجمیریؒ، بابا فرید الدّین گنج شکر ؒاور خواجہ قطب الدّین بختیار کاکیؒ نے نمازیں ادا کیں۔ ہم اس نیک دل بادشاہ کے مقبرے پہ قبر کی پائنتی کی طرف کھڑے تھے۔ دُعا کے لیے ہاتھ بلند کیے اور اس نیک روح کے لیے فاتح خوانی کی۔اگرکوئی شخص سلطان التمش سے واقفیت نہ بھی رکھتا ہو، تو مقبرے کے دَر و دیوار، یہاں کا پُر نور منظر یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مقبرہ ضرور کسی ایسے شخص کا ہے، جس نے ساری زندگی اللہ سے لو لگائے رکھی۔ سورج کی روشنی اُس قبر کے تعویذ کو یقیناً احساسِ تفاخر سے چُھوتی ہوگی۔ کیسی کیسی نیک ارواح مُلکِ ہندوستان کے تخت پہ براجمان رہی ہیں، اب یہ سوچ کے حیرانی ہوتی ہے۔ ہم لوگ شمس الدّین التمش کے مقبرے سے شمال کی طرف چل پڑے۔
سرسبز و شاداب گھاس کے قطعات سے گزر کر قطب مینار سے ملتے جُلتے ایک اور مینار کے آثار نظر آئے، یہ نامکمل کھنڈر نما مینار، جس کی فقط ایک ہی منزل تعمیر ہو سکی تھی، اِس کا نام باہر لگے سُرخ رنگ کے کتبے پہ ’’علائی مینار‘‘ لکھا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ستونوں کے ساتھ لوہے کی زنجیریں لگا کر مینار کے قریب جانے کا رستہ بند کیا گیا تھا۔ اس کی بلندی پچیس میٹر کے لگ بھگ ہوگی، اُجاڑ، ویران اور کھنڈر نما عمارت۔ یہ مینار علاؤ الدین خلجی نے بنوانا شروع کیا تھا۔ عجائب الاسفار میں ابنِ بطوطہ نے لکھا ہے کہ یہ مزار قطب الدّین مبارک شاہ خلجی نے بنوانا شروع کیا تھا، چوں کہ اس کا نام علائی مینار ہے، تو زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ مینار علاؤ الدین ہی نے بنوانا شروع کیا تھا۔
اب جانے ابنِ بطوطہ کو کیسے غلط فہمی ہوئی کہ اس نے یہ مینار قطب الدّین خلجی سے منسوب کر دیا۔ اس کا قطر، قطب مینار سے ساڑھے تین گُنا زیادہ تھا، وہ اس کو قطب مینار سے زیادہ اونچا اور بلند تعمیر کر کے اپنا نام محفوظ کرنا چاہتا تھا۔ مگر علاؤالدین خلجی کا مینار کو مکمل کرنے کا ارمان دل ہی میں رہ گیا اور تعمیر مکمل ہونے سے قبل ہی اُس کا انتقال ہوگیا۔ اِس طرح علاؤالدین خلجی کا نام ایک عالی شان مینار کی نسبت سے تو نہیں، نامکمل کھنڈر کی نسبت سے آج بھی زندہ ہے۔
چوں کہ مینار کی تعمیر کے دوران ہی علاؤ الدین کی موت واقع ہوگئی تھی، تو لوگوں میں یہ توہم پھیل گیا کہ اِس مینار کی تعمیر کی وجہ سے اُس کی موت ہوئی ہے۔ اِس لیے اس کی تعمیر کو نحوست کا باعث سمجھتے ہوئے بعد کے حُکم رانوں نے اِسے مکمل نہیں کروایا۔ علائی مینار کے قریب ہی کچھ گُم نام قبریں ہیں، جن پہ کوئی کتبہ، کوئی نام نہیں کہ کون خاک نشین، خاک بسر یہاں محوِ خواب ہیں۔ شنید ہے کہ پرانے زمانے کے شاہی خاندانوں کے افراد کی قبریں ہیں۔ اسی طرح کی ایک، دو گُم نام قبریں قوّت الاسلام مسجد کے صحن میں بھی تھیں۔ بہرحال، ہم علائی مینار کا اُجاڑ بیابان، اداس اور ویران کھنڈر اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے، قطب مینار کی یادوں کی تصویریں دل کے نگار خانے میں سجائے، وہاں سےرخصت ہوئے۔
ستیش کی گاڑی مہرولی سے دہلی کی طرف چل پڑی، ہم سیٹ سے سر ٹِکائے آنکھیں موندے بیٹھے تھے۔ ستیش نے لتا منگیشکر کا گانا لگا دیا۔کچھ دیر میں ہماری آنکھ لگ گئی۔ اچانک گاڑی کے بریک چرچرائے، تو جھٹکے سے آنکھ کُھلی۔ ویسے تو بریک ستیش کمار نے ٹیکسی کو لگایا تھا، لیکن ہمیں لگا، جیسے ہم کسی ٹائم مشین میں بیٹھ کر دس سال پرانے پاکستان میں چلے گئے ہوں۔ ’’ستیش بھیّا!لگ رہا ہے، مَیں دس سال پُرانے پاکستان میں آپہنچا ہوں۔‘‘ہم نےکہا۔’’نہ بھائی صاحب! آپ بھارت کی راج دھانی (دارالخلافہ) دہلی میں ہیں۔‘‘ ستیش بولا۔ ’’بھیّا! یہ سی این جی اسٹیشن کی جس لمبی لائن میں تم نے گاڑی گُھسا لی ہے، اِس طرح کی لمبی لائنز آج سے دس سال پہلے پاکستان میں سی این جی بھروانے کے لیے لگا کرتی تھیں۔‘‘ ہم نے ستیش کو بتایا۔ ’’بھیّاجی! دہلی کی قریباً پچاس فی صد ٹرانسپورٹ گیس پہ ہے۔ باقی کی پچاس فی صد کچھ بجلی پہ اور کچھ پیٹرول، ڈیزل پہ۔
حکومت، ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے گیس اور بجلی پہ چلنے والی گاڑیوں، بسز اور رکشوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اِسی لیے یہاں گیس کی قیمت پیٹرول سے کافی کم ہے۔‘‘ ستیش نے مزید بتایا۔ پیٹرول اس وقت دہلی میں ایک سو نو روپے لیٹر تھا، جب کہ گیس کی قیمت ستر روپے فی کلو کے قریب تھی۔ سی این جی کی لائن میں پندرہ، بیس منٹ ضایع کرنے کے بعد ستیش نے اس جوئے گیس سے اپنی گاڑی خُوب شکم سیر کروا لی۔ ’’ستیش بھائی! گزربسر ٹھیک ہورہی ہے؟‘‘ ٹیکسی میں کچھ دیر خاموشی رہی تو ہم نے ایک سوال داغ کر اِس خاموشی کو تکلّم سے آشنا کیا۔ ’’ہاں صاحب، ’’گجر بسر‘‘ ٹھیک ہوجاتی ہے۔
ٹھیکےدار کو روزانہ چھے سو روپے دیتا ہوں، چھے، سات سو روپے کی گیس لگ جاتی ہے، سو روپے ہوٹل والوں کو ’’کمیسن‘‘ دینا پڑتا ہے، تو اس طرح کبھی تین، چار سو اور جس دن بھگوان کی دَیا ہو پانچ، چھے سو روپے بھی بچ جاتے ہیں۔‘‘ اُس نے بتایا۔ ’’ تو اِن پیسوں میں زندگی کی گاڑی سکون سے چل جاتی ہے؟‘‘ہم نے ایک اور سوال داغ دیا۔ ’’بھیّا! سکون تو لگتا ہے کہ اب سوَرگ ہی میں ملے گا۔ ویسےجب سے دلّی میں کیجریوال کی سرکار آئی ہے، تو کچھ حالات بہتر ہوئے ہیں۔ دو سو یونٹ تک گھر کی بجلی مفت ہے، سردیاں تو بہت سکون سے گزر جاتی ہیں، بجلی کے بل کی کوئی چِنتا نہیں ہوتی۔ گرمیوں میں چوں کہ پنکھے،روم کولر، فریج وغیرہ چلتاہے، تو تین چار ’’ہجار‘‘ روپے تک بِل آجاتا ہے۔‘‘ ستیش نے ایک ہی سانس میں اپنا دل ہلکا کرنا شروع کر دیا تھا۔
مختلف سڑکوں سے گزر کے ٹیکسی چراغ دہلی محلّے میں پہنچ گئی۔ یہاں بھی ایک تنگ گلیوں کا بازار سا تھا، جس سے گزر کے ہم لوگ حضرت خواجہ نصیر الدّین چراغ دہلی کی درگاہ پہ جا پہنچے۔ مخدوم نصیرالدّین چراغ دہلی، حضرت نظام الدّین اولیاء کے مرید اور خلیفہ تھے۔ وہاں پہنچے تو ایک ڈیوڑھی نما دروازہ تھا، جس کی چھت پہ سادہ سا سفید گنبد نظر آیا۔ چھوٹی بُرجیوں نے ڈیوڑھی کی چھت کی فصیل بنا رکھی تھی۔ پیرزادہ عامر نصیری کی چھوٹی سی پھلوں اور تبرّکات کی دُکان اس ڈیوڑھی نما دروازے سے پہلے بائیں ہاتھ بازار میں واقع تھی۔
فیض مصطفیٰ کو دُکان یاد تھی۔ پھر مُسکراتے ہوئے متفکّر چہرے کے ساتھ عامر نصیری نے ہمارا استقبال کیا۔ چوں کہ قطب مینار کی سیر اور کھانا کھانے میں کافی وقت صرف ہوگیا تھا، ہمیں درگاہ چراغ دہلی پہنچتے پہنچتے کافی دیر ہوگئی اور بے چارے صاحب زادہ صاحب تب سے ہمارے منتظر تھے، جب سے ہمیں شرفو میاں نے مہرولی میں الوداع کیا تھا اور عامر کو ہمارے آنے کی اطلاع کی تھی۔ خیر، اُنہیں قطب مینار کی سیر کا احوال سُنایا۔ پھر ڈیوڑھی سے درگاہ کے احاطے میں داخل ہوئے۔ داہنے ہاتھ ایک برآمدہ نُما مسجد تھی۔
بائیں ہاتھ مرغولہ دار محرابوں کی غلام گردش میں گِھری درگاہ کی عمارت تھی، جس پر طلائی رنگ کی قلعی کی گئی تھی۔ اور اوپر مختلف رنگوں سے پھول بُوٹوں کی نقّاشی تھی۔ جنوب کی طرف مزار کا دیار کی لکڑی کا سُرخ دروازہ تھا۔ غلام گردش کی روکار پہ انگریزی زبان میں ’’خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی‘‘ لکھا تھا۔ دروازے کے اندر ایک اسٹیل کے کٹہرے کے اندر مرصّع چادروں کی آغوش میں قبر کا تعویذ چُھپا تھا۔ ہم نے فاتحہ پڑھی اور صاحب زادہ عامر نصیری نے زعفرانی رنگ کی چادروں سے ہم سب کی دستار بندی کی۔
مزار کی چھت ایک سادہ سے سفید گنبد پر مشتمل تھی، جس کے اندر ایک بلوریں فانوس لٹکا ہوا تھا۔ جنوب میں ایک گول برآمدے کے نیچے بھی ایک قبر تھی۔ مزار پہ حاضری کے بعد صاحب زادہ عامر نصیری نے مسجد کے برآمدے میں بٹھا کر خوش ذائقہ چائے سے تواضع کی اور پھر بہت محبت سے تبرّکات کے تحفے دے کر رخصت کیا۔ چراغ دہلی بازار کی بھول بھلّیوں سے گزر کر ہم سڑک پر آئے، بڑی مشکل سے ستیش کی ٹیکسی ڈھونڈی اور پھراُس میں سوار ہو کر اگلی منزل کی طرف چل دیئے۔ (جاری ہے)