• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عرصے بعد یہ اطمینان بخش خبر سامنے آئی کہ’’ مشکل وقت اور ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہوچُکا، مُلک ترقّی کرے گا، پاکستان حالیہ امتحان سے کام یابی سے گزر جائے گا، معاشی مشکلات پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔‘‘دراصل یہ خبر اُس گفتگو پر مشتمل ہے، جو آرمی چیف، جنرل عاصم منیر نے وزیرِ خزانہ، اسحاق ڈار کی ساتھ تاجروں سے ملاقات میں کی۔

غالباً یہ آرمی چیف کا اِس نوعیت کا پہلا بیان ہے۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کردی گئی ہیں۔مہینوں پر پھیلے مذاکرات کے بعد ایک اچھی خبر یہ بھی ملی کہ آئی ایم ایف نے کوئی نئی شرط عاید نہیں کی کہ وہ پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہے، یوں اُس سے جلد معاہدے کی توقّع کی جا رہی ہے، جو اِس وقت ہماری ڈوبتی معیشت کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما، فوّاد چوہدری نے آرمی چیف کی تاجروں سے ملاقات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں اِس طرح کی ملاقاتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ جب کہ وہ اِس سوال کا کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے سکے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں ہر چند ماہ بعد تاجر، جنرل باجوہ سے کیوں ملا کرتے تھے؟ یاد رہے، گزشتہ دورِ حکومت میں سیکیوریٹی پالیسی بنی، تو اُس میں معیشت کو بنیاد قرار دیا گیا، تو بھلا تاجروں کو اِس ضمن میں اُٹھائے گئے اقدامات سے کیسے الگ رکھا جاسکتا ہے۔

خیر ،یہ تو جملہ معترضہ تھا۔اِس بار پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کا رویّہ خاصا سخت دیکھنے میں آیا۔ خود وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے کہا کہ عالمی ادارہ ناک رگڑوانے پر تُل گیا ہے۔ گزشتہ دَور میں ہم گُھٹنوں کے بَل تو پہلے ہی گر چُکے تھے، جس کے گواہ عمران حکومت کے وزیرِ خزانہ، شوکت ترین بھی ہیں۔ یہ کہنا کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی بدترین ہے اور اس سے معیشت سنبھل نہیں رہی، کوئی اضافی کمنٹ یا تجزیہ نہیں ہوگا، کیوں کہ اِس بات کا اعتراف وزیرِ اعظم سے لے کر وزیرِ خزانہ تک سب ہی کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اور اُن کے وزیرِ خزانہ بھی اِن حالات کے ذمّے دار نہیں، جو اقتدار میں ہوتے ہوئے مُلک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ 

فرق صرف یہ ہے کہ کل وہ وزیرِ اعظم تھے اور آج کوئی اور اقتدار میں ہے۔درحقیقت،یہ قوم کی ناکامی ہے اور وہی اس کا خمیازہ بُھگت رہی ہے۔ شاید سب سے مشکل مرحلہ اُن تجزیہ کاروں کے لیے ہے، جو کل ان کی خرابیاں گنواتے اور آج ان کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ وضاحت میں وہی ماضی کی داستانیں ہیں، جیسے بیڈ گورنینس، سیاسی عدم استحکام اور حکومت کی کم زوریاں، جو کسی بھی اتحادی حکومت کی مجبوری ہوتی ہے۔ تاہم، قوم کے لیے بھی سوچنے کا وقت ہے کہ بدترین معاشی حالات میں ایسی کم زور حکومت کیوں بنی۔ اداروں، خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے بعض حصّے اپنے کام کی بجائے سیاست اور اقتدار کا مزہ لُوٹنا چاہتے ہیں، جو صرف اور صرف منتخب عوامی نمائندوں کا حق ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ماہرین کا کام صرف مشکل فیصلوں کا ذکر کرنا ہی ہے یا اُنھیں فیصلوں پر عمل درآمد کے طریقے بھی بتانے چاہئیں، کیوں کہ یہ فیصلے مریخ کی حکومت یا کسی خلائی قوم پر تو لاگو ہونے سے رہے۔

بڑے بڑے ماہرین، جو ٹی وی پر بیٹھ کر بہت دعوے کیا کرتے تھے، اُن کا حال یہ رہا کہ وہ ایک سال بھی جَم کر کارکردگی نہ دِکھا سکے۔ ہم نام لے کر کسی کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے کہ قوم ان چہروں سے اچھی طرح واقف ہے۔ آئین میں تمام اداروں کے لیے اصول موجود ہیں، جن کے تحت اُنھیں کسی دوسرے کے کاموں میں دخل اندازی سے گریز کرتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے، لیکن اگر خود کو آئین کے رکھوالے کہنے والے ہی اِن اصولوں سے رُوگردانی کرنے لگیں، تو پھر کس سے فریاد کی جائے۔ قوم کو سمجھنا ہوگا کہ غلطیوں کا اعتراف بہادری ہوسکتی ہے، لیکن فرض کی عدم ادائی کی سزا نہ ملنا ایک بدترین مثال اور قوم کے لیے باعثِ اذیّت ہوتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں قوم جس دلدل میں دھنستی ہے، اُس سے نکلنے کے لیے اسی قسم کی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، جس کا آج کل ہمیں سامنے ہے۔

کوئی بھی حکومت میں ہو،اُس کے نظریات اور گورنینس سے اتفاق یا اختلاف ممکن ہے، لیکن آج کسی بھی تجزیہ کار کے لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ منہگائی اور معاشی کم زوری نے ہمارا سر نہیں جُھکایا۔ گزشتہ10 ماہ سے یہ ذکر عام ہے کہ مُلک ڈیفالٹ کرنے کو ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ویسے ہم بتاتے چلیں کہ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد روس نوّے کی دہائی کے آخری سالوں میں ڈیفالٹ کر گیا تھا، پھر کوئی پانچ سال قبل معاشی پابندیوں نے اُس کے روبل کو ایک ہی دن میں پچاس فی صد کے قریب گرا دیا تھا، یہاں تک کہ روبل کو بچانے کے لیے رات کو روسی مرکزی بینک کھولنا پڑا۔ 

جاپان ،جو دنیا کی دوسری بڑی اکانومی رہا، تقریباً دس بار ڈیفالٹ سے گزرا۔سری لنکا نے حال ہی میں ڈیفالٹ کیا۔ لیبیا، عراق اور یمن ایک عرصے سے اِسی حالت میں ہیں۔1979 ء میں چین بدترین معاشی حالات سے گزر رہا تھا، مُلک میں افراتفری تھی اور ہمارے مُلک کی طرح وہاں بھی پانچ کے ٹولے کی کارستانیوں کی بازگشت تھی، جن میں مائوزے تنگ کی بیگم کا بھی نام لیا جاتا تھا۔پھر ڈینگ زیائو پنگ نے اقتصادی ایمرجینسی نافذ کی اور حکم دیا کہ اگلے پچاس سال تک چین کی ہر پالیسی، معاشی پالیسی کے تابع ہوگی اور آج چین دنیا کی بڑی اقتصادی قوّت ہے۔

سنگاپور میں لی کوان یو جیسے عالمی شہرت یافتہ اکانومسٹ حُکم ران نے اِسی قسم کی پالیسی اختیار کی۔ اُنھوں نے تمام بیرونی ٹی وی چینلز پر پابندی عاید کر دی اور بے نتیجہ مباحثوں اور اپنی تشہیر کے شوقین ماہرین، سابقہ بیوروکریٹس، جو اپنے دَور میں تو کچھ نہ کرسکے، مگر بعد میں بڑی بڑی باتیں کیا کرتے تھے، مُلکی چینلز پر اُن کے بھاشن روک دئیے گئے۔ ایسا ہی کچھ تھائی لینڈ، تائیوان اور ملائیشیا میں ہوا۔

ہر چیز کو متنازع بنانا، ہر روز نئی تحریک چلانا، نت نئے بھاشن دینا، عدالتوں کا مذاق اُڑانا، یہ قانون کی حُکم رانی اور منظّم قوم کی دلیل ہے یا کسی ریوڑ کی علامت، جسے جس کا دل چاہے، ہانک لے۔ جلسے، جلوس الیکشن میں اچھے لگتے ہیں کہ یہ جمہوریت کی بنیاد ہیں، لیکن ہر وقت جلسے، جلوس اور احتجاج، یہ تو کسی ذہنی مریض قوم کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ہمارے کچھ رہنما، خاص طور پر بعض خواتین،خارجہ امور سے متعلق ٹوئیٹر کو تُو تُو، مَیں مَیں کے لیے استعمال کر رہی ہیں، یہ سوچے بغیر کہ اس سے اُن کی توقیر میں اضافے کی بجائے اُن کا امیج ہی خراب ہورہا ہے۔

ہم نے ایشیا کے اُن ممالک کی کارکردگی کا اکثر ذکر کیا ہے، جو ایشین ٹائیگرز بنے یا اُن کا شمار ایشیا کی قابلِ فخر اقوام میں ہوتا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا کبھی اِس پر سنجیدگی سے غور کیا گیا؟ بھارت ہی کی مثال لے لیں، وہ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، رہن سہن، زبان اور ادب میں اِتنی باتیں مشترک ہیں کہ شاید ہی کسی اور دو اقوام میں ہوں۔ تو یہی سوچ لیں کہ ہم سے بیس، تیس میل کے فاصلے پر واقع یہ مُلک کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم کس کس کی منت سماجت میں مصروف ہیں۔ایک نجی بینک کے سی ای او کے مطابق،بھارت کو پہلے ایک کھرب روپے تک پہنچنے میں67 سال لگے۔

دوسرے کھرب میں 7 سال اور تیسرے کھرب تک پہنچنے کے لیے صرف5 سال لگے۔2015ء سے اب تک،یعنی9 سال میں، بھارت نے برازیل، برطانیہ، روس، فرانس اور اٹلی کو جی ڈی پی میں پیچھے چھوڑ دیا ہے اور نمبر 10 سے نمبر 5 پر آگیا ہے۔ آج وہ جرمنی کے قریب پہنچ چُکا ہے، جو یورپ کی سب سے طاقتوَر اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ کورونا وبا سے پہلے بھارت، دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھنے والی معیشت تھا اور آج بھی وہ سب سے تیز رفتار ہے۔دنیا کی ورک فورس کا21 فی صد بھارت میں ہے، جب کہ دنیا کی20 فی صد مِڈل کلاس بھی وہیں بستی ہے۔

اِن اعداد وشمار پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر انہیں آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، برکس بینک سب ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ہم صرف کھیلوں ہی میں بھارت سے مقابلے کو اپنے لیے زندگی و موت کا مسئلہ سمجھتے رہے، یہاں تک کہ لوگ اِس معاملے میں دیوانگی کو چُھونے لگتے ہیں۔ ٹھیک ہے، کھیل بھی زندگی کا ایک ضروری حصّہ ہیں، یہ نوجوانوں میں ولولہ پیدا کرتے ہیں، لیکن کیا ہمیں، خاص طور پر نوجوانوں کو یہ معلوم ہے کہ جاپان میں ہونے والے آخری اولمپکس میں پاکستان84 ممالک میں آخری نمبر پر تھا کہ ہماری میڈل لسٹ پر صفر، صفر، صفر، صفر لکھا تھا۔ ہم شام، عراق اور ایران سے بھی پیچھے تھے۔

ہمارے میڈیا نے ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہوئے عنوان دیا’’ تم ہارو یا جیتو، ہمیں تم سے پیار ہے‘‘بے شک ہم سب سے محبّت کرتے ہیں، لیکن کیا ہارنے والے بھی قومی سطح پر جشن مناتے ہیں؟ ہار کو تسلیم نہ کرنا اور غلطیوں کو فتح بنا کر پیش کرنے کے رویّوں ہی نے ہمیں آج ہر میدان میں صفر پر کھڑا کردیا ہے، جسے ہم دشمنوں کی سازش کہتے ہیں۔ہمیں ہار کو جیت ثابت کرنے کی بجائے اپنی غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھنا چاہیے تاکہ آیندہ کام یاب ہوں۔ ترقّی کی خواہش مند قوموں کا یہی طریقہ ہے۔ بس اِتنی گزارش کرنی ہے کہ صحافی بنیں، نقّاد بنیں، تحقیقی رپورٹنگ کریں،طرح طرح کے انکشافات کریں، لیکن پروپیگنڈا مشین ہر گز نہ بنیں۔

جو بات سُنیں، اُسے دلائل کی کسوٹی پر پرکھیں اور پھر پورے اعتماد سے لوگوں تک پہنچائیں۔ سینئیر، جونئیر کے چکروں میں نہ پڑیں۔ ہم اپنے ہر پسندیدہ شخص کو لیجنڈ قرار دے دیتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ لیجنڈ کا مطلب کیا ہے۔ اِس قسم کی خودستائی اور بے جالفاظی نے قوم کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ ہمارا جوان ہر وقت اپنی عظمت کی بلندیوں کے خواب دیکھتا ہے، جن کی تعبیر فی الحال دُور دُور تک دِکھائی نہیں دیتی۔ ہاں، اگر وہ واقعی محنت کرے، غوور فکر سے کام لے، علم اور ہنر کو اپنی منزل بنائے اور دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ چلنے پر تیار ہو، تو اب بھی کچھ نہیں گیا۔

آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن اور اس کی سخت گیر پالیسیز کا اِن دنوں ہر طرف ذکر ہے، لیکن ہم من حیث القوم اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں۔اگر کوئی کچھ غلطیوں کا اعتراف کر بھی لے، تو یوں لگتا ہے جیسے وہ غلطیوں پر شرمندہ نہیں، بلکہ قوم پر احسان فرما رہے ہیں۔پھر یہ کہ ہمارے ہاں غلطیوں کے اعتراف کو معافی کا لائیسنس تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اِس طرح کے اعترافات کرنے والوں کو’’ جرأتِ رندانہ‘‘ پر خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے، حالاں کہ سوال یہ ہے کہ جب قوم نے اُنھیں ذمّے داریاں سونپیں اور اس کے لیے ایسی مراعات دیں، جن سے وہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی شاہانہ زندگی گزار تے ہیں، بچّے بیرونِ مُلک تعلیم حاصل کر کے بڑے بڑے عُہدوں پر فائز ہوگئے، تو پھر اپنی غلطیوں کا اعتراف کافی نہیں، سزا بھی بھگتنی چاہیے۔

بیرونِ مُلک یہ تاثر ہے کہ مجرموں کو ہیرو بنانا ہمارا خاص فن ہے، اب ہم یہی اُمید عالمی اداروں اور غیر مُلکی ماہرین سے لگا بیٹھے ہیں، حالاں کہ اِتنی ٹھوکریں کھانے کے بعد تو عقل آجانی چاہیے تھی۔ اگر ایسے میں آئی ایم ایف یہ کہ کر ہمارے وزیرِ خزانہ یا وفد کو شرمندہ کرے کہ پہلے اپنے معاشرے میں تو جھانک کر دیکھیں، کیا یہ غریب شہریوں کے طور طریقے ہیں، ان پر ٹیکس لگائیں اور ان کی عیاشیاں بند کریں، تو ہمیں اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے کہ حقیقت بہرحال یہی ہے۔

ہم نے اوپر بھارت کی مثال دی،جہاں ایک زمانے میں وزیرِ اعظم سے لے کر بڑے بڑے تاجر تک چھوٹی سی کار میں پِھرتے تھے اور ہم اُن کی غربت کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہتے کہ اللہ کا شُکر ہے، ہم تو ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔اصل میں حرام کی کمائی، امداد کے ڈالرز اور غلط پالیسیز نے ہمیں فضول خرچیوں کاعادی بنا دیا۔ آئی ایم ایف یا کوئی دوسرا ہمیں طور طریقے ٹھیک کرنے کا کہے، تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ یہ قصّے کہانیاں کہ مُلک ایسی جگہ واقع ہے کہ دنیا کے ہر مُلک کو ہماری ضرورت ہے اور ہمارے بغیر دنیا ہِل بھی نہیں سکتی، ایسی پُرفریب کہانیوں نے قوم کا دماغ خراب کردیاہے۔ شاید اب پتا چلا ہو کہ اہم مُلک تو سنگاپور، کوریا، ملائیشیا اور ویت نام جیسے ہوتے ہیں، جن کے لوگ محنت، دیانت داری اور تعلیم کی برتری کو فوقیت دیتے ہیں۔

آج پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے کم زور ترین پاسپورٹس میں چوتھے نمبر پر ہے۔پھر یہ کہ مخصوص قوّتیں کبھی اعلیٰ عدلیہ سے نظریۂ ضرورت کے تحت مُلک پر قبضے کا اجازت نامہ لیتی رہیں، تو کبھی منتخب نمائندوں کو اُٹھا پھینکنے کے احکامات جاری کرتی رہیں۔ہمیں دُور جانے کی ضرورت نہیں، آج کل جو انکشافات اور سچ بولنے کا طوفان آیا ہوا ہے، وہ خُود اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جب ہر کل ہی ٹیڑھی ہو اور قوم کے منتخب نمائندوں کو اسے سیدھی کرنے کا موقع بھی نہ دیا جائے، تو پھر آئی ایم ایف سے چھٹکارا کون دِلائے گا۔

نیز، ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ ہمارے ہاں ہم سائیوں سے دوستی اور معمول کے تعلقات کے ذکر تک کو غدّاری بنا دیا گیا، حالاں کہ چین سے جاپان تک ایسی مثالیں موجود ہیں کہ قومی مفادات کے لیے کیسے ڈپلومیسی کی جاتی ہے۔یہاں پڑھے لکھے افراد کو بے وقوف اور سادگی کو غربت و بے چارگی کی مثال بنا دیا گیا ہے۔ ایک طرف فرمایا جاتا ہے کہ’’ ایک قدم تم بڑھاؤ، ہم دو قدم بڑھائیں گے ‘‘ اور دوسری طرف ان ممالک کے رہنمائوں کو ایسے ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے کہ جو اخلاقیات تک کے منافی ہوتے ہیں۔ کیا یہی ڈپلومیسی ہوتی ہے اور کیا تعلقات ٹھیک کرنے کے یہی طریقے ہیں؟ جب ہم اِس طرح کی بقراطیت سے نجات پا لیں گے، تو سب خود ہی ٹھیک ہونے لگے گا۔