’’امّی ! جنّت کیا ہوتی ہے؟ ‘‘ تین، چارسال کی چھوٹی سی بچّی نے شام کو چھت پر ٹہلتی اپنی ماں سے سوال کیا۔ ’’جنّت،جنّت وہ جگہ ہے، جہاں ہم بہت سکون سے رہ سکتے ہیں، جیسے ہمارا گھر، یہ ہماری جنّت ہے۔ جیسے ہمارا مُلک ، جو اللہ کا انعام ہے۔‘‘ماں کا جواب سُن کر بچّی کے کورے دماغ کے کینوس پر جنّت کی بہت ہی خُوب صورت سی شبیہہ بن گئی، جس میں ایک صاف سُتھری گلی، اُس میں بنے وَن یونٹ گھر، ہر گھر کے ساتھ بنی کیاریاں، شام میں کھیلتے، چار پہیوں کی سائیکل چلاتے اُسی کے ہم عُمر بچّے، گھروں کے باہر بینچز پر بیٹھی ،خوش گپیوں میں مصروف محلّے کی خواتین تھیں۔
پھر جب کبھی اُس کی اسلامیات کی ٹیچرجنّت کا نام لیتیں، تواُس کےدماغ کے کینوس پر گھر کی تصویر اوراُس پر لہراتا پاکستان کا جھنڈا اُبھر آتا۔ ماں کو معلوم تھا کہ بچّے کے ذہن کی صاف سلیٹ پر جو لکھ دیا جائے، جو نقش بنایا جائے،وہی اس کے دل میں بس جاتا ہے، شخصیت کا حصّہ بن جاتا ہے، تو جہاں والد نے رشتوں کے معنی و مفہوم سمجھائے، لوریوں کی جگہ ’’حق لا الہ الاللہ ‘‘ سُنا سُناکر سلایا، وہیں ماں نے تربیت میں بالخصوص وطن پرستی شِیر میں شکر کی طرح گھول دی۔ نتیجتاً، اُسے کوئی نظم سُنانے کو کہتا تو وہ جھٹ ’’دل ، دل پاکستان…‘‘ گانا شروع کردیتی ۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حب الوطنی گویا اس کی رگوں میں لہو بن کر دَوڑنے لگی۔
اُس کی عُمر کے اکثر نوجوان مُلک سے باہر جانے، وہاں بسنے کے خواب دیکھتے، مگر وہ مُلک کو ترقّی یافتہ دیکھنے کا خواب دیکھتی۔ وہ اکثر کہتی کہ ’’پاکستان میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں، ایک وہ جو یورپ، امریکا جانےکے خواہش مند ہیں اور دوسرے وہ، جو اپنے وطن کو یورپ، امریکا بنانے کے خواہش مند ہیں، اور میرا شمار دوسرے قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہ مُلک نہیں، میرا گھر، میری جنّت ہے اورچند پیسوں کے لیے مَیں اپنا مُلک بھلا کیوں چھوڑوں؟ کون سی نعمت ہے، جو یہاں میسّر نہیں، ہاں، کچھ خرابیاں بھی ہیں، مگر وقت کے ساتھ دُور ہوجائیں گی اور اِن شاء اللہ ایک دن ہم بھی ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں ضرور شامل ہوں گے۔ ‘‘ جانتے ہیں، آج وہ لڑکی کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے؟ وہ اپنی ڈگریزاور اسناد اٹیسٹ کروا نے میں مصروف ہے، کیوں کہ وہ کینیڈاکا ویزا اپلائی کر رہی ہے۔ اپنے مُلک کو امریکا بنانے کے خواب دیکھنے والی ان آنکھوں نے کینیڈا جا بسنے کا خواب کب اور کیوں دیکھا، تو ایسا اُس دن ہوا جب اُس نے آٹے کی لمبی قطار میں بھگدڑ مچنے سے ایک شخص کو مرتے دیکھا۔ جب اُس نے بھوک وافلاس کے ہاتھوں ایک ماں کو تین بچّوں سمیت نہر میں کودتے دیکھا۔
جب اُس نے بےسرو سامان سیلاب زدگان کو سڑک کنارے روتے بلکتےاور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دبئی میں مقیم ایک پاکستانی تاجر کو شادی کے موقعے پر اپنی بیٹی کو سونے میں تولتے دیکھا۔ جب اس نے وی وی آئی پی موومنٹ کے دوران ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس میں ایک مریض کو دَم توڑتے دیکھا اور جب اُس نے میرٹ پر پورا اُترنے کے باوجود اپنی جگہ پر ایک پرچی والے کو منتخب ہوتے دیکھا۔ وہ قابل اجمیری کا مشہورِ زمانہ شعر ہے ناں کہ ؎ و قت کرتا ہے، پرورش برسوں …حادثہ ایک دَم نہیں ہوتا، تو یہ حادثہ یک دَم نہیں ہوا۔ اُس کورے ذہن پر نقش عبارت کو مٹانے میں کئی حادثات و سانحات کا دخل رہا۔
خصوصاً مُلک کی بدتر سے بدترین گورنینس نے تو گویا خوش گمانی کے اس تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ نوم چومسکی نے کہا تھا ’’دنیا میں غریب ممالک نام کی کوئی چیز پائی ہی نہیں جاتی، دراصل جب کوئی نظام مُلک کے وسائل کو صحیح استعمال کرنے میں ناکام ہو جائے (یعنی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہو) تو بس اسی عمل کو غربت کہا جاتا ہے۔‘‘ اور یہ بدترین حکم رانی، ناقص حکمتِ عملی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہی کا نتیجہ ہے کہ آج اس مُلک کا اثاثہ، طاقت، یہ نوجوان کسی بھی قیمت پراس مُلک سےبھاگ جانا چاہتے ہیں۔ مُلک ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے۔
ایک طرف لوگ سستے آٹے کے حصول کے لیے میلوں لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں، تو دوسری جانب ،لاہور شہر میں ایک کینیڈین کافی برانڈ کاافتتاح ہوتا ہے، تو اُس کی دنیا بھر میں60 سالہ سیل کا ریکارڈ ٹوٹ جاتا ہے۔کیا وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی کوئی اس سے بدتر مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ ایک ایسا زرعی مُلک،جو چنے کی پیداوار میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر،گنّے اور دودھ کی پیداوارمیں چوتھے نمبر پر، کپاس، امرود اور آم کی پیداوار میں پانچویں ،کھجور اور مرچ کی پیداوارمیں چَھٹے، گندم اورمٹر کی پیداوار میں ساتویں ، پیاز کی پیداوار میں آٹھویں ،پالک کی پیداوار میں نویں ،چاول کی پیداوار میں 13ویں ،مالٹے کی پیداوار میں 15ویں اور مکئی کی کاشت میں 16ویں نمبر پر ہونے کے باوجود غذائی قلّت کا شکار ہے، بدترین معاشی ، غذائی بحران سے گزر رہا ہے،تو اس سے بڑا المیہ بھلا اور کیاہوگا۔
ہمیں آج غذائی اجناس درآمد کرنی پڑ رہی ہیں۔ عوام کے نام پر قرض پر قرض لیا جا رہا ہے، مگرعوام ہی کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔پہلے کبھی سال، چھے مہینے میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا، پر اب تو یہ حال ہے کہ سونے کی قیمت کی طرح اشیائے خورونوش بھی صبح کسی اور قیمت پر فروخت ہوتی ہیں اور شام تک اُن کی قیمت کچھ اور ہوتی ہے۔ اُس پر ایک مہارانی اپنی دُکھ بھری کتھا سناتے ہوئے اشک بار ہو جاتی ہیں کہ ’’جیل میں میرے پاس ایک فرائنگ پین تھا، اُسے چولھے پہ گرم کر کے اپنے کپڑے استری کرتی تھی۔‘‘
کوئی اُ ن بی بی کو بتائے کہ یہ جس مُلک کو آپ جیسی اشرافیہ75 سال سے لُوٹ کھسوٹ رہی ہے، جونکوں کی طرح چمٹی ہوئی ہے، اُس کی50 فی صد آبادی کو جیلوں سے باہر بھی یہ چولھے، فرائنگ پین کی سہولت تو کیا، گھروں میں گیس، بلکہ اب تو آٹا، دالیں تک میّسر نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے اشیائے ضروریہ مقفّل کرکے چابیاں اپنی جیبوں میں ڈال رکھی ہیں۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ جب ہم کسی کو اپنی سروسز فراہم کر کے اُس کا معاوضہ لیتے ہیں، تو وہ معاوضہ جاتا کہاں ہے، جیسا کہ فیفا ورلڈ کپ،قطر میں پاک افواج نے سیکیوریٹی کی ذمّے داریاں سنبھالیںاور ان سروسز کا خاصا بھاری معاوضہ لیا گیا، تو وہ پیسا کہاں گیا۔ اسی طرح کی اور بہت سی رقوم کا حساب کتاب بھی اِن حکم رانوں کے ذمّے ہے، جو عوام کبھی نہ کبھی تو لے کے ہی رہیں گے۔
دھان پان سی شاہینہ مہر دین، گُل محمّد گوٹھ میں رہتی ہیں، مگر صفائی سُتھرائی کا کام نارتھ کراچی سیکٹر8 اور سیکٹر الیون-اے کے گھروں میں کرتی ہیں۔ عید تہوار کے علاوہ شدید بیماری کی صُورت ہی میں کسی گھر سے کام کا ناغہ کرتی ہیں۔ بہت چھوٹی عُمر سےگھروں میں کام کاج شروع کیا اور پھر جب 17سال کی عُمر میں بیاہی گئیں، تو اپنی ساس کے ساتھ کام پہ جانے لگیں اور آج 32 سال کی عُمر میں پانچ بچّوں (تین بیٹوں اور دو بیٹیوں) کے بعد بھی سخت محنت مشقّت کرکے (کہ ایک دن میں آٹھ گھروں کا کام کرتی ہیں)رزقِ حلال کما رہی ہیں، جب کہ اب ایک 11سالہ بیٹی بھی اسکول جانے کےساتھ ماں کا ہاتھ بٹانے لگی ہے۔ گرچہ شاہینہ کا شوہر بھی محنت مزدوری کرتا ہے، ایک بیٹا بھی درزی کی دُکان پر بیٹھتا ہے، مگر اس کے باوجود گھر کا دال دلیہ بمشکل ہی پورا ہوپاتا ہے۔
شاہینہ نے اس سوال پرکہ’’اس منہگائی میں، جس نے غریب اور متوسّط طبقے کو ایک قطار میں لا کھڑا کیا ہے، آپ کا گزارہ کیسےہورہا ہے؟‘‘ایک دُکھ بھری مُسکراہٹ کے ساتھ بہت دھیرے دھیرے بولنا شروع کیا، ’’جس نے پیدا کیا ہے، وہی پال رہا ہے باجی۔ بس یہ ہے کہ پہلے دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے تھے۔ کبھی بچّوں کو کوئی سستا سا پھل فروٹ بھی لے کے دے دیتے تھے۔ شوہر کو کسی مہینے اچھا کام مل جاتا، تو بچّوں کو کسی پارک یا سمندر پر بھی لےجاتے تھے۔ مگر اب تو دال، ساگ پکانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ہر مہینے آٹے کی تھیلی اور منہگی ہوجاتی ہے۔ پہلے کبھی مہینے بَھر کا راشن ایک ساتھ لے لیا کرتے تھے، اب تو بس تھوڑا تھوڑا روز کا روز لیتے اور پکاتے ہیں۔
مَیں پچھلے کئی سالوں سے ایک کام کا 1300،1500 روپیا لیتی ہوں اور آج بھی یہی لے رہی ہوں۔ کسی باجی سے پیسے بڑھانے کا کہو، تو وہ اپنی اتنی مجبوریاں بتاتی ہےکہ مَیں کہتی ہوں، چلو کوئی نہیں، اتنے سالوں سےکام کررہی ہوں، تھوڑی اور محنت کرلوں گی۔ مگر اب تھک بہت جاتی ہوں۔ رات کو جوڑ جوڑ درد کرتا ہے، مگر پھر بچّوں کی خاطر صبح سویرےاُٹھ کر پھر نکل کھڑی ہوتی ہوں۔ مجھے اپنے بچّوں کو پڑھانے کا بہت شوق تھاباجی۔ میرے چار بچّے سرکاری اسکول جاتے ہیں۔ بڑے لڑکے کا پڑھائی میں دل نہیں لگتاتھا، تو اُسے آٹھویں کے بعد ایک درزی کے پاس بٹھا دیاہے۔
ہم تین جَنےمل کےکماتے ہیں۔ میرا شوہر بھی بڑا محنتی ہے، پر باجی پتا نہیں اب کیا ہوگیا ہے، پیسے میں برکت ہی نہیں رہی۔ جتنی مرضی محنت کرلو، دو وقت کی دال روٹی بھی بہت مشکل سے پوری ہوتی ہے۔ کبھی کسی بچّے کا جُوتا ٹوٹ جاتا ہے، کسی کو کاپی، پینسل چاہیے ہوتی ہے اور کبھی کوئی بیماری آجاتی ہے۔ بڑی ہمّت کرتی ہوں، مگر مہینے میں ایک آدھ بار مجھے بھی تاپ چڑھ جاتا ہے، بڑی کم زوری ہوتی ہے، تو پھر ڈاکٹر ڈرپ لگوانے کو کہتا ہے۔ اب کیا کریں باجی، زندگی بڑی مشکل ہوگئی ہے۔
آگے بیٹیوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں، مَیں خود اپنی کوثر (بیٹی) جتنی تھی، جب سے محنت مشقّت کر رہی ہوں، مگر لگتا ہے، مرتے دَم تک یہی کچھ کرنا ہے۔ ہمیں کیا پتا کون شہباز شریف، تو کون عمران خان، ہمیں تو یہ پتا ہے کہ بس ہمارا اللہ وارث ہے۔ اللہ ہماری سُنے گاتو کوئی ایسا حُکم راں بھیج دے گا، جو کبھی ہم غریبوں کو بھی پوچھے گا۔ ہمیں کون سے بنگلے، گاڑیاں چاہئیں۔ ہمارے لیے تو بس اناج، سبزی ہی سستے ہوجائیں، تو ہم جھولیاں بھر بھر دُعائیں دیں۔ نہیں تو، ایسے ہی دل سے آہیں نکلتی رہیں گی۔‘‘
سیّد نثار علی ایک طویل عرصے سے (جتنے عرصے میں ایک پوری نسل پروان چڑھ جاتی ہے) بسکٹ، جوس، پان، ٹافیز اور کولڈ ڈرنکس وغیرہ کا ایک کیبن چلاتے ہیں۔ ہم نے ان سے حالیہ منہگائی سے متعلق پوچھا، تو ایک سرد آہ بھر کر، بہت گہری طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولے ’’مَیں گھر کا واحد کفیل اور پانچ بچّوں کا باپ ہوں۔ اس منہگائی میں گھر چلانا کس قدر مشکل ہوگیا ہے، الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ دو وقت کی روٹی ہی پوری ہوجائے، تو غنیمت ہے۔ اوپر سے آٹے، چینی کا بحران، سارا سارا دن طویل قطار میں لگ کر تو کہیں جا کر آٹے کا حصول ممکن ہو پاتا ہے، پھر آگے رمضان بھی ہے، اللہ جانے کیسے گزارہ ہوگا۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اپنے اخراجات کم نہیں کیے، لیکن اب انسان کم از کم دال، روٹی تو کھائے گا ہی ناں، پھر دودھ کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، پہلے ہم ایک لیٹر دودھ لیتے تھے، اب آدھا لیٹر لیتے ہیں۔ اور اُس پر جب یہ سیاست دان غریبوں کی خیر خواہی کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں، تو یقین کریں، اِن کا گلا گھونٹ دینے کا دل چاہتا ہے۔ یہ سب جھوٹ، بکواس ہے، ہمارا کوئی سگا نہیں۔ کسی حُکم ران کو ہم سے کوئی مطلب ہے اور نہ ہماری کوئی پروا۔ سارا کُرسی کا کھیل ہے۔ یہ سارے ہاتھی صرف اپنے اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ہم کیا جانیں، یہ کس سے قرض لے رہے ہیں، کس کو واپس کر رہے ہیں، کون چور ہے، کون ڈاکو، ہمیں تو صرف یہ پتا ہے کہ غریب بھوکوں مر رہا ہے۔ ہمیں تو بس سستی روٹی چاہیے۔ جو منہگائی کم کرے گا، ہمیں سُکھ کا سانس لینے دے گا، ہمارے لیے تو بس وہی اچھا ہے۔‘‘
چار بچّوں کے والد، محمّد ندیم، آئی آئی چندریگر روڈ کے بالمقابل گلی، بیگم گلی میں چنا چاٹ کا اسٹال لگاتے ہیں۔ حالیہ منہگائی کے ذکر پر رو دینے کو تھے۔ ایک لمبی سرد آہ بَھر کے بولے، ’’مَیں دن کے دس، دس گھنٹے کام کرتا ہوں، لیکن اتنا نہیں کما پاتا کہ کچھ بچت ہو سکے یا بچّوں کو کسی اچھے اسکول میں پڑھا سکوں۔ مَیں اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں اور اِس آسمان کو چُھوتی منہگائی نے تو میری کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ زندگی کی گاڑی گھسیٹنا بہت ہی مشکل ہوگیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، یہ مُلک ہم غریبوں کے رہنے کے لیے نہیں، اشرافیہ کےلیے بنایا گیا تھا۔
ہر سیاسی جماعت عوام کی بہتری کا نعرہ لگا کر، سہانے خواب دِکھا کر اقتدار میں آتی ہے، لیکن حقیقت پھر اِس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دو وقت کی روٹی کھانا، کمانابھی عذاب ہوگیا ہے۔ پہلے تو چلیں، غریب کو آٹے، دال کا سہارا ہوتا تھا، مگر اب تو وہ بھی عوام کی پہنچ سے دُور ہیں۔ سمجھ نہیں آتا، اس مُلک کا کیا ہوگا۔ پہلے مَیں زیادہ محنت کرکے اتنا کما لیتا تھا کہ کچھ بچت ہو جائے، لیکن اب تو کام بھی دُگنا کرتا ہوں اور ایک دھیلے کی بچت نہیں ہوتی۔ اس سے بہت بہتر تو آمروں کا دَور تھا، جس میں کم از کم معیشت تو بہتر تھی، غریب پر ٹیکسز کا اس قدر بوجھ تو نہیں تھا، اور کچھ نہیں تو آٹا، دال تو ہماری دسترس میں تھے۔ خدارا! غریبوں کے حال پر رحم کریں، کم ازکم آٹے، سبزی، دودھ، دال کی قیمتوں ہی میں کچھ کمی کر دیں۔‘‘
’’ایک طرف عوام بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے رُل رہے ہیں، تو دوسری جانب مُلک میں کینیڈین کافی برانڈ کی ریکارڈ سیل کے چرچے ہیں، ایسا کیوں ہے؟‘‘ ایسے ہی کئی سوالات کا جواب جاننے کے لیے ہم نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والی رکنِ قومی اسمبلی، فی الوقت ایوان میں عوام کی واحد دبنگ آواز، سائرہ بانو سے بات چیت کی، تو وہ کچھ یوں گویا ہوئیں’’ مجھے نہیں پتا کہ ہمارا معاشرہ کس جانب جا رہا ہے، ہم کس ڈگر پہ ہیں کہ ایک طرف تو غریب عوام آٹے کی لمبی لمبی قطاروں میں اپنی جانیں دے رہے ہیں اور دوسری طرف وہ اشرافیہ، جو عام طور سے بنا قطار میں لگے ہی سب کچھ حاصل کرلیتی ہے، ایک برانڈڈ کافی شاپ کی کافی پینے کے لیے طویل لائن میں لگی نظر آرہی ہے۔ اور سُننے میں آیا ہے کہ وہ فرینچائز ایک وفاقی وزیر کے بیٹے کی ہے۔
تو ذرا سوچیں، ایک طرف تو یہ لوگ عوام کے ہم دردبنے چینلز پر آکر غریبوں کی خیر خواہی کے بھاشن دیتے ہیں اور میڈیا بھی ایسے لوگوں کو عوام کا مسیحا بنا کر پیش کرتا ہے، تو پہلے ذرا تحقیق کرلینی چاہیے کہ جن افراد کو آپ عوام کا خیر خواہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، ان کی اصلیت کیا ہے۔ پھر مجھے اس بات پر بہت اعتراض ہے کہ ہر صبح مارننگ شوز میں ناچ گانےکے ساتھ، کوکنگ سیشنز، کھانے پینے کے ہزارہا لوازمات کیوں دکھائے جاتے ہیں۔
ارے بھئی، ایک طرف تو لوگوں کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں ہے اور آپ انہیں طرح طرح کے پکوان دکھا رہے ہیں، یہ سب دیکھ کر کیا غریبوں کا دل نہیں کٹتاہوگاکہ وہ تواس طرح کے کھانےکاتصوّر بھی نہیں کر سکتے۔یہ سچ ہے کہ مُلک میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کی اشد ضرورت ہے، جس کی کوئی صُورت کم ازکم مجھے تو نظر نہیں آرہی۔ غریب ، غریب تر اور امیر ،امیر ترین ہو رہا ہے۔
جب کہ ان حالات میں پاکستان کا وہ سفید پوش طبقہ، جو روکھی سوکھی کھا کر کسی نہ کسی طرح زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہا تھا، جس نے جیسے تیسے اپنا ایک بَھرم رکھا ہوا تھا، وہ بالکل ختم ہو گیا ہے۔ جانے ہم گزشتہ 75 برس سے کس مسیحا کے منتظر ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ نام نہاد عوام کے خیر خواہ، سیاست دان ان حالات کا ذمّے دار بھی عوام ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ جیسے جب سیلاب آیا تو سندھ کے ایک وزیر نے کہا کہ ’’یہ آپ کے اعمال کا نتیجہ ہے‘‘، تو ہاں، درست ہی کہا کہ ان جیسے لوگوں کو بار بارمنتخب کرنے والے عوام کی شاید یہی سزا ہے، جو انہیں مل رہی ہے۔ ‘‘
آئی ایم ایف کے قرضے سے متعلق ہمارے سوال کے جواب میں سائرہ بانو کا کہنا تھا کہ ’مَیں اگر آئی ایم ایف کی سربراہ ہوتی ناں، تو سب سے پہلے تو مَیں نےتمام وزرا کو بلا کر ان کی ایسی طبیعت صاف کرنی تھی کہ ساری زندگی یاد رکھتے۔ پتا نہیں یہ وزیر مشیرجب عوام کے نام پرقرض لے کراپنی ذاتوں پر خرچ کرتے ہیں،تو شرم سے ڈُوب کیوں نہیں مرتے۔ نام نہاد عوامی نمائندے، بھوک سے بلکتے، مرتے عوام کےٹیکس کے پیسے سے خریدے گئے جہازوں میں، برانڈڈ سُوٹ بُوٹ پہن کر، ہزاروں ڈالرز اور پاؤنڈز کے ہوٹلز میں قیام کرکے بھیک مانگنے جاتے ہیں، تومَیں تو شرم سےپانی پانی ہو جاتی ہوں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے، تو چاہتے ہیں کہ ترقّی پذیر ممالک کو قرض دے کر احسان تلے دبا دیا جائے، تاکہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھےرہیں۔ مگر افسو س کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنوں ہی کو ہماری کوئی فکر نہیں۔ پھر کہتے ہیں ’’ ہم تو عوام کے لیے قرض لےرہےہیں۔ ‘‘کوئی ان سے پوچھےکہ کیا عوام نےآپ سے کہا ہے کہ قرض لے لے کر ہماری جانوں پر عذاب ڈالو اور پھر جو پیسا لیا جاتا ہے، وہ کون سا پاکستانی عوام پر خرچ ہوجاتا ہے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بہت بات ہو رہی تھی کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچّہ دو لاکھ سے زائد روپے کا مقروض ہے۔ یعنی قرض لیں حکم ران، اقتدار کے مزے لُوٹے حکم ران اور قرض کی شرائط بھگتیں عوام، کیوں…؟؟ گویا آپ نے اپنے عیش و عشرت کے لیے ہمیں گروی رکھوایا ہوا ہے، تو اے کاش! مَیں اپنی آواز آئی ایم ایف تک پہنچا پاؤں، اُنہیں مشورہ دے سکوں کہ عوام پر ٹیکس لگانے، اُن پر بوجھ ڈالنے کے بجائےحکم رانوں کی شاہ خرچیاں بند کروائیں۔پھر سوچتی ہوں کہ آج کے جدید دَور میں تو ہماری لوکیشن تک گوگل ہیڈ کوارٹرز میں مانیٹر ہوجاتی ہے، تو کیا انہیں یہ نہیں پتا کہ ان کی دی گئی امداد، عوام کے نام پر لیا پیسا کہاں جا رہا ہے۔
نیز، وزیر اعظم نے جو یہ قناعت پسندی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی ہے، تو میرے خیال میں تو اس امر کے لیے آپریشن ضربِ عضب اور ردّ الفساد جیسے سخت آپریشنز کی ضرورت ہے،یہ چھوٹی موٹی کمیٹیاں تشکیل دے کراس مسئلے کاحل نہیں نکلے گاکہ گاڑی واپس لے لی اور بس سمجھ لیا کہ بہت بڑا تیر مار لیا ہے۔ جیسا کہ ابھی ایک وفاقی وزیر نے 4500 سی سی کی گاڑی واپس دے کر کہا کہ’’ اس کے بدلے مجھے دوسری گاڑی دی جائے۔‘‘پھر یہ جو ایک، ایک وزیرکو 900لیٹر پیٹرول ملتا ہے، تویہ کیوں ہوتا ہے۔
جب ایک رکشے والا، جو اپنے پانچ بچّوں کو پال رہا ہےاور رزقِ حلال بھی کما رہا ہے، وہ تو 250، 300 روپے لیٹر پیٹرول اپنی جیب سے ڈلوائےاور یہ وزیر ،مشیر مفت پیٹرول کے مزے اُڑائیں، کیوں؟ اور 900لیٹر تو مَیں کم بتا رہی ہوں کہ وزرا کے پروٹوکول میں جو گاڑیاں چلتی ہیں، اُن کا حساب کتاب الگ ہے۔پھر وزیر اعظم صاحب کفایت شعاری کی بات تو کر رہے ہیں، لیکن اپنی کابینہ کا حجم کم نہیں کر رہے، جوبڑھتے بڑھتے 85تک پہنچ گیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ کابینہ میں شامل افراد تن خواہ نہیں لیں گے، چلیں مان لیا، کرلیا خیر مقدم اس بات کا، لیکن پھر یہ بھی تو سوال ہے کہ یہ اپنےنام کے ساتھ ’’معاونِ خصوصی‘ ‘لگانے، عُہدہ رکھنے والا کہیں اور سے کروڑوں نہیں کماتاہوگا۔ وہ پنجابی کی ایک کہاوت ہے ناں ’’گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنا (دکھاوے کے لیے کام کرنا)‘‘ توحکومت بھی قناعت پسندی کے حوالے سےیہی کر رہی ہے۔‘‘
’’آپ کے خیال میں اس معاشی ابتری کا اصل ذمّے دار کون ہے؟‘‘ہم نے پوچھا، تو سائرہ بانو بلا توقّف بولیں، ’’گزشتہ 75سال سے مُلک کا جوحال ہے، اس کے اصل ذمّے دار صرف چند خاندان ہی ہیں۔ مَیں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے، انہی چند خاندانوں کو اقتدار کے ایوانوں میں باریاں بدلتے دیکھا ہے۔ چلیں، 35سال آمریت لگالیں، مگر باقی 40 سال یہی گنے چُنے خاندان مُلک کے اقتدار پر قابض رہے۔ تو بھئی، کسی نے باہر سے آکر توہماری معیشت تباہ نہیں کی، ہمیں اس نہج تک نہیں پہنچایا، یہی لوگ اس ساری خرابی کے ذمّے دار ہیں۔
دیکھیں تو سہی کہ کیسے وقت گزرنے کے ساتھ یہ امیر سے امیر ترین ہوتے گئے اورجب سوال کیا جائے، تو جواب دیتے ہیں کہ بھارت کے ٹاٹا اور برلا سے بھی بڑا ہمارے دادا کا کاروبار تھا۔ کوئی پوچھے کہ وہ تو 1852ء اور 1857ء سے بزنس ٹائیکونز تھے، تو آپ کب اور کیسے اتنے امیر ہو گئے؟ پھر جہاں تک بات ہے، پاکستان ڈیفالٹ ہونے جا رہا ہے یا نہیں ، تو اس پر اپنے وزیرِ دفاع بیان دے چُکے ہیں کہ ’’پاکستان ڈیفالٹ ہونے نہیں والا، ڈیفالٹ ہو چُکا ہے ‘‘تو مزید کوئی کیا کہے۔اب کوئی ہے، جو اِن سے پوچھے کہ یہ بھی تو بتاؤ کہ ایسا ہوا کیوں، آپ لوگوں کو مُلک کی سالمیت، خوش حالی، ترقّی کی منصوبہ بندی کرنی تھی، مگرآپ نے صرف اپنا ، اپنے خاندان اور اپنی ہی نسلوں کا سوچا۔پھر رمضان المبارک کا آغاز ہونے والا ہے، اس رحمتوں ، برکتوں والے مہینے میں جو قیمتوں کو جو پَر لگیں گے، الامان الحفیظ۔
وہ لوگ، جنہیں ہم سرٹیفائیڈ جہنمی کہتے ہیں، اپنے ممالک میں رمضان کی آمد پر مسلمانوں کو خصوصی پیکجز دیتے ہیں اور یہاں ، اس مسلمان مُلک میں منہگائی کا وہ طوفان برپا ہوتا ہے، جس کی مثال نہیں ملتی، کہتے ہیں، انسان کے ایمان کو بھوک سے خطرہ ہوتا ہے، تو ذرا سوچیں کہ یہاں تو عوام پہلے ہی بھوک سے مر رہے ہیں، رمضان میں کیا حال ہوگا۔ ایّوب خان کے دَور میں جب چینی منہگی ہوئی تھی ، تو عوام احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے، لیکن آج یہ حال ہے کہ پیٹرول منہگا ہونے کی خبر آئے تو پمپس کے باہر قطاریں لگ جاتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مُلک میں بے روزگاری بہت بڑھ چُکی ہے، اب لوگ احتجاج کریں یا بال بچّوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کریں۔ لیکن ایسی صورتِ حال میں ہم جیسے لوگوں کو عوام کی آواز بننا چاہیے، ان کے حق کے لیے آواز اُٹھانی چاہیے۔ کہتے ہیں ’’ریاست ماں جیسی ہوتی ہے‘‘ تو کیا ماں ایسی ہوتی ہے، ارے وہ تو اپنے بچّے کو ہر سُکھ چین، آرام، دینا چاہتی ہے، لیکن ہمارے یہاں تو عوام روتے بلکتے نظر آرہے ہیں۔میرے خیال میں تو اس وقت مُلک کے ہر ادارے کو تیزاب سے غسل دینےکی ضرورت ہے۔
عمران خان نے ریفارمز سے متعلق اچھا سوچا تھا، لیکن وہ بھول گئے کہ اُن کے ارد گرد جو لوگ ہیں، وہ بھی تو اسی سسٹم کا حصّہ ہیں، تو بس مَیں یہی کہنا چاہوں گی کہ عوام کی بہتری کے لیےازحد ضروری ہے کہ وزیروں ، مشیروں کی مراعات بند کی جائیں، یہی نہیں، بعد از ریٹائرمنٹ لاکھوں روپے کی پینشنز، مراعات پر بھی پابندی عائد کی جائے، قوم کا پیسا صرف اور صرف قوم ہی پر لگایا جائے۔آج مُلک پر اتنا کٹھن وقت ہے کہ برابری کی تقسیم سے کام نہیں چلے گا، غریبوں کے لیے اشرافیہ کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا، ورنہ خاکم بدہن، مُلک تباہ ہوجائے گا۔اور جب عوام ہی نہیں ہوں گے، تو یہ حکومت کس پر کریں گے۔ تب ایک ریڑھی والے سے وزیر اعظم تک کو اپنا احتساب خود کرنا پڑے گا۔‘‘
ڈین اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز ڈیپارٹمنٹ ،آئی بی اے، کراچی، پروفیسر ڈاکٹر اسماء حیدر نے اس ہوش رُبا منہگائی اور ابتر معاشی صورتِ حال پربات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت پاکستان میں منہگائی کی شرح اتنی بلند ہےکہ گزشتہ تین دہائیوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیاہے اور اس سے سب سے زیادہ مڈل کلاس اورغریب طبقہ متاثر نظر آرہا ہے۔ اگر معاشی اصطلاح میں بات کروں ،تو جب منہگائی ہوتی ہے، تو اس کا اثر کنزیومر پر بھی پڑتا ہے اور پروڈیوسر پر بھی۔تو اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو مڈل کلاس کی قوتِ خرید کم ہو رہی ہے۔صرف گندم کی قیمت پچھلےایک ماہ میں 16فی صدبڑھی ہے، جو بہت بڑا فرق ہے، مطلب صرف آٹے کی قیمت میں قریباً 13 فی صد اضافہ۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ بنیادی اشیائے ضروریہ ، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بھی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہیں۔ سبزیوں کی قیمتوں میں پانچ سے نو فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔
ذرا سوچیں کہ غریب کی آمدنی کا توایک بڑا حصّہ خوراک ہی پر خرچ ہورہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُسے اب اپنی خوراک کم کرنی پڑے گی اورایسا صرف غریب طبقے کے ساتھ نہیں ہو رہا، متوسّط طبقے کا بھی یہی حال ہے۔ پھر انرجی کا بحران آپ کے سامنے ہے، بجلی ، گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نیز، ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے خام مال کی در آمد پر پابندی لگی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پروڈکشن پر آنے والی لاگت بہت بڑھ گئی ہے، تو نہ صرف کنزیومر بلکہ پروڈکشن سے وابستہ افراد بھی بہت متاثر ہو رہے ہیں۔
اس سے ہویہ رہاہے کہ ایک تو لوگوں کی خوراک کم ہو گئی اور دوسری اہم بات یہ کہ اس صورتِ حال میں غریب گھرانوں کے بچّوں کااسکول جانے کا رجحان بہت کم ہوجائے گااور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ لیبر مارکیٹ جوائن کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اور یقین جانیے کہ یہ اس معاشرے کے لیے بہت برا ہوگا۔ ایک تو ویسے ہی ہمارے ہاں لا تعدادبچّے اسکول نہیں جاتے، پھر یہ شرح مزید بڑھ جائے گی۔ اسی طرح انرجی کی قیمتوں میں اضافہ بھی کھانے پینے کی اشیاء میں اضافے کا سبب بن رہا ہے کہ گاڑی والے سبزیاں، پھل منڈیوں میں پہنچانے کے دُگنے پیسے لیتے ہیں، پھر دُکان دار اپنا خرچہ پورا کرنے کے لیے وہی اشیاء دُگنی، چوگنی قیمتوں میں فروخت کرتے ہیں۔ اور سبزی، پھل ہی کیا،عوام کا بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک کا سفر کس قدر منہگا ہوگیا ہے۔
اب جہاں تک بات ہے کہ اس ساری صورتِ حال کا ذمّے دار کون ہے، تو یقینی طور پر یہ حکومت اور اس کی ناقص حکمتِ عملی ہی کا نتیجہ ہے۔اب بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کورونا کے بعد پوری دنیا ہی منہگائی کی لپیٹ میں ہے، ہر مُلک کی معیشت کو دھچکا لگاہے،نیز، ہم پر سیلاب کا اضافی بوجھ بھی پڑا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ ہمیں کورونا اور سیلاب سے کہیںزیادہ نقصان ناقص معاشی حکمتِ عملی ، جاگیر دارانہ نظام ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کو ملنے والی مراعات نے پہنچایا ہے۔ ‘‘
’’ایک طرف کہا جاتا ہے کہ مُلک ڈیفالٹ کرنے جا رہا ہے، دوسری طرف بین الاقوامی شہرت یافتہ ریسٹورینٹس ، مالز وغیرہ کا پاکستان میں افتتاح ہو رہا ہے، تو یہ کس قسم کا دُہرا معیار ہے،عوام سخت کنفیوز ہیں۔ اصل حقیقت کیا ہے، ہم فی الحال کہاں کھڑے ہیں؟‘‘ ہما را اگلا سوال تھا۔جس کا جواب ڈاکٹر اسماء نے کچھ یوں دیا کہ ’’ حقیقت تویہ ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ اس وقت یہاں کوئی انویسٹ نہیں کرنا چاہتااور جس کینیڈین فوڈ چین نے یہاں اپنی فرنچائز کھولی ہے، وہ کوئی بہت بڑا برانڈ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے، ہمارے مُلک میں پیسا لگا رہا ہے، تو ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
ویسے اگر یہاں بین الاقوامی برانڈز انویسٹ کریں، تو یہ معیشت کے لیے خوش آئند امر ہے کہ اس سے صرف برانڈ کو فائدہ نہیں ہوتا ،اُس سےہزاروں، لاکھوں مقامیوں کا روزگار وابستہ ہوجاتا ہے۔ اور ایک بات بتاتی چلوں کہ ایسا نہیں ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، معیشت پٹری پر آجائےگی۔نہیں، معیشت کی بہتر ی میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
یاد رکھیں، معیشت صرف پیسا ہونے سے بہتر نہیں ہوتی، سرمایہ کاروں کا اعتما د بحال ہونے سے ہوتی ہے کہ ہم مستقبل میں فلاں فلاں فنانشل پلاننگز کریں گے وغیرہ، وغیرہ۔ جب تک یہاں سرمایہ کاری نہیں ہوگی، معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی، تو فی الحال مجھے تو مستقبل قریب میں کوئی خاص بہتری ہوتی نظر نہیں آرہی، ہاں، اگر حکومت نے موثر منصوبہ بندی کی، بولڈ اقدامات کیے، کچھ قربانیاں دیں، تو شاید کچھ بہتر ی آجائے۔‘‘ڈاکٹر اسماءکا مزید کہنا تھا کہ’’پاکستان میں طبقات کا فرق بہت زیادہ ہے اور بدقسمتی سے یہ فرق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہم نے ہر چیز کو طبقات میں تقسیم کیا ہوا ہےاور دوسری سب سے تکلیف دہ بات ہمارے یہاں ’’Intergenerational Mobility‘‘، نہ ہونے کے برابر ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم امریکا کو دیکھیں تو وہاں ہر روز یا آئے دن زیادہ پیسا کمانے والوں، امراء میں نئے نئے نام سامنے آتے رہتے ہیں ، لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں پہلے سے امیر لوگ ہی امیرترہوئے چلے جا رہے ہیں۔ یعنی امیر کا معیارِ زندگی بہتر سے بہتر اور غریب کا مزید بد تر ہورہا ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ تعلیم کا نہ ہونا بھی ہے۔ مگر کیا کہیں کہ تعلیم بھی طبقات میں بٹی ہوئی ہے، جس کا اثر افراد کے مستقبل پر ہوتا ہے۔ عام زبان میں یوں سمجھ لیں کہ ہم غریبوں کو ترقّی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کرتے، انہیں اسکول ہی کی سطح سے ایسا ماحول، تعلیم و تربیت نہیں دیتے کہ وہ اشرافیہ کا مقابلہ کرسکیں، ان کی برابری پر آسکیں۔ یہی معیارِ تعلیم کا فرق آگے جاکر دولت کی تقسیم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
نیز، جہاں تک رمضان اور منہگائی کا تعلق ہے ، وہ تو سیدھی سی بات ہے کہ سب جانتے ہیں، اس ماہ غریب سے غریب بھی خوراک پر تھوڑا بہت خرچ تو کرتا ہی ہے ،تو بس اسی لیے قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ درحقیقت ،ہم وہ لوگ ہیں، جو مجبور پر مزید بوجھ ڈالتے، اُس کا استحصال کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ رمضان میں عوام پھل، بیسن، چنے ضرور خریدیں گے اور ایسی ہی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور یہ قیمت بھی دن کے مختلف اوقات میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
جیسے جیسے مغرب کا وقت قریب آتا جاتا ہے، قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، جہاں تک بات ہے، ان حالات کو بہتر کرنے کی، تو اس کے لیے سب سے پہلے، فی الفورمالیاتی معاملات(Fiscal Management)، انتظامات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔اٹھارویں ترمیم کے بعدوفاقی وزارتِ تعلیم و صحت کی کوئی ضرورت نہیں، کہ اب یہ دونوں ادارے صوبائی سطح پر کام کرتے ہیں، پھر ڈیفینس کے بجٹ میں کٹوتی ہونی چاہیے ۔ حکومت کا سائز کم کرنے، اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، تب ہی کہیں جا کر عوام کو کچھ ریلیف ملنا ممکن ہوگا۔ ‘‘
ایک زمانہ تھا کہ قیمتوں میں معمولی اضافےپر لوگ احتجاج کرتے تھےاور آج پیٹرول سے اشیائے خورونوش تک قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہو، تو لوگ بجائے احتجاج کے ذخیرہ اندوزی شروع کردیتے ہیں، اس رویّے کی وجوہ جاننے کے لیے ہم نے ڈین فیکلٹی آف سائیکاٹری، کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان، پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی سے بات چیت کی، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’اس نفسیات کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ کہ لوگوں نے ہر حال میں صبر کرنا سیکھ لیا ہے۔ لہٰذا وہ احتجاج کو وقت اور انرجی کا زیاں سمجھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اس سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا۔
دوسری وجہ نفسیات کا وہ پریکٹیکل ’’Learn Helplessness‘‘ ہے، جو بندروں پر کیا گیا۔ اس میں بندروں کے اطراف گولیاں برسائی گئیں، تو انہوں نے شروع شروع میں تو بہت شور مچایا، اُچھلے کُودے، ردّ ِ عمل ظاہر کیا، لیکن جب فائرنگ معمول بن گئی تو آہستہ آہستہ انہوں نے احتجاج کرنا چھوڑ دیا۔ اس پریکٹیکل کا مقصد یہ جاننا تھا کہ جب کوئی خود کو بہت بے بس محسوس کرےیا جب کوئی بات معمول بن جائے، تو پھر کس قسم کا ردّ عمل سامنے آتا ہے۔ تو یہی کچھ ہمارے عوام کے ساتھ بھی ہوا۔ پہلے ذرا سی منہگائی پر خُوب احتجاج کیا جاتا تھا، پھر جب منہگائی معمول بن گئی، تو عوام نے احتجاج کرنا، شور مچانا چھوڑ دیا۔
یوں سمجھیں، ایک طرح سے بے حِس ہوگئے۔پھر پاکستان انتہائی امیر اور انتہائی غریب دو انتہاؤں میں بٹ چُکا ہے،اور ایسی تقسیم کےسماجی و معاشرتی بہت خطرناک اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ بیلنس یا اعتدال قدرت کا اصول ہے، یوں ہی نہیں کہتے کہ ’’ہر کام میں اعتدال ہونا چاہیے‘‘بلکہ اس کی خاص اہمیت ہے۔ اسی طرح معاشرے کا بھی معتدل ہونا انتہائی ضروری ہےاور وہ درمیانے طبقے یا مڈل کلاس سے ممکن ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مڈل کلاس معاشرے میں ایک انتہائی فعال اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی متوسّط طبقے کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل تھا، جو روزافزوں بڑھتی منہگائی کی وجہ سےبد قسمتی سے سکڑتی جا رہی ہے اور اس سے معاشرے کا استحکام متاثر ہو رہا ہے۔ اگر مڈل کلاس نہیں ہوگی، تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا ،پھر امیر بھی محفوظ ہی نہیں رہے گا ، کیوں کہ غریب اپنی فرسٹریشن، غصّہ امیروں ہی پر نکالیں گے۔
خود سوچیں کہ جب آٹے جیسی بنیادی ضرورتِ زندگی کے حصول کے لیے لائن میں لگے غریب، انٹرنیشنل کافی برانڈ کے باہر لگی امراء کی قطاریں دیکھیں گے، تو اس صورتِ حال کا ان کی نفسیات پر کس قدر گہرا اور منفی اثرمرتّب ہوگا۔ ایسی صورتِ حال سے غریب احساسِ کم تری کے علاوہ ذہنی تناؤ، شدید غصّے، چڑچڑے پن اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں، پھرجس سے جرائم سمیت کئی معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ درحقیقت ،مسئلہ یہ ہے کہ مُلک کے حالات اس قدرخراب ہوچُکے ہیں کہ ہم نے ایک دوسرے کے لیے سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
مفاد پرستی عروج پر ہے، ہر کوئی بس اپنے ہی متعلق سوچے جا رہا ہے، معاشرے سے متعلق نہیں۔ اس حوالے سے علماء، عدلیہ سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، لوگوں کو متحد کرنے، سب کے لیے سوچنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ بات بہت سادہ ہے، مثال کے طور پر ہمارا امیر طبقہ طرح طرح کی ٹوپیاں خریدنے میں مصروف ہے، جب کہ سر (مُلک )کی کسی کو فکر ہی نہیں۔ یعنی آپ چاہے کتنی ہی ٹوپیاں خرید لیں، اگر سر ہی نہیں بچاتو ٹوپیوں کا کیا کریں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اشرافیہ کویہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ مُلک کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ صرف اپنے لیے نہیں، سب کے لیے سوچیںکہ مُلک ہے، تو ہم سب ہیں۔ ‘‘
چھے بچّوں کا باپ، آٹا نہ ملنے کے سبب حرکتِ قلب بند ہونے سے جاں بحق
خانیوال میں آٹے کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں، جن میں 6 بچّوں کا باپ سرفراز بھی صبح سے کھڑا تھا۔ سخت سردی میں کُھلے آسمان تلے3 گھنٹے انتظار کے بعد جب سرفراز کی باری آئی ، توپتا چلا کہ آٹا ختم ہو چُکا ہے۔ بس، بھوک سے بلکتے بچّوں کا اکلوتا کفیل دل برداشتہ ہوگیا اور وہیں زمین پر گر پڑا، لوگوں نے مقامی اسپتال منتقل کیا، مگر وہ بدنصیب راستے ہی میں دَم توڑ گیا، ڈاکٹرز کے مطابق موت ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی۔
منہگائی کا عفریت بے قابو، 50 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا …
پاکستان میں فروری میں منہگائی کی شرح 31.6 فی صدتک جا پہنچی، جو مُلک میں 50سال کی بلندترین سطح ہے۔ گرانی کی وجہ اشیائے خور و نوش اور ٹرانس پورٹ کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہے۔ یاد رہے، گزشتہ ماہ منہگائی کی شرح 27.60فی صد تھی ۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پر کسانوں کے لیے بجلی فی یونٹ 3 روپے 60 پیسے منہگی کردی ہے، یعنی کسان پیکیج کے تحت زرعی صارفین کو بجلی پر3روپے 60 پیسے فی یونٹ دی جانے والی سبسڈی واپس لے لی ہے۔
مطلب اب بجلی 13 روپے کی بجائے 16 روپے 60 پیسے فی یونٹ کے حساب سے ملے گی۔ علاوہ ازیں، پاکستان میں منہگائی میں اضافے کی شرح 50سال کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی ہے،جو دسمبر 1973ءکے بعد سب سے زیادہ ہے ۔ ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں میں منہگائی بالترتیب سال بہ سال بڑھ کر 28.82 اور 35.56 فی صد ہوچکی ہے، اور اس میں ماہانہ بنیادوں پر 4.32 فی صد اضافہ ہواہے۔یاد رہے، گزشتہ برس جون سے منہگائی سالانہ بنیادوںپر 20فی صد سے اوپر ہی ہے۔
نیز، سالانہ بنیادوں پر جن اشیاء کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، ان میں ٹرانسپورٹ( 50.45فی صد)،جلد خراب ہونے والی غذائی اشیاء (47.59 فی صد)، صحت( 18.78فی صد)اورتعلیم( 10.79فی صد)شامل ہیں۔ اسی طرح ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق فروری 2022 ء سے فروری 2023 ءکے دوران پیازکی قیمت میں 416فی صد، چکن کی قیمت میں 96 فی صد، انڈوں کی قیمت میں 78 فی صد اور چاول کی قیمت میں 77 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
جب کہ چنا 65 فی صد، سگریٹ 60 فی صد، مونگ کی دال 56 فی صد، چنے کی دال 56 فی صد، آٹا 56 فی صد، ماش کی دال 77.50فی صد ، خوردنی تیل 66.50فی صد، بناسپتی گھی 45فی صد، تازہ پھل 45فی صد، تازہ دودھ 32 فی صد، مسور کی دال 27 فی صد، مشروبات 24 فی صد، آلو42.22فی صد، مچھلی21فی صد، گوشت82.20فی صد اور سبزیاں 60.11فی صد منہگی ہوئیں، جب کہ درسی کتب کی قیمتوں میں 74فی صد، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 63فی صد، گیس میں 62 فی صد، اسٹیشنری کی قیمت میں 61فی صد اور ٹرانس پورٹ چارجز میں 33 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔