سندھ حکومت کے ترجمان و مشیر قانون سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ہر ادارہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی خوش آئند ہے، قانون سازی پہلے ہوجاتی تو نسلہ ٹاور جیسے واقعات نہ ہوتے، ریکوڈیک اور رینٹل پاور پر بھی مداخلت نہ ہوتی، حکومت کا مطلب صرف وزیراعظم نہیں ہے، اسی طرح سپریم کورٹ کا مطلب بھی صرف چیف جسٹس نہیں ہے، سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز اور ادارہ ہے۔
وہ جمعرات کو سندھ اسمبلی کمیٹی روم میں نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ چند سالوں سے قوم آئین و قانون پر بات کرتی آ رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو بھی گفتگو ہوتی ہے اس میں آئین و قانون کو مقدم سمجھنے کی بات کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی کتاب بتاتی ہے کہ کس ادارے کو کیا کام کرنا ہے، آئین کی خوبصورت کتاب میں بحث و مباحثے کے بعد مزید بہتر بنایا گیا، یہی آئین سپریم کورٹ، حکومت اور پارلیمنٹ کی تشریح کرتا ہے، اسی کے تحت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے مطابق قانون سازی کرسکتی ہے۔
بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ بڑی گفتگو کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے، حکومت طے کرتی ہے کہ سپریم کورٹ میں جج کتنے ہونے ہیں، میں اس قانون سازی کو خوش آئند قرار دیتا ہوں، کاش پارلیمنٹ پہلے قانون سازی کرتی تو نسلہ ٹاور کے متاثرین کو اپیل کا موقع ملتا۔ ریکوڈک پر پاکستان کو پینالٹی نہ بھگتنی پڑتی پارلیمنٹ نے محسوس کیا کہ اس مسئلے کو دیکھیں اور حدود کا تعین کریں، قانون کے طالب علم کی حیثیت سے میں اس قانون سازی کو ویلکم کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کے ساتھ زیادتی ہوئی، چیف جسٹس کسی کیس میں ازخود نوٹس لے اور متاثرہ فریق کو اپیل کاحق بھی نہ ہو، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ایک زمانے میں وفاقی حکومتوں کے فیصلوں کو وزیراعظم اور صوبائی حکومتوں کے فیصلوں کو وزیراعلیٰ کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔
2016 میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا جس میں کہا گیا کہ فیصلے کابینہ کی مرضی سے ہوں گے جو قانون سازی کی گئی ہے اس کے تحث ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس خود نہیں کرسکیں گے، تین سینئر جج مل کر کریں گے۔
بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ نئے قانون سے چیف جسٹس کے اختیارات کم نہیں کئے جا رہے پارلیمنٹ مقدم ادارہ ہے، قانون سازی اس کا اختیار ہے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنے اختیارات خود طے کروں۔
نسلہ ٹاور کیس میں واضح ہے کہ متاثرین کو ازخود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا گیا، انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی منظوری کے بعد امید ہے صدر مملکت دستخط کر دیں گے اس وقت تک تین فیصلے آچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے ہر قانون کا طالب علم کہتا ہے کہ بھٹو صاحب کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی یہ قانون سازی نیک شگون ہے پارلیمان کے لیے وزیر اعظم وفاق کی سطح پر اور وزیر اعلیٰ صوبے کی سطح پر فیصلہ کرتے تھے سارے ججز مل کر سپریم کورٹ بناتے ہیں۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ امید کرتا ہوں صدر کے پاس جب یہ مسودہ جائے گا تو وہ اس کو منظور کریں گے۔