مسجد رایہ (مسجد ذباب): ’’سلع‘‘ پہاڑ کے نزدیک شمال کی جانب ’’ذباب‘‘ نامی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر یہ مسجد اپنی قدیم شکل میں موجود ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوئہ خندق کے موقعے پر اس جگہ خیمہ نصب فرمایا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دَور ِامارت میں ہوئی۔ اس کی شکل چوکور اور پیمائش صرف61میٹر ہے، جب کہ اُونچائی5میٹر ہے۔ سعودی وزارتِ اوقاف نے اس مسجد کو قدیم شکل میں باقی رکھا ہوا ہے۔ (مدینہ منوّرہ، ڈاکٹر احمد محمد شعبان،78)۔
مسجدِ سبق: یہ مسجدِ نبویؐ کے شمال مغرب میں جدید توسیع سے520میٹر دُور واقع ہے۔ شارعِ ابوبکرصدیقؓ (شارعِ سلطانہ) کی طرف سے سرنگ میں داخل ہوں، تو داہنی طرف یہ مسجد واضح نظر آتی ہے۔ یہاں دَورِ نبویؐ میں جہاد کی تیاری کے لیے گھڑدوڑ ہوا کرتی تھی۔ دو منزلہ مسجد کی پہلی منزل میں دُکانیں اور وضو خانے ہیں۔ دُوسری منزل تک جانے کے لیے شمال کی طرف سیڑھیاں ہیں۔ مسجد کی لمبائی35میٹر اور چوڑائی25.6میٹر ہے۔ کُل رقبہ896مربع میٹر ہے۔ شمال مغربی حصّے پر ایک خُوب صورت مینار ہے۔ موجودہ عمارت شاہ فیصل کے دَور میں تعمیر ہوئی۔ اس مسجد کو الحرمین الشریفین کے قاضی علّامہ سیّد محی الدین حنبلی نے نویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ (مدینے کی تاریخی مساجد، ڈاکٹر الیاس عبدالغنی،60)۔
مسجد غمامہ: یہ مسجد، مسجد نبویؐ کے جنوب مغرب میں باب السلام سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اب آخری توسیعِ عمارت سے اس کا فاصلہ 305 میٹر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری برسوں میں اس مقام کو عیدگاہ بنایا تھا اور یہ میدانِ مصلّیٰ کے نام سے معروف تھی۔ حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا (عبداللہ بن زیدؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں تشریف لے گئے۔ بارش کی دُعا کی۔ قبلہ کی جانب چہرۂ اَقدس فرمایا۔ اپنی چادر کو اُلٹایا اور دو رکعت نمازِ استسقاء ادا کی۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث،1027)۔
سیّدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی اطلاع اُسی دن فرما دی تھی، جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔ پھرآپؐ صحابہؓ کو لے کر عیدگاہ تشریف لے گئے۔ نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس میں چار تکبیریں کہیں۔‘‘ (صحیح بخاری،1245)۔ یہ نجاشی کی غائبانہ نمازِ جنازہ تھی۔ مسجد کارقبہ763.7مربع میٹر ہے اور بُلندی 12 میٹر۔ مسجد کی موجودہ عمارت سلطان عبدالمجید عثمانی کی تعمیرکردہ ہے۔ چودہویں صدی ہجری میں سلطان عبدالحمید ثانی نے اس کی مرمّت کروائی۔1411ہجری بمطابق1990ء میں خادم الحرمین الشریفین، شاہ فہد بن عبدالعزیز نے مسجد کی مرمّت، تجدید اورتزئین و آرائش کروائی۔ (تاریخِ مدینہ منوّرہ، 112)۔
مسجدِ ابوبکر صدیق: یہ مسجد عیدگاہ میدان میں مسجدِ غمامہ سے شمال مغرب میں صرف40 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی خلافت کے دوران نمازِ عید ادا فرمائی تھی۔ مسجد کا کُل رقبہ 292.5 مربع میٹر ہے۔ موجودہ عمارت سلطان محمود خان عثمانی نے 1254ہجری میں تعمیر کروائی تھی۔1411ہجری میں شاہ فہد بن عبدالعزیز نے مسجد کی مرمّت، ترمیم و تجدید کروائی۔
مسجد علیؓ: یہ عیدگاہ میں قائم تیسری مسجد ہے، جو مسجدِ ابوبکر صدیقؓ کے شمال میں مسجد غمامہ سے ایک سو بائیس میٹر دُور اور مسجد نبویؐ سے دو سو نوّے میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیّدنا علی مرتضیٰؓ نے یہاں عید کی نماز پڑھائی تھی، جب کہ حضرت عثمانؓ کو باغیوں نے اُن کے گھر میں محصور کردیا تھا۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے زمانۂ امارت میں اس جگہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔ (وفاءالوفا، 785/3)۔1411ہجری میں خادم الحرمین الشریفین، شاہ فہد بن عبدالعزیز نے پرانی عمارت ڈھا کر ایک نئی اور خُوب صورت عمارت تعمیر کروائی۔ مستطیل نما اس عمارت کی لمبائی31 میٹر، چوڑائی22 میٹر اور کُل رقبہ882 مربع میٹرہے۔ محراب کے اُوپر13 میٹر بُلند ایک بڑا گنبد اور اس کے اطراف11میٹر بلند 7چھوٹے گنبد ہیں۔ مسجد پر قائم مینار کی بُلندی26 میٹر ہے۔ مسجد کے مشرقی دروازے کے بائیں جانب تختی پر مسجد کا نام، تجدید کا سن اور شاہ فہد کا نام درج ہے۔
مسجدِ عمرؓ: مسجدِ نبوی ؐکے جنوب مغرب میں455میٹر کے فاصلے پر اور مسجدِ غمامہ سے123میٹر دُور قباء کو جاتے ہوئے بائیں جانب واضح نظر آتی ہے۔ مسجد کی موجودہ عمارت1266ہجری میں سلطان عبدالمجید اوّل عثمانی نے تعمیر کروائی تھی۔ مسجد مربع شکل میں ہے، جس کا رقبہ 335 مربع میٹر ہے۔1411ہجری میں شاہ فہد نے مسجد کی تجدید و مرمّت کروائی۔ دروازے پر نصب تختی پر اس کا نام مسجد عمرؓ بن الخطاب تحریر ہے۔
مسجدِ عثمان ذوالنّورینؓ: مسجدِ نبویؐ کے جنوب میں باب السلام سے425میٹر اور مسجدِ غمامہ سے322میٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔ اس کا رقبہ250مربع میٹر ہے۔ یہ مسجد شیخ صدقہ حسن خاشقجی نے پندرھویں صدی کی پہلی دہائی میں تعمیر کروائی تھی۔ اس کا حضرت عثمان بن عفّانؓ سے کوئی تاریخی تعلق نہیں ہے۔ (مدینہ منورہ کی مساجد، ڈاکٹر محمد الیاس،75)۔
مسجدِ بلالؓ: یہ مسجد باب السلام سے610میٹر دُور شارع امیر عبدالحسن بن عبدالعزیز (شارع قربان) کے شروع میں بائیں ہاتھ پر واقع ہے۔ یہ سہ منزلہ ہے۔ نیچے تہہ خانہ اور اُوپر سوقِ بلال یعنی بلال مارکیٹ ہے۔ تیسری منزل پر مسجد ہے، جس پر خُوب صورت گنبد اور حسین مینار ہے۔ اسے پندرھویں صدی کی پہلی دہائی میں شیخ محمد حسین ابوالعلاء نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ کوئی تاریخی مسجد نہیں ہے، اس کی موجودہ تعمیر شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دَور میں ہوئی۔
مسجدِ بنو حارثہ (مسجد المستراح): یہ مسجد انصار کے قبیلے بنو حارثہ کے محلّے میں واقع ہے۔ اسے مسجد المستراح بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ نبی کریم غزوئہ اُحد سے واپسی پر آرام کی غرض سے کچھ دیر کے لیے یہاں ٹھہرے تھے۔ شہدائے قبرستان سے آتے ہوئے سڑک کے دائیں جانب واقع یہ مسجد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور ہی میں تعمیر ہوگئی تھی اور بنو حارثہؓ اس میں نماز پڑھتے تھے۔ قبلے کی تبدیلی سے متعلق احادیث میں اس مسجد کا ذکر آتا ہے۔ اس مسجد کی جدید اسلوب میں تعمیر و توسیع، خادم الحرمین الشریفین، شاہ فہد کے دَور میں ہوئی۔
مساجدِ فتح: سلع پہاڑ کے مغربی سمت میں مختلف اَدوار میں چھوٹی چھوٹی مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ ان سب کی پیمائش تقریباً برابر ہے۔ مدینہ منوّرہ کی تاریخ پر لکھی جانے والی قدیم کتب میں ان کا ذکر ’’مساجدِ فتح‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ اس وقت یہ مساجدِ سبعہ (سات مساجد) کے نام سے معروف ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور مسجدِ فتح ہے، جو اس جگہ بنائی گئی ہے، جہاں غزوئہ خندق کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ نصب کیا گیا تھا، اور آپؐ نے متواتر تین دن تک کفّار کی شکست اور مسلمانوں کی فتح و نصرت کے لیے بارگاہِ الٰہی میں دُعائیں فرمائی تھیں۔
جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ (مسندِ احمد، 332/3)۔ ایک روایت کے مطابق، اسے مسجدِفتح اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوئہ خندق کے دوران اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نصرت و فتح کی وحی اُتاری تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا، ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت و فتح کی وحی پر خوش ہوجائو۔‘‘ یہ مسجد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دَور میں تعمیر ہوئی اور متعدد بار اس کی تجدید ہوئی۔ آخری تجدیدی کام شاہ فہد بن عبدالعزیز کے عہد میں ہوا۔
مسجد کا طول8.5x3.5میٹر ہے۔ صحن کھلا ہوا ہے، جس کا طول 6.5x8.5 میٹر ہے۔ اس سے چند گز کے فاصلے پر تھوڑی تھوڑی دور بقیہ مساجد واقع ہیں جن کے نام اس طرح ہیں۔ مسجدِ سلمان فارسیؓ( خندق کھودنے کا مشورہ انہی نے دیا تھا)۔ یہ مسجد پہاڑ کے ابتدائی حصّے میں ہے۔ اس سے متصل ہی مسجدِ ابوبکر صدیقؓ ہے۔ پھر مسجد ِعُمر بن الخطابؓ ہے۔ اس سے ذرا فاصلے پر مسجد ِعلیؓ اور اس کے نزدیک ہی مسجد ِفاطمہؓ یا مسجد ِسعد بن معاذؓ ہے۔ ان مساجد کے نہ تو مینار ہیں اور نہ گنبد۔ مسجدِ ابوبکر صدیقؓ اب موجود نہیں ہے۔ اب ان مساجد کے قریب ہی ایک نہایت خُوبصورت بڑی اور عالی شان مسجد تعمیر کی گئی ہے، جس کا نام مسجد ِخندق رکھا گیا ہے۔ (تاریخِ مدینہ منوّرہ، ڈاکٹر احمد شعبان،88)۔
جنّت البقیع.....مدینہ منورہ کا مشہور و معروف تاریخی قبرستان
بقیع الغرقد: یہ اہلِ مدینہ کا مشہور ومعروف قبرستان ہے۔ عربی میں بقیع اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں جنگلی درخت اور جھاڑ جھنکاڑ پائے جاتے ہوں، جب کہ غرقد ایک کانٹے دار درخت کا نام تھا۔ جن کی اُس زمانے میں کثرت تھی، چناں چہ اس جگہ کا نام بقیعِ غرقد پڑگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر درود وسلام کے بعد باب بقیع سے باہر نکلیں، تو جنوب مشرق میں مسجدِ نبویؐ کے خارجی صحن سے متصل خوب صورت جالی دار چاردیواری کے اندر یہ قبرستان واقع ہے۔ 1405ہجری میں مسجد نبویؐ کی آخری توسیع سے پہلے مسجد اور قبرستان کے درمیان ایک بڑا محلّہ آباد تھا، جس کا نام ’’اغوات‘‘ تھا اور وہاں کے لوگ مسجدِ نبویؐ کے خدّام تھے، اب یہ جگہ مسجد کے خارجی صحن میں شامل ہے۔
قبرستان کے لیے بقیع کا انتخاب: مہاجرین کی مدینہ ہجرت کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے آپؐ نے کسی مناسب جگہ کی تلاش شروع فرمائی۔ اس مقصد کے پیشِ نظر آپؐ بقیع پر تشریف لائے، تو ارشاد فرمایا ’’مجھے اس جگہ (بقیع) کا حکم (قبرستان کے لیے) دیا گیا ہے۔‘‘ (مستدرک امام حاکم، 193/11)۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ؐ کو حکم دیا تھا کہ بقیع کو قبرستان بنایا جائے۔
بقیع میں پہلی تدفین: 2ہجری میں حضرت عثمان بن فطعونؓ کا انتقال ہوا۔ وفات پانے والے وہ پہلے مہاجر تھے۔ صحابہؓ نے بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوکر تدفین کی جگہ سے متعلق دریافت کیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’انہیں بقیع میں دفن کیا جائے۔‘‘ قبر کی کھدائی کے دوران ایک پتھر برآمد ہوا، جسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے سرہانے نصب فرمادیا۔
بعض اہلِ سیرکے مطابق، حضرت اسعد بن زرارہ انصاری ؓوہ پہلے صحابی ہیں، جن کی بقیع میں تدفین ہوئی۔ تاہم، ان دونوں اقوال میں جمع و تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ انصارِمدینہ میں سے حضرت اسعد بن زرارہ ؓکی تدفین پہلے ہوئی ہو، اور مہاجرین میں سے حضرت عثمان بن فطعونؓ پہلے مدفون ہوئے ہوں۔ (وفا الوفا،322)
ستّر ہزار افراد، بغیر حساب جنّت میں: سیرت کی کتب کے مطابق، جنّت البقیع میں دس ہزار سے زائد صحابہ کرام ؓمدفون ہیں، جن میں خاص طور پر سیّدہ عائشہ صدیقہ سمیت دیگر ازواجِ مطہرات (علاوہ حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت میمونہؓ۔ حضرت خدیجہ ؓ مکّہ مکرّمہ اور حضرت میمونہ ؓ مقامِ سَرَف میں مدفون ہیں) آپ ؐ کی صاحب زادیاں، صاحب زادے ابراہیمؓ، نواسے حسنؓ، چچا حضرت عباس ؓ، خلیفۂ سوم حضرت عثمانؓ بن عفان اور دیگر اہلِ خانہ، احباب و اصحاب شامل ہیں۔ ان کے علاوہ تابعین،علماء و صلحاء اور عامتہ المسلمین کی بڑی تعداد مدفون ہے۔مستدرک کی روایت کے مطابق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم قیس بنتِ محصن ؓ سے فرمایا ’’کیا تم بقیعِ غرقد کو دیکھ رہی ہو؟ اس سے ستّر ہزار افراد قیامت والے دن اٹھیں گے۔ جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند چمک رہے ہوں گے اور یہ لوگ جنّت میں بے حساب داخل ہوں گے۔‘‘ (مستدرک،235/12)
جنّت البقیع کی فضیلت: اہل ِبقیع کو نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کی دعا واستغفارکی سعادت نصیب ہوئی۔ اُم المومنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری باری کی رات تشریف لاتے، تو رات کے آخری حصّے میں بقیع تشریف لے جاتے اور فرماتے، ترجمہ:’’سلامتی ہو تم پر مومنین کی جماعت، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ پورا ہوکر رہا۔ اور تمہاری (جزا) کل تک کے لیے مؤخر کردی گئی۔ اور اِن شاء اللہ ہم بھی تم سے آکر ملیں گے۔ اے اللہ ! اہلِ بقیع کی مغفرت فرما۔‘‘(مسلم شریف، 84/2)۔سیّدنا ابی بن کعب ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جو شخص ہمارے اس قبرستان (جنّت البقیع ) میں دفن ہوا، تو مَیں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘ (اخبارِ مدینہ،151)۔
تعمیروتوسیع: سلطنتِ عثمانیہ کے دَور حکم رانی میں جنّت البقیع کی تمام اہم قبروں پر لوح مزار، قبہ، تعویذ اور نشانات موجود تھے۔ آلِ سعود نے اقتدار میں آنے کے بعد ان تمام نشانات کو مسمار کردیا۔ زمانے کے ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ قبروں کی نشان دہی ممکن نہ رہی، سوائے معدودے چند کے، جن کی روایات نسل دَر نسل چلی آرہی ہیں۔ سعودی دَور میں بقیع کی دو دفعہ توسیع ہوئی۔ پہلی شاہ فیصل کے دَور میں اور دوسری شاہ فہد بن عبدالعزیز کے عہد میں۔
چناں چہ اب اس کا کُل رقبہ174962مربع میٹر ہوگیا۔ بقیع کے چاروں جانب چار میٹر بلند دیوار بنادی گئی۔ جس کی لمبائی1724میٹر ہے۔ اس پر سنگِ مرمر لگایا گیا ہے۔ دیواریں قوسوں اور چوکور خانوں کی صورت میں ہیں، جن میں سیاہ جالیاں نصب کی گئی ہیں۔ قبرستان کے اندر سیمنٹ کے ساتھ پختہ راستے بنادیئے گئے ہیں۔ مین گیٹ اور دیگر دروازے مناسب نشیب و فراز سے لگائے گئے ہیں۔ بقیع میں داخل ہونے کا راستہ مغرب میں گنبدِ خضراء کے عین مقابل ہے، تاکہ زائرین آسانی سے زیارت کرسکیں۔ بقیع کے دروازے حضرات کے لیے دن میں دو دفعہ کھلتے ہیں۔
فجر کے بعد سے دن کے آٹھ بجے تک، پھر بعد نمازِ عصر سے مغرب تک، خواتین کو بقیع میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، وہ چاردیواری کے باہر جالیوں سے زیارت کرسکتی ہیں۔ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص مدینۂ منورہ کی زیارت کے لیے آئے، اس کے لیے جنّت البقیع کی زیارت مسنون ہے۔ یہاں آکر مرحومین کو سلام کریں، دعائے مغفرت کریں، جیساکہ آنحضرت ؐ نے ہمیں سکھایا ہے۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے’’مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے کہ مَیں ان (اہلِ بقیع) کے لیے دعا کروں۔ ‘‘ (تاریخ بقیع الغرقد، ہلال محمد شعبان،37)۔ (جاری ہے)